ایران اسرائیل جنگ، پاکستان کا جرات مندانہ مؤقف
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پاکستان سے سب سے زیادہ محبت اور ہمدردی رکھنے والی شخصیت ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔ انہوں نے "ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار" نامی کتاب کو عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا، جسکا بعد ازاں اردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے قائدینِ پاکستان، خصوصاً قائداعظم محمد علی جناح سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح وہ علامہ اقبال کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے دورِ صدارت میں انہوں نے اقبال پر منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کیا، جو "اقبال، مشرق کا بلند ستارہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔ تحریر: سکندر علی بہشتی
پاکستان اور ایران دو اسلامی اور ہمسایہ ممالک ہیں، جو تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے کئی مشترکہ روایات کے حامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان ہمیشہ اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم رہی ہے، اگرچہ حکومتوں کے درمیان تعلقات وقتاً فوقتاً نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد، 1984ء میں اُس وقت کے ایرانی صدر آیت اللہ خامنہ ای نے پاکستان کا تاریخی دورہ کیا۔ حکومت اور عوام دونوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور یہ دورہ شاید کسی ایرانی صدر کا سب سے کامیاب دورہ ثابت ہوا۔ بعد ازاں، 22 اپریل 2024ء کو ایرانی صدر مرحوم ڈاکٹر سید ابراہیم رئیسی کا دورۂ پاکستان بھی پاک ایران دوستی کے ایک نئے باب کا آغاز ثابت ہوا، جس سے دونوں ممالک مزید قریب آگئے۔
حالیہ دنوں ایران پر اسرائیلی جارحیت کے تناظر میں، پاکستانی قوم نے جس انداز میں ایران کی حمایت کی، اسرائیلی اقدامات کی مذمت کی اور ایران کے ساتھ کھڑے ہونے کے عزم کا اظہار کیا، وہ قابلِ تحسین ہے۔ پاکستان کے وزیرِاعظم، وزیرِ خارجہ اور وزیرِ دفاع کے واضح بیانات، پارلیمنٹ اور سینیٹ کی جانب سے ایران کی حمایت میں قرارداد کی منظوری، اقوامِ متحدہ میں پاکستانی نمائندے کا جرات مندانہ بیان، سیاسی و مذہبی رہنماؤں کی دوٹوک ہم بستگی، عوام کے بھرپور مظاہرے اور میڈیا کا مثبت اور ذمہ دارانہ کردار۔ ان تمام عوامل نے پاک ایران تعلقات کو ایک نئے دور میں داخل کیا ہے۔ ایران کے میڈیا، سیاسی و مذہبی شخصیات اور عوام نے بھی پاکستان کے اس مؤقف کو سراہا ہے۔ ایرانی صدر ڈاکٹر مسعود پزشکیان نے مختلف مواقع پر پاکستانی حمایت کا خصوصی طور پر ذکر کیا، جبکہ ایرانی پارلیمنٹ میں نمائندوں نے "شکریہ پاکستان" کے نعرے بلند کیے۔ ایران کی متعدد اہم شخصیات نے بھی پاکستان کی اس حمایت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔
پاکستانی رہنماؤں کے بیانات فارسی زبان میں ترجمہ ہو کر مختلف ذرائع سے ایرانی عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ ماضی میں ایرانی عوام پاکستان سے زیادہ واقف نہ ہوں، لیکن حالیہ واقعات کے بعد پاکستان کے لیے ان کے دلوں میں احترام اور تحسین کا جذبہ نمایاں طور پر بڑھا ہے۔ پاکستان سے سب سے زیادہ محبت اور ہمدردی رکھنے والی شخصیت ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای ہیں۔ انہوں نے "ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کردار" نامی کتاب کو عربی سے فارسی میں ترجمہ کیا، جس کا بعد ازاں اردو ترجمہ بھی شائع ہوا۔ اس کتاب میں انہوں نے قائدینِ پاکستان، خصوصاً قائداعظم محمد علی جناح سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح وہ علامہ اقبال کے مداحوں میں شمار ہوتے ہیں۔ اپنے دورِ صدارت میں انہوں نے اقبال پر منعقدہ ایک کانفرنس سے خطاب کیا، جو "اقبال، مشرق کا بلند ستارہ" کے عنوان سے شائع ہوا۔
ایران کے ممتاز مفکرین، جیسے استاد مطہری اور ڈاکٹر علی شریعتی نے بھی اقبال کے افکار پر گفتگو کی ہے۔ آیت اللہ خامنہ ای نے کئی بار کشمیری عوام کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا۔ انہوں نے مختلف پاکستانی رہنماؤں سے ملاقاتوں میں پاکستان کے مسلم امہ میں کردار کو سراہا ہے۔ ان کا ایک اہم بیان 6 مئی 2025ء کو وزیرِاعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران سامنے آیا، جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں اپنی امیدوں کا برملا اظہار کیا۔ پاکستان اور پاکستانی عوام کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کے بیانات اور مکتوبات کو "سفیر بیداری" (پاکستان کے بہادر عوام کے بارے میں آیت اللہ خامنہ ای کے فرامین) کے نام سے جمع کرکے کتابی صورت میں فارسی میں شائع کیا گیا ہے۔ یہ کتاب 209 صفحات پر مشتمل ہے۔ جو آیت اللہ خامنہ ای کی پاکستان سے دلی لگاؤ اور محبت کی واضح مثال ہے۔
