سوات میں المناک حادثہ، قومی المیہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان کی سرزمین فطری حسن سے مالا مال ہے۔ شمالی علاقہ جات کی برف پوش چوٹیاں، ہرے بھرے میدان، بہتے چشمے اور نیلگوں جھیلیں دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہی سیاحت آئے روز موت کا پیغام اور المیہ بن جاتی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ضلع سوات میں حالیہ دنوں پیش آنے والا حادثہ، جس میں دریا میں طغیانی کے باعث درجنوں افراد پانی میں بہہ گئے، ہماری ریاستی بے حسی کا ایک اور اندوہناک باب ہے۔ خواتین، بچے، نوجوان، سبھی محض تفریح کے لیے نکلے تھے، لیکن واپسی لاشوں کی صورت میں ہوئی۔ ریسکیو اداروں کی رپورٹ کے مطابق، سوات میں دریائی طغیانی کے اس واقعے میں 75 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 10 کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور 55 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔ حادثہ سات مختلف مقامات پر پیش آیا اور جس انداز سے لوگ پانی میں بہے، اس نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ دل دہلا دینے والی ویڈیوز اور عینی شاہدین کے بیانات اس سانحے کو صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ انتظامی غفلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ یہ حادثہ کوئی پہلا نہیں۔ اگر صرف گزشتہ پانچ سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو شمالی علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں کے دوران جان لیوا واقعات کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، الخدمت، اور دیگر تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق: 2020 میں خیبر پختون خوا کے مختلف مقامات پر 54 افراد سیاحتی مقامات پر حادثات میں جان سے گئے۔ 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 63 ہو گئی، جن میں 19 واقعات صرف دریاؤں اور جھیلوں میں ڈوبنے سے پیش آئے، 2022 میں مری میں برفانی طوفان کے دوران 23 افراد اپنی گاڑیوں میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ 2023 میں سندھ کی کھنجر جھیل میں کشتی الٹنے کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ 2024 میں سوات، کالام، اور ناران کے مختلف علاقوں میں کم از کم 70 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں، جن میں سے بڑی تعداد سیلابی ریلوں اور کشتیوں کے حادثات کی تھی۔ گویا پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان میں سیاحتی مقامات پر کم از کم 230 سے زائد قیمتی جانیں حادثات کی نذر ہو چکی ہیں، اور یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے؛ زمینی حقائق اس سے بھی زیادہ تلخ ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم ترقی یافتہ ممالک، بالخصوص یورپ کی مثال لیں، تو وہاں قدرتی سیاحتی مقامات پر انتہائی منظم اور تربیت یافتہ نظام موجود ہے۔ سوئٹزرلینڈ، ناروے، جرمنی یا آسٹریا جیسے ممالک میں تمام خطرناک علاقوں کو پیشگی وارننگ سسٹم سے لیس کیا جاتا ہے۔ سیکورٹی اور ریسکیو اسٹیشن ہر بڑے مقام پر موجود ہوتے ہیں۔ واٹر اسپورٹس یا کشتی رانی جیسی سرگرمیوں میں لائف جیکٹس کا استعمال لازمی ہوتا ہے، بغیر اس کے کوئی کشتی حرکت نہیں کرتی۔ مقامی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مؤثر رابطہ موجود ہوتا ہے اور خطرے کی صورت میں فوری ایویکوایشن کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے: ایک بھی انسانی جان غیر محفوظ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس پاکستان میں حالت یہ ہے کہ نہ سیاحتی مقامات پر ریسکیو ٹیمیں مستقل تعینات ہوتی ہیں، نہ کشتی رانی کے دوران لائف جیکٹس لازمی سمجھی جاتی ہیں، نہ ہی کوئی وارننگ سسٹم موجود ہے۔ مقامی انتظامیہ کے بجائے صرف چند این جی اوز اپنی بساط کے مطابق حفاظتی اقدامات میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر سیاحتی مقامات کے لیے ایک مربوط پالیسی ترتیب دے جس میں خطرناک علاقوں کی نشاندہی اور پابندی، بروقت انتباہی نظام (Early Warning System)، مستقل ریسکیو اسٹیشنز کا قیام، کشتیوں اور دریا کے کنارے حفاظتی عملہ، ٹور گائیڈز کی تربیت اور رجسٹریشن، مقامی حکومت اور عوام کو ریلیف اور ریسکیو کی تربیت شامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور تعلیمی اداروں کو بھی عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن عزیز میں حکومت سیاحت کو معیشت کے فروغ کا ذریعہ تو سمجھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ منسلک بنیادی انسانی تحفظ کی ذمے داری سے غافل نظر آتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر ذمے دارانہ بلکہ ظلم کے مترادف ہے۔ ہر حادثے کے بعد تعزیت، دورہ اور معطلیوں کی رسم ادا کی جاتی ہے، اور پھر سب کچھ حسب ِ سابق چلتا رہتا ہے۔ کسی واقعے کے بعد سسٹم میں کوئی دیرپا اصلاحات دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوات جیسے سانحے تسلسل کے ساتھ پیش آتے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سیاحتی مقامات پر
پڑھیں:
وانا کیڈٹ کالج پر حملہ، سکیورٹی فورسز نے تمام کیڈٹس کو بحفاظت ریسکیو کر لیا
وانا کیڈٹ کالج پر حملہ، سکیورٹی فورسز نے تمام کیڈٹس کو بحفاظت ریسکیو کر لیا WhatsAppFacebookTwitter 0 11 November, 2025 سب نیوز
وانا(آئی پی ایس )سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ کیڈٹ کالج میں موجود تمام طلبہ اور اساتذہ کو ریسکیو کرلیا گیا ہے۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق اب تک350 افراد کوبحفاظت ریسکیو کرلیا گیا اور تمام کیڈٹس محفوظ ہیں،سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسزکا آپریشن نہایت احتیاط اورحکمتِ عملی سے جاری ہے، کالج میں اس وقت بھی 300 کے قریب افراد موجود ہیں۔سکیورٹی ذرائع کے مطابق افغان خوارج کی کالج میں موجودگی اور کیڈٹس کی جانوں کی حفاظت کے پیش نظر آپریشن احتیاط سے کیا جارہا ہے۔
سکیورٹی ذرائع نے بتایاکہ آخری دہشتگرد کے خاتمے تک سکیورٹی فورسزکا آپریشن جاری رہے گا۔ سیکیورٹی ذرائع کے مطابق اندر موجود تینوں خوارجیوں کا تعلق افغانستان سے بتایا جا رہا ہے- یہ لوگ مسلسل ٹیلیفون پے افغانستان سے ہدایات لے رہے ہیں ، خوارج ایک عمارت میں چھپے ہوئے ہیں جو کہ کیڈٹس کی رہائش سے بہت دور ہے۔عمارت کی کلیئرنس کو بڑی مہارت کے ساتھ سرانجام دیا جارہا ہے تاکہ کیڈٹس کی زندگی محفوظ رہ سکے اور ان کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے۔واضح رہے کہ 10 نومبر کو افغان خوارج نے کالج کے مرکزی گیٹ پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی تھی۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ دھماکے سے کالج کا مرکزی گیٹ منہدم، قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔پاک فوج کے جوانوں نے فوری اور جرات مندانہ کارروائی کرتے ہوئے دو خوارجیوں کو موقع پر جہنم واصل کر دیا تھا۔