موضوع:استقامت، راه ولایت فقیه
اشاعت کی تاریخ: 29th, June 2025 GMT
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںتجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع:استقامت، راه ولایت فقیه
مہمان مقرر:علامہ محمد امین شہیدی ( سربراہ اُمتِ واحدہ پاکستان)
میزبان و پیشکش: سید انجم رضا
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
اللہ پہ توکل اور ایمان ہی ایران کی کامیابی کا سب سے بڑا سبب ہے
باطل قوتوں کے خلاف فتح پہ ایرانی قوم خراجِ تحسین کی مستحق ہے
جمہوری اسلامی ایران کو یہ کامیابی متحد ہونے اور ولایت فقیہ پہ یقین رکھنے کی بنا پہ حاصل ہوئی
رہبریت کی مرکزیت نے ایرانی قوم کو باہم متحد رکھا
ایرانی نظام مروجہ جمہوریت کی تمام خوبیوں سے مزین ہے
ایرانی جمہوریت ولی فقیہ کے سایے میں خود کو محفوظ و مامون جانتی ہے
ولایت فقیہ اتباع و پیروی آئمہ معصومین ؑ پہ کامل ایمان رکھتی ہے اور نظام امامت سے جڑی ہے
نظام ولایت و امامت سے رہنمائی و اتصال ہی نظام ولایت فقیہ کی حقانیت کا ثبوت ہے
دورِ حاضر کی شیطانی قوتوں امریکہ اسرائیل کے ساتھ بہادری غیرت وشجاعت کا مقابلہ دنیانے دیکھ لیا
ایران دنیا کے نقشے پہ واحد ملک ہے جو جمہوری نظام رکھتے ہوئے الٰہی قوانین کے تابع ہے
ایران کے استحکام اور فتح کا راز ہی الٰہی نظام کا تابع ہونا ہے
اسرائیل شیطانی نظاموں کا نمائندہ بن کر جمہوری اسلامی پہ حملہ آور ہوا
مسلط کردہ جنگ میں بہت نقصان اٹھانا پڑا مگر ان سب سے قیمتی اسلام ہے
اس جنگ نے دوست دشمن کے ساتھ ساتھ غدار اور منافق بھی آشکار ہوگئے
دشمن کے مکارانہ حربو ں اور حملوں کے باوجود اس نظام کو امام زمانہ عج کی تائید و حمایت نے بچائے رکھا
اس نظام کی ڈور ایک پاکیزہ و مقدس رہبرِ معظم کے ہاتھ میں ہے
رہبرِ معظم کی دلیری و زعامت اور شجاعت و بہادری نے دشمن کو جنگ بندی کی بھیک مانگنے پہ مجبور کردیا
اسرائیل داخلی طور پہ بہت خوف کا شکار ہوچکا ہے
اسرائیلی عوام ملک سے باہر بھاگنے کے راستے ڈھونڈ رہے ہیں
تل ابیب ، یروشلم اور حیفہ جیسے اہم شہروں مین عدم تحفظ کی فضا پھیل چکی ہے
اپنے خوفزدہ عوام کو اب صلح ابراھیمی کے نام کے نام پہ عربوں سے دوستی کا ڈرامہ دکھارہے ہیں
دنیا بھر کے انسان دوست حلقے اسرائیل اور امریکہ کے غزہ پہ مظالم کو نہیں بھول سکتے
اسرائیل سے جنگ نظریاتی جنگ ہے، یہ کسی نہ شکل میں جاری رہے گی
اہل توحید کا یہ پہلا براہ راست ٹاکرا تھا جس میں حق کو فتح مبین حاصل ہوئی
سیز فائر تو جنگ بندی کوکہتے ہیں، اس کوصلح نہیں کہتے
شیعہ سنی تفرقہ پیدا کرنا شیطانی قوتوں کا سب سے بڑا حربہ ہوتا ہے
بعض أوقات مذاہب او مسالک میں باہمی جھگڑے پیدا کیئے جاتے ہیں
اہلِ دانش اور اہل منبر کی ذمہ داری ہے کہ ایام ِ عزا میں اختلافی موضوعات سے گریز کریں
ایام عزا میں منبر و مجالس میں محبت، اتحاد اور رواداری کا پیغام آنا چاہیئے
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
نام نہاد غزہ امن فورس اور پاکستان
