آج کے جدید دَور میں بچوں کی صرف تعلیم و تربیت ہی کافی نہیں، بلکہ اُن کے اندر پوشیدہ قدرتی اور تخلیقی صلاحیتوں کی پہچان اور اُنہیں اُجاگر کرنا اصل فن ہے۔ ایسے بچے جنہیں بچپن میں سازگار ماحول، بہترین والدین، ماہر اساتذہ اور مناسب سہولیات دست یاب ہو جائیں، وہ عام بچوں کی نسبت زندگی میں زیادہ آگے بڑھ جاتے ہیں۔

جدید تحقیق اور ماہرینِ نفسیات کے مطابق تمام بچے فطری طور پر تخلیقی اور فنی صلاحیتوں سے مالامال ہوتے ہیں، لیکن بروقت تلاش، معاونت اور درست راہ نمائی کی بدولت کچھ بچے اپنی صلاحیتوں کا اظہار بہت جلد کر لیتے ہیں، جب کہ اکثر بچے اس راہ نمائی سے محروم رہنے کی وجہ سے وقت اور دوسروں سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں کی پہچان کے عمل سے گزر ہی نہیں پاتے ہیں۔

پاکستانی معاشرہ اپنے ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت پر تو توجہ دی جا رہی ہے لیکن اُن کی تخلیقی اور قدرتی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے مناسب اہتمام موجود نہیں ہے۔ اس ضمن میں حکومت، تعلیمی اداروں، مختلف شعبوں کے ماہرین، والدین اور سماج کو مل کر عملی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

ہمارے معاشرے کی بدقسمتی کہیے یا مجبوری، یہ حقیقت ہے کہ ہمارے اکثر والدین جدید دور کے تعلیمی اور تربیتی تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ اپنے معاشی اور سماجی مسائل و ذمے داریوں کی بدولت وہ بچوں کی تخلیقی اور قدرتی صلاحیتوں کو نکھارنے کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر پاتے ہیں۔

ایسے میں متوسط طبقے کے وہ بچے، جو فطری صلاحیتوں سے مالامال ہوتے ہیں، درست راہ نمائی اور سہولتوں کے فقدان کی وجہ سے معاشرے میں موجود امکانات اور وسائل سے بھی فائدہ نہیں اٹھا پاتے ہیں۔ یہ بچے نہ صرف معاشرے اور ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں بلکہ احساسِ محرومی اور احساسِ کم تری کا شکار ہو کر معاشرے کے لیے بوجھ بن جاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم والدین، طلبہ اور تعلیمی اداروں کی ایسی راہ نمائی کریں کہ وہ بچوں کے تخلیقی سفر میں ان کا ساتھ دے سکیں۔

دُنیا بھر میں اس ضمن میں مختلف ٹریننگز، ورکشاپس اور سیمینارز کا انعقاد کیا جا رہا ہے، مگر یہ عام لوگوں کی دسترس میں نہیں ہیں۔ اسی لیے میں نے اپنے مختلف ٹریننگ سیشنز، کتابوں کے مطالعے اور ماہرین کے انٹرویوز کے بعد ان اہم نکات اور سفارشات کا نچوڑ قارئین کے سامنے پیش کیا ہے تاکہ والدین اور اساتذہ کے لیے راہ نمائی کے وہ عام فہم اور سادہ اصول بیان کیے جا سکیں جو ہمارے معاشرتی حالات اور سماجی پس منظر کے مطابق ہوں۔

یاد رکھیں، تعلیم و تربیت اور بچوں کی پرورش کوئی عام یا آسان کام نہیں ہے۔ اگر تو آپ نے صرف بچوں کی پرورش کرنی ہے تو یہ ذمے داری معمول کے مطابق چلتی رہے گی۔ لیکن اگر آپ بچوں کی اخلاقیات، شخصیت، کردار سازی، ہنر اور فن کو دیکھنے اور پہچاننے والی آنکھ رکھتے ہیں تو پھر آپ کے لیے تحقیق اور سیکھنے کی اشد ضرورت ہے۔

