کراچی: عمارت گرنے کے بعد ریسکیو آپریشن جاری، جاں بحق افراد کی تعداد 17 تک جا پہنچی
اشاعت کی تاریخ: 5th, July 2025 GMT
کراچی: عمارت گرنے کے بعد ریسکیو آپریشن جاری، جاں بحق افراد کی تعداد 17 تک جا پہنچی WhatsAppFacebookTwitter 0 5 July, 2025 سب نیوز
کراچی(آئی پی ایس) لیاری کے علاقے بغدادی میں 5 منزلہ عمارت گرنے کے نتیجے میں 7 خواتین اور ایک بچے سمیت 17 افراد جاں بحق ہوگئے۔
تفصیلات کے مطابق لیاری کے علاقے بغدادی میں گزشتہ صبح 5 منزلہ عمارت گرنے کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا جس کے نتیجے عمارت مکمل طور پر زمین بوس ہوگئی اور قریبی عمارتیں بھی متاثر ہوئیں۔
سول ہسپتال منتقل کی جانے والی لاشوں میں 55 سالہ حور بی بی، 35 سالہ وسیم، 21 سالہ پرانتک ولد ہارسی، 28 سالہ پریم ولد نامعلوم جاں بحق افراد میں شامل ہیں جبکہ فاطمہ زوجہ بابو دوران علاج سول ہسپتال میں دم توڑ گئیں، 25 سالہ خاتون، 30 سالہ مرد اور7 سالہ بچے کی لاش ناقابل شناخت ہے۔
ذرائع کے مطابق رات گئے تک 14 لاشیں نکالی گئیں اور 3 لاشیں آج ملبے سے نکالی گئی ہیں، ایک کے بعد ایک لاش ملنے پرعلاقہ مکین سوگوارہیں، ملبے کے پاس موجود افراد اپنے پیاروں کی خیریت سے متعلق فکرمند ہیں۔
آپریشن انچارج ریسکیو 1122 سندھ کا کہنا ہے کہ امدادی ٹیمیں اور علاقہ مکینوں کی بڑی تعداد ملبہ ہٹانے میں مصروف ہے، ہیوی مشینری کا بھی استعمال کیا جا رہا ہے، ریسکیو کا 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔
ریسکیو حکام کا کہنا ہے کہ ریسکیو کارروائی مکمل کرنے میں مزید کئی گھنٹے لگیں گے، مزید کئی افراد ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے، 15 لاشیں نکال لی گئی ہیں، خواتین سمیت 7 افراد زخمی ہیں ، تاہم موبائل سگنل بند ہونے سے ریسکیو سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔
ریسکیو حکام کا بتانا ہے کہ عمارت میں 6 خاندان رہائش پزید تھے، ہیوی مشینری سے ملبے کو ہٹانے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ گرنے والی عمارت کے ساتھ جڑی 2 اور 7 منزلہ عمارت کو بھی خالی کروالیا گیا ہے۔
گرنے والی عمارت کے ہر فلور پر 3 پورشن بنائے گئے تھے، 3 سال پہلے اس عمارت کو مخدوش قرار دیا گیا تھا مگر نہ مکینوں نے عمارت چھوڑی، نہ انتظامیہ نے ایکشن لیا۔
کمشنر کراچی سید حسن نقوی نے کہا کہ ریسکیو آپریشن مکمل ہونےمیں 24 گھنٹےلگ سکتے ہیں، مخدوش عمارتوں کےمکین خود دوسری جگہ منتقل ہوجائیں، کسی کو زبردستی گھروں سے نہیں نکال سکتے، غیر قانونی تعمیرات پرایس بی سی اے کے ساتھ اجلاس کروں گا۔
ڈپٹی کمشنر ساؤتھ کراچی جاوید کھوسو نے کہاکہ متاثرہ عمارت کے مکینوں کو 2022، 2023 اور 2024میں نوٹس دیے گئے تھے، ٹیم تشکیل دی ہے، 107 میں سے 21 زیادہ خطرناک عمارتیں ہیں، ان 21 عمارتوں میں سے14 کو خالی کراچکے ہیں، لیاری واقعہ پر فوری کسی کو ذمہ دار قرار دینا قبل ازوقت ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرجاپانی بابا وانگا کی پیشگوئی، کیا آج دنیا میں بہت بڑا زلزلہ اور سونامی آنے والے ہیں؟ کیپٹن کرنل شیرخان شہید نشان حیدرکا 26واں یوم شہادت آج نہایت عقیدت سے منایا جارہا ہے لیاری واقعہ: عمارت میں ہر فلور پر کتنے گھر تھے؟ عمارت کی مالکن خاتون کے عزیز نے کیا بتایا؟ پنجاب بھر میں 9 محرم کو سکیورٹی ہائی الرٹ، 1 لاکھ سے زائد اہلکار تعینات راولپنڈی اور اسلام آباد میں موسلا دھار بارش، واسا کی ہنگامی کارروائیاں جاری، رین ایمرجنسی نافذ پاکستان اور امریکا کے درمیان ڈیڈلائن سے ایک ہفتہ قبل تجارتی معاہدے پر مفاہمت طے پاگئی بھارتی فوج کے نائب سربراہ کا پاکستان کی عسکری برتری کا اعترافCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
کراچی میں ایک اور عمارت زمیں بوس، 9اموات،کئی افرادملبے میںدب گئے(صدر اوروزیراعظم کا اظہار افسوس)
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر) لیاری میں بغدادی کے مقام پر جمعہ کی صبح ایک 6 منزلہ رہائشی عمارت گرنے سے بچے سمیت 10 افراد جاں بحق اور 12 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ پولیس نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے تاکہ عمارت گرنے کی وجوہات اور ذمے داران کا تعین کیا جا سکے۔بغدادی پولیس کے مطابق لیاری بغدادی میں عمارت گرنے کے نتیجے میں 9 افراد دب کر جاں بحق اور 4 خواتین سمیت 8 افراد زخمی ہوگئے ۔ملبے سے 3 ماہ کی بچی کو زندہ نکالا گیا تاہم ملبے میں دبے دیگر افراد کو نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔مرنے والوں میں 55 سالہ فاطمہ بی بی زوجہ بابو، 32 سالہ پریم، 35 سالہ وسیم ولد بابو، 55 سالہ حور بائی زوجہ کشور، 21 سالہ پرانتک ولد آرسی، 55 سالہ احمد خان، 25 سالہ علی رضا،25 سالہ زینب بی بی اور7سالہ ایک نامعلوم بچہ شامل ہیں جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 9 ہو گئی، تمام لاشیں سول اسپتال منتقل کر دی گئیں جبکہ نامعلوم افراد کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ زخمیوں میں 30 سالہ اسلم محمود، 35 سالہ نسرین بانو، 18 سالہ سلیم اختر، 25 سالہ راشد ولد عزیز، 45 سالہ یوسف ولد سبحان، 35 سالہ سنیتہ زوجہ چینن، 50 سالہ فاطمہ زوجہ بابو اور 35 سالہ چندہ زوجہ جمعہ شامل ہیں جنہیں سول اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔واقعے کی اطلاع ملتے ہی ریسکیو حکام اور الخدمت سمیت متعدد امدادی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔ تاہم، تنگ گلیوں اور موبائل سگنلز کی بندش کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ ترجمان ریسکیو 1122 حسان الحسیب کا کہنا ہے کہ لیاری میں عمارت گرنے کے واقعے کی اطلاع “جیمرز” کی وجہ سے دیر سے ملی کیونکہ سیکورٹی وجوہات کی بنا پر علاقے میں موبائل فون سگنلز بند تھے۔ترجمان 1122 کا مزید کہنا تھا کہ عمارت گرنے کے 15 منٹ کے اندر ریسکیو ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں اور 100 سے زاید ریسکیو اہلکار امدادی کارروائیوں میں مصروف رہے۔ حسان الحسیب نے کہا کہ بھاری مشینری کے لیے انتظامیہ اور پی ڈی ایم اے سے رابطہ کیا گیا، تاہم صرف ایک یا 2 مشینری ہی جائے وقوع پر پہنچ سکی۔ ہیوی مشینری کو جائے وقوع تک پہنچنے میں تاخیر ہوئی جس کے باعث ابتدائی طور پر مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ریسکیو حکام نے بتایا کہ عمارت میں 6 خاندان رہائش پذیر تھے اور ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے ہیوی مشینری کی مدد سے ملبہ ہٹانے کا کام جاری ہے۔ تاہم، علاقہ مکینوں کے مطابق متاثرہ عمارت میں 12 خاندان رہائش پذیر تھے۔ حفاظتی اقدام کے طور پر گرنے والی عمارت کے ساتھ جڑی 2 اور 7 منزلہ عمارتوں کو بھی خالی کرا لیا گیا ہے اور بجلی اور گیس کی لائنیں منقطع کر دی گئی ہیں۔ حسان الحسیب نے مزید بتایا کہ جائے وقوع پر اطراف کی عمارتوں کو بھی خالی کرا لیا گیا ہے۔پولیس حکام نے جائے وقوع کا دورہ کیا ہے اور ابتدائی بیانات ریکارڈ کیے ہیں۔ ریسکیو حکام کے مطابق، عمارت مکمل طور پر زمین بوس ہو گئی تھی اور ملبے تلے مزید 25 سے 30 افراد کے دبے ہونے کا خدشہ ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ عمارت پرانی اور خستہ حال تھی، تاہم اس کی تعمیراتی تفصیلات اور متعلقہ سرکاری محکموں کی جانب سے جاری کردہ اجازت ناموں کی جانچ پڑتال کی جا رہی ہے۔پولیس عمارت کے اصل نقشے، اس کی تعمیر کے وقت استعمال ہونے والے مواد کے معیار اور اس کی تعمیر میں کسی قسم کی خامی تھی، کی تحقیقات کر رہی ہے۔ عمارت کے مالک کی شناخت کر لی گئی ہے اور ان سے پوچھ گچھ کی جائے گی کہ کیا عمارت کی باقاعدہ دیکھ بھال کی جا رہی تھی یا اس میں کوئی غیر قانونی تبدیلی کی گئی تھی۔ اس بات کی بھی جانچ کی جائے گی کہ کیا بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی یا دیگر متعلقہ سرکاری محکموں نے عمارت کی خستہ حالی کے حوالے سے کوئی نوٹس جاری کیا تھا یا نہیں اور اگر کیا تھا تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہوا۔ پولیس عینی شاہدین کے بیانات بھی ریکارڈ کر رہی ہے جو عمارت کے گرنے کے وقت موجود تھے تاکہ واقعے کے حالات کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے۔پولیس کا کہنا ہے کہ تحقیقات مکمل ہونے کے بعد ذمے داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔ علاقے میں سوگ کا سماں ہے اور مزید اموات کے خدشے کے پیش نظر مقامی آبادی میں شدید تشویش پائی جاتی ہے۔دریں اثنا صدر پاکستان آصف علی زرداری ، وزیر اعظم محمد شہباز شریف ،وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف علی خورشیدی ،جی ڈی اے کے اطلاعات سیکرٹری سردار عبدالرحیم ،جامعہ بنوریہ عالمیہ کے مہتمم اور معروف مذہبی اسکالر ڈاکٹر مفتی نعمان نعیم،سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے صدر اور دریائے سندھ بچاؤ تحریک کے کنوینر سید زین شاہ نے لیاری میں رہائشی عمارت کے گرنے پر گہرے تشویش اور حادثے میں جانی و مالی نقصان پر دکھ اور افسوس کا اظہارکیا ہے ۔صدر مملکت نے حادثے کی وجوہات کا فوری تعین کرنے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچاؤ کے لیے مؤثر اقدامات کی ہدایت بھی کی ۔وزیر اعظم نے حادثے میں زخمی ہونے والوں کو ہر ممکن طبی سہولیات فراہم کرنے اورعمارت کے ملبے تلے دبے افراد کو بچانے کے حوالے سے ریسکیو آپریشن تیز کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ مستقبل میں ایسے حادثات سے بچائو کے لیے ترجیحی بنیادوں پر حکمت عملی مرتب کی جائے۔عمارت زمین بوس