غزہ پر مکمل قبضہ کے اسرائیلی فیصلہ کے ہولناک تنائج ہونگے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 11th, August 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 11 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سےغزہ پر قبضہ کرنے کے فیصلے سے اس تنازع میں ایک اور ہولناک دور شروع ہونے کا خدشہ ہے جس کے ممکنہ سنگین نتائج اسرائیل اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں تک ہی محدود نہیں رہیں گے۔
یورپ کے لیے اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل میروسلاوو جینکا نے سلامتی کونسل کے ہنگامی اجلاس میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے اس فیصلے پر عملدرآمد کیا تو غزہ میں نئی تباہی برپا ہو گی جس کے اثرات پورے مشرق وسطیٰ میں محسوس کیے جائیں گے۔
غزہ پر مکمل قبضے کا یہ منصوبہ مزید بڑے پیمانے پر نقل مکانی، ہلاکتوں اور شہریوں کے لیے ناقابل برداشت تکالیف کا سبب بنے گا۔(جاری ہے)
8 اگست کو اسرائیل کی کابینہ نے وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کے حماس کو شکست دینے اور جنگ کا خاتمہ کرنے کے پانچ اصولوں کی منظوری دی تھی۔ ان میں حماس کو غیرمسلح کرنا، تمام یرغمالیوں کی رہائی، غزہ کو غیرعسکری علاقہ بنانا، علاقے پر اسرائیل کا سکیورٹی کنٹرول اور ایک متبادل شہری انتظامیہ قائم کرنا شامل ہیں جس میں حماس یا فلسطینی اتھارٹی کا کوئی کردار نہیں ہو گا۔
میروسلاوو جینکا نے اسرائیلی ذرائع ابلاغ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ حکومت رواں سال 7 اکتوبر تک غزہ شہر کو تمام لوگوں سے خالی کرانا چاہتی ہے۔ اس فیصلے سے تقریباً آٹھ لاکھ لوگ متاثر ہوں گے جن میں بیشتر پہلے ہی کئی مرتبہ نقل مکانی کر چکے ہیں۔
اس کے بعد، اسرائیلی فوج تین ماہ تک شہر کو زیرمحاصرہ رکھے گی۔
بعدازاں دو ماہ کے عرصہ میں وسطی غزہ کے پناہ گزین کیمپوں پر قبضہ کر کے تمام علاقے کو فلسطینی مسلح گروہوں سے خالی کرایا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ ہر فرد کو زندگی، آزادی اور سلامتی کا حق حاصل ہے اور فلسطینیوں کو اپنے گھروں میں واپسی کی آزادی ہونی چاہیے۔ اقوام متحدہ واضح طور پر کہتا ہے کہ مکمل، فوری اور مستقل جنگ بندی اور تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیرمشروط رہائی ہی غزہ میں بڑے پیمانے پر انسانی تکالیف کو ختم کرنے کا واحد طریقہ ہے۔
عالمی قانون کی تعمیل کا مطالبہانہوں ںے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ بین الاقوامی انسانی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے، غزہ میں انسانی امداد کی تیزرفتار، محفوظ اور بلارکاوٹ فراہمی میں سہولت دے اور امدادی کارکنوں سمیت تمام شہریوں کو عسکری کارروائیوں سے تحفظ فراہم کرے۔
اسسٹںٹ سیکرٹری جنرل نے کہا کہ غزہ یا وسیع تر اسرائیلی۔
فلسطینی تنازع کا کوئی عسکری حل نہیں۔ اس مسئلے کا خاتمہ کرنے کے لیے اسرائیل کا غیرقانونی قبضہ ختم ہونا اور قابل عمل دو ریاستی حل کے ذریعے خودمختار فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آنا ضروری ہے اور غزہ اس کا لازمی حصہ ہو۔ان کا کہنا تھا کہ پورے فلسطین کی نمائندہ قیادت کا متحد ہونا ضروری ہے۔ اس مقصد کے لیے فلسطینی اتھارٹی انتخابات کے انعقاد کے ہدف کی تکمیل کے لیے کام شروع کرے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش بھی اسرائیلی حکومت اس فیصلے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ غزہ پر قبضے سے تنازع میں خطرناک طور سے مزید شدت آئے گی، لاکھوں فلسطینیوں کے لیے تباہ کن حالات میں مزید بگاڑ پیدا ہو گا اور لاکھوں فلسطینیوں سمیت باقیماندہ یرغمالیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اسرائیلی حکومت سے اس مںصوبے کو فوری طور پر روکنے اور شہریوں کو تحفظ دینے کا مطالبہ کیا ہے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے رابطہ دفتر برائے امدادی امور کے سربراہ رمیش راجا سنگھم نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ گزشتہ 22 ماہ کے دوران فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کو روح فرسا تکالیف کا سامنا رہا ہے۔ مشترکہ انسانیت اس تباہی کو فوری روکنے کا تقاضا کرتی ہے۔
انہوں ںے کہا کہ غزہ میں بھوک کے بحران کا خدشہ نہیں بلکہ یہ بحران بہت سے پہلے سے آ چکا ہے اور اب لوگ بھوک سے ہلاک ہو رہے ہیں۔
غزہ کے طبی حکام نے بتایا ہے کہ یکم جولائی سے اب تک غذائی قلت 98 بچوں کی جانیں لے چکی ہے۔انہوں اس جنگ کے طول پکڑنے اور اسرائیلی حکومت کے حالیہ فیصلے کے ممکنہ نتیجے میں مزید انسانی تکالیف پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ اس تنازع کو مزید کشیدہ بنائے گا جس میں پہلے ہی بہت سی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ 670 سے زیادہ ایام سے روزانہ بڑی تعداد میں فلسطینی ہلاک و زخمی ہوتے چلے آ رہے ہیں۔
غزہ کی وزارت صحت کے مطابق، علاقے میں اب تک 61 ہزار سے زیادہ فلسطینیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے جن میں 18 ہزار بچے بھی شامل ہیں جبکہ زخمی ہونے والوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ ہے۔
انہوں نے عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہےکہ عدالت اسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اپنی غیرقانونی موجودگی، پالیسیوں اور اقدامات کو جلد از جلد ختم کرنے کے لیے کہہ چکی ہے۔
راجا سنگھم نے خبردار کیا کہ مغربی کنارے میں اسرائیل کی کارروائیوں سے انسانی حالات بگڑ رہے ہیں جبکہ غزہ کی جنگ کے باعث یہ مسئلہ عالمی سطح پر زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پایا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اسرائیلی حکومت اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سلامتی کونسل رہے ہیں کرنے کے کہ غزہ کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
آج دنیا میں ہر طرف ظلم و جبر انتہا پسندی اور ممالک کے درمیان تنازعات کا دور دورہ ہے، سکون اور اطمینان کیسا؟ یہ نعمتیں تو انسانوں سے کوسوں میل دور ہو گئی ہیں یا کہیں کھو گئی ہیں۔
انسان امن کی تلاش میں ہے مگر بعض طاقتیں امن کی ایسی دشمن بن گئی ہیں کہ وہ دنیا کو جہنم بنانے کی تگ و دو میں ہمہ وقت مصروف ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد دنیا کو جنگوں کی ہولناکیوں سے بچانے کے لیے ’’ اقوام متحدہ‘‘ کا ادارہ قائم کیا گیا تھا۔
اس سے قبل ان ہی مقاصد کے حصول کے لیے ’’ لیگ آف نیشن‘‘ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا مگر یہ ادارہ اقوام عالم کے درمیان باہمی تنازعات کو حل کرنے میں قطعی ناکام رہا اور بدقسمتی سے اس کی موجودگی میں ہی دوسری جنگ عظیم کا سانحہ رونما ہوا جس میں کروڑوں انسان لقمہ اجل بن گئے۔ کئی ملک برباد ہوگئے اورکئی کا تو نام و نشان ہی مٹ گیا۔
