ماریہ بی نے لاہور میں ہم جنس پرستوں کی خفیہ پارٹی کو بے نقاب کردیا؛ حکومت پر برہم
اشاعت کی تاریخ: 17th, August 2025 GMT
پاکستان کی معروف فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے لاہور میں ہونے والی ایک پرائیویٹ LGBTQ پارٹی کو بے نقاب کر دیا جس کے مناظر دیکھ کر سوشل میڈیا پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔
فیشن ڈیزائنر ماریہ بی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بتایا کہ یہ خفیہ پارٹی لاہور میں ایک پرائیویٹ مقام پر منعقد کی گئی تھی۔
ماریا بی کے بقول اس خفیہ پارٹی میں ٹرانس جینڈرز سمیت اسکول کے بچے بھی شریک تھے۔
انھوں نے مزیدبتایا کہ اسکول کے بچوں نے خود انھیں اس پارٹی کی ویڈیوز اور تصاویر بھیجی ہیں جن میں شرکا کو شیطانی تھیم والے کپڑوں میں دکھایا گیا۔
ماریہ بی نے اس موقع پر فلمساز سرمد کھوسٹ کی فلم Joyland کا بھی ذکر کیا، جس کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ لاہور میں پرائیویٹ اسکریننگ کے ذریعے LGBTQ ایجنڈے کو فروغ دے رہی ہے۔
ڈیزائنر ماریہ بی نے مزید کہا کہ ایک اسرائیلی افسر کی ویڈیو بھی سامنے آئی ہے جس میں پاکستان کو LGBTQ سرگرمیوں پر سے پابندی ہٹانے کے لیے کہا گیا ہے۔
ماریہ بی نے حکومت سے سوال کیا کہ آخر یہ سب کس پالیسی کے تحت ہو رہا ہے؟
ماریہ بی کے اس بیان کو مداحوں اور سوشل میڈیا صارفین کی مکمل حمایت کی۔ جنھوں نے کہا کہ ایسے ’’ایجنڈے‘‘ کو پاکستان میں کسی صورت برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ یہ پہلی بار نہیں جب ماریہ بی نے اس حساس ایشو پر آواز اُٹھائی ہو اس سے قبل بھی وہ متعدد بار اس منظم جرائم کو بے نقاب کرتی آئی ہیں۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
بچوں کے ہاتھوں میں اسمارٹ فون، والدین کو کیا کرنا چاہیے؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 اگست 2025ء) جرمنی میں بچوں کو اوسطاً سات سال کی عمر میں اسمارٹ فون استعمال کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔ یہ بات ڈیجیٹل ایسوسی ایشن بٹ کوم کے ذریعے پیش کیے گئے والدین کے ایک سروے سے سامنے آئی۔ زیادہ تر والدین (38 فیصد) اپنے بچوں کو دس سے بارہ سال کی عمر کے درمیان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر پروفائل بنانے کی اجازت دیتے ہیں، جبکہ 77 فیصد والدین چھوٹے بچوں کے لیے اسے ممنوع سمجھتے ہیں۔
بچوں کو اوسطاً نو سال کی عمر میں اپنا ذاتی اسمارٹ فون دیا جاتا ہے۔بٹ کوم کے منیجنگ ڈائریکٹر بیرن ہارڈ روہلیڈر نے کہا کہ اتنی کم عمر میں اسمارٹ فون کا استعمال حیران کن ہے۔ سروے میں شامل تقریباً تمام والدین (99 فیصد) نے کہا کہ ان کے لیے یہ اہم ہے کہ ان کا بچہ ہر وقت رابطے میں رہے۔
(جاری ہے)
اس مقصد کے لیے بچوں کو اوسطاً گیارہ سال کی عمر میں سمارٹ واچ دی جاتی ہے۔
انڈر 15 بچے: سوشل میڈیا کا استعمال ممنوع، ماکروں کی تجویز
چھ سے نو سال کی عمر کے بچوں کے 94 فیصد والدین اسمارٹ فون کے استعمال کے لیے قوانین بناتے ہیں، جبکہ 13 سے 15 سال کے نوعمر بچوں کے لیے یہ شرح 40 فیصد ہے۔
تاہم والدین کی تقریباً نصف تعداد نے تسلیم کیا کہ ان کا بچہ اکثر طے شدہ وقت سے زیادہ اسمارٹ فون استعمال کرتا ہے۔
روہلیڈر نے والدین کی رول ماڈل کے طور پر اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ والدین کو خود بھی موبائل پر کم وقت صرف کرنا چاہیے۔ سوشل میڈیا: مواقع اور خطراتوالدین سوشل میڈیا کے بارے میں مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ 78 فیصد والدین کا خیال ہے کہ ٹک ٹاک جیسے پلیٹ فارمز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ بچے اپنے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہ سکتے ہیں۔
تاہم 80 فیصد والدین کو خدشہ ہے کہ ان کا بچہ سوشل میڈیا پر 'غلط سلوک‘ کا شکار ہو سکتا ہے اور 53 فیصد نے بتایا کہ ان کے بچوں کے ساتھ یہ واقعہ ہو چکا ہے۔سوشل میڈیا کا بھوت اور بچوں کی ذہنی صحت
ایک تہائی والدین نے کہا کہ ان کے بچے کے ساتھ آن لائن اجنبی بالغ افراد کی طرف سے ''رابطہ کیا گیا یا انہیں ہراساں کیا گیا۔‘‘ روہلیڈر نے ایک اور مطالعے کا حوالہ دیا، جس کے مطابق 16 فیصد بچوں نے خود کو آن لائن بُلنگ کا شکار بتایا، جبکہ سات فیصد نے اجنبیوں کی طرف سے رابطے کی اطلاع دی۔
والدین کی ذمہ داری اور کمزوریاںخدشات کے باوجود صرف 38 فیصد والدین باقاعدگی سے اپنے بچوں سے سوشل میڈیا کے تجربات پر بات کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ تقریباً نصف والدین پلیٹ فارمز کی رازداری کی سیٹنگز کو تبدیل نہیں کرتے حالانکہ یہ تمام پلیٹ فارمز پر ممکن ہے۔ 47 فیصد والدین اپنے بچوں کی تصاویر آن لائن شیئر نہ کرنے پر توجہ دیتے ہیں۔
روہلیڈر نے کہا کہ والدین کے لیے زیادہ فعال کردار ادا کرنے کی گنجائش موجود ہے اور انہیں بچوں سے سوشل میڈیا اور موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے باقاعدگی سے گفتگو کرنی چاہیے۔پاکستان: سولہ برس سے قبل سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کا بل کیا ہے؟
انہوں نے اسکولوں میں ڈیجیٹل خواندگی کی تعلیم کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کی 79 فیصد والدین نے سروے میں حمایت کی۔
ایک چوتھائی والدین خود کو ڈیجیٹل طور پر کم ماہر سمجھتے ہیں، جبکہ 41 فیصد کو سوشل میڈیا سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ''دوسرے خاندان سب کچھ بہتر طریقے سے سنبھالتے ہیں‘‘۔ تاہم 24 فیصد والدین نے آن لائن تربیتی مشورے بھی حاصل کیے ہیں۔سروے میں بٹ کوم نے چھ سے 18 سال کی عمر کے بچوں کے ایک ہزار سے زائد والدین سے ٹیلی فون پر بات کی اور نتائج اخذ کیے۔ادارت: شکور رحیم