جنگلات کی کمی اور سیلاب کا بڑھتا خطرہ
اشاعت کی تاریخ: 5th, September 2025 GMT
لاہور:
پنجاب میں حالیہ تباہ کن سیلاب نے ایک بار پھر اس بحث کو جنم دیا ہے کہ اگر صوبے میں جنگلات کا رقبہ عالمی معیار کے مطابق ہوتا تو شاید نقصانات کی شدت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔
ماہرین ماحولیات کے مطابق درخت بارش کے پانی کو جذب کرنے، بہاؤ کو سست کرنے اور مٹی کو کٹاؤ سے بچانے میں فطری ڈھال کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن پنجاب میں جنگلات کا رقبہ محض تین فیصد کے لگ بھگ ہے جو ماحولیاتی ماہرین کے مطابق تشویش ناک حد تک کم ہے۔
اقوام متحدہ کے ماحولیاتی معیار کے مطابق کسی بھی ملک کے کم از کم 25 سے 30 فیصد رقبے پر جنگلات ہونا ضروری ہے، تاہم پنجاب میں یہ شرح صرف 3.
محکمہ جنگلات پنجاب کے مطابق صوبے میں جنگلات کا کل رقبہ ایک اعشاریہ 663 ملین ایکڑ ہے جس میں سب سے زیادہ حصہ سکرب فارسٹ (41 فیصد) کا ہے جبکہ ذاتی اراضی پر اگائے گئے جنگلات کا حصہ 27 فیصد سے کچھ زیادہ ہے اور باقی حصہ ریورائن ایریا، رینج لینڈ اور کانفیریس لینڈ پر مشتمل ہے۔
ڈائریکٹر جنرل محکمہ جنگلات اظفر ضیا کا کہنا تھا کہ صوبے میں شجرکاری کی وسیع مہم جاری ہے، صرف 2025 اور 2026 کے دوران 40 ہزار ایکڑ پر 51 ملین پودے لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ رواں سال مون سون میں 25 ہزار ایکڑ پر 21 ملین پودے لگانے کا ہدف رکھا گیا تھا جن میں سے اب تک ساڑھے 6 ملین لگائے جا چکے ہیں، موسم بہار کی شجرکاری میں ساڑھے 10 ملین سے زائد پودے ہدف سے زیادہ لگائے گئے ہیں اور ایگروفاریسٹری کے تحت کسانوں کی زمینوں پر بھی لاکھوں پودے لگائے گئے ہیں