Jasarat News:
2025-09-27@22:56:38 GMT

سوات میں المناک حادثہ، قومی المیہ

اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

پاکستان کی سرزمین فطری حسن سے مالا مال ہے۔ شمالی علاقہ جات کی برف پوش چوٹیاں، ہرے بھرے میدان، بہتے چشمے اور نیلگوں جھیلیں دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ یہی سیاحت آئے روز موت کا پیغام اور المیہ بن جاتی ہے۔ خیبر پختون خوا کے ضلع سوات میں حالیہ دنوں پیش آنے والا حادثہ، جس میں دریا میں طغیانی کے باعث درجنوں افراد پانی میں بہہ گئے، ہماری ریاستی بے حسی کا ایک اور اندوہناک باب ہے۔ خواتین، بچے، نوجوان، سبھی محض تفریح کے لیے نکلے تھے، لیکن واپسی لاشوں کی صورت میں ہوئی۔ ریسکیو اداروں کی رپورٹ کے مطابق، سوات میں دریائی طغیانی کے اس واقعے میں 75 سے زائد افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے 10 کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں اور 55 افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔ حادثہ سات مختلف مقامات پر پیش آیا اور جس انداز سے لوگ پانی میں بہے، اس نے پورے ملک کو سوگوار کر دیا۔ دل دہلا دینے والی ویڈیوز اور عینی شاہدین کے بیانات اس سانحے کو صرف ایک حادثہ نہیں، بلکہ انتظامی غفلت کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ یہ حادثہ کوئی پہلا نہیں۔ اگر صرف گزشتہ پانچ سال کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو شمالی علاقوں میں سیاحتی سرگرمیوں کے دوران جان لیوا واقعات کی تعداد خوفناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی، الخدمت، اور دیگر تنظیموں کی رپورٹس کے مطابق: 2020 میں خیبر پختون خوا کے مختلف مقامات پر 54 افراد سیاحتی مقامات پر حادثات میں جان سے گئے۔ 2021 میں یہ تعداد بڑھ کر 63 ہو گئی، جن میں 19 واقعات صرف دریاؤں اور جھیلوں میں ڈوبنے سے پیش آئے، 2022 میں مری میں برفانی طوفان کے دوران 23 افراد اپنی گاڑیوں میں دم گھٹنے سے جاں بحق ہوئے۔ 2023 میں سندھ کی کھنجر جھیل میں کشتی الٹنے کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق ہوئے، جن میں خواتین اور بچے شامل تھے۔ 2024 میں سوات، کالام، اور ناران کے مختلف علاقوں میں کم از کم 70 سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں، جن میں سے بڑی تعداد سیلابی ریلوں اور کشتیوں کے حادثات کی تھی۔ گویا پچھلے پانچ برسوں میں پاکستان میں سیاحتی مقامات پر کم از کم 230 سے زائد قیمتی جانیں حادثات کی نذر ہو چکی ہیں، اور یہ وہ اعداد ہیں جو رپورٹ ہوئے؛ زمینی حقائق اس سے بھی زیادہ تلخ ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم ترقی یافتہ ممالک، بالخصوص یورپ کی مثال لیں، تو وہاں قدرتی سیاحتی مقامات پر انتہائی منظم اور تربیت یافتہ نظام موجود ہے۔ سوئٹزرلینڈ، ناروے، جرمنی یا آسٹریا جیسے ممالک میں تمام خطرناک علاقوں کو پیشگی وارننگ سسٹم سے لیس کیا جاتا ہے۔ سیکورٹی اور ریسکیو اسٹیشن ہر بڑے مقام پر موجود ہوتے ہیں۔ واٹر اسپورٹس یا کشتی رانی جیسی سرگرمیوں میں لائف جیکٹس کا استعمال لازمی ہوتا ہے، بغیر اس کے کوئی کشتی حرکت نہیں کرتی۔ مقامی انتظامیہ اور حکومت کے درمیان مؤثر رابطہ موجود ہوتا ہے اور خطرے کی صورت میں فوری ایویکوایشن کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ ان تمام اقدامات کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے: ایک بھی انسانی جان غیر محفوظ نہیں ہونی چاہیے۔ اس کے برعکس پاکستان میں حالت یہ ہے کہ نہ سیاحتی مقامات پر ریسکیو ٹیمیں مستقل تعینات ہوتی ہیں، نہ کشتی رانی کے دوران لائف جیکٹس لازمی سمجھی جاتی ہیں، نہ ہی کوئی وارننگ سسٹم موجود ہے۔ مقامی انتظامیہ کے بجائے صرف چند این جی اوز اپنی بساط کے مطابق حفاظتی اقدامات میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت فوری طور پر سیاحتی مقامات کے لیے ایک مربوط پالیسی ترتیب دے جس میں خطرناک علاقوں کی نشاندہی اور پابندی، بروقت انتباہی نظام (Early Warning System)، مستقل ریسکیو اسٹیشنز کا قیام، کشتیوں اور دریا کے کنارے حفاظتی عملہ، ٹور گائیڈز کی تربیت اور رجسٹریشن، مقامی حکومت اور عوام کو ریلیف اور ریسکیو کی تربیت شامل ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ میڈیا اور تعلیمی اداروں کو بھی عوام میں آگاہی پیدا کرنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔ وطن عزیز میں حکومت سیاحت کو معیشت کے فروغ کا ذریعہ تو سمجھتی ہے، لیکن اس کے ساتھ منسلک بنیادی انسانی تحفظ کی ذمے داری سے غافل نظر آتی ہے۔ یہ رویہ نہ صرف غیر ذمے دارانہ بلکہ ظلم کے مترادف ہے۔ ہر حادثے کے بعد تعزیت، دورہ اور معطلیوں کی رسم ادا کی جاتی ہے، اور پھر سب کچھ حسب ِ سابق چلتا رہتا ہے۔ کسی واقعے کے بعد سسٹم میں کوئی دیرپا اصلاحات دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوات جیسے سانحے تسلسل کے ساتھ پیش آتے ہیں اور قیمتی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سیاحتی مقامات پر

