اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستیں منظور کرتے ہوئے 12 جولائی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کا فیصلہ برقرار رکھا ہے، جس کے بعد پی ٹی آئی مخصوص نشستوں سے محروم ہوگئی اور یہ نشتیں حکومتی اتحاد کو منتقل ہوجائیں گی۔ سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی درخواستوں پر سماعت ہوئی، سماعت آئینی بنچ کے11  کے بجائے 10 رکنی بنچ نے کی، جس کی سربراہی جسٹس امین الدین خان نے کی۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد مخصوص نشستوں نظر ثانی کیس کی سماعت مکمل ہوگئی تھی۔ فیصلہ بنچ کے7  ارکان نے اکثریت کی بنیاد پر سنایا جس میں سربراہ جسٹس امین الدین، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس شاہد بلال حسن، جسٹس عامر فاروق، جسٹس ہاشم کاکڑ، جسٹس علی باقر نجفی شامل ہیں۔ آئینی بنچ نے نظرثانی کی درخواستیں منظور کرتے ہوئے12 جولائی کا سپریم کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا اور پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کا فیصلہ برقرار رکھا۔ مختصر فیصلہ جسٹس امین الدین خان نے پڑھ کر سنایا، جس میں کہا گیا کہ تفصیلی وجوہات بعد میں جاری کی جائیں گی۔12 جولائی کے فیصلے کے خلاف جتنی درخواستیں دائر ہوئی تھیں۔ عدالت نے وہ ساری منظور کرلیں، فیصلے کے بعد پی ٹی آئی تمام نشستوں سے محروم ہوگئی، قومی اسمبلی کی 22  نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی55  نشستیں حکومتی اتحاد کو مل جائیں گی۔ جسٹس جمال مندوخل نے39  نشستوں کی حد تک اپنے رائے برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے مشروط نظرثانی درخواستیں منظور کیں۔ جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس محمد علی مظہر نے لکھا کہ نشستوں کی حد تک معاملہ الیکشن کمشن کو بھجواتے ہیں، الیکشن کمشن تمام متعلقہ ریکارڈ دیکھ کر طے کرے کس کی کتنی مخصوص نشستیں بنتی ہیں۔ فیصلے میں بتایا گیا کہ جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ سے علیحدگی اختیار کی، ابتدا میں 13رکنی آئینی بنچ تشکیل دیا گیا تھا، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے ابتدائی سماعت میں ہی ریویو درخواستیں خارج کر دی تھیں۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے الیکشن کمشن کو کاغذات نامزدگی کا دوبارہ جائزہ لینے کا حکم دے دیا۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہرر ضوی نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ واضح رہے کہ 12 جولائی 2024 ء کو سپریم کورٹ نے سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے کیس میں پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمشن کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے تحریک انصاف کو مخصوص نشستوں کا حقدار قرار دیا تھا۔ اس سے قبل14 مارچ 2024 ء کو پشاور ہائیکورٹ کے5  رکنی لارجر بنچ نے متفقہ طور پر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستیں نہ ملنے کے خلاف درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ قبل ازیں عدالت عظمیٰ کے گیارہ رکنی بنچ میں شامل جسٹس صلاح الدین پنہور نے مخصوص نشستیں کیس کے بنچ سے علیحدگی اختیار کر لی۔ سماعت کے آغاز ہی پر جسٹس صلاح الدین پنہور نے بنچ کا حصہ بننے سے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ ان کی شمولیت پر اعتراض کیا گیا ہے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے ریمارکس دئیے کہ آپ سے میرا2010 ء کا تعلق بھی ہے، فیصل صدیقی اور سلمان اکرم راجا جیسے وکلاء نے ججز پر اعتماد کا اظہار کیا، لیکن جس انداز سے اعتراض کیا گیا، اس سے عدالت کے وقار پر سوال اٹھا اس لیے ادارے کی ساکھ کے تحفظ کے لیے بنچ سے الگ ہو رہا ہوں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا علیحدہ ہونا کسی اعتراض کے اعتراف کے طور پر نہ لیا جائے۔ حامد خان نے جسٹس صلاح الدین پنہور کے فیصلے کو قابلِ ستائش قرار دیا، تاہم جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ یہ ستائش کا معاملہ نہیں، یہ سب آپ کے کنڈکٹ کی وجہ سے ہوا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ آپ کا طرزِ عمل اس ردعمل کی بنیاد ہے۔ ہم نے آپ کا لحاظ کرتے ہوئے آپ کو سنا، حالانکہ ایک ہی پارٹی سے2  وکیل دلائل کے حقدار نہیں ہوتے، پھر بھی آپ کو بولنے کا موقع دیا۔ حامد خان نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ اس کیس میں نظرثانی کی بنیاد پر دلائل دینے کا حق رکھتے ہیں، جسٹس جمال نے کہا کہ آپ اس کیس میں دلائل دینے کے حقدار نہیں تھے۔ جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید کہا کہ آپ کے دلائل سے میں ذاتی طور پر رنجیدہ ہوا، لیکن یہاں میری ذات کا معاملہ نہیں، ججز پر جانبداری کا الزام لگایا گیا جس سے تکلیف ہوئی۔ عوام میں یہ تاثر جانا کہ جج جانبدار ہے، درست نہیں۔ اس موقع پر کیس کی سماعت کو10 منٹ کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ بنچ 10 منٹ بعد دوبارہ آ کر سماعت کرے گا۔ اس موقع پر مخدوم علی خان نے دلائل دئیے۔ سماعت کا آغاز ہوا تو جسٹس جمال نے کہا کہ جواب الجواب کی حد تک دلائل محدود رکھیں، جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ کوئی نئی بات نہیں کروں گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ خواہش ہے کہ سپریم کورٹ کا پرانا نظام بحال ہونا چاہیئے، بہت ہو چکا ہے، مخدوم علی خان نے کہا کہ مختصر حکم نامے میں رول 94 کو غیر آئینی نہیں کہا گیا، عدالت نے تفصیلی فیصلے میں ایسا کیا، مختصرحکم نامے سے متصادم تفصیلی فیصلہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ مختصر آرڈر میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں وجوہات بعد میں دیں گے، شارٹ آرڈر تو بالکل ہی مختصر ہوتا ہے، یہ کیسے کہہ سکتے ہیں جو شارٹ آرڈر میں نہیں وہ تفصیلی میں نہ آئے، سب کچھ شارٹ آرڈر میں ہو تو تفصیلی کی ضرورت کیا ہے؟ جسٹس جمال نے ریمارکس دئیے کہ تفصیلی فیصلے میں مختصر حکم نامے سے کہاں انحراف کیا گیا؟ شارٹ آرڈر کے حق میں ہم پچاس سو وجوہات لکھ سکتے ہیں، جو دلائل دیے گئے جواب الجواب میں انہی پر جواب دیا جائے، میں چاہتا ہوں سپریم کورٹ کا وہی وقار، عزت بحال ہو جس کا جو دل چاہتا ہے کہہ جاتا ہے کوئی پکڑ دھکڑ نہیں۔ ایس آئی سی بارے 13 ججز کا متفقہ فیصلہ تو وہ مان ہی رہے ہیں، نظرثانی درخواست میں ریلیف لینے کے لیے عاجز ہونا پڑتا ہے، جو چیز ہنس کر خوشی سے لے سکتے ہیں وہ لڑ کر نہیں لیا جا سکتا۔ کسی کی تضحیک کر کے کچھ بھی نہیں لیا جا سکتا۔ جسٹس جمال نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہیں مخصوص نشستوں کے لیے عام انتخابات میں کم ازکم ایک نشست جیتنا لازم ہے۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دئیے کہ عدالتیں سماعت میں کسی فریق کی پارٹی نہیں بنتی، جو آپ نے پڑھا اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی نے پوری قوم کو ہیجان میں مبتلا کر رکھا ہے۔ اصل غلطی پی ٹی آئی کے وکیلوں کی ہیں جن کی ابھی اور تربیت کی ضرورت تھی۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں نے یہ کہا کہ جنہوں نے غلطی کی پی ٹی آئی تحقیقات کرائے۔ جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ پی ٹی آئی نے کبھی کیس میں فریق بننے کی درخواست نہیں کی۔ جسٹس علی باقر نجفی نے کہا کہ درخواست جو دائر ہوئی اس میں فریق بنانے کا لکھا ہوا ہے، کیا انتحابات سے متعلق مقدمات میں طریقہ کار ضروری ہوتا ہے۔ مکمل انصاف کا اختیار اس کیس میں کیسے استعمال نہیں ہو سکتا، جس پر وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ طریقہ کار کسی بھی کام میں بہت ضروری ہوتا ہے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دئیے کہ پشتون کی ایک کہاوت ہے، جس میں ایک شخص نے کسی کو بیل کچھ روز کے لیے دیا، جب وہ شخص بیل واپس لینے گیا تو جس نے بیل لیا تھا اس نے بیل کو بھی اور مالک کو بھی گالیاں دیں، اس وقت مالک بولا یہ میری غلطی ہے نہ بیل دیتا نہ آج گالیاں سنتا، یہ پی ٹی آئی والا معاملہ بھی ایسا ہی ہے، ہم نے وہ دے دیا جو مانگا ہی نہیں گیا تھا۔ پھر بھی ہمیں گالیاں پڑ رہی ہیں۔ وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت نے جذبات میں نہیں قانون کے مطابق فیصلہ کرنا ہے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں نے سٹاف کے ساتھ بیٹھ کر کاغذات نامزدگی دیکھے، کچھ لوگ غلط بیانی سے قوم کو گمراہ کرتے ہیں، ہم نے قوم کو گمراہ نہیں حقیقت بتانی ہے۔ ذاتی علم پر بطور گواہ آ سکتا ہوں جج نہیں، پی ٹی آئی نے آزاد امیدواروں کو خود دھکا دیا کہ اس جماعت میں جائیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جو چیزیں زیر بحث نہیں آئیں اس پر فیصلہ کیسے دیا گیا؟ اکثریتی فیصلے میں درخواست سے ہٹ کر فیصلہ دیا گیا، فیصلے کے مکمل انصاف کے پیرا گراف پر نظرثانی ہونی چاہیئے۔ جسٹس نعیم افغان اختر نے کہا کہ رول 94  پر میں نے فیصل صدیقی سے پوچھا بھی تھا، فیصل صدیقی نے کہا تھا ہم رول94  کو چیلنج نہیں کررہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا کسی سیاسی جماعت کا آئینی حق صرف ایک رول سے چھینا جا سکتا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ سیاسی جماعت کا وجود تو رہے گا مگر انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر اس کے امیدوار آزاد ہوں گے۔ جسٹس جمال نے کہا کہ یہ آپ کی تشریح ہے آئین یا قانون میں ایسا نہیں، انٹرا پارٹی الیکشن نہ ہونے پر صرف انتخابی نشان ہی ختم ہوتا ہے، جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ میری گزارش ہے کہ وہ پارٹی ٹکٹ بھی جاری نہیں کر سکتی۔ یاد رہے کہ6  مئی2025 ء سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے مخصوص نشستوں کے فیصلے پر نظر ثانی درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹسز جاری کردئیے۔ تاہم، بنچ کے ارکان جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس عقیل عباسی نے اختلاف کرتے ہوئے نظر ثانی درخواستوں کو ناقابل سماعت قرار دیا تھا۔
اسلام آباد (وقار عباسی/وقائع نگار + نمائندہ خصوصی) قومی و صوبائی اسمبلیوں کی 80 مخصوص نشستوں کا معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد پھر الیکشن کمشن آف پاکستان پہنچ گیا ہے، عدالتی فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران اتحاد کو ایک مرتبہ پھر دو تہائی اکثریت حاصل ہوگئی ہے۔ سپریم کورٹ نے14 مارچ کے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے ساتھ ساتھ یکم مارچ کے الیکشن کمشن آف پاکستان کے سنی اتحاد کونسل کو خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں سے محروم کرنے کے فیصلے کو معطل کر تے ہوئے معاملہ لارجر بنچ کو ارسال کردیا تھا۔ الیکشن کمشن نے تمام خالی مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو الاٹ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی، ایم کیو ایم پاکستان اور جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن (جے یو آئی ف) کو دینے کی درخواست منظور کی تھی۔ چیف الیکشن کمشنر، ممبر سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان نے اکثریتی فیصلے کی حمایت کی جب کہ ممبر پنجاب بابر بھروانہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔ بعد ازاں4  مارچ کو پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے مخصوص نشستیں الاٹ نہ کرنے کے الیکشن کمشن آف پاکستان کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا تھا۔ دوسری جانب 336 کے ایوان میں دو تہائی اکثریت کے لیے 224 ارکان کی ضرورت ہے، حکمران اتحاد کو 237 ارکان کی حمایت حاصل ہو گئی ہے۔ مخصوص نشستوں سے متعلق سپریم کورٹ کے آئینی بنچ کے فیصلے سے قبل پارٹی پوزیشن میں حکمراں اتحاد میں شامل جماعتوں کے ارکان کی مجموعی تعداد 218 تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے 110، پاکستان پیپلز پارٹی کے 70، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے 22 اور مسلم لیگ (ق) کے 5 ارکان ہیں۔ پارٹی پوزیشن کے مطابق قومی اسمبلی میں اپوزیشن میں شامل جماعتوں کے مجموعی ارکان کی تعداد 100 بتائی گئی ہے جس میں سنی اتحاد کونسل کے 80، پاکستان تحریکِ انصاف کی حمایت سے کامیاب ہونے والے 8 آزاد ارکان اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 8 ارکان شامل ہیں۔ قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کو 15، پاکستان پیپلز پارٹی کو 4، جے یو ائی (ف) کو 3 اضافی نشستیں ملی ہیں۔ اس فیصلے کے بعد قومی اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کے ارکان کی تعداد 125، پیپلزپارٹی کے 74 ارکان ہوں گے جب کہ جے یو آئی کو بھی فیصلے سے فائدہ پہنچا ہے، اور ان کے ارکان کی تعداد 11 ہو گئی ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: جسٹس صلاح الدین پنہور نے مخدوم علی خان نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان نے جسٹس جمال مندوخیل نے جسٹس جمال نے کہا کہ جسٹس محمد علی مظہر جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دئیے کہ نظرثانی درخواست قومی اسمبلی میں مخصوص نشستوں سے سنی اتحاد کونسل پشاور ہائیکورٹ سپریم کورٹ کے مخصوص نشستیں فیصلے کے بعد اٹارنی جنرل الیکشن کمشن کرتے ہوئے پی ٹی ا ئی فیصلے میں پی ٹی آئی کہا کہ آپ فیصلے سے کا فیصلہ اور جسٹس کے فیصلے کے ارکان ارکان کی مسلم لیگ کورٹ کا دیا گیا کیس میں دیا تھا ہوتا ہے بنچ کے کے لیے دے دیا