آزادیِ اظہار سے نہ کریں انکار

ہمارے ہاں عام طور پر کہا جاتا ہے کہ بچے خالی ذہن ہوتے ہیں یا یہ چکنی مٹی کی طرح ہوتے ہیں، جنہیں جیسے چاہیں موڑ کر کچھ بھی بنایا جا سکتا ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے، لیکن یاد رکھیں کہ ہر بچہ اپنی منفرد شخصیت، ہنر، فن، صلاحیتوں اور مقصدِحیات کے ساتھ پیدا ہوتا ہے۔

بچہ کبھی خالی ذہن نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذہن میں تجسس اور بے شمار سوالات ہوتے ہیں جن کا اظہار وہ وقت کے ساتھ مختلف طریقوں سے کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین اور اساتذہ تعلیم و تربیت کے فقدان یا پھر ڈر اور خوف کی وجہ سے بچوں کو اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرنے سے روکتے اور ٹوکتے ہیں۔ اس رویّے کی وجہ سے بچے اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔

اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بچے اپنی قدرتی صلاحیتوں کو خود بخود ظاہر کریں تو اُنہیں وہ موقع، ماحول اور آزادی دیں تاکہ وہ اعتماد کے ساتھ اپنے ہنر اور ذوق کا اظہار کر سکیں۔

ابتداء میں یہ عمل مشکل اور پیچیدہ لگ سکتا ہے اور بچوں کے رجحان و شوق کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوتا، لیکن وقت، مسلسل راہ نمائی اور آزادی کے ساتھ آپ بہ خوبی اُن کے ذوق اور دل چسپیوں کو سمجھ سکتے ہیں۔ وہ بچے جنہیں آغاز ہی سے اپنی صلاحیتوں کے اظہار کی آزادی ملتی ہے، وہ فطری طور پر پُراعتماد بنتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ بچے جو ابتدا ہی سے والدین اور اساتذہ کی روک ٹوک، نوک جھونک اور مسلسل تنقید کا سامنا کرتے ہیں، اکثر ساری زندگی اپنے خوف اور جھجک سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔

سازگار ماحول کی فراہمی

بچوں کی تخلیقی اور قدرتی صلاحیتوں کی پہچان اور نکھار کے لیے صرف جائزہ اور تجزیہ لینا کافی نہیں ہے، بلکہ اُنہیں سازگار ماحول فراہم کرنا بھی نہایت اہم ہے۔ وہ والدین اور تعلیمی ادارے زیادہ کام یاب ہوتے ہیں جو بچوں کو اُن کی فطری رجحانات اور شوق کے مطابق ماحول فراہم کرتے ہیں اور ساتھ ہی انہیں زندگی کے مقصد سے آگاہ کرتے ہیں۔

ایسے بچے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کو بہتر انداز میں بروئے کار لاتے ہیں بلکہ اپنی زندگی کے مقصد کو بھی جلد پہچان لیتے ہیں۔ ماہرِنفسیات ڈاکٹر خالد سہیل اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ معروف امریکی ماہرِنفسیات ابراہام ماسلو (Abraham Maslow) کا یہ خیال تھا کہ انسان کی شخصیت کی نشوونما کے لیے ضروری ہے کہ والدین اور اساتذہ بچوں کو اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اقدار سے روشناس کرائیں۔ اگر وہ اپنے فلسفۂ حیات سے بچوں کو متعارف نہیں کرائیں گے تو جوانی میں بچے وہ اقدار اپنے دوستوں اور ہم عمروں سے حاصل کریں گے۔

مواقع، امکانات اور رجحان کی پہچان

والدین اور اساتذہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو اپنی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے مواقع اور امکانات فراہم کریں اور ساتھ ہی ان کے رجحانات کی پہچان کے لیے مختلف ماہرین، عملی مشقوں اور نت نئے طریقوں سے استفادہ کریں۔ جیسے کہ مجھے مختلف ٹریننگ سیشنز اور کاؤنسلنگ کے دوران والدین اکثر شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے موبائل فون کا بہت زیادہ استعمال کرتے ہیں جب کہ کتابیں بالکل نہیں پڑھتے ہیں۔

