خیبرپختونخوا حکومت کے ہیلی کاپٹر کی مرمت میں 37 کروڑ کی مالی بے ضابطگی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
خیبرپختونخوا حکومت کے ہیلی کاپٹر کی مرمت میں 37 کروڑ کی مالی بے ضابطگی WhatsAppFacebookTwitter 0 2 July, 2025 سب نیوز
پشاور(آئی پی ایس) خیبرپختونخوا حکومت کے ہیلی کاپٹر کی مرمت میں مالی بے ضابطگیاں سامنے آگئیں۔ آڈٹ رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ مالی سال 24-2023 کے دوران ہیلی کاپٹر کی مرمت اور اسپیئر پارٹس کی خریداری پر 37 کروڑ روپے خرچ کیے گئے، جن میں ضابطوں کی سنگین خلاف ورزی کی گئی۔
رپورٹ کے مطابق یہ اخراجات اسٹیبلشمنٹ و ایڈمنسٹریشن ڈپارٹمنٹ کے تحت کیے گئے، اور متعلقہ ٹینڈرنگ میں قواعد و ضوابط کی پاسداری نہیں کی گئی۔ آڈٹ حکام نے اس معاملے پر دو مرتبہ محکمے کو وضاحت کے لیے خطوط ارسال کیے، تاہم کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
آڈٹ رپورٹ میں محکمہ کی خاموشی اور غیر شفاف عمل کو سنگین بدانتظامی قرار دیتے ہوئے فوری تحقیقات کی سفارش کی گئی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ معاملہ نیب یا دیگر تحقیقاتی اداروں کو بھیجنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرصدر ایف پی سی سی آئی کی آذربائیجان میں ای سی او بزنس فورم میں شرکت اسلام آباد پولیس کی کامیابی: ثنا یوسف قتل سمیت 15 ہائی پروفائل کیسز ریکارڈ مدت میں ٹریس سوات میں سیاحوں کو بروقت ریسکیو کیوں نہیں کیا گیا؟ پشاور ہائیکورٹ پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارت کا بھیانک چہرہ اور ناپاک عزائم بے نقاب کردیے پاکستان کی چین میں منعقد ہونے والے عالمی پائیدار نقل وحمل سمٹ فورم میں شرکت ٹرمپ کا ثالثی کا دعویٰ بے بنیاد ہے، جنگ بندی میں ان کا کوئی دخل نہیں، جے شنکر کراچی سمیت ملک بھر کے بجلی صارفین کے لیے اچھی خبرCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: ہیلی کاپٹر کی مرمت
پڑھیں:
حکومت تجارتی اہداف کے حصول میں ناکام، وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ سامنے آگئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:وفاقی حکومت مالی سال 2024-25 کے دوران ملکی تجارت کے کلیدی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی۔
وفاقی ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گزشتہ مالی سال کے دوران برآمدات، درآمدات اور تجارتی خسارے سے متعلق وہ اہداف حاصل نہیں کیے، جو حکومت نے سال کے آغاز میں مقرر کیے تھے۔
رپورٹ کے مطابق برآمدات کی مد میں پاکستان مطلوبہ ہدف سے پیچھے رہا جب کہ درآمدات کا حجم بھی سرکاری تخمینے سے کہیں زیادہ رہا۔ اس صورتحال نے تجارتی خسارے کو بھی اس حد سے تجاوز کرنے پر مجبور کر دیا جو حکومت نے سال کے آغاز پر متعین کی تھی۔
مالیاتی تجزیہ کاروں کے مطابق یہ صورتحال نہ صرف حکومتی اقتصادی منصوبہ بندی پر سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی تجارتی حیثیت کے لیے بھی چیلنج بن سکتی ہے۔
ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2024-25 کے اختتام پر پاکستان کی مجموعی برآمدات 32 ارب 10 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز رہیں، جبکہ حکومت نے اس سال کے لیے برآمدات کا ہدف 32 ارب 34 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز مقرر کیا تھا۔ یعنی برآمدات میں معمولی سی کمی دیکھنے میں آئی، لیکن جب اسے مجموعی تجارتی پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ فرق خاصا اہمیت رکھتا ہے۔
اس کے برعکس درآمدات میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ یہ مقررہ تخمینے سے بھی تجاوز کر گئیں۔ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نے مالی سال 2024-25 کے دوران 58 ارب 38 کروڑ ڈالرز کی درآمدات کیں حالانکہ سرکاری ہدف 57 ارب 28 کروڑ 30 لاکھ ڈالرز مقرر تھا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ درآمدی دباؤ کو قابو میں رکھنے کی کوششیں ناکام رہیں۔
تجارتی خسارے کی بات کی جائے تو یہ مسئلہ مزید سنگین نظر آتا ہے۔ رواں سال پاکستان کا تجارتی خسارہ 26 ارب 27 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز تک جا پہنچا، جبکہ حکومت نے اس خسارے کو 24 ارب 94 کروڑ 10 لاکھ ڈالرز تک محدود رکھنے کا ہدف رکھا تھا۔ اس کا مطلب ہے کہ خسارے میں تقریباً ڈیڑھ ارب ڈالرز کا غیر متوقع اضافہ ہوا۔
سالانہ بنیادوں پر اگر اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو برآمدات میں 4.67 فیصد اضافہ ضرور دیکھا گیا، جو ایک مثبت اشارہ ہے، تاہم یہ اضافہ ہدف کے حصول کے لیے ناکافی ثابت ہوا۔ دوسری جانب درآمدات میں 6.57 فیصد اضافہ ہوا، جس نے تجارتی توازن کو مزید بگاڑ دیا۔
ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے درآمدات پر کنٹرول اور برآمدات کو فروغ دینے کی پالیسیاں صرف دستاویزی سطح تک محدود نظر آتی ہیں، جب کہ عملی میدان میں وہ خاطر خواہ نتائج دینے سے قاصر رہی ہیں۔ تجارتی خسارے میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی منڈی میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اتار چڑھاؤ جاری ہے، جس سے درآمدی بل متاثر ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے اقتصادی ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ حکومت کو برآمدات میں اضافے کے لیے صنعتی شعبے کو مراعات دینا ہوں گی، جب کہ درآمدات کے غیر ضروری دباؤ کو کم کرنے کے لیے بہتر پالیسی سازی اور ٹیکنالوجی پر مبنی مانیٹرنگ سسٹم اپنانا ہوگا۔