Jasarat News:
2025-06-29@00:34:35 GMT

سوات میں المناک حادثہ، قومی المیہ

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کی سرزمین فطری حسن سے مالا مال ہے۔ شمالی علاقہ جات کی برف پوش چوٹیاں، ہرے بھرے میدان، بہتے چشمے اور نیلگوں جھیلیں دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہی سیاحت آئے روز موت کا پیغام اور المیہ بن جاتی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ضلع سوات میں حالیہ دنوں پیش آنے والا حادثہ، جس میں دریا میں طغیانی کے باعث درجنوں افراد پانی میں بہہ گئے، ہماری ریاستی بے حسی کا ایک اور اندوہناک باب ہے۔ خواتین، بچے، نوجوان، سبھی محض تفریح کے لیے نکلے تھے، لیکن واپسی لاشوں کی صورت میں ہوئی۔ ریسکیو اداروں کی رپورٹ کے مطابق، سوات میں دریائی طغیانی کے اس واقعے میں 75 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 10 کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور 55 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔ حادثہ سات مختلف مقامات پر پیش آیا اور جس انداز سے لوگ پانی میں بہے، اس نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ دل دہلا دینے والی ویڈیوز اور عینی شاہدین کے بیانات اس سانحے کو صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ انتظامی غفلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ یہ حادثہ کوئی پہلا نہیں۔ اگر صرف گزشتہ پانچ سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو شمالی علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں کے دوران جان لیوا واقعات کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، الخدمت، اور دیگر تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق: 2020 میں خیبر پختون خوا کے مختلف مقامات پر 54 افراد سیاحتی مقامات پر حادثات میں جان سے گئے۔ 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 63 ہو گئی، جن میں 19 واقعات صرف دریاؤں اور جھیلوں میں ڈوبنے سے پیش آئے، 2022 میں مری میں برفانی طوفان کے دوران 23 افراد اپنی گاڑیوں میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ 2023 میں سندھ کی کھنجر جھیل میں کشتی الٹنے کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ 2024 میں سوات، کالام، اور ناران کے مختلف علاقوں میں کم از کم 70 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں، جن میں سے بڑی تعداد سیلابی ریلوں اور کشتیوں کے حادثات کی تھی۔ گویا پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان میں سیاحتی مقامات پر کم از کم 230 سے زائد قیمتی جانیں حادثات کی نذر ہو چکی ہیں، اور یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے؛ زمینی حقائق اس سے بھی زیادہ تلخ ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم ترقی یافتہ ممالک، بالخصوص یورپ کی مثال لیں، تو وہاں قدرتی سیاحتی مقامات پر انتہائی منظم اور تربیت یافتہ نظام موجود ہے۔ سوئٹزرلینڈ، ناروے، جرمنی یا آسٹریا جیسے ممالک میں تمام خطرناک علاقوں کو پیشگی وارننگ سسٹم سے لیس کیا جاتا ہے۔ سیکورٹی اور ریسکیو اسٹیشن ہر بڑے مقام پر موجود ہوتے ہیں۔ واٹر اسپورٹس یا کشتی رانی جیسی سرگرمیوں میں لائف جیکٹس کا استعمال لازمی ہوتا ہے، بغیر اس کے کوئی کشتی حرکت نہیں کرتی۔ مقامی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مؤثر رابطہ موجود ہوتا ہے اور خطرے کی صورت میں فوری ایویکوایشن کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے: ایک بھی انسانی جان غیر محفوظ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس پاکستان میں حالت یہ ہے کہ نہ سیاحتی مقامات پر ریسکیو ٹیمیں مستقل تعینات ہوتی ہیں، نہ کشتی رانی کے دوران لائف جیکٹس لازمی سمجھی جاتی ہیں، نہ ہی کوئی وارننگ سسٹم موجود ہے۔ مقامی انتظامیہ کے بجائے صرف چند این جی اوز اپنی بساط کے مطابق حفاظتی اقدامات میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر سیاحتی مقامات کے لیے ایک مربوط پالیسی ترتیب دے جس میں خطرناک علاقوں کی نشاندہی اور پابندی، بروقت انتباہی نظام (Early Warning System)، مستقل ریسکیو اسٹیشنز کا قیام، کشتیوں اور دریا کے کنارے حفاظتی عملہ، ٹور گائیڈز کی تربیت اور رجسٹریشن، مقامی حکومت اور عوام کو ریلیف اور ریسکیو کی تربیت شامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور تعلیمی اداروں کو بھی عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن عزیز میں حکومت سیاحت کو معیشت کے فروغ کا ذریعہ تو سمجھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ منسلک بنیادی انسانی تحفظ کی ذمے داری سے غافل نظر آتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر ذمے دارانہ بلکہ ظلم کے مترادف ہے۔ ہر حادثے کے بعد تعزیت، دورہ اور معطلیوں کی رسم ادا کی جاتی ہے، اور پھر سب کچھ حسب ِ سابق چلتا رہتا ہے۔ کسی واقعے کے بعد سسٹم میں کوئی دیرپا اصلاحات دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوات جیسے سانحے تسلسل کے ساتھ پیش آتے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سیاحتی مقامات پر

پڑھیں:

دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد ڈوب گئے، 3 افراد ریسکیو، 5 کی لاشیں مل گئیں

سوات(نیوز ڈیسک) دریائے سوات میں تیزبہاؤ کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے 18 افراد پانی میں بہہ گئے۔

ریسکیو کے مطابق متاثرہ خاندان سیالکوٹ سے سوات سیر کے لیے آیا تھا جو دریا کے کنارے بیٹھا ناشتہ کررہا تھا تاہم اسی دوران بارش کی وجہ سے دریا میں تیز بہاؤ ہوا اور ایک ہی خاندان کے 18 افراد بہہ گئے۔

ریسکیو حکام نے بتایا کہ 8 بجے کے قریب ان لوگوں کے ڈوبنے کی اطلاع ملی، بائی پاس پر مہمان آئے ہوئے تھے جو دریا کے کنارے بیٹھے تھے، ان لوگوں کو پانی کے ریلے کا علم نہیں تھا۔

ریسکیو حکام کے مطابق واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا اور 3 افراد کو بچالیا گیا جب کہ 5 کی لاشیں مل گئی، اس کے علاوہ دیگر افراد کی تلاش جاری ہے۔

ڈپٹی کمشنر سوات نےنجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دریا میں نہانے اور اس کے قریب جانے پر دفعہ 144 نافذ کررکھی ہے لیکن اس کے باوجود سیاح وہاں جاتے ہیں۔

نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ایک سیاح نے کہا کہ ان کے خاندان کے 10 افراد دریا میں بہہ گئے جن میں سے ایک خاتون کی لاش مل گئی ہے اور 9 بچوں کی تلاش جاری ہے۔

سیاح نے بتایا کہ ہم ناشتہ کرکے چائے پی رہے تھے اور بچے دریا کے پاس سیلفی لینے گئے، اس وقت دریا میں اتنا پانی نہیں تھا، اچانک سے پانی آیا تو بچے پھنس گئے، ریسکیو کو آگاہ کیا تو وہ ڈیڑھ سے 2 گھنٹے بعد آئے، یہ سب ان کے سامنے ہوا، ریسکیو کی موجودگی میں بچے دریا میں ڈوبے اور وہ بچا نہیں سکے۔

نوجوان افسران دیانتداری، پیشہ ورانہ مہارت اور وطن سے خلوص کے اعلیٰ ترین معیارات کو اپنائیں: فیلڈ مارشل

متعلقہ مضامین

  • ریسکیو نے ہماری کوئی مدد نہیں کی: سوات سانحہ میں زندہ بچنےوالےشہری کی گواہی
  • سانحہ سوات کا ذمہ دار کون؟ سیاح مدد کو پکارتے رہے بچایا کیوں نہیں جا سکا؟
  • سیاحتی مقامات پر عدم تحفظ ٹورازم کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے: لیاقت بلوچ
  • وزیرِاعلیٰ خیبرپختونخوا کی ایئرایمبولینس ریسکیو کیلئے نہیں پہنچ سکی: عظمیٰ بخاری
  • دریائے سوات حادثہ: وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری خیبرپختونخوا حکومت پر شدید برہم
  • سیاحتی مقامات پر عدم تحفظ ٹورازم کیلئے مشکلات پیدا کر رہا ہے، لیاقت بلوچ
  • دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد ڈوب گئے، 3 افراد ریسکیو، 7 کی لاشیں مل گئیں
  • سوات حادثہ، سیاح پانی میں کیسے ڈوبے، عینی شاہد نے پوری صورتحال بیان کردی
  • دریائے سوات میں ایک ہی خاندان کے 18 افراد ڈوب گئے، 3 افراد ریسکیو، 5 کی لاشیں مل گئیں