Jang News:
2025-11-12@05:48:00 GMT

مفتاح اسماعیل کی معلومات ادھوری ہیں، سیدہ تحسین عابدی

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

مفتاح اسماعیل کی معلومات ادھوری ہیں، سیدہ تحسین عابدی

سندھ حکومت کی ترجمان سیدہ تحسین عابدی نے کہا ہے کہ مفتاح اسماعیل کی معلومات ادھوری ہیں، سندھ کا حالیہ تعلیمی بجٹ 519 ارب کا ہے۔

ایک بیان میں سیدہ تحسین عابدی نے کہا کہ مفتاح صاحب، تعلیم کا برا حال تب تھا جب فیصلے اشتہاروں سے ہوتے تھے، سندھ میں 1600 اسکولوں کی مرمت، 200 سے زائد ماڈل اسکول بنائے گئے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کا 2025ء میں 519 ارب کا تعلیمی بجٹ ہے، صوبائی حکومت نے تعلیم، صحت، پانی، انفرااسٹرکچر پر 2 ہزار ارب سے زائد خرچ کیے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ مفتاح اسماعیل پہلے خود بتائیں، انہوں نے بطور وزیر کیا بہتری کی؟ سندھ حکومت نے قانون سازی، بلدیاتی نظام، اور رائٹ ٹو انفارمیشن جیسے اقدامات کیے۔

اُن کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت نے تھرپارکر میں پینے کے پانی کا انقلابی حل دیا، ہم نے خشک زمینوں کو پانی دیا، لوگوں کو بااختیار بنایا۔

سیدہ تحسین عابدی نے یہ بھی کہا کہ کراچی کی سڑکوں پر سوال اٹھانے سے پہلے کراچی کا دورہ کرلیں، ملیر ایکسپریس وے، نشتر روڈ، شاہراہ نورجہاں جیسے پروجیکٹ باتوں سے نہیں بنتے، جو عینک صرف تنقید کی دھند دیکھتی ہے، اسے کام کی روشنی نظر نہیں آتی۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: کہا کہ

پڑھیں:

دو مئیر؛ دو کہانیاں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251112-03-8

 

میر بابر مشتاق

دنیا کے ہر بڑے شہر کی پہچان وہاں کا مئیر ہوتا ہے۔ مئیر دراصل اس شہر کی انتظامی روح، شہری خوابوں کا نگہبان اور عوامی خدمت کا علامتی چہرہ سمجھا جاتا ہے۔ نیویارک، لندن، پیرس، استنبول یا ٹوکیو — ہر شہر کی ترقی کا مرکز اس کا بااختیار بلدیاتی نظام اور عوام کے منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ لیکن جب بات کراچی کی ہو تو یہاں مئیر کا ذکر ہوتے ہی عوام کے چہروں پر طنز بھری مسکراہٹ آجاتی ہے۔ کیونکہ یہاں مئیر کے پاس خواب تو ہوتے ہیں مگر اختیارات نہیں، وعدے تو ہوتے ہیں مگر وسائل نہیں۔ یہ ہے وہ بنیادی فرق جو نیویارک اور کراچی جیسے دو بڑے شہروں کے درمیان حائل ہے۔ نیویارک کی آبادی تقریباً 85 لاکھ ہے، مگر وہاں کا مئیر اتنا بااختیار ہے کہ شہر کے ہر بڑے فیصلے میں اس کی رائے حتمی ہوتی ہے۔ ٹرانسپورٹ سے لے کر رہائش، تعلیم سے لے کر امن و امان تک، ہر دائرے میں میونسپل حکومت کو فیصلہ سازی کا حق حاصل ہے۔ اسی لیے وہاں کے لوگ اپنے مئیر کو ایک leadership icon سمجھتے ہیں۔

مگر کراچی… ساڑھے تین کروڑ کی آبادی رکھنے والا پاکستان کا معاشی دل، وہ شہر جو پورے ملک کو چلاتا ہے، مگر خود اپاہج انتظامی ڈھانچے میں سسک رہا ہے۔ یہاں کا مئیر بااختیار نہیں، کاغذی نمائندہ ہے۔ سندھ کی وڈیرہ حکومت کے سامنے ایک سیاسی تماشا۔ عوام کے لیے مئیر ایک نزاکت ہے، اور حکمرانوں کے لیے ایک کھلونا۔ سندھ کی سیاست دراصل طاقت کے اس کھیل کا نام ہے جہاں اختیارات کی مرکزیت کو ہی اقتدار کا ضامن سمجھا جاتا ہے۔ اندرون سندھ کے وڈیرے، جو صدیوں پرانی جاگیردارانہ سوچ کے امین ہیں، آج بھی عوام کو ’’پانچ ہزار سالہ تاریخ‘‘ کا چورن بیچ کر حال کے دکھ بھلا دیتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو جمہوریت کے نام پر فرعونیت کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔ وہ خود اقتدار میں آ کر عوام پر خدائی دعویٰ کرتے ہیں، اور جب کوئی شہری نمائندہ ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے تو اس کا انجام سیاسی تنہائی، مالی مشکلات اور قانونی جکڑ بندیوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔

کراچی کے لوگ جب ووٹ دیتے ہیں تو ان کے سامنے خواب ہوتا ہے؛ ایک صاف ستھرا، منظم، اور ترقی یافتہ شہر۔ مگر انتخاب کے بعد وہی خواب تلخ حقیقت بن جاتا ہے۔ کیونکہ سندھ حکومت بلدیاتی اداروں کو اختیار دینے سے ہمیشہ گریزاں رہی ہے۔ آئینی طور پر بلدیاتی ادارے تیسری سطح کی حکومت سمجھے جاتے ہیں، مگر سندھ میں انہیں چوتھی، پانچویں یا شاید غیر موجود سطح پر دھکیل دیا گیا ہے۔ یہ وہ صوبہ ہے جہاں مئیر شہر کی صفائی کے لیے بھی حکومت ِ سندھ سے اجازت مانگتا ہے، سڑک پر لائٹ لگانے کے لیے نوٹیفکیشن درکار ہوتا ہے، اور پانی کی لائن بچھانے کے لیے کئی محکموں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سندھ کے حکمرانوں کے نزدیک بلدیاتی ادارے کوئی جمہوری ضرورت نہیں بلکہ سیاسی خطرہ ہیں۔ کیونکہ اگر کراچی کا مئیر بااختیار ہوگیا تو عوام کا اعتماد کسی اور طرف منتقل ہو جائے گا، اور وڈیروں کی قائم کردہ طاقت کی بنیادیں ہل جائیں گی۔

نیویارک کا مئیر زہران ممدانی اس وقت دنیا بھر میں گفتگو کا موضوع بنا ہوا ہے۔ ایک مسلمان، افریقی نژاد، محنت کش گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان، جس نے نیویارک جیسے شہر کی میئر شپ جیت کر تاریخ رقم کی۔ اس نے شہریوں سے کہا کہ ’’مایوس نہ ہو، ہم خواب دیکھیں گے اور انہیں سچ کریں گے‘‘۔ دوسری طرف کراچی ہے، جہاں مئیر حافظ نعیم الرحمن کو عوام کا بے پناہ اعتماد حاصل ہے، مگر سندھ حکومت کے سامنے وہ مسلسل دیوار سے سر ٹکرا رہے ہیں۔ عجیب تضاد ہے! نیویارک کا مئیر اپنے شہریوں کو خواب دیتا ہے، کراچی کا مئیر اختیارات مانگتا ہے۔

دنیا کے مہذب معاشروں میں بلدیاتی نظام کو جمہوریت کی بنیاد کہا جاتا ہے۔ مگر سندھ میں یہ بنیاد ہی کھوکھلی کر دی گئی ہے۔ یہاں اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی کا مطلب ہے۔ ’’وڈیرہ سیاست کے زوال کا آغاز‘‘۔ اس لیے ہر حکومت، چاہے وہ پیپلز پارٹی ہو یا کوئی اور، بلدیاتی اداروں کو صرف نمائشی حیثیت میں رکھتی ہے۔ کراچی کے مئیر کو اگر صفائی کا اختیار دے دیا جائے تو شاید شہر کا کچرا صاف ہو جائے، مگر تب سندھ حکومت کے کئی محکموں کی ’’آمدنی‘‘ رک جائے گی۔ اگر پانی، سیوریج اور ٹرانسپورٹ کے ادارے شہر کے منتخب نمائندوں کو دے دیے جائیں تو اربوں روپے کے ٹھیکوں پر کنٹرول ختم ہو جائے گا۔ اور یہ بات وڈیرہ ذہنیت کو کسی طور قبول نہیں۔ کراچی کے عوام کی بدقسمتی یہ بھی ہے کہ وہ ایک ایسے سیاسی نظام میں پھنسے ہوئے ہیں جس میں صوبائی حکومت کو تو مکمل اختیار ہے، مگر وفاق یا شہر کے نمائندے بے اختیار ہیں۔ کراچی کی سڑکیں ٹوٹی ہیں، نالے اُبل رہے ہیں، بجلی اور پانی کا بحران مستقل ہے، مگر سندھ حکومت کو صرف ایک چیز کی فکر ہے۔ ’’اختیار کسی اور کو نہ ملے‘‘۔ یہی وہ نظام ہے جس نے کراچی کو مافیا کے حوالے کیا۔ کبھی ڈمپر مافیا، کبھی ٹرانسپورٹ مافیا، کبھی واٹر ٹینکر مافیا؛ سب طاقتور، مگر مئیر بے بس۔ عوام سوال کرتے ہیں کہ آخر ہمارا ووٹ کس کام کا، جب ہمارا منتخب نمائندہ کچھ کر ہی نہیں سکتا؟ یہ طنز نہیں حقیقت ہے کہ نیویارک کا مئیر 85 لاکھ شہریوں کے لیے پالیسی میکر ہے، جبکہ کراچی کا مئیر ساڑھے تین کروڑ لوگوں کے لیے بس سوشل میڈیا کا کردار بن گیا ہے۔ ایک طرف دنیا کی جدید جمہوریت ہے جہاں مئیر کی آواز ایوانوں تک پہنچتی ہے، دوسری طرف سندھ کی جاگیردارانہ جمہوریت ہے جہاں مئیر کی فائلیں محکموں کی درازوں میں سڑ جاتی ہیں۔

