ماہانہ لائسنس فیس ختم! کیا پی ٹی وی بند ہونے والا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے بلوں میں شامل ماہانہ 35 روپے پی ٹی وی فیس ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ فیس ہر ماہ ہر بجلی کے صارف سے بلوں کے ذریعے وصول کی جاتی تھی جس سے قومی خزانے کو ہر ماہ 1.5 ارب روپے اور سالانہ تقریباً 16 ارب روپے کی آمدنی حاصل ہوتی تھی جو براہ راست ریاستی نشریاتی ادارے پی ٹی وی کو منتقل ہوتی تھی جس سے ادارہ اپنے مالی اخراجات چلاتا تھا۔
وزیراعظم کے اعلان کے بعد پی ٹی وی ملازمین اور عام لوگوں کے ذہنوں میں ایک سوال ہے کہ پہلے سے مالی بوجھ کا شکار پی ٹی وی کی سالانہ 16 ارب روپے کی آمدن ختم ہونے کا فیصلہ کیا اس جانب اشارہ ہے کہ پی ٹی وی بند ہونے والا ہے؟
وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے پی ٹی وی لائسنس فیس کے حوالے سے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں پی ٹی وی دیکھنے والے اور اس کے ملازمین کے تحفظ کو یقینی بناؤں گا اور پی ٹی وی کا مستقبل بہت اچھا ہوگا، پی ٹی وی کے لیے نئے سٹینڈرڈز رکھے جائیں گے اور بہتر ٹرانسفارمیشن پلان کے ساتھ پی ٹی وی کو چلایا جائے گا، ملازمین کے حقوق کا بھی تحفظ کیا جائے گا۔
سابق ایم ڈی پی ٹی وی اختر وقار عظیم نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی نے شروع میں بی بی سی کے قواعد کو فالو کرتے ہوئے لائسنس فیس وصول کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ ماضی میں ایک فرد ہر گھر جا کر پی ٹی وی کی لائسنس فیس وصول کرتا تھا جبکہ اس عمل میں مشکلات درپیش تھیں۔ اس لیے یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ پی ٹی وی کی لائسنس فیس بجلی بلوں کے ذریعے عوام سے وصول کی جائے۔ اس میں 30 روپے پی ٹی وی کو جب کہ 5روپے واپڈا کو دیے جاتے تھے۔ اس رقم سے پی ٹی وی کو سالانہ ساڑھے 11 ارب روپے تک موصول ہو جاتے تھے۔
یہ بھی پڑھیے بجلی کے بلوں میں پی ٹی وی فیس ختم کرنے کا فیصلہ
اختر وقار عظیم نے کہا، حکومت اب چاہتی ہے کہ پی ٹی وی اپنے مالی اخراجات کا بوجھ خود اٹھائے لیکن اس کے لیے پی ٹی وی پر عائد پابندیوں کو ہٹانا ہوگا۔ اگر پی ٹی وی پر پابندیاں نہ ہوں تو ہو سکتا ہے کہ پی ٹی وی کو اشتہارات بھی بہتر ملیں اور اس کو دیکھنے والوں کی تعداد بھی بڑھے لیکن اگر اسی طرح کی پابندیاں پی ٹی وی پر رہیں گی تو اس طرح ادارے کا اپنے زور و بازو پر چلنا مشکل ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ حکومت کا پی ٹی وی کے حوالے سے کوئی اور پروگرام بھی ہو لیکن ابھی تک وہ واضح نہیں ہے فی الحال یہ پریشان کن بات ہے۔
سابق ایم ڈی پی ٹی وی اختر وقار عظیم نے کہا کہ ملازمین کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر حکومت کا موقف ہے کہ چیمپیئنز ٹرافی کے رائٹس کی خریداری کے لیے خطیر رقم خرچ کی گئی تھی، اس لیے تنخواہوں کی ادائیگی میں مشکلات کا سامنا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ چیمپیئنز ٹرافی کے رائٹس ماضی میں بھی خریدے جا چکے ہیں لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ وزیر اطلاعات عطا تارڑ نے اس موقع پر یہ کہا ہے کہ دیگر چینلز بھی اپنے ملازمین کو مہینوں تک تنخواہ نہیں دیتے۔ یہ ایک غیر ذمہ دارانہ بیان ہے۔ میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی بڑا چینل تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے بغیر چل رہا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ کسی چھوٹے چینل میں ایسا ہوتا ہو لیکن پی ٹی وی کو اپنا ماضی دیکھنا چاہیے نہ کہ دیگر کسی چھوٹے چینل کی مثال دینی چاہیے۔
سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت دیکھنے کے لیے بہت سے ٹی وی چینلز موجود ہیں۔ ایسے میں حکومت کو اپنا سرکاری چینل چلانے کی ضرورت کیا ہے، اور کیا ضرورت ہے کہ حکومت کو پراپیگنڈا کرنے کی؟ حکومت ویسے ہی پرائیویٹ چینلز پر اپنے اشتہارات چلانے کے لیے اربوں روپے خرچ کر رہی ہے۔ میرے خیال میں پاکستان کو پی ٹی وی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی عوام کو لائسنس فیس ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
ترجمان پی ٹی وی تصور عرفات نے وی نیوز کو بتایا کہ پی ٹی وی کی لائسنس فیس کے بجلی بلوں کے ذریعے وصولی ختم کرنے کے فیصلے کے بعد اس وقت وزارت اطلاعات اور پی ٹی وی کے درمیان میٹنگز جاری ہیں، اس کا فیصلہ کیا جائے گا کہ اب پی ٹی وی کی لائسنس فیس وصول کرنی ہے یا نہیں۔ اور اگر کرنی ہے تو کس طریق کار سے وصول کرنی ہے۔
یہ بھی پڑھیے پی ٹی وی اینکرز، ہوسٹ اور تجزیہ کار ماہانہ کتنی تنخواہ لے رہے ہیں؟
سابق مارکیٹنگ اور اسٹریٹجی چیف پی ٹی وی خاور اظہر نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کے اس فیصلے سے لگ رہا ہے کہ پی ٹی وی بند ہونے لگا ہے۔ پی ٹی وی کا جو بھی ریونیو ہے اس کا تقریباً 75 سے 80 فیصد لائسنس فیس سے وصول ہوتا تھا جبکہ صرف 20 سے 22 فیصد اشتہارات سے ریوینیو آتا ہے۔ پی ٹی وی کے کل اخراجات تقریباً ڈیڑھ ارب روپے ماہانہ کے قریب ہیں جبکہ سوا ارب روپے لائسنس فیس سے ہی وصول ہوتے ہیں۔ پی ٹی وی کے پاس اب 2 آپشنز ہیں۔ وہ کسی طریقے سے زیادہ پیسے بنانا شروع کرے یا پھر اپنے اخراجات کم کرے یعنی ملازمین کی تعداد کم کرے تاہم یہ دونوں چیزیں ہوتی نظر نہیں آرہی۔ اس لیے مجھے پی ٹی وی کا چلنا بہت مشکل نظر ارہا ہے۔
خاور اظہر کا کہنا ہے کہ وزارت اطلاعات کا اس معاملے میں کردار بہت مایوس کن رہا ہے۔ وزارت اطلاعات کو چاہیے تھا کہ وہ حکومت کو یہ یقین دلاتی کہ یہ جو لائسنس فیس وصول کی جاتی ہے یہ کوئی ناجائز نہیں ہے۔ پی ٹی وی کی لائسنس فیس کا کیس وزارت اطلاعات حکومت کے سامنے پیش کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوئی ہے۔ پوری دنیا میں سرکاری ٹی وی کی لائسنس فیس وصول کی جاتی ہے۔ بی بی سی کی بھی لائسنس فیس برطانیہ میں وصول کی جاتی ہے۔ پاکستان میں تو یہ فیس ہے ہی بہت کم، صرف 35 روپے ہے جو کہ کسی بھی شخص کے لیے دینا مشکل نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی یہ نہیں دے گا یا یہ فیس وصول نہیں کی جائے گی تو ایک قومی ادارے یا ایک قومی اثاثہ یعنی پی ٹی وی کا چلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
خاور اظہر نے کہا کہ وزیر توانائی اویس لغاری پر ملک بھر سے پریشر تھا کہ وہ بجلی کے نرخ کم کریں تو انہوں نے یہ پی ٹی وی کی لائسنس فیس کو ختم کر کے کہا کہ انہوں نے بجلی کے بلوں میں 35 روپے کا ریلیف دیا ہے حالانکہ یہ پیسے وزارت توانائی کے تھے ہی نہیں۔ یہ ایک سرکاری ادارے پی ٹی وی کے ہیں اور یہ پیسے بجلی کے بلوں کے ذریعے جمع کرکے پی ٹی وی کو دیے جاتے تھے اور اس میں سے وزارت توانائی 5 روپے فی بل اپنا کمیشن رکھ لیتی ہے۔ وزارت اطلاعات نے وزیر توانائی کے اس اقدام کی بالکل بھی مخالفت نہیں کی۔ وزارت اطلاعات کو چاہیے تھا کہ وزیر توانائی کے اس سیاسی عمل کو روکتی، اس فیصلے کے بعد اب پی ٹی وی اپنا آپ چلانے کے لیے اپنے اثاثے فروخت کرنا شروع کرے گا یا پھر چینلز فروخت کر دے گا۔