اسلام ٹائمز: جب فوج کا مینڈیٹ یہ ہوگا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا ہے اور حماس غیر مسلح نہیں ہوگی تو طاقت استعمال کی جائے گی۔ طاقت کے استعمال کا نتیجہ باہمی جنگ ہے۔ ہمیں پاکستان کی افواج کو کسی بھی طور پر فلسطینیوں کیخلاف استعمال کیلئے نہیں بھیجنا چاہیئے۔ حماس اور فلسطینی جس معاہدے پر راضی نہ ہوں، وہ معاہدہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اپنی ریاستی پالیسی بھی اسی لائن پر بنانی چاہیئے، جس میں ہم اہل فلسطین کے مددگار ہوں، اسکے خلاف صف آراء نہ ہوں۔ اسی میں وطن عزیز اور اہل فلسطین کی بھلائی ہے۔ غزہ اور فلسطین کیلئے سوشل میڈیا پر موثر آواز پروفیسر ڈاکٹر جمیل اصغر جامی نے خوب لکھا ہے: جس قرارداد کی حمایت بیک وقت امریکہ اور اسرائیل کریں، میرے لیے اُس میں اہل غزہ کیلئے خیر پا پہلو تلاش کرنا مشکل ہے۔ خدا سے رحم کی دعا ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
غزہ پر امریکی صدر ٹرمپ کے منصوبے کی گونج اقوام متحدہ پہنچی ہے۔ میڈیا کے مطابق اقوامِ متحدہ کی 15 رکنی سلامتی کونسل نے غزہ امن منصوبہ منظور کیا ہے۔ پاکستان سمیت سلامتی کونسل کے 13 مستقل اور غیر مستقل اراکین نے منصوبے کی حمایت کی۔ یہاں پاکستان کی حمایت کو دنیا بھر میں کافی حیرت سے دیکھا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کا مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ایک مضبوط موقف ہے۔ پاکستانی عوام کسی بھی صورت میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پاکستان کا ایک امریکی و اسرائیلی قرارداد کی حمایت کرنا بہت معنی رکھتا ہے۔ چین اور روس نے قرارداد کو ویٹو نہیں کیا، تاہم اس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ووٹنگ سے غیر حاضر رہے، چین اور روس نے کہا منصوبے میں دو ریاستی حل، غزہ کی مستقل حکمرانی اور عالمی فورس کے دائرہ کار سے متعلق ابہام ہے۔ اقوام متحدہ میں چینی مندوب ایلچی فوکونگ نے کہا کہ منصوبے میں دو ریاستی حل اور غزہ کی فلسطینی حکمرانی اور بین الاقوامی فورس کے دائرہ کار اور ڈھانچے سے متعلق ابہام ہے۔
اسی طرح اقوام متحدہ میں روس کے سفیر واسیلی نیبنزیا نے بھی امن فورس پر اعتراضات اٹھائے، نیبنزیا نے مزید کہا اہم بات یہ ہے کہ یہ دستاویز، امریکا کی جانب سے اسرائیل میں، مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں کیے جانے والے بے لگام تجربات کے لئے پردہ نہیں بننی چاہیئے۔ روس اور چین نے بہت ہی بنیادی نکات اٹھائے ہیں، یہ کیسا معاہدہ ہے، جس میں اتنی قربانیوں کے بعد بھی فلسطینی ریاست کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی یقین دہانی نہیں کروائی گئی۔؟ اس میں اسرائیل کے تحفظ کی ہی یقین دہانی کروائی گئی ہے اور فلسطینیوں کو اسرائیل کے بجائے دوسری فورسز سے گھیرنے کا پروگرام لگتا ہے۔ فلسطینی انسان ہیں اور ان پر حکمرانی کا کسی بھی بین الاقوامی اصول و ضابطے کے مطابق کسی دوسرے کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ یہاں تو ایک طاقتور گروہ کو جبراً حکمران بنا دیا گیا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ ہی ابہام کا شکار ہے۔ اسرائیل تمام معاہدوں میں ابہام رکھتا ہے، تاکہ بعد میں اپنی مرضی کی تشریح کر لی جاتی ہے اور طاقت کے زور پر اسے نافذ کر دیا جاتا ہے۔
