Daily Sub News:
2025-08-07@09:13:50 GMT

اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو

اشاعت کی تاریخ: 7th, August 2025 GMT

اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو

اوورسیز پاکستانی: قوم کے گمنام ہیرو WhatsAppFacebookTwitter 0 7 August, 2025 سب نیوز

تحریر: محمد محسن اقبال

1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے وطنِ عزیز کے وہ بیٹے اور بیٹیاں جو دیارِ غیر میں آباد ہوئے، اپنے ملک کے ساتھ گہری وابستگی برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا کے مختلف براعظموں میں پھیلے ہوئے یہ اوورسیز پاکستانی صرف زرمبادلہ بھیجنے کے ذریعے ہی نہیں، بلکہ فلاحی کاموں، قومی تشخص کو اجاگر کرنے، سفارتی مہمات اور بحرانوں کے دوران مدد فراہم کرنے جیسے اہم شعبوں میں پاکستان کی ترقی اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی کہانی محض بیرونِ ملک ہجرت کی نہیں، بلکہ مستقل خدمات، غیر متزلزل وفاداری اور گہری حب الوطنی کی کہانی ہے۔


1970 کی دہائی میں پاکستان میں خلیجی ممالک کی طرف ہجرت کا ایک نیا باب شروع ہوا۔ خاص طور پر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت، قطر، عمان اور بحرین میں پاکستانی مزدوروں کی بڑی تعداد میں آمد ہوئی۔ زیادہ تر غیر ہنر مند یا نیم ہنر مند افراد نے خلیجی شہروں کی تعمیر میں حصہ لیا اور ساتھ ہی پاکستان میں زرمبادلہ بھیجنے کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا۔ 1974 میں یہ ترسیلات تقریباً 143 ملین ڈالر تھیں، جو بعد ازاں تیزی سے بڑھیں اور پاکستان کے تجارتی خسارے کو کم کرنے میں بنیادی کردار ادا کرنے لگیں۔


1980 کی دہائی میں یہ رجحان مزید گہرا ہوا۔ خلیج میں پاکستانی کارکنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور زرمبادلہ کی آمدن دو ارب ڈالر سالانہ سے تجاوز کر گئی۔ مشرق وسطیٰ کے ساتھ ساتھ یورپ کی طرف ہجرت میں بھی اضافہ ہوا۔ برطانیہ، ناروے، جرمنی، فرانس، اور اٹلی میں پاکستانی برادریاں منظم ہونے لگیں اور وہاں دوسری (اگلی) نسل کے پاکستانیوں نے جنم لیا۔ صرف برطانیہ میں پاکستانی کمیونٹی ایک بڑی نسلی اقلیت بن چکی تھی۔ انہوں نے نہ صرف ترسیلات بھیجیں بلکہ اپنے آبائی علاقوں میں اسکول، مساجد، اور دیگر فلاحی منصوبے بھی شروع کیے۔


1990 کی دہائی میں یہ سلسلہ مزید متنوع ہو گیا۔ خلیج کے ساتھ ساتھ شمالی امریکہ اور کینیڈا کی جانب بھی پاکستانیوں کی ہجرت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ تعلیم یافتہ پیشہ ور افراد، آئی ٹی ماہرین، ڈاکٹرز، اور انجینئرز امریکہ اور کینیڈا میں آباد ہونے لگے۔ اس دہائی کے اختتام تک سالانہ ترسیلات کا حجم 1.

2 ارب ڈالر تک پہنچا، اگرچہ اس میں غیر رسمی ذرائع جیسے حوالہ اور ہنڈی کے باعث کمی رہی۔ اوورسیز پاکستانی پاکستان کی سیاست، میڈیا اور عوامی حقوق کے فروغ میں بھی سرگرم ہونے لگے۔