پڑھیں:

لیاری میں صفائی سے متعلق زیادہ مسائل موجود نہیں ہیں‘ناصر کریم

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر) ایم ڈی سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈطارق علی نظامانی کی چیئرمین لیاری ناصر کریم سے ملاقات میں علاقے کی صفائی ستھرائی کے حوالے سے بات چیت ہوئی۔ چیئر مین نے کہا کہ کچھ مقامات پر جہاں گلیاں بہت تنگ ہیں انکی صفائی ستھرائی اور ریسورسز میں اضافے کی ضرورت ہے اس موقع پر انہوں نے کہا کہ، ایس ایس ڈبلیو ایم بی مجموعی طور پر اچھا کام کر رہی ہے لیاری میں صفائی سے متعلق زیادہ مسائل موجود نہیں ہیں کمپنیز کے سپروائزرز اور دیگر عملہ گراؤنڈ پر موجود ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ علاقے جہاں گلیاں زیادہ تنگ ہیں اورصرف چھوٹی گاڑی جا سکتی ہے یا مینول صفائی ممکن ہے ان علاقوں میں صفائی کی صورتحال تھوڑی خراب ہے،انہوں نے تجویز دی کہ اگر کمپنی علاقے کی صفائی ستھرائی میں مزید بہتری کے لئے تربیتی عملہ اور مشینری میں اضافہ کرے تو صورتحال بہتر ہوجائے گی۔ میٹنگ میں ڈائریکٹر ایم اینڈ ای صابر شاہ، ڈپٹی ڈائریکٹر آفتاب احمد، ڈپٹی ڈائریکٹر ضلع جنوبی منظورحسین کے علاوہ لیاری ٹاؤن کے دیگر افسران اورلیاری زون ضلع جنوبی میں صفائی کا کام انجام دینے والی کمپنی کے جنرل منیجر موجود تھے۔ ایم ڈی سالڈ ویسٹ نے اس موقع پرمتعلقہ افسران اور کمپنی کے جی ایم کو ہدایت کی کہ تمام تجاویز پر رپورٹ تیار کریں اور جن مسائل کی نشاندہی چیئرمین لیاری نے کی ہے اسکے حل کے لئے ممکنہ وسائل کے انتظامات کرکے فوری حل یقینی بنائیں۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • لیاری میں صفائی سے متعلق زیادہ مسائل موجود نہیں ہیں‘ناصر کریم
  • سیاحت نہ صرف معاشی ترقی بلکہ سماجی خوشحالی کی ضمانت بھی ہے،وزیراعلی سندھ
  • سیاحت نہ صرف معاشی ترقی بلکہ سماجی خوشحالی کی ضمانت بھی ہے، وزیراعلی سندھ
  • پنجگور میں المناک حادثہ، 9 جاں بحق
  • ڈی آئی خان: گاڑی کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 13افراد جاں بحق
  • ڈی آئی خان میں خوفناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق
  • ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق
  • پاکستان کی غربت کا تسلسل ایک اجتماعی المیہ
  • موٹروے ایم 4 کے قریب خوفناک ٹریفک حادثہ، 3 افراد جاں بحق
  • آخر کوٹ کی آستینوں میں یہ اضافی بٹن کیوں موجود ہوتے ہیں؟