اس پر میں انہیں یہ تلقین کرتا ہوں کہ وہ خود بچوں کے سامنے موبائل فون کا کم سے کم استعمال کریں اور جو عمل وہ چاہتے ہیں کہ بچے کریں، سب سے پہلے وہ خود اُس پر عمل کریں۔ والدین اور اساتذہ کے لیے یہ سمجھنا نہایت اہم ہے کہ جب وہ بچوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں کی پہچان اور نکھار کے عمل میں شریک ہوتے ہیں تو اُن کے اپنے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بھی نکھر کر سامنے آتی ہیں۔

نتائج کی پروا کیے بغیر کوشش کی حوصلہ افزائی

بچے جذباتی طور پر نہایت نرم اور حساس ہوتے ہیں، اس لیے اُنہیں کامیابی یا ناکامی کی بنیاد پر پرکھنے کے بجائے اُن کی کوششوں کو سراہنا چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ اگر والدین اور اساتذہ نتائج کی پروا کیے بغیر بچوں کی کوشش کی حوصلہ افزائی کریں تو اُن کے اندر ناکامی کا خوف ختم ہوجاتا ہے۔ یہی اعتماد انہیں اپنی صلاحیتوں کے مکمل اظہار کے بھرپور مواقع فراہم کرتا ہے۔ وہ زندگی میں اپنے کمفرٹ زون سے نکل کر نئی دُنیا فتح کر یں گے۔

موازنہ اور مقابلہ بازی سے اجتناب

یہ ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے جس نے بے شمار بچوں کی صلاحیتوں کو زنگ آلود کردیا ہے بلکہ کئی بچوں کو اپنی زندگی کا خاتمہ کرنے پر بھی مجبور کیا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام اور معاشرتی رویّوں میں بچوں کے درمیان موازنے اور مقابلے بازی کو عام طور پر صحیح سمجھا جاتا ہے اور بہتر کارکردگی کے لیے اسے معاون قرار دیا جاتا ہے، جب کہ جدید تحقیق اور نفسیاتی تھیوریز کے مطابق ہر بچے کی سیکھنے، سمجھنے اور چیزوں کو پرکھنے کی صلاحیت دوسرے بچوں سے مختلف ہوتی ہے۔ ہر بچہ اپنی قدرتی اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کا منفرد طریقہ اور انداز رکھتا ہے۔

اس لیے خدارا! اگر آپ والدین یا اساتذہ ہیں تو بچوں کا بلاجواز موازنہ کرنے اور اُنہیں مقابلہ بازی میں دھکیلنے سے گریز کریں۔ اگر آپ بچوں کو دوسروں کی کام یابی سے متاثر کرنا چاہتے ہیں تو اُنہیں دوسروں کی کوشش اور جدوجہد سے متعارف کروائیں۔ اس طرح ان کے اندر بھی وہی حوصلہ اور جذبہ پروان چڑھے گا کہ وہ محنت کے ذریعے اپنی کام یابی حاصل کریں۔ یاد رکھیں، موازنہ اور غیر ضروری مقابلہ بازی بچوں کی صلاحیتوں کو نکھارنے کے بجائے انہیں اندر سے کم زور اور ذہنی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔

وقت اور سہولیات مہیا کرنا

بچوں کی ذہنی نشوونما اور شخصیت میں تعمیری عناصر شامل کرنے کے لیے اُنہیں وقت اور سہولیات فراہم کرنا نہایت ضروری ہے۔ اکثر والدین اور اساتذہ بچوں کی صلاحیتوں اور خوبیوں کے نتائج کے لیے جلد بازی کرتے ہیں اور انہیں اپنی توقعات یا خواہشات کے مطابق پرکھتے ہیں، جو کسی بھی طور مناسب طریقہ نہیں ہے۔

ہر بچے کا انداز اور رفتار مختلف ہوتی ہے، اس لیے اُنہیں اپنی صلاحیتوں کو پرکھنے، نکھارنے اور بہتر بنانے کے لیے بھرپور وقت دینا چاہیے۔ جیسے ایک بیج کو پودا اور پھر درخت بننے کے بعد پھل دینے کے لیے مناسب ماحول، وقت اور دیگر عوامل درکار ہوتے ہیں، ویسے ہی بچوں کی صلاحیتوں کو بھی وقت اور سہولتیں درکار ہوتی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ بچوں کو وہ سہولیات بھی فراہم کریں جو اُن کے تخلیقی سفر کو آسان، بامقصد اور مؤثر بنا سکیں۔

حوصلہ افزائی کے ساتھ راہ نمائی

بچوں کے لیے سب سے قیمتی چیز حوصلہ افزائی ہے۔ جب آپ بچوں کی فطری، تخلیقی اور شخصی خوبیوں کو بہتر بنانے کے لیے حوصلہ افزائی کے ساتھ راہ نمائی کرتے ہیں تو وہ بڑے جوش و جذبے اور محنت و لگن کے ساتھ آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کے برعکس، وہ والدین اور اساتذہ جو صرف رہنمائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بچوں کی حوصلہ افزائی نہیں کرتے ہیں، اُن کی راہ نمائی اکثر بے اثر اور بے ربط رہتی ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ آپ بچوں کے ساتھ تعلق قائم کریں، اُن کی بروقت حوصلہ افزائی کریں اور ساتھ ہی راہ نمائی فراہم کریں تاکہ وہ اپنے شوق کو ہی اپنا پیشہ بنائیں۔ یوں وہ نہ صرف اپنی زندگی میں کامیاب ہوں گے بلکہ آپ، آپ کے تعلیمی ادارے، معاشرے، کمیونٹی اور ملک کا بھی نام روشن کریں گے۔ کسی نے ابراہام ماسلو سے پوچھا کہ کام یاب انسان کی کیا تعریف ہے؟ تو انہوں نے کہا،’’کام یاب انسان وہ ہے جسے اُس کام کے پیسے ملیں جسے وہ خوشی سے کرنا چاہتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان کا شوق اور اس کا پیشہ، اس کا پیشن اور پروفیشن آپس میں گلے مل جاتے ہیں۔‘‘

یار رہے کہ میں نے یہ مرکزی نکات اور سفارشات آپ کی اس سفر میں راہ نمائی اور آپ کی عملی کوششوں کو مؤثر او معیاری بنانے کے لیے ترتیب دی ہیں۔ یہ ہم سب کا امتحان ہے کہ اُس دُنیا کے بچوں کی تخلیقی اور قدرتی صلاحیتوں کی پہچان اور پروان میں کامران ہوں، کیوںکہ والدین اور اساتذہ کی قربانی اور محنت کا پھل بچوں کی کام یابی کی صورت میں ملتا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: والدین اور اساتذہ کے لیے اپنی صلاحیتوں تعلیم و تربیت حوصلہ افزائی کی پہچان اور صلاحیتوں کو راہ نمائی بچوں کو ا کی وجہ سے جاتے ہیں کرتے ہیں ضروری ہے پاتے ہیں کا اظہار ہوتے ہیں کے مطابق ا پ بچوں وقت اور کی کوشش کے ساتھ کام یاب وہ بچوں نہیں ہے بچوں کے اگر ا پ ہیں تو اس لیے ہیں کہ ا نہیں بلکہ ا نہیں ا

پڑھیں:

گلبرگ ٹائون :اساتذہ کی ٹریننگ اور طلبہ کیلیے پی بی ایل پروگرام کا آغاز

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

 

250916-02-24

 