یہ تباہی بربادی اتنی خوفناک اور وسیع تھی کہ دنیا ہل کر رہ گئی اور ہر ذی شعور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ دنیا کو تباہی و بربادی سے بہرصورت بچایا جائے۔ تمام ممالک کو اپنے اختلافات بھلا کر یکجا ہونا ہوگا اور مستقبل کو پرامن بنانے کے لیے ایک مضبوط اور پائیدار عالمی ادارہ قائم کرنا ہوگا جو انسانیت کو آیندہ جنگوں کی ہولناکیوں سے بچا سکے، ساتھ ہی دنیا میں پائیدار امن، ترقی اور خوشحالی کا ضامن بن سکے۔
یوں 24 اکتوبر 1945 کو اقوام متحدہ کا ادارہ وجود میں آ گیا۔ اس کے قیام میں تمام ہی ممالک کی مرضی شامل تھی۔ اس ادارے سے یہ بھی امید وابستہ کی گئی تھی کہ آیندہ دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے کا احترام کریں گے اور تنازعات کی صورت میں اقوام متحدہ کے آئین کے مطابق اپنے مسائل حل کریں گے۔
اس ادارے کے قیام میں غریب ممالک سے لے کر دنیا کے متمول ممالک بھی شریک تھے، طاقتور ممالک کو متفقہ طور پر یہ اختیار دیا گیا کہ ان کا ووٹ کسی بھی مسئلے کے حل کے سلسلے میں حتمی قرار دیا جائے گا۔ یہی ویٹو پاور ہے جو دنیا کے پانچ ممتاز ممالک کو تفویض کیا گیا تھا۔
ان ممالک میں امریکا، سوویت یونین، فرانس، برطانیہ اور چین کی جگہ تائیوان شامل تھا۔ اس وقت تک امریکا اور یورپی ممالک نے چین کو تسلیم نہیں کیا تھا مگر بعد میں چین کے اقوام متحدہ کا ممبر بننے کے بعد تائیوان کے بجائے چین کو ویٹو پاور سے نواز دیا گیا۔
افسوس کہ ویٹو پاورکا اکثر ممالک نے غلط استعمال کیا، امریکا نے سب سے زیادہ مرتبہ استعمال کیا مگر اکثر اس سے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ دنیا میں تنازعات پہلے بھی تھے مگر اب تنازعات کی تعداد بہت بڑھ چکی ہے جس کی وجہ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے ویٹو پاور کے حامل مستقل ممبران ہیں۔
ان ممالک نے اپنے حلیف ممالک کے حق میں بے جا طورپر ویٹو پاور کا استعمال کیا جس کی وجہ سے دنیا میں مسائل بھی بڑھ رہے ہیں اور عالمی سطح پر بے چینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اس وقت دنیا کے کئی ممالک باہمی تنازعات میں گھرے ہوئے ہیں۔ وہ اپنے مفاد کے لیے اپنے حریف ملک سے چھیڑ چھاڑ سے بڑھ کر جنگ تک کرنے پر تل جاتے ہیں۔
اقوام متحدہ ایسے مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین پلیٹ فارم ہے مگر ویٹو پاورکے حامل ممالک ان مسائل میں خود کو ڈال کر انھیں ایسا الجھا دیتے ہیں کہ پھر یہ برسوں حل نہیں ہو پاتے جیسے مسئلہ کشمیر اور فلسطین ہیں۔ یہ مسائل پانچ دہائیوں سے اقوام متحدہ میں حل طلب ہیں مگر ان کے حل کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔
اقوام متحدہ ان جیسے کئی مسائل میں لاچار اور مجبور دکھائی دیتی ہے۔ روانڈا اور بوسنیا میں ایک عرصے تک انسانوں کا قتل عام ہوتا رہا مگر اقوام متحدہ کا ادارہ مفلوج رہا اور پھر غزہ کے قتل عام کو روکنے میں بھی قطعی ناکام رہا ہے۔
دنیا میں حق خود اختیاری کے حصول کے لیے جو اقوام مسلسل جدوجہد کر رہی ہیں، اقوام متحدہ ان کی کوئی مدد نہیں کر پا رہی ہے، شاید اس لیے کہ ان مسائل میں بعض بڑے ممالک دلچسپی نہیں لے رہے کیونکہ وہ حق خود اختیاری کے غاصب ممالک کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔
یہ صورت حال انتہائی پریشان کن ہے جس سے ممبر ممالک کے درمیان اقوام متحدہ کی قدر و قیمت باقی نہیں رہی ہے۔ اس وقت حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ اقوام متحدہ کا کردار ہی ختم ہو گیا ہے۔