2000 کی دہائی میں مالیاتی نظام میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔نائن الیون کے بعد سخت بینکاری ضوابط کے تحت زیادہ تر ترسیلات رسمی بینکاری ذرائع سے پاکستان آنے لگیں۔ 2010 تک سالانہ ترسیلات 8 ارب ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ خلیج، برطانیہ، امریکہ، اور کینیڈا میں پاکستانی برادری نہ صرف تعداد میں بڑھی بلکہ بااثر بھی ہو گئی۔ اسی دوران بیرونِ ملک پاکستانیوں نے فلاحی تنظیموں کے ذریعے زلزلہ 2005 اور سیلاب 2010 کے متاثرین کے لیے بھرپور امداد فراہم کی۔ انہوں نے اسپتال، اسکول، سڑکیں بنائیں اور ہنگامی ریلیف میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔


2010 کی دہائی اور اس کے بعد کا دور اوورسیز پاکستانیوں کے کردار کے اعتبار سے سنہری دور بن گیا۔ دسمبر 2017 میں وزارتِ اوورسیز پاکستانیز کے مطابق دنیا بھر میں 88 لاکھ پاکستانی مقیم تھے، جبکہ 2023 میں وزارتِ امیگریشن اور اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق 1990 کے بعد 1 کروڑ 80 لاکھ سے زائد پاکستانی بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان دنیا کے ان چھ ممالک میں شامل ہے جن کا سب سے بڑا ڈائیسپورا موجود ہے۔ 2021 کے مطابق 47 لاکھ سے زائد پاکستانی مشرق وسطیٰ، 16 لاکھ برطانیہ، جبکہ امریکہ، کینیڈا، اور یورپ میں لاکھوں کی تعداد میں آباد ہیں۔


2022 میں پاکستان نے 31 ارب ڈالر کی ریکارڈ ترسیلات وصول کیں، جو عالمی سطح پر پاکستان کو ترسیلات کے بڑے وصول کنندگان میں شامل کرتی ہے۔ سعودی عرب سے 8 ارب ڈالر، یو اے ای سے 6 ارب ڈالر، برطانیہ سے 4.5 ارب ڈالر، اور امریکہ سے 3 ارب ڈالر کی ترسیلات موصول ہوئیں۔ آج 90 لاکھ سے زائد پاکستانی دنیا بھر میں آباد ہیں جن میں سے 26 لاکھ سعودی عرب، 15 لاکھ یو اے ای، 15 لاکھ برطانیہ، 12 لاکھ امریکہ، 3 لاکھ کینیڈا، 2 لاکھ اٹلی اور دیگر ہزاروں افراد فرانس، جرمنی، ناروے، اسپین، یونان، آسٹریلیا، ملائیشیا، اور جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔
ترسیلات کے علاوہ اوورسیز پاکستانیوں نے فلاحی میدان میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ سیلاب 2010 و 2022، کورونا وبا اور دیگر قومی بحرانوں میں انہوں نے دل کھول کر امداد دی۔ کئی صاحبِ حیثیت افراد نے پاکستان کا بیرونی قرض اتارنے میں مدد فراہم کی۔ شوکت خانم اسپتال، ایدھی فاؤنڈیشن، انڈس اسپتال، اور کئی یتیم خانے اور اسکول ان کی سخاوت کے گواہ ہیں۔


اسی طرح بیرونِ ملک پاکستان کے سافٹ امیج کو اجاگر کرنے میں بھی ان کا کردار لائقِ تحسین ہے۔ پروفیشنلز، تعلیمی ماہرین، اور بزنس مین دنیا بھر میں پاکستان کے نمائندے بنے۔ سلیکون ویلی سے لے کر برطانوی پارلیمنٹ، کینیڈین تھنک ٹینکس سے لے کر یورپی فلاحی اداروں تک، پاکستانیوں نے اپنی قابلیت اور وقار سے پاکستان کا نام روشن کیا۔


برطانیہ میں ایک درجن سے زائد برٹش پاکستانی رکنِ پارلیمنٹ رہ چکے ہیں جن میں ساجد جاوید، صادق خان، یاسمین قریشی اور عمران حسین جیسے نام شامل ہیں۔ کینیڈا میں کئی پاکستانی نژاد افراد وفاقی اور صوبائی سطح پر منتخب ہوئے، جب کہ ناروے میں عابد راجہ جیسے سیاستدان وزیر کے منصب تک پہنچے۔ یہ کامیابیاں پاکستانی اقدار، نظم و ضبط اور خدمتِ خلق کی عکاس ہیں۔