ڈاکٹر علی رضا ایمانی اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں: "حضرت آیت اللہ خامنہ ای ہمیشہ امتِ مسلمہ کے مسائل پر توجہ دیتے رہے ہیں اور انہوں نے نہ صرف ان مسائل کو اجاگر کیا بلکہ ان کے حل کے لیے حکیمانہ رہنمائی بھی فراہم کی، جیسے کہ بصیرت و آگاہی، اتحاد و ہمدلی، مزاحمت و اسلامی بیداری اور استبداد کے خلاف جدوجہد۔ پاکستان کے بہادر عوام کے بارے میں اُن کی رہنمائی اور ارشادات، مسلمانوں کے امور پر ان کی عنایت و توجہ کی ایک روشن مثال ہیں۔" اس کے علاوہ بھی ایران میں کئی ایسی شخصیات اور ماہرین موجود ہیں، جو پاک ایران دوستی، تعلقات اور باہمی بھائی چارے کو وقت کی اہم ترین ضرورت سمجھتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دونوں ممالک اس ہم دلی اور برادرانہ تعلق کو مزید مضبوط بنانے کے لیے عملی اور ٹھوس اقدامات کریں، تاکہ یہ دونوں اسلامی ریاستیں مل کر مسلم امہ میں قائدانہ کردار ادا کرسکیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: آیت اللہ خامنہ ای کا اظہار کیا میں انہوں نے کے بارے میں ایرانی صدر پاکستان کے پاکستان سے شائع ہوا ایران کے عوام کے
پڑھیں:
فلسطینی عوام جنگجو نہیں جمہوری ریاست چاہتے ہیں، صدر محمود عباس
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 26 ستمبر 2025ء) فلسطینی ریاست کے صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ غزہ میں ان کے لوگوں کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں نسل کشی، تباہی، بھوک اور نقل مکانی کی جنگ کا سامنا ہے۔
ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دو سال سے جاری جنگ میں 220,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد خواتین، بچوں اور معمر افراد کی ہے جبکہ 20 لاکھ لوگوں کو محاصرے اور بھوک کا سامنا ہے۔
غزہ کے 80 فیصد سے زیادہ گھر، سکول، ہسپتال، چرچ، مساجد اور تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ محض جارحیت نہیں بلکہ جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے۔
(جاری ہے)
یہ 20ویں اور 21ویں صدی میں انسانی المیے کا ایک ہولناک ترین باب ہے۔
انہوں نے مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں کے بڑھتے تشدد اور اسرائیلی بستیوں میں توسیع کا تذکرہ بھی کیا اور کہا کہ 'گریٹر اسرائیل' کے حکمت عملی کے تحت اسرائیلی علاقوں کو وسعت دی جا رہی ہے اور مغربی کنارے کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کا خدشہ ہے جس سے مقبوضہ یروشلم باقی علاقے سے کٹ جائے گا اور دو ریاستی حل کے امکان کو نقصان ہو گا۔
7 اکتوبر کی مذمتمحمود عباس نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کی جانب سے اسرائیل پر کیے گئے حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ افعال فلسطینی عوام اور آزادی و خودمختاری کے لیے ان کی جائز جدوجہد کی نمائندگی نہیں کرتے۔
انہوں نے واضح کیا کہ غزہ فلسطینی ریاست کا جزو لازم ہے اور فلسطینی اتھارٹی ایک ریاست، ایک قانون اور ایک قانونی سکیورٹی فورس کی بنیاد پر علاقے میں انتظام و انصرام اور سلامتی کی مکمل ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔
فلسطینی صدر نے قانون، اقتدار کی پرامن منتقلی، انسانی حقوق کے احترام اور نوجوانوں اور خواتین کو بااختیار بنانے کی بنیاد پر ایک جدید اور جمہوریہ فلسطین کا تصور پیش کرتے ہوئے عالمی رہنماؤں سے کہا کہ فلسطینی مسلح ریاست نہیں چاہتے۔
انہوں نے اس امر پر افسوس کا اظہار کیا کہ فلسطین کے بارے میں اقوام متحدہ کی ہزار سے زیادہ قراردادوں پر عمل نہیں ہو سکا جبکہ فلسطینی رہنماؤں نے امن معاہدے قبول کیے اور 1993 میں اوسلو معاہدوں کے بعد سے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل نے ان معاہدوں کو منظم طریقے سے کمزور کیا جبکہ فلسطینیوں نے اپنے عہد کی پاسداری کی جس میں تشدد کو مسترد کرنا اور قومی اداروں کو ازسرنو ترتیب دینا بھی شامل ہے۔
انہوں نے اس ہفتے فرانس اور سعودی عرب کی مشترکہ سربراہی میں فلسطین کے مسئلے کے دو ریاستی حل سے متعلق اعلیٰ سطحی کانفرنس کا خیرمقدم کیا اور فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے دوسروں پر بھی ایسا کرنے اور اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت کے لیے فلسطینی ریاست کی حمایت کے لیے زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ فلسطین اس ہفتے منظور کیے جانے والے امن منصوبے پر عملدرآمد کے لیے امریکہ، سعودی عرب، فرانس، اقوام متحدہ اور تمام شراکت داروں کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔ انصاف کے بغیر امن قائم نہیں ہو سکتا اور اگر فلسطین آزاد نہ ہوا تو یہ ناانصافی ہو گی۔ فلسطینی اپنی سرزمین اور اپنے حقوق کو کبھی ترک نہیں کریں گے۔
محمود عباس نے کہا کہ تکالیف خواہ کس قدر ہی طویل کیوں نہ ہوں اس سے زندہ رہنے اور بقا کے لیے فلسطینیوں کا عزم کمزور نہیں پڑے گا۔ آزادی کی صبح طلوع ہو گی اور فلسطین کا پرچم وقار اور ثابت قدمی کی علامت کے طور پر آسمان میں لہرائے گا۔