پڑھیں:

9 مئی جلاؤ گھیراؤ کیس کا تحریری فیصلہ جاری،صنم جاوید اورعالیہ حمزہ کو گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا حکم

لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 9 مئی جلاؤ گھیراؤ سے متعلق کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا، جس میں صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری کیے گئے ہیں۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت لاہور کی عدالت نے نو مئی جلاؤ گھیراؤ کے دو مقدمات کا 93 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا جسے اے ٹی سی کے جج منظر علی گل نے تحریر کیا ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عالیہ حمزہ اور صنم جاوید سوشل میڈیا پر انتشار انگیز پوسٹ کرتی رہیں، دونوں ملزمان کے موبائل فونز سے چیزیں ریکور بھی ہوئیں ہیں، صنم جاوید سوشل میڈیا پر کافی اثر رکھتی ہیں جبکہ عالیہ حمزہ بھی سینئر پی ٹی آئی کی لیڈر ہیں، دونوں کے پوسٹں اور ویڈیو کلپ یو ایس پی سے پولیس اہلکاروں نے ریکور کیے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ دونوں خواتین ملزمان کو ضمنی بیانات کی روشنی میں نامزد کیا گیا، ہم اس کو جعلی ریکوری نہیں کہہ سکتے، عالیہ حمزہ اور صنم جاوید کو پانچ سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سناتی ہے۔

فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پی ٹی آئی لیڈرز نے مؤقف اختیار کیا کہ نو مئی کو ہم نے قانون کو ہاتھ میں لیا نہ جلاؤ گھیراؤ کیا بلکہ قانون کے مطابق احتجاج کیا۔ 

عدالت نے لکھا کہ نو مئی کو پورے ملک کے سرکاری تنصیبات پر حملے کیے گیے، تھانہ شادمان جلاؤ گھیراؤ کے مقدمے میں پراستغاثہ نے اپنا کیس ثابت کیا ہے جبکہ پراسیکیوشن میاں محمود الرشید پر قتل کا الزام ثابت نہیں کر سکی۔

عدالتی فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ گواہوں کے مطابق میاں محمود الرشید 9 مئی کے روز موقع پر موجود تھے اور 11 لوگوں نے یہ گواہی دی کہ انہوں نے نے اپنے پستول سے سیدھی فائرنگ کی۔

تحریری فیصلے کے مطابق جرح کے دوران ملزم کا پستول ریکور کیا گیا۔

عدالت نے صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے فیصلے میں لکھا کہ ملزمان ضمانت پر تھے پہلے پیش ہوتے رہے مگر فیصلہ سننے کے لیے پیش نہیں ہوئے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کے حتمی بیانات انکے وکیل نے دیے۔ 

عدالت نے ایس ایچ او شادمان ٹاؤن کو تحریری فیصلے میں حکم دیا کہ وہ صنم جاوید اور عالیہ حمزہ کو گرفتار کرکے جیل بھیجیں۔

متعلقہ مضامین

  • میرے پاس 27ویں آئینی ترمیم کی کوئی تجویز نہیں، اعظم نذیر تارڑ
  • 9 مئی جلاؤ گھیراؤ کیس کا تحریری فیصلہ جاری،صنم جاوید اورعالیہ حمزہ کو گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا حکم
  • عمران خان کی ضمانت درخواستیں خارج کرنے کے فیصلے پر چیف جسٹس کے سوالات
  •  پاکستان اور ویسٹ انڈیز کے درمیان سیریز کا فیصلہ کن مقابلہ آج ٹرینیڈاڈ میں ہوگا
  • نو مئی مقدمات میں ضمانت نہ دیئے جانے کیخلاف عمران خان کی اپیل پر نوٹس جاری
  • عمران خان کی ضمانت درخواستیں خارج کرنے کے فیصلے پر چیف جسٹس آف پاکستان کے سوالات
  • شفاف ٹرائل آئینی حق، پولیس مقابلوں پر ازخود نوٹس لیں، چیف جسٹس کو خط
  • عدالتی فیصلہ مسترد کرتے ہیں، 9 مئی کیسز کے فیصلے پر پی ٹی آئی رہنماؤں کا ردعمل
  • آسٹریلیا کا بڑا فیصلہ: اگلے ماہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان
  • باجوہ کو ایکسٹینشن دینا سب سے بڑی غلطی تھی، اسد قیصر نے قوم سے معافی مانگ لی