اس حوالے سے حماس کی رائے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ حماس نے کہا ہے کہ قرارداد فلسطینیوں کے جائز حقوق پورے نہیں کرتی، یہ فلسطینیوں کے حقوق اور مطالبات پوری نہیں کرتی اور غزہ پر ایک بین الاقوامی سرپرستی مسلط کرنے کی کوشش ہے، جسے فلسطینی عوام قبول نہیں کرتے۔ حماس نے کہا ہے کہ بین الاقوامی فورس کو غزہ کے اندر دیئے گئے کام، جن میں مزاحمت کو غیر مسلح کرنا بھی شامل ہے، اس کی غیر جانبداری کو ختم کر دیتے ہیں اور اسے تنازع کا حصہ بنا دیتے ہیں، جو بالآخر قابض (اسرائیل) کے حق میں جاتا ہے۔ حماس کی قیادت کی اس رائے میں بہت وزن ہے۔ جب قرارداد میں طے کر دیا گیا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنا ہے اور وہ غیر مسلح ہونے کے لیے کسی بھی طور پر تیار نہیں ہے، کیونکہ غیر مسلح فلسطینیوں کو اسرائیل گاجر مولی کی طرح کاٹ دے گا۔ یہ اسرائیل اور امریکہ کی درینہ خواہش ہے کہ تمام فلسطینی غیر مسلح ہو جائیں اور ساری طاقت و اختیار اسرائیلیوں کے پاس ہو۔ اس طرح فلسطینی ریاست کا مطالبہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے کہا قرارداد کی منظوری تاریخی لمحہ ہے، امن کونسل کی صدارت خود کرونگا۔ لگ یوں رہا ہے کہ غزہ کو ریزورٹ بنانے کی خواہش کہیں نہ کہیں موجود ہے اور جب بات طاقت سے نہیں بن پائی تو اب مذاکرات کی میز پر ہاری جنگ جیتنے کی تیاری ہو رہی ہے۔ ان حالات کے تناظر میں معروف صحافی ندیم ملک نے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف سے سوال پوچھا کہ کیا پاکستان فوج غزہ جا رہی ہے۔؟ اس حوالے سے پاکستانی قوم کی جذباتی وابستگی ہے اور امریکہ کا سعودی عرب سے مطالبہ رہا ہے کہ وہ ابراہیم اکارڈ کا حصہ بنے تو کیا اب پاکستان بھی اس اکارڈ کا حصہ بننے جا رہا ہے۔؟ خواجہ آصف نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی فوج کو جانا چاہیئے اور اس میں ہماری مسئلہ فلسطین سے جذباتی وابستگی کا بھی یہی تقاضا ہے، تاکہ ہم کسی بھی طرح سے غزہ اور فلسطین کے بھائیوں کے مفادات کے تحفظ کے لیے کچھ کرسکیں۔ جہاں تک ابراہم اکارڈ کا تعلق ہے تو پاکستان ابراہم اکارڈ میں جانے کا نہیں سوچ رہا، ابراہم اکارڈ سے متعلق پاکستان کا مؤقف باکل واضح ہے، دو ریاستی حل تک پاکستان کے مؤقف میں تبدیلی نہیں ہوسکتی۔
خواجہ صاحب کی یہ سوچ اچھی ہے کہ ہم فلسطینیوں کے لیے کوئی اچھا اور بہتر کردار ادا کرسکیں اور اس کے لیے فوج بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔ خواجہ صاحب جس معاہدے کے تحت فوج بھیجنے کی بات ہو رہی ہے، وہ تو کچھ اور بتا رہا ہے۔ اس کے مطابق تو پاکستانی فوج اسرائیل کی بجائے فلسطینیوں سے لڑوانے کی سازش لگ رہی ہے۔ جب فوج کا مینڈیٹ یہ ہوگا کہ حماس کو غیر مسلح کرنا ہے اور حماس غیر مسلح نہیں ہوگی تو طاقت استعمال کی جائے گی۔ طاقت کے استعمال کا نتیجہ باہمی جنگ ہے۔ ہمیں پاکستان کی افواج کو کسی بھی طور پر فلسطینیوں کے خلاف استعمال کے لیے نہیں بھیجنا چاہیئے۔ حماس اور فلسطینی جس معاہدے پر راضی نہ ہوں، وہ معاہدہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں ہوسکتا۔ ہمیں اپنی ریاستی پالیسی بھی اسی لائن پر بنانی چاہیئے، جس میں ہم اہل فلسطین کے مددگار ہوں، اس کے خلاف صف آراء نہ ہوں۔ اسی میں وطن عزیز اور اہل فلسطین کی بھلائی ہے۔ غزہ اور فلسطین کے لیے سوشل میڈیا پر موثر آواز پروفیسر ڈاکٹر جمیل اصغر جامی نے خوب لکھا ہے: جس قرارداد کی حمایت بیک وقت امریکہ اور اسرائیل کریں، میرے لیے اُس میں اہل غزہ کے لیے خیر پا پہلو تلاش کرنا مشکل ہے۔ خدا سے رحم کی دعا ہے۔