بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کو توہین عدالت پر 6 ماہ قیدکی سزسنادی گئی
اشاعت کی تاریخ: 2nd, July 2025 GMT
بنگلادیش کی انٹرنیشنل کرائم ٹریبونل نے سابق وزیر اعظم اور عوامی لیگ کی سربراہ شیخ حسینہ واجد کو توہین عدالت کا مجرم قرار دیتے ہوئے 6 ماہ قید کی سزا سنا دی ہے۔
عدالتی فیصلے کا پس منظر ایک لیک ہونے والی آڈیو ہے، جس میں شیخ حسینہ کو یہ کہتے سنا گیا: “میرے خلاف 227 مقدمے ہیں، اب مجھے 227 لوگوں کو مارنے کا لائسنس مل گیا۔”
عدالت نے اس بیان کو عدالتی وقار میں مداخلت اور توہین عدالت قرار دیتے ہوئے سخت ایکشن لیا۔
عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم چھاترا لیگ کے لیڈر شکیل آکند کو بھی توہین عدالت پر 2 ماہ قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد گزشتہ سال اگست میں طلبہ تحریک کے بعد ملک سے فرار ہوکر بھارت چلی گئی تھیں۔ ان پر انسانیت کے خلاف جرائم سمیت کئی الزامات زیر سماعت ہیں اور وہ بنگلادیشی عدالتوں میں مفرور قرار دی جا چکی ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: توہین عدالت
پڑھیں:
عدالتی احکامات پر بحال ہونے والے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ایچ ای سی کا بدسلوکی کا الزام
عدالت کی جانب سے پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کو ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے پر بحال کرنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔
تاہم 28 جون 2025 کو عدالت کی جانب سے ان کی برطرفی کے حکم کو معطل کیے جانے کے باوجود ڈاکٹر ضیاء کو مبینہ طور پر ایچ ای سی سیکریٹریٹ میں اپنی سرکاری ذمہ داریاں دوبارہ سنبھالنے سے روک دیا گیا۔
آج چیئرمین ایچ ای سی اور دیگر اعلیٰ حکام کو بھیجے گئے ایک سرکاری ای میل میں ڈاکٹر ضیاء نے اطلاع دی کہ 30 جون 2025 کو جب وہ دفتر پہنچے تو قائم مقام ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر مظہر سعید نے ان کے داخلے کو روک دیا اور سیکیورٹی گارڈز نے ایچ ای سی کے عملے کے سامنے ان کے ساتھ مبینہ طور پر بدسلوکی کی۔
ڈاکٹر ضیاء نے کہا یہ نہ صرف عدالت کے احکامات کی واضح خلاف ورزی ہے بلکہ ادارے اور اس کی قانونی حیثیت کی بدترین خلاف ورزی بھی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس واقعے کے ثبوت کے طور پر سی سی ٹی وی فوٹیجز اور میڈیا رپورٹس بھی دستیاب ہیں جو ڈاکٹر مظہر اور دیگر ملازمین کے غیر مناسب رویے کو ثابت کرتی ہیں۔
ڈاکٹر ضیاء نے ان فیصلوں اور منظوریوں پر بھی اعتراض اٹھایا جو ڈاکٹر مظہر نے عدالت کے فیصلے کے بعد دیے اور کہا کہ یہ غیر قانونی ہیں اور آئندہ توہین عدالت کی کارروائی میں عدالت کو رپورٹ کی جائیں گی۔
یہ واقعہ تعلیمی اور انتظامی حلقوں میں شدید تشویش کا باعث بنا ہے اور پاکستان کے سب سے اہم تعلیمی ادارے میں گورنیس، قانون کی بالادستی اور ادارہ جاتی نظم و ضبط کے حوالے سے سنگین سوالات کو جنم دے رہا ہے۔