معصوم قبائلی بچوں پر حملہ اور دہشتگردوں کا اسلام سے یا پاکستان کی عوام کی خوشحالی سے کوئی تعلق نہیں، آخر دہشتگرد کے خاتمے تک سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری رہے گا۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ کیڈٹ کالج پر حملے کے وقت 525 کیڈٹس سمیت تقریبا 650 افراد موجود تھے۔ کیڈٹ کالج میں موجود 3 افغان خوارجین کو کالج کی ایک مخصوص عمارت تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے، جس عمارت میں افغان خوارج موجود ہیں، وہ کیڈٹس کی رہائشی عمارتوں سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔
ابھی تک تمام کیڈٹ محفوظ ہیں، افغان خوارجیوں کی کالج میں موجودگی کے باعث کیڈٹس کی جانوں کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن نہایت احتیاط سے جاری ہے۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ کالج کی حدود سے کیڈٹس کو نکالنے کا عمل بتدریج جاری ہے، اس وقت بھی کالج کے اندر تقریبا 535 افراد موجود ہیں، وانا کیڈٹ کالج میں موجود 3 افغان خوارجیوں کے خلاف آپریشن پوری شدت سے جاری ہے۔کیڈٹ کالج میں موجود 3 افغان خوارجین کو کالج کی ایک مخصوص عمارت تک محدود کر دیا گیا ہے، سیکیورٹی فورسز نے علاقے کو گھیرے میں لے رکھا ہے، جس عمارت میں افغان خوارج موجود ہیں، وہ کیڈٹس کی رہائشی عمارتوں سے کافی فاصلے پر واقع ہے۔ ابھی تک تمام کیڈٹ محفوظ ہیں۔سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ افغان خوارجیوں کی کالج میں موجودگی کے باعث کیڈٹس کی جانوں کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن نہایت احتیاط سے جاری ہے، کالج کی حدود سے کیڈٹس کو نکالنے کا عمل بتدریج جاری ہے، اس وقت بھی کالج کے اندر تقریبا 535 افراد موجود ہیں۔کیڈٹ کالج وانا کے مرکزی گیٹ پر خود کش حملے کی اندورونی سی سی ٹی فوٹیج منظر عام پر آگئی۔ویڈیو میں واضح دیکھا جاسکتا یے کہ کیسے کالج کے گیٹ پر خود کش دھماکہ کیا گیا، سیکیورٹی ذرائع نے کہا کہ 10 نومبر کو افغان خوارجیوں نے کالج کے مرکزی گیٹ پر بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی تھی، دھماکے سے کالج کا مرکزی دروازہ مکمل طور پر منہدم ہو گیا، جبکہ قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔سیکیورٹی ذرائع کے مطابق پاک فوج کے جوانوں نے فوری اور بہادری سے کارروائی کرتے ہوئے دو خوارجیوں کو موقع پر ہی جہنم واصل کر دیا تھا، معصوم قبائلی بچوں پر حملہ کرنے والے دہشتگردوں کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے، نا قبائل سے ،نہ پاکستان کی خوشحالی سے، دہشتگردوں کے مکمل خاتمے تک سیکیورٹی فورسز کا آپریشن جاری رہے گا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبراسلام آباد خودکش دھماکا،فتنہ الخوارج اور افغانستان کی ملی بھگت کے شواہد سامنے آگئے اسلام آباد خودکش دھماکا،فتنہ الخوارج اور افغانستان کی ملی بھگت کے شواہد سامنے آگئے اسلام آباد حملے کے کرداروں کو کیفرِ کردار تک پہنچائیں گے، عطا تارڑ خلفائے راشدین بھی عدالتوں میں پیش ہوئے، صدر مملکت مستثنیٰ کیوں؟ حافظ نعیم الرحمن عمران خان سے ملاقات نہ ہونے پر انکی بہنوں اور کارکنوں کا اڈیالہ روڈ پر علامتی دھرنا، پولیس سے تلخ کلامی خیبر پختونخوا حکومت کا امن جرگے کا اعلامیہ وفاقی حکومت سمیت تمام سیکیورٹی اداروں کو بھجوانے کا فیصلہ یہ قانون سازی نہیں، آئین اور قانون پر حملہ ہے، اس وقت پاکستان میں ایک ڈھونگ رچایا جارہا ہے،سلمان اکرم راجاCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم