Express News:
2025-09-19@04:51:45 GMT

قدرتی آفت اور غیر انسانی رویے

اشاعت کی تاریخ: 4th, September 2025 GMT

دو تین ماہ کے دوران کے پی اور پنجاب میں برساتی اور سیلابی سنگین صورت حال کو بھی ملک میں سنجیدگی سے نہیں لیا جا رہا جس کے بعد سیلاب نے سندھ میں اپنی طاقت دکھانی ہے اور قیمتی سیلابی پانی نے آخر میں سمندر میں جا کر ختم ہونا اور ملک بھر میں اپنی نشانی تباہیوں کی صورت چھوڑ جانی ہے۔

عشروں سے ہونے والی بارشوں اور سیلابی صورت حال میں ہونے والے اربوں روپے کے مالی و انسانی نقصانات میں جہاں حکومتوں کی ذمے داری بڑی حد تک شامل ہے تو وہاں لوگوں اور سیاستدانوں کے کردار اور غیر انسانی رویوں کا بھی دخل ہے۔ سیاسی مخالفت اور چینلوں پر بیٹھ کر الزام تراشی کا بھی وقت ہونا چاہیے مگر سیاسی مفاد کے لیے لغو اور بے سروپا باتیں ضرور کی جاتی ہیں، جیسے پی ٹی آئی رہنما نے ایک ٹاک شو میں انوکھا انکشاف کیا کہ جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت آتی ہے سیلاب آ جاتا ہے۔

یہ رہنما یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اگر اب بھی ملک میں ڈیم نہ بنائے گئے تو سیلاب اور قحط کی شکل میں مزید تباہی آنا یقینی ہے۔ اسی پروگرام میں پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما نے کہا سیلاب ہمیشہ ملک میں غربت لے کر آتے ہیں جس کے نتیجے میں کچھ برسوں بعد قحط سالی ہو سکتی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ دریا کنارے نئے شہر بنانا چیئرمین پی ٹی آئی کا وژن تھا مگر روڈا کے جاری کردہ این او سی بھی (ن) لیگ کے کھاتے میں ڈالے جا رہے ہیں۔ پی ٹی آئی اپنے گناہ جھوٹ بول کر ہم پر ڈال رہی ہے اور عوام کو گمراہ کر رہی ہے مگر حقائق کو چھپایا نہیں جا سکتا۔ بادلوں کا پھٹنا قدرتی عمل ہے پچاس برسوں میں کبھی اتنی بارش نہیں ہوئی اس پر گندی سیاست نہیں کرنی چاہیے۔

(ن) لیگی حکومتوں میں سیلاب آنے کی باتیں غیر حقیقی ہیں جب کہ برساتی اور سیلابی تباہیاں ہر حکومت میں آتی رہی ہیں مگر سیاسی پارٹیوں کی حکومتوں نے نقصانات سے بچنے کے لیے کچھ کیا نہ غیر جمہوری طویل حکومتیں کچھ کر سکی تھیں۔متحدہ پاکستان میں ایوب خان حکومت میں ہر سال مشرقی پاکستان میں آنے والے سیلابوں کا ذمے دار مشرقی پاکستان کو سمجھا جاتا تھا مگر بنگلہ دیش بننے کے بعد وہاں مشرقی پاکستان جیسے سیلاب نہیں آ رہے جو قدرتی عمل ہے یا بنگلہ دیشی حکومت نے آتے ہی سیلاب کو روکنے اور نقصانات سے محفوظ رہنے کے اقدامات کو حکومتی ترجیح بنایا ہوگا مگر 50 سالوں میں موجودہ اور سابقہ حکومتوں نے صرف سیاست چمکانے اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کے سوا کچھ نہیں کیا اور برساتی و سیلابی پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بند نہیں بنائے اور بدقسمتی سے بندوں کی تعمیر پر سیاست کی جاتی رہی اور ملک کی انتہائی اہم ضرورت کالا باغ ڈیم کو انتہائی متنازعہ بنا دیا گیا تھا اور سندھ و کے پی مخالفت میں پیش پیش رہے اور کے پی میں بڑے نقصانات کے بعد وزیر اعلیٰ کے پی کو احساس ہوا ہے اور انھوں نے اب کہا ہے کہ کالا باغ ڈیم ملک کی اشد ضرورت ہے جس کے لیے سندھ کے تحفظات دور کرنے چاہئیں۔

ہم اپنا حصہ ڈال چکے اب دیگر صوبے اپنا حصہ ڈالیں۔ واضح رہے کہ کالا باغ ڈیم پر کے پی میں شدید مخالفت اے این پی نے اور سندھ میں پیپلز پارٹی نے کی تھی اور پی پی سندھی قوم پرستوں کے دباؤ میں رہی جب کہ بلوچستان کا اس مسئلے سے زیادہ تعلق نہیں تھا مگر وہاں سے بھی سندھ کے موقف کی حمایت ہوئی جب کہ پنجاب شروع سے ہی حامی رہا ہے۔وزیر اعلیٰ کے پی کا کہنا ہے کہ ہم نے 6 ڈیم مکمل کیے ہیں۔

ہر بار سیلاب آنے پر بڑا نقصان ہوتا ہے جس سے وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر مالی بوجھ بڑھتا ہے اور سیلاب متاثرین کا اربوں روپے کا مالی اور جانی نقصان ہوتا چلا آ رہا ہے مگر حکومتیں برداشت کر لیتی ہیں مگر سیلابی و برساتی پانی کو ذخیرہ کرنے پر جب حکومتی توجہ ہوئی وہ ہمیشہ سیاست کی نذر ہو گئی اور قدرتی آفات پر محض سیاست چمکانے کے لیے غیر انسانی رویے اختیار کیے گئے۔ اس وقت پی ٹی آئی حکومتی مخالفت میں سیلاب پر بھی غیر حقیقی سیاست کر رہی ہے کہ وفاق، پنجاب و سندھ میں ان کی حکومت نہیں ہے جب کہ کے پی میں اب بھی بڑا جانی و مالی نقصان ہوا ہے اس لیے اب ساری صوبائی حکومتوں کو سیلاب جیسے اہم ترین مسئلے کے حل کے لیے مل بیٹھ کر کوئی حل ضرور نکالنا ہوگا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور سیلاب ہے اور کے لیے

پڑھیں:

بدترین سیلاب، بروقت انخلا سے 25 لاکھ انسانی زندگیوں کو محفوظ بنایا گیا

ترجمان ریسکیو کا کہنا تھا کہ ریسکیو 1122 اس وقت بھی پنجاب کے مختلف سیلابی علاقہ جات میں عوام الناس کی خدمت میں مصروف ہے۔ ریسکیو عملہ ضروریات زندگی کی فراہمی میں ریسکیو بوٹ کے زریعے معاونت کررہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ پنجاب میں بدترین سیلاب کے دوران پیشگی اور بروقت انخلاء سے 2.5 ملین افراد کی زندگیوں کو محفوظ بنایا گیا۔ ترجمان ریسکیو 1122 پنجاب فاروق احمد نے کہا کہ قبل از وقت انخلا سے نہ صرف انسانوں بلکہ 2 ملین سے زائد جانوروں کو بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، قبل از وقت کئی ملین افراد کا انخلاء اور جانوروں کی محفوظ منتقلی اپنی نوعیت کا منفرد اور کامیاب آپریشن تھا۔

انہوں نے کہا کہ انسانوں اور جانوروں کے پیشگی انخلاء میں ضلعی مینجمنٹ کیساتھ ریسکیو کی فیلڈ فارمیشن اور ریسکیو سکاؤٹس (رضاکار) نے کلیدی کردار ادا کیا، پیشگی انخلاء میں رہ جانے والے لوگوں کے لیے سیلابی علاقہ جات میں خصوصی ریسکیو آپریشن شروع کیا گیا۔ فلڈ ریسکیو آپریشن میں 1500 سے زائد کشتیوں اور ریسکیو کے تربیت یافتہ عملے نے حصہ لیا، پیشگی انخلاء سے رہ جانے والے 4 لاکھ22 ہزار سے زائد لوگوں اور 54 ہزار سے زائد جانوروں کو کشتیوں کے ذریعے ریسکیو کیا گیا۔

ترجمان ریسکیو کا کہنا تھا کہ پنجاب میں سیکرٹری ایمرجنسی سروسز ڈاکٹر رضوان نصیر نے مختلف اضلاع میں ریسکیو 1122 کے فلڈ ریسکیو آپریشن کو خود لیڈ کیا، ریسکیو 1122 اس وقت بھی پنجاب کے مختلف سیلابی علاقہ جات میں عوام الناس کی خدمت میں مصروف ہے۔ ریسکیو عملہ ضروریات زندگی کی فراہمی میں ریسکیو بوٹ کے زریعے معاونت کررہا ہے، متاثرہ سیلابی کے علاقوں میں فوری مدد کے لیے ریسکیو ہیلپ لائن 1122 پر کال کریں یا قریبی ریسکیو پوسٹ پہ رابطہ کریں۔

متعلقہ مضامین

  • ہر قسم کی سیاست سے بالاتر ہوکر سیلاب زدگان کی بحالی کا کام کرنا ہے: پرویز اشرف
  • میچ ریفری تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی،محسن نقوی
  • کالا باغ ڈیم پر سیاست نہیں ہونی چاہیے، ڈیم اور بیراج بننے چاہئیں، سعد رفیق
  • اینڈی پائیکرافٹ تنازع، اندازہ نہیں تھا کیا فیصلہ ہوگا، اللہ نے پاکستان کی عزت رکھی، محسن نقوی
  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • بدترین سیلاب، بروقت انخلا سے 25 لاکھ انسانی زندگیوں کو محفوظ بنایا گیا
  • بھارتی کرکٹ ٹیم یا بی جے پی کا اشتہاری بورڈ
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور