واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 جولائی ۔2025 ) ٹرمپ انتظامیہ نے شام کی حکمران جنگجوتنظیم تحریر الشام کی دہشت گرد تنظیم کی حیثیت ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا نفاذ آج سے ہو گا وزیر خارجہ مارکو روبیو کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ نئے شامی صدر احمد الشرع کی قیادت میں حکومت کی مثبت کارروائیوں کو تسلیم کرتا ہے.

(جاری ہے)

نشریاتی ادارے کے مطابق یہ اقدام سابق صدر بشار الاسد کی گذشتہ سال کے آخر میں برطرفی کے بعد قائم ہونے والی شام کی عبوری حکومت سے وسیع تر امریکی روابط کا حصہ ہے وزیرخارجہ کے بیان کے بعدوفاقی رجسٹر میں ایک پیشگی نوٹس شائع ہوا جس میں کہا گیا کہ روبیو نے یہ فیصلہ 23 جون کو اٹارنی جنرل اور وزیر خزانہ سے مشاورت کے بعد کیا گیا . اس فیصلے کا پہلے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا تھا اگرچہ یہ اس وقت کیا گیا جب ٹرمپ انتظامیہ اسد کے دورِ حکومت میں عائد کی گئی متعدد امریکی پابندیوں کو نرم کرنے یا ختم کرنے کی جانب بڑھ رہی تھی جس کا اعلان صدر ٹرمپ نے اپنے سعودی عرب کے دورے کے دوران احمد الشرع سے ملاقات کے موقع پر کیا تھا.

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام شام کی عالمی تنہائی کو مزید ختم کرنے کی کوشش ہے جو اس وقت سے جاری ہے جب ایک تیز رفتار باغی حملے نے اسد خاندان کو کئی دہائیوں کی حکمرانی سے بے دخل کر دیا اور اب نئی حکومت ملک کو 13 سالہ خانہ جنگی کی تباہ کاریوں سے دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی ہے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاﺅس میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات سے قبل ایک بار پھر کہا کہ انہیں پہلے ہی بتایا گیا تھا کہ شام کا نیا رہنما ”انتہائی سخت پس منظر“ سے تعلق رکھتا ہے.

ٹرمپ نے کہاکہ میں نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے مجھے اس پر حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہ دنیا کا سخت خطہ ہے لیکن میں ان سے بہت متاثر ہوا لیکن ہم نے پابندیاں اس لیے ہٹائیں کیوں کہ ہم انہیں ایک موقع دینا چاہتے ہیں مختصر نوٹس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ النصرہ فرنٹ جسے اب تحریر الشام کہا جاتا ہے کو دہشت گرد تنظیم کے درجے سے کیسے اور کن وجوہات کی بنا پر ہٹایا گیا.

النصرہ فرنٹ کو اس کی القاعدہ اور داعش سے سابقہ وابستگی کی بنیاد پر دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا 2017 میں، اس نے القاعدہ اور داعش سے تعلق ختم کر کے اپنا نام تحریر الشام رکھ لیا اور پہلی ٹرمپ انتظامیہ نے اس نئے نام کو بھی دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا تھا. سابق شامی صدربشار الاسد کے دسمبر میں عہدہ چھوڑکر روس روانگی کے بعد الشرع کے گروہ کی قیادت میں باغیوں کی پیش قدمی کے بعد شام نے امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے شروع کر دیے ہیں جس میں سعودی عرب‘ترکی ‘متحدہ عرب امارات اور مصر سمیت خطے کے دیگر ممالک نے نمایاں کردار اداکیا .

صدر ٹرمپ کے دورہ ریاض کے موقع پرولی عہدپرنس محمد بن سلمان نے احمد الشرع اور صدر ٹرمپ کی ملاقات کا اہتمام کیا تھا اس موقع پر خطاب میں ٹرمپ نے شام پر عائدپابندیاں نرم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تھا کہ سعودی ولی عہدنے ان سے خصوصی طور پر پابندیاں نرم کرنے کی سفارش کی تھی بعدازاں23 جون کو روبیو کے دستخط کے سات دن بعد 30 جون کو ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے جس کے تحت شام پر عائد کئی امریکی اقتصادی پابندیاں ختم کر دی گئیں.