سابق چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز پی ٹی وی ارشد خان نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی وی کو اپنے آپریشنز اور ماہانہ اخراجات کے لیے تقریباً ڈیڑھ ارب روپے چاہئیں۔ ڈیڑھ ارب روپے کا زائد حصہ لائسنس فیس سے وصول کیا جاتا ہے۔ اب جب حکومت نے لائسنس فیس ختم کر دی ہے، تو اب حکومت کو سرکاری خزانے سے پی ٹی وی کو پیسے دینا ہوں گے ورنہ پی ٹی وی کے چلنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ اگر حکومت ابھی یہ واضح کر دے کہ جو بجلی بلوں کے ذریعے لائسنس فیس وصول کی جاتی تھی، وہ بجلی بلوں سے نہیں بلکہ کسی اور ذریعے سے پی ٹی وی کو دی جائے گی یا حکومت گرانٹ جاری کرے گی تب تو پی ٹی وی چل سکتا ہے وگرنہ پی ٹی وی کے لیے مالی طور پر چلنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے پی ٹی وی میں تنخواہوں کی ادائیگی تاخیر کا شکار کیوں؟
ارشد خان نے کہا حکومت اس وقت اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ پی ٹی وی جیسے کسی بھی ادارے کو گرانٹ دے سکے۔ حکومت تو خود اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے عوام پر ٹیکس لگا رہی ہے۔ اگر حکومت پی ٹی وی کو یہ پیسے نہیں دے گی تو پی ٹی وی کا ادارہ مالی طور پر ختم ہو جائے گا۔ اگر حکومت کسی بھی طرح پی ٹی وی کو پیسے یا گرانٹ جاری کر بھی دے گی تو پھر پی ٹی وی کی آزادی مکمل طور پر ختم ہو جائے گی، اسے حکومت کی بات ماننا ہو گی۔ دوسرا، چونکہ پی ٹی وی کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اور ہر وقت پی ٹی وی میں کوئی نہ کوئی کام ہو رہا ہوتا ہے تو اس لیے وہ کام بھی متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ حکومتی گرانٹ لینے کے بعد حکومت کی پی ٹی وی پر مداخلت کئی گنا بڑھ جائے گی۔
سابق چیئرمین بورڈ آف ڈائریکٹرز پی ٹی وی ارشد خان نے کہا کہ نیشنل براڈ کاسٹر کے رول کو سمجھنا چاہیے، پی ٹی وی کو ہر حکومت نے اپنے مقصد کے پراپیگنڈا ٹول کے طور پر استعمال کیا ہے، حکومت کو یہ واضح کرنا ہو گا کہ پی ٹی وی ایک کمرشل چینل ہے یا نیشنل براڈ کاسٹر ہے۔ اس وقت جب دنیا میں 5th جنریشن وار جاری ہے، ایسے میں نیشنل براڈ کاسٹر کا کردار مزید بڑھ جاتا ہے۔ اگر پی ٹی وی کو نیشنل براڈ کاسٹر کا درجہ دینا ہے تو پھر حکومت کو اسے گرانٹ دینا ہو گی۔
ماہر معیشت شہباز رانا نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کا پی ٹی وی لائسنس فیس بجلی بل کے ذریعے وصول نہ کرنے کا فیصلہ ایک بہت اچھا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کا مقصد یہ نہیں ہے کہ بجلی کے بل کم کیے جائیں۔ البتہ یہ اصولی بات ہے کہ ٹیکس جمع کرنے یا لائسنس فیس جمع کرنے کے لیے بجلی کا بل ذریعہ نہیں ہو سکتے۔ پاکستان ٹیلی ویژن ایک کارپوریشن ہے اور اس کو اپنا مالی نظام خود چلانا چاہیے۔ ہر گھر، مسجد اور قبرستان پر ٹیکس لگا کر اپنے خرچے پورے کرنا، یہ ٹیکس جمع کرنے کا صحیح طریقہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیے وزیراعظم کا ’اپنا میٹر، اپنی ریڈنگ‘ اسمارٹ ایپ کا افتتاح، بجلی کے بلوں میں پی ٹی وی کی فیس ختم کرنے کا اعلان