تاہم، ان تمام خدمات کے باوجود اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان میں پالیسی سازی میں مناسب نمائندگی حاصل نہیں۔ وہ طویل عرصے سے ووٹنگ کے حق، سرمایہ کاری میں سہولت، اور حکومتی سرپرستی کے خواہاں ہیں۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اقدامات کیے گئے، مگر ایک جامع اور ادارہ جاتی ڈائیسپورا پالیسی کی اشد ضرورت ہے تاکہ ان کے ماضی کے کردار کو تسلیم کرتے ہوئے ان کے مستقبل کے ممکنہ کردار سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔


آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اوورسیز پاکستانی محض زرمبادلہ بھیجنے والے نہیں، بلکہ پاکستان کی معیشت کے خاموش معمار، اس کے اداروں کے بے آواز محسن، اور اس کی کامیابیوں اور سانحات کے گمنام ہیرو ہیں۔ ان کا کردار، جو کہ مخلص، مستقل اور بے لوث ہے، نہ صرف تسلیم کیا جانا چاہیے بلکہ اس کو ایک ادارہ جاتی حیثیت دی جانی چاہیے، کیونکہ کوئی بھی قوم اپنے ان فرزندوں کو نظر انداز نہیں کر سکتی جو دنیا بھر میں پھیلے ہونے کے باوجود دل سے اپنے وطن کے لیے دعا گو، کوشاں اور پرامید رہتے ہیں۔


روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرویسٹ انڈیز کا پاکستان کیخلاف ون ڈے سیریز کیلئے 15 رکنی سکواڈ کا اعلان اسلام میں عورت کا مقام- غلط فہمیوں کا ازالہ حقائق کی روشنی میں حرام جانوروں اور مردار مرغیوں کا گوشت بیچنے اور کھانے والے مسلمان “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” بوسنیا، غزہ، اور ضمیر کی موت “کلاؤڈ برسٹ کوئی آسمانی آفت یا ماحولیاتی انتباہ” آبادی اور ماحولیاتی آلودگی TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: اوورسیز پاکستانی

پڑھیں:

شان پین...ہالی ووڈ کا غیر روایتی ہیرو

ہالی ووڈ کی چمکتی دمکتی دنیا میں جہاں شہرت، دولت اور شوبز کی رنگینیوں کے قصے عام ہیں، وہاں کچھ شخصیات ایسی بھی ہوتی ہیں جو صرف اداکاری کی مہارت کے باعث نہیں، بلکہ اپنے نظریات، طرزِ زندگی اور بے باک رویے کی وجہ سے ایک علیحدہ پہچان رکھتی ہیں۔

شان پین ان ہی نادر شخصیات میں شمار ہوتے ہیں، ایک ایسا فنکار جس نے صرف کردار نبھانے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ حقیقی دنیا کے درست کرداروں کے حق میں بھی آواز بلند کی، انہوں نے سماجی ناانصافیوں پر کْھل کر بات کی اور انسانی حقوق کے لیے میدانِ عمل میں بھی اْترے۔ دو بار آسکر ایوارڈ جیتنے والے اس غیر روایتی اداکار کی فلمی دنیا میں انفرادیت ان کے جذباتی، سنجیدہ اور چبھتے ہوئے کرداروں کی مرہونِ منت ہے، لیکن شان پین کی اصل پہچان ان کی وہ شخصیت ہے جو اسکرین سے ہٹ کر بھی اتنی ہی بھرپور اور متحرک ہے۔

وہ ایک ایسے فنکار ہیں جنہوں نے اپنی اداکاری، ہدایت کاری اور سماجی سرگرمیوں کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی شناخت بنائی۔ ان کی فلمیں، جیسے کہ River Mystic، Milk، اور Into the Wild، ان کی گہری فنکارانہ بصیرت کا ثبوت ہیں، جبکہ ان کی سیاسی سرگرمیاں ان کے بہادرانہ اور غیر متزلزل کردار کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہیں، چاہے اس کی قیمت تنقید یا تنازعات کی صورت میں ہی کیوں نہ ادا کرنی پڑے۔