اس کے مفلوج ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بڑے ممالک نے جو ویٹو پاور کے حامل ہیں خود اپنے اثر و نفوذ دے عالمی تنازعات کے حل کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ وہ دو ممالک کے درمیان تنازعے کے سلسلے میں اپنے فیورٹ یا پسندیدہ ملک کی پشت پناہی کرتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ کر دیتے ہیں جب کہ دوسرا فریق ملک جوکہ حق پر بھی ہوتا ہے، اسے پیچھے ہٹنا پڑتا ہے اور پھر کوئی اس کی نہیں سنتا۔
اس وقت عالمی تنازعات کے حل کے سلسلے میں اقوام متحدہ کی جگہ امریکا کے صدر ٹرمپ نے لے لی ہے، وہ تنازعات حل کرانے کے علاوہ ملکوں پر پابندیاں بھی لگا رہے ہیں اور کوئی ان سے باز پرس بھی نہیں کر سکتا، اس لیے کہ وہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے صدر ہیں۔
انھوں نے کئی ممالک کے باہمی تنازعات کو حل کرا بھی دیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین حالیہ جنگ تھی تو بہت مختصر مگر وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال تک بھی جا سکتی تھی۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ اسے انھوں نے رکوا دیا، صرف دونوں ممالک کو تجارت کی آفر دے کر۔ انھوں نے اس کامیابی پر نوبل انعام دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا۔
مگر چونکہ اسے دیے جانے کا طریقہ کار مختلف ہے، اس لیے اس سال کا نوبل انعام انھیں نہیں مل سکا۔ ٹرمپ نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان بھی جنگ رکوا دی ہے اور صلح کرا دی ہے۔ اب اگر ممبر ممالک کے درمیان تنازعات کو حل کرانے کا یہی شخصی طریقہ قائم رہا تو اقوام متحدہ کی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی۔
حقیقت یہ ہے کہ لیگ آف نیشن بھی دنیا کی بڑی طاقتوں کی مداخلت کی وجہ سے ہی ناکام ہوگئی تھی اور اسی وجہ سے دوسری عالمی جنگ کا سانحہ پیش آیا تھا۔ بدقسمتی سے اس وقت اقوام متحدہ کے کاموں میں بڑی طاقتیں کھل کر مداخلت کر رہی ہیں اور اسے ایک ناکام اور لاچار ادارہ بنانے پر تلی ہوئی ہیں تو پھر دنیا کا خدا ہی حافظ۔
اقوام متحدہ کی عدم فعالیت کی وجہ سے ہی کئی طاقتور ممالک کمزور ممالک پر حملہ آور ہو رہے ہیں کیونکہ اب انھیں روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ اس صورت حال کا بھارت اور اسرائیل سب سے زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
بھارت کا کوئی بھی پڑوسی اس کے توسیع پسندانہ رجحان سے محفوظ نہیں ہے۔ نیپال، بھوٹان، مالدیپ اور بنگلہ دیش تمام ہی اس سے خوفزدہ ہیں، ادھر وہ پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے ایک طرف دہشت گردی کا سہارا لے رہا ہے۔
دوسری طرف خود بھی بلاجواز حملے کرتا رہتا ہے حال ہی میں وہ پلوامہ کے بہانے پاکستان پر پوری قوت سے حملہ کر چکا ہے مگر خوش قسمتی سے اس میں اسے تاریخی شکست اور حزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے اب وہ اس شکست کا بدلہ لینے کے لیے نئے نئے حربے استعمال کر رہا ہے۔
دراصل مودی پاکستان پر ان حملوں کے ذریعے سیاسی فائدے حاصل کرتا ہے وہ اپنے ہاں ہونے والے ریاستی اور وفاقی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹتا رہتا ہے مگر اس دفعہ وہ اپنے آپریشن سندور میں ناکام ہونے کے بعد اب مشکل ہی سے بہار میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کر پائے گا۔