شہباز رانا نے کہا کہ اگر پی ٹی وی کارپوریشن اپنا مالی بوجھ برداشت نہیں کرتا تو حکومت کو اسے بند کر دینا چاہیے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی بھی ادارے کو چلانے کے لیے عوام پر ٹیکسز کا بوجھ ڈال دیا جائے۔ میرے خیال میں وزیراعظم شہباز شریف کا بجلی کے بلوں سے لائسنس فیس کا خاتمہ عوام کے لیے خوش آئند فیصلہ ہے۔
آل پاکستان پی ٹی وی پینشنرز ایسوسی ایشن یشن کے سربراہ محمد اشرف نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا پی ٹی وی کی لائسنس فیس وصول نہ کرنے کا فیصلہ موجودہ اور سابقہ پی ٹی وی ملازمین کے معاشی قتل کے مترادف ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب ملازمین کو تنخواہ اور پینشنرز کو پینشن کی ادائیگی بھی نہیں ہو سکے گی۔ اس وقت بھی پی ٹی وی ادارے کا خسارہ 12 ارب روپے ہے جبکہ اس حکومتی فیصلے سے یہ خسارہ کئی گنا بڑھ جائے گا۔ مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ فیصلہ اس لیے کیا جا رہا ہے کہ پی ٹی وی کی نجکاری کی راہ ہموار کی جا سکے۔
محمد اشرف نے کہا کہ پی ٹی وی اس وقت بھی اس قدر زیادہ مالی مشکلات کا شکار ہے کہ 2022 سے لے کر اب تک کے پی ٹی وی کے 400 پینشنرز اپنے واجبات کے انتظار میں ہیں جو کہ مجموعی طور پر 3 ارب روپے کی رقم بنتی ہے۔ اب چونکہ لائسنس فیس وصول نہ کرنے کے فیصلے سے پی ٹی وی کی سالانہ آمدنی میں بڑی کمی ہو گی تو اس سے ملازمین اور پینشنرز کی مشکلات مزید بڑھ جائیں گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پی ٹی وی لائسنس فیس.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پی ٹی وی لائسنس فیس پی ٹی وی کی لائسنس فیس نیشنل براڈ کاسٹر بجلی کے بلوں میں وزارت اطلاعات کرنے کا فیصلہ ہے کہ پی ٹی بلوں کے ذریعے وصول کی جاتی تنخواہوں کی پی ٹی وی کو پی ٹی وی پر پی ٹی وی کے پی ٹی وی کا سے پی ٹی بجلی کے بل فیس ختم کر فیصلہ کیا بجلی بلوں رہا ہے کہ نے کہا کہ کہ حکومت ارب روپے حکومت کو جائے گی ہو جائے نہیں ہو وصول نہ کسی بھی بجلی بل ہو سکتا جائے گا سکتا ہے نہیں ہے کرنے کے سے وصول اور پی اس لیے اور اس تھا کہ کہ کسی کے بعد کیا جا کے لیے
پڑھیں:
حکومتی مذاکرات صرف دکھاوے کیلئے نہیں ہونے چاہئیں، شبلی فراز
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر شبلی فراز نے کہا ہے کہ حکومتی مذاکراتی صرف سیاسی دکھاوے کےلیے نہیں ہونے چاہئیں۔
اسلام آباد سے جاری بیان میں شبلی فراز نے وزیراعظم شہباز شریف اور اُن کے سیاسی امور کے مشیر رانا ثناء اللّٰہ کی مذاکرات کی پیشکش پر ردعمل دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت سنجیدہ ہے تو بیانات سے آگے بڑھ کر سنجیدگی سے بات چیت کرنا ہوگی، وزیراعظم یا پرائم منسٹر آفس کی گفتگو کوئی ہوائی بات نہیں ہوتی۔
پی ٹی آئی سینیٹر نے مزید کہا کہ حکومت مذاکراتی عمل صرف سیاسی بیانات تک محدود رکھتی ہے تو بات نہیں ہوگی، حکومت چیئرمین پی ٹی آئی اور سیکریٹری جنرل سے بات چیت کرے۔
اُن کا کہنا تھا کہ مذاکرات صرف سیاسی طور پر دکھاوے کے لیے نہیں ہونے چاہئیں، مذاکرات میں نیک نیتی ہو اور نظر آنا چاہیے کہ حکومت سنجیدہ ہے۔
شبلی فراز نے یہ بھی کہا کہ نظرآنا چاہیے کہ حکومت ملک کو اس بحران سے نکالنے کے لیے سنجیدہ ہے،یہ تاثر دینے کے لیے بات چیت نہیں ہونی چاہیے کہ ہر چیز نارمل ہے۔