شان جسٹن پین 17 اگست 1960 کو کیلیفورنیا (امریکا)کے شہر سانتا مونیکا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد لیو پین ایک اداکار اور ہدایت کار تھے، جبکہ ان کی والدہ ایلین ریان ایک معروف اداکارہ تھیں۔ شان کے والد یہودی پس منظر سے تعلق رکھتے تھے، جن کے آباؤ اجداد روس سے ہجرت کرکے امریکہ آئے تھے، جبکہ ان کی والدہ کیتھولک تھیں، جن کا نسب اطالوی اور آئرش تھا۔ شان کے دو بھائی تھے، پہلے مائیکل پین، جو ایک موسیقار ہیں اور کرس پین، جو ایک اداکار تھے اور 2006ء میں انتقال کر گئے۔

شان کی پرورش ایک سیکولر گھرانے میں ہوئی۔ شان نے اپنی تعلیم سانتا مونیکا ہائی اسکول سے حاصل کی، بچپن سے ہی وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر سپر8 فلمز بناتے تھے، جو ان کے فنکارانہ رجحان کی ابتدائی جھلک تھی۔ اسکول کے بعد، انہوں نے لاس اینجلس کے گروپ رپریٹری تھیٹر میں کام شروع کیا، جہاں وہ اسسٹنٹ اور رنر کے طور پر خدمات انجام دیتے تھے۔ اس دوران انہوں نے اداکاری کی تربیت بھی حاصل کی، جو ان کے مستقبل کے کیریئر کی بنیاد بنی۔

شان پین نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز 1981 میں فلم Taps سے کیا، جس میں انہوں نے ایک فوجی کیڈٹ کا کردار ادا کیا، تاہم انہیں اصل شہرت 1982ء کی کامیڈی فلم Fast Times at Ridgemont High میں جیف اسپکولی کے کردار سے ملی، جو ایک سست روی سے چلنے والا لڑکا تھا۔ اس کردار نے انہیں ہالی ووڈ میں ایک ابھرتے ہوئے ستارے کے طور پر متعارف کرایا۔ 1980 کی دہائی میں انہوں نے Bad Boys، The Falcon and the Snowman اور At Close Range جیسی فلموں میں متنوع کردار ادا کرکے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔

ان فلموں میں ان کی شدید اور جذباتی اداکاری نے ناقدین کی توجہ حاصل کی، حالانکہ کچھ فلموں کو تنقیدی کامیابی نہیں ملی۔ 1980 کی دہائی کے آخر تک، شان پین نے اپنی ساکھ ایک "بیڈ بوائے" اداکار کے طور پر بنائی، جو اپنے کرداروں کے لیے مکمل لگن اور جذبے سے کام کرتے تھے۔

1990 کی دہائی میں شان پین نے اپنی اداکاری کو ایک نئے عروج پر پہنچایا۔ انہوں نے Way Carlito's میں ایک کرپٹ وکیل ڈیوڈ کلین فیلڈ کا کردار ادا کیا، جو ناقدین کے نزدیک ان کی بہترین پرفارمنسز میں سے ایک تھا۔ اسی طرح Dead Man Walking میں ایک قاتل کی سزائے موت سے متعلق ان کی اداکاری نے انہیں پہلی بار اکیڈمی ایوارڈ کے لیے نامزد کیا۔

فلم کے ناقد راجر ایبرٹ نے لکھا کہ "شان پین نے ایک بار پھر ثابت کیا کہ وہ اپنی نسل کے سب سے طاقتور اداکار ہیں۔" 2003ء میں ریلیز ہونے والی فلم Mystic River میں ایک غمگین باپ اور 2008ء کی فلم Milk میں ہم جنس پرست حقوق کے کارکن ہاروی ملک کے کردار کے لیے اداکار کو دو اکیڈمی ایوارڈز سے نوازا گیا اور اس چیز نے انہیں اپنے کیریئر کے عروج پر پہنچا دیا۔

شان پین نے نہ صرف اداکاری بلکہ ہدایت کاری اور پروڈکشن میں بھی اپنا نام بنایا۔ ان کی پہلی ہدایت کردہ فلمThe Indian Runner(1991) تھی، جو دو بھائیوں کے متضاد نظریات کی کہانی تھی۔Into the Wild ان کی سب سے کامیاب ہدایت کردہ فلم تھی، جس میں انہوں نے کرسٹوفر میک کینڈلیس کی سچی کہانی کو پیش کیا، جو ایک نوجوان تھا جس نے مادی زندگی ترک کرکے الاسکا کے جنگلوں میں زندگی بسر کی۔

اس فلم کو ناقدین اور ناظرین نے بے حد سراہا، اور اسے شان کی ہدایت کاری میں ایک سنگ میل سمجھا جاتا ہے۔ 2023 میں شان نے اپنی پہلی دستاویزی فلم Superpower کی ہدایت کاری کی، جو یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اور روس-یوکرین جنگ پر مبنی تھی۔ اس فلم کا پریمیئر برلن انٹرنیشنل فلم فیسٹیول میں ہوا اور اس نے شان کی سماجی مسائل پر گہری نظر کو ظاہر کیا۔

شان پین کی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں ہیں۔ وہ ہمیشہ سے جنگ مخالف اور انسانی حقوق کے حامی رہے ہیں۔ 2002ء میں انہوں نے دی واشنگٹن پوسٹ میں ایک کھلا خط شائع کیا، جس میں انہوں نے صدر جارج ڈبلیو بش سے عراق پر حملے روکنے کی اپیل کی۔ اس خط میں انہوں نے بش انتظامیہ کی سوچ کی مذمت کی۔ اس اقدام نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن ان کی سابقہ اہلیہ میڈونا نے ان کی حمایت کی اور کہا کہ "شان ان چند لوگوں میں سے ایک ہے جو سچ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں۔" شان نے 2005 میں ہریکین کیٹرینا اور 2010 میں ہیٹی کے زلزلے کے بعد امدادی سرگرمیوں میں فعال حصہ لیا۔ انہوں نے ہیٹی میں ایک امدادی تنظیم قائم کی، جو زلزلے کے متاثرین کے لیے امداد فراہم کرتی ہے۔ ان کی یہ کاوشیں ان کی انسان دوستی کے عزم کو ظاہر کرتی ہیں، تاہم، شان کی سیاسی سرگرمیاں ہمیشہ تنازعات کا باعث بنیں۔ ان کی وینزویلا کے صدر ہیوگو شاویز اور کیوبا کے رہنما راؤل کاسترو سے دوستی کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، کیونکہ ان دونوں رہنماؤں پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات تھے۔

شان پین کی ذاتی زندگی ہمیشہ میڈیا کی توجہ کا مرکز رہی ہے۔ ان کی شادی 1985ء سے 1989ء تک پاپ سٹار میڈونا سے رہی، جو ایک طوفانی رشتہ تھا۔

میڈیا نے ان پر تشدد اور بدسلوکی کے الزامات لگائے، لیکن میڈونا نے 2015 میں ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ "شان نے کبھی مجھ پر ہاتھ نہیں اٹھایا، اور اس کے برعکس کوئی بھی دعویٰ جھوٹا اور بدنیتی پر مبنی ہے۔" 1996 میں شان نے اداکارہ روبن رائٹ سے شادی کی، جن سے ان کے دو بچے ہیں: ڈیلن فرانسس (1991) اور ہوپر جیک (1993)۔ یہ شادی 2010 میں طلاق پر ختم ہوئی، اور روبن نے بھی شان کے پرتشدد رویے کا حوالہ دیا۔