کراچی پاکستان کا معاشی مرکز ہے، قومی آمدنی کا 60 فی صد اور ریونیو کا 70 فی صد یہی شہر دیتا ہے۔ لیکن جب بھی ترقیاتی بجٹ بنتا ہے، کراچی کو محض دکھاوے کے منصوبے دیے جاتے ہیں۔ سڑکیں، سیوریج، کچرا، پانی، ٹرانسپورٹ۔ سب مسائل ایک ہی بنیادی نکتے پر جا کر ٹھیرتے ہیں: اختیار کا فقدان۔ اگر نیویارک کے مئیر کے پاس اتھارٹی ہے تو وہ جواب دہ بھی ہے۔ کراچی کے مئیر کے پاس اختیار نہیں، اس لیے جواب دہی بھی بے معنی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ مئیر کون ہے، سوال یہ ہے کہ مئیر کو اختیار کب ملے گا؟ یہ سوال کراچی کے ہر شہری کے ذہن میں ہے، مگر سندھ حکومت کے کانوں میں پڑے روئی کے گالے اس آواز کو دبا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی کا نوجوان ہجرت پر سوچتا ہے، سرمایہ دار بیرون ملک منتقل ہوتا ہے، اور عام آدمی اپنے ہی شہر میں اجنبی محسوس کرتا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ اس فرسودہ نظام کو بدلا جائے۔ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ صرف نمائندگی نہیں، خدمت کا حق بھی ہے۔ اگر ملک کے معاشی دل کو ہی بے اختیار رکھا گیا تو پاکستان کے جسم میں جان کیسے رہے گی؟ سندھ حکومت کو سمجھنا ہوگا کہ اختیار بانٹنے سے اقتدار کم نہیں ہوتا بلکہ مضبوط ہوتا ہے۔ مگر شاید وہ دن ابھی دور ہے۔ جب کراچی کا مئیر واقعی ’’شہر کا سربراہ‘‘ ہوگا، نہ کہ ’’وڈیروں کی مرضی کا مہرہ‘‘۔ نیویارک کا مئیر خواب دکھا رہا ہے، امید جگا رہا ہے۔ کراچی کا مئیر حقیقت بتا رہا ہے، اختیار مانگ رہا ہے۔ فرق صرف نظام کا نہیں، نیت کا ہے۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • سندھ بلڈنگ، ماڈل کالونی میں غیرقانونی تعمیرات سے بنیادی ڈھانچہ تباہ
  • دو مئیر؛ دو کہانیاں
  • بنگلہ دیش: انتخابات سے قبل غلط معلومات سے نمٹنے کے لیے خصوصی سیل قائم
  • حکومت پاکستان کا اماراتی بزنس مین سہیل الزرونی کو خراج تحسین پیش
  • عوام کو صاف اور وافر پانی کی فراہمی اولین ترجیح ہے‘وزیراعلیٰ
  • وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کاڈاکٹر عارفہ سیدہ زہرہ کے انتقال پراظہار افسوس
  • برطانیہ میں خشک سالی کا خطرہ، حکومت نے ہنگامی منصوبے تیار کیے
  • یونیورسٹی روڈ کومقامی حکومت کے محکمہ کی نگرانی میں نئی پینے کے پانی کی لائنوں کے نظام کی تعمیراتی کام جاری ہے واضح رہے کہ یونیورسٹی روڈ ٹریفک کے لیے 50دن کے لیے بند کردیاگیاہے
  • خواب اقبال کی مکمل تکمیل ابھی تک ادھوری ہے‘ رہنماجماعت اہلسنت
  • کراچی: رینجرز کی خفیہ معلومات پر کارروائی، 5 ملزمان گرفتار