مارکوروبیو نے اپنے بیان میں کہا کہ یہ دہشت گرد تنظیم کی درجہ بندی کا خاتمہ صدر ٹرمپ کے ایک مستحکم، متحد اور پرامن شام کے وژن کو عملی جامہ پہنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے بھی شام میں قیادت کی تبدیلی کو استحکام، سکیورٹی اور بالآخر امن کے لیے ایک موقع قرار دیا انہوں نے کہا کہ تنازع کی طرف واپس جانے سے بہت کچھ کھویا جا سکتا ہے اور امن کی طرف بڑھنے سے بہت کچھ حاصل ہو سکتا ہے.

ٹرمپ کے ایگزیکٹو آرڈر سے وہ پابندیاں ختم نہیں ہوئیں جو بشار الاسد ان کے قریبی ساتھیوں، اہل خانہ اور ان افراد پر عائد تھیں جن پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، منشیات کی سمگلنگ یا کیمیائی ہتھیاروں کے پروگرام میں ملوث ہونے کا الزام تھا اسی طرح وہ اہم امریکی پابندیاں بھی برقرار رہیں جو کانگریس نے منظور کی تھیں اور جو کسی کو بھی شام کی فوج، انٹیلی جنس یا دیگر مشکوک اداروں کے ساتھ کاروبار یا معاونت سے روکتی ہیں اگرچہ ٹرمپ انتظامیہ نے ان پابندیوں جنہیں سیزر ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے پر عارضی استثنیٰ دیا ہے لیکن انہیں مستقل طور پر ختم کرنے کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہے. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ٹرمپ انتظامیہ تحریر الشام کا اعلان میں کہا کرنے کی کے بعد کہا کہ شام کی

پڑھیں:

یورپی ملک لکسمبرگ کا بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان

ایک اور یورپی ملک لکسمبرگ نے اعلان کیا ہے کہ اقوام متحدہ کے ہونے والے اجلاس میں وہ بھی دیگر ممالک کی طرح فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلے گا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس بات کا اعلان لکسمبرگ کے وزیراعظم لُک فریڈن نے اپنے بیان میں کیا۔

انھوں نے کہا کہ غزہ میں حالیہ مہینوں کے دوران حالات شدید بگڑ چکے ہیں، قحط، نسل کشی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں دیکھنے کو ملیں۔

لکسمبرگ کے وزیراعظم نے مزید کہا کہ ان حالات میں یورپی ممالک کے پاس فوری اور پائیدار امن کے لیے دو ریاستی حل کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔

انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں فلسطین کے دو ریاستی کے حل کے لیے سرگرمیاں تیزی سے بڑھ گئی ہیں۔

وزیراعظم لُک فریڈن نے مزید کہا کہ ہم بھی دیگر یورپی ممالک کی طرح 23 ستمبر کو ہونے والے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں فلسطین کو تسلیم کرنے والوں میں شامل ہوں گے۔

یاد رہے کہ اس سے پہلے فرانس، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، بیلجیئم اور مالٹا بھی یہی اعلان کر چکے ہیں جب کہ پرتگال کی حکومت بھی اس پر غور کر رہی ہے۔

آئندہ اجلاس میں مزید 17 ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کا فیصلہ کرسکتے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیرِاعظم نیتن یاہو کی انتہاپسند حکومت نے دھمکی دی کہ اگر ایسا ہوا تو وہ مغربی کنارے کے بیشتر علاقوں کو ضم کر لے گی۔

Post Views: 2

متعلقہ مضامین

  • نادرا نے کراچی میں تین نئے میگا سینٹرز کھولنے کا اعلان کردیا
  • ٹرمپ نے بھارت کو منشیات کی پیداواروالےممالک میں شامل کرلیا
  • امریکا اور برطانیہ کے درمیان ٹیکنالوجی میں نئی شراکت داری، 250 ارب پاؤنڈ کی سرمایہ کاری کا اعلان
  • سعودی عرب کا لکسمبرگ کے ریاستِ فلسطین تسلیم کرنے کے اعلان کا خیرمقدم
  • ایجادات کرنے والے ممالک کی فہرست جاری، جانئے پاکستان کا کونسا نمبر ہے؟
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کا اعلان
  • یورپی ملک لکسمبرگ کا بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • لکسمبرگ کا فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • ٹرمپ کا نیویارک ٹائمز پر15 ارب ڈالر کا ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان
  • میمفس میں نیشنل گارڈ بھیجنے کا اعلان، ٹرمپ نے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کر دیے