اس کے بعد شان کے تعلقات اداکارہ سکارلیٹ جوہانسن، شارلیز تھیرون، اور لیلا جارج سے رہے، جن سے انہوں نے 2020 میں شادی کی لیکن 2021 میں طلاق ہوگئی۔ شان کی ساکھ ایک باغی اور جذباتی شخص کی رہی ہے۔ 1987 میں انہیں ایک فوٹوگرافر پر حملہ کرنے کے جرم میں 33 دن جیل میں گزارنا پڑے۔ شان پین نے اداکاری اور ہدایت کاری کے علاوہ ادب میں بھی قدم رکھا۔ 2018 میں انہوں نے اپنا پہلا ناول  Bob Honey Who Just Do Stuffشائع کیا، جو ایک طنزیہ کہانی تھی۔  

شان پین کا نصف صدی پر محیط فنی کیرئیر اور اعزازات

معروف امریکی اداکار شان پین کے فنی کیرئیر کی بات کریں تو وہ نصف صدی سے زائد پر محیط ہے۔انہوں نے اپنے کیرئیر کا آغاز 1974ء میں ایک ٹیلی ویژن سیریز Little House on the Prairie سے کیا، جس میں ان کا کردار نامعلوم یعنی ایک ایکسڑا مین کے طور پر تھا۔ فلم انڈسٹری میں ان کی انٹری 1981ء میں Taps سے ہوئی، جس کے بعد اگلے ہی برس انہوں نے دوفلموں یعنی The Beaver Kid 2 اورFast Times at Ridgemont High میں کام کیا۔

اداکارہ نے Bad Boys، The Thin Red Line، Carlito’s Way، The Game، State of Grace،Mystic River، Dead Man Walking،21 Grams،I Am Sam، Milk، Flag Day، Gonzo Girl اور One Battle After Another سمیت 68 فلموں میں اپنے صلاحیتوں کے جوہر دکھلائے۔ فلم کے ساتھ شان نے چھوٹی سکرین کو پوری اہمیت دی، انہوں نے 15 سے زائد ٹیلی ویژن ڈراموں اور پروگرامز میں کام کیا۔ فلم اور ٹیلی ویژن کے ساتھ اداکاری میں منفرد انداز رکھنے والے اداکار نے تین تھیڑز اور دو ویڈیوز بھی کیں۔

ان کے علاوہ پین 11 فلموں میں ہدایت کاری کے فرائض بھی سرانجام دیئے ہیں۔ شان پین نے اپنے کیریئر میں متعدد ایوارڈز جیتے ہیں، جن میں دو اکیڈمی ایوارڈز ، ایک گولڈن گلوب، ایک اسکرین ایکٹرز گلڈ ایوارڈ، اور کینز فلم فیسٹیول کا بہترین اداکار ایوارڈ شامل ہیں۔ انہیں2015ء میں فرانس میں اعزازی سیزار ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ، انہوں نے برلن فلم فیسٹیول اور وینس فلم فیسٹیول میں بھی ایوارڈز جیتے۔  

متعلقہ مضامین

  • رواں مالی سال کے پہلے ماہ میں ملکی تجارتی خسارہ بڑھ گیا، ادارہ شماریات
  • پاک فیڈریشن اسپین کے زیر اہتمام تاریخی اور یادگار انٹرنیشنل اوورسیز کنونشن کا بارسلونا میں انعقاد
  • دیار غیر میں اوورسیز پاکستانی اپنے کشمیری بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں، سفیر پاکستان ڈاکٹر ظفر اقبال
  • پاکستانی افرادی قوت کو عالمی مارکیٹ کے قابل بنانا ہوگا، اسحاق ڈار
  • بیروزگاری، معاشی عدم استحکام‘ 6 ماہ میں ساڑھے 3 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑگئے
  • بیروزگاری، معاشی عدم استحکام! 6 ماہ میں ساڑھے 3 لاکھ پاکستانی ملک چھوڑگئے
  • امریکی ڈالر کے مقابل پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل 10ویں روز اضافہ
  • حکومت کا ترسیلات زر پر سبسڈی دوبارہ بحال کرنے کا فیصلہ
  • شان پین...ہالی ووڈ کا غیر روایتی ہیرو