کراچی (اسٹاف رپورٹر)گلبرگ ٹاؤن منتخب بلدیاتی قیادت نے تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے ایک اہم قدم اٹھاتے ہوئے اساتذہ کی تربیت اور طلبہ کے لیے پروجیکٹ بیسڈ لرننگ (PBL) پروگرام شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس مقصد کے لیے گلبرگ ٹاؤن نے (Tadabbur) تدبر اور یسر (Yusr) کے ساتھ ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے ہیں۔ یہ شراکت داری سرکاری اسکولوں کے تعلیمی معیار کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی طرف ایک بڑی پیش رفت قرار دی جا رہی ہے۔تقریب میں اہم شخصیات شریک ہوئیں جن میں چیئرمین گلبرگ ٹاؤن نصرت اللہ، میونسپل کمشنر عبدالحمید سہاگ، اعزازی صدر تدبر ڈاکٹر معروف بن روف، ڈائریکٹر یسر راجا اویس اللہ، نائب امیر جماعت اسلامی گلبرگ وسطی فاروق نعمت اللہ، وائس چیئرمین محمد الیاس، ڈائریکٹر ایجوکیشن ندیم حنیف اور تعلیمی کمیٹی کے ممبران شامل تھے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر یسر راجا اویس اللہ نے کہا کہ وقت کی ضرورت ہے کہ طلبہ میں Critical Thinking کو فروغ دیا جائے اور یہ صرف پروجیکٹ بیسڈ لرننگ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جدید دنیا میں تحقیق، تجزیہ اور عملی سیکھنے کے طریقے ہی کامیابی کی ضمانت ہیں۔ڈاکٹر معروف بن روف نے اس موقع پر کہا کہ اساتذہ کو جدید تدریسی مہارتوں سے آراستہ کرنا اور اساتذہ و طلبہ کے درمیان کمیونیکیشن گیپ کو ختم کرنا نہایت ضروری ہے۔ ان کے مطابق جب اساتذہ خود نئے تدریسی رجحانات کو اپنائیں گے تو طلبہ بھی زیادہ بہتر انداز میں سیکھ سکیں گے۔چئیرمین گلبرگ ٹاؤن نصرت اللہ نے کہا کہ گلبرگ کے اسکولوں کا انفراسٹرکچر بحال کر لیا گیا ہے اور اب ہماری اولین ترجیح اکیڈمکس کو مضبوط بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تدبر اور یسر جیسے ادارے ہمارے اسکولوں میں تعلیمی بہتری کے لیے بھرپور معاونت فراہم کریں گے۔اس موقع پر یہ بات بھی اجاگر کی گئی کہ تعلیم کارڈ کے اعلان کے بعد یہ پروگرام جماعت اسلامی کی تعلیمی ترجیحات کی عکاسی کرتا ہے۔

 

چیئرمین گلبرگ ٹائون پروجیکٹ بیسڈ لرننگ پروگرام کاتدبر ‘یسر اورانتظامیہ کے ہمراہ گروپ فوٹو

متعلقہ مضامین

  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ خصوصی نشست
  • ڈی جی آئی ایس پی آر کی آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور اساتذہ کیساتھ نشست
  • اساتذہ کو روشنی کے نگہبان بنا کر مؤثر تدریس کی حیات نو
  • فنگر پرنٹس کے مسئلے سے دوچار معمر افراد کیلئے فیس ریکگنیشن لارہے ہیں: ترجمان نادرا
  • بچے کی پیدائش پر اسکی شناخت نہ کروانا بچے کے ساتھ حق تلفی ہے، ترجمان نادرا
  • والدین بیٹیوں کو کینسر سے بچاؤ کی ویکسین ضرور لگوائیں: آصفہ بھٹو 
  • گلبرگ ٹائون :اساتذہ کی ٹریننگ اور طلبہ کیلیے پی بی ایل پروگرام کا آغاز
  • ’اور کیسے ہیں؟‘ کے علاوہ بھی کچھ سوال جو آپ کو لوگوں کے قریب لاسکتے ہیں!
  • تقاریر سے اسرائیل کاکچھ نہیں بگڑے گا، مسلم ممالک مشترکہ آپریشن روم بنائیں، ایران
  • غزہ سے بیمار اور زخمی بچوں کا پہلا گروپ علاج کے لیے برطانیہ روانہ