100 سال قبل کیمرے کیسے کام کرتے تھے، دلچسپ ویڈیو
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
آج سے ایک صدی قبل جب نہ اسمارٹ فون تھے، نہ سیلفی اسٹکس، اور نہ ہی جدید کیمرے۔ تب بھی لوگ یادوں کو قید کیا کرتے تھے اور اس کام کے لیے لکڑی کے ایک سادہ سے ڈبے کا استعمال کیا جاتا تھا۔ جو آج کے ڈیجیٹل کیمروں سے بالکل مختلف اور حیرت انگیز تھا۔
سوشل میڈیا پر ایک ایسی ہی ویڈیو گردش کر رہی ہے جس میں ایک شخص لکڑی کے بڑے سے کیمرے کے سامنے بیٹھا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اور ایک پرانا اسٹینڈ کیمرا سامنے رکھا تھا جس کے سامنے ایک لینس لگا ہے۔ لینس کے آگے ایک چھوٹا سا ڈھکن موجود تھا، جسے تصویر کھینچنے کے لیے چند سیکنڈ کے لیے ہٹایا گیا۔
اس کے بعد کیمرا مین ڈبے کے پیچھے جاتا ہے، ایک خاص اینگل سے تصویر کا زاویہ طے کرتے ہوئے تصویر کھینچتا ہے جس میں نہ کوئی ڈیجیٹل بٹن ہے، نہ اسکرین، نہ روشنیوں کی بھرمار۔
تصویر بنانے کا عمل انتہائی دلچسپ تھا۔ تصویر لینے کے بعد کیمرا مین ایک برتن میں خاص قسم کا کیمیکل والا پانی بھرتا ہے اور اس برتن میں تصویر کو ڈالتا ہے جس سے آہستہ آہستہ چہرہ تصویر پر ابھرنے لگتا ہے اور کچھ ہی وقت میں ایک خوبصورت بلیک اینڈ وائٹ تصویر تیار ہو جاتی ہے۔
Capturing memories with a 100 year old camera pic.
— ViralRush ⚡ (@tweetciiiim) August 8, 2025
صارفین اس ویڈیو پر دلچسپ تبصرے کرتے نظر آئے، ایک صارف کا کہنا تھا کہ اس کیمرے کو میوزیم میں رکھنا چاہیے۔
Should be kept in museum
— Cat's Mommy… (@Mayaverse3157) August 10, 2025
ایک صارف کا کہنا تھا کہ اس کیمرے کو ٹھیک حالت میں رکھنے کے لیے مسلسل محنت اور دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے۔
Wow…. It would take constant effort and maintenance to keep this camera in shape.
— Travel/Study | CV & SOP Writer ✍️ (@Kollydebbie) August 9, 2025
عابد نامی صارف نے کہا کہ یہ اُس وقت کی بہترین ٹیکنالوجی تھی، لیکن اب ہر شخص کے پاس یہ کیمرہ اس کے موبائل فون میں موجود ہے، اس لیے دنیا میں فوٹوگرافرز کا پیشہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔
That was a best technology that's time but now every person have in his mobile phone now photographer profession end in the world
— Abid Dhariwal (@a__bd26) August 10, 2025
ایک سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ ایک ایسی دنیا میں جو جدید ترین گیجٹس کی دیوانی ہے اس میں یہ 100 سال پرانا کیمرہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ اصل اہمیت آلے کی نہیں، بلکہ کہانی سنانے والے کی ہوتی ہے۔
In a world obsessed with the newest gadgets, Mr. Haji’s 100-year-old camera reminds us that it’s the storyteller, not the tool, that truly matters.
— Nikah Mohamad (@MohamadNikah) August 11, 2025
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پرانے کیمرے محفوظ تصویریںذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پرانے کیمرے محفوظ تصویریں کے لیے
پڑھیں:
سپریم کورٹ میں دوران سماعت آئینی عدالت پر جسٹس منصور کے دلچسپ ریمارکس پر قہقہے
سپریم کورٹ میں محکمہ لائیو اسٹاک پنجاب کے ڈاکٹر اعظم علی کی ترقی سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے آئینی عدالت کے قیام سے متعلق دلچسپ ریمارکس دیے، جس پر قہقہے گونج اٹھے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے ڈاکٹر اعظم علی کی ترقی سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
درخواست گزار کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ ان کے موکل کو نظرانداز کرتے ہوئے جونیئر افسران کو ترقی دی گئی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمیں دستاویزات سے دکھائیں کہ واقعی جونیئرز کو ترقی دی گئی اور آپ کے مؤکل کو نظرانداز کیا گیا۔
سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے دلچسپ انداز میں کہا کہ ’اگر کوئی بہت مشکل سوال ہے تو ہم وفاقی آئینی عدالت بجھوا دیتے ہیں‘، انہوں نے کہا کہ ’ہم تو ویسے بھی بیچارے ایسے ہی ہیں یہاں‘، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
بعد ازاں عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔
وفاقی آئینی عدالت
یاد رہے کہ 27ویں آئینی ترمیم کے پارلیمان سے بخوبی گزرنے کے بعد حکومت نے اعلیٰ عدلیہ کی ازسرِنو تشکیل کا عمل شروع کر دیا ہے، اور مجوزہ وفاقی آئینی عدالت (ایف ایف سی) کے لیے 7 جج صاحبان کے نام شارٹ لسٹ کر لیے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ عدالت آئین کی تشریح اور وفاق و صوبوں کے درمیان تنازعات کے تصفیے کے لیے قائم کی جا رہی ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق حکومت نے اس نئی عدالت کی تشکیل کے حوالے سے مشاورت کا آغاز کر دیا ہے، اور جسٹس امین الدین خان، جو اس وقت سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے سربراہ ہیں، انہیں وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کے طور پر تعینات کرنے پر غور کیا جا رہا ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس علی باقر نجفی کے ناموں کے ساتھ ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس کے کے آغا اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس روزی خان بریچ کے نام بھی اس نئی عدالت کے ابتدائی ارکان کے طور پر زیرِ غور ہیں۔
ذرائع کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کی ابتدائی تعداد ایک صدارتی حکم کے ذریعے متعین کی جائے گی، جب کہ ججوں کی تعداد میں آئندہ کوئی اضافہ پارلیمان کی منظوری سے قانون سازی کے ذریعے کیا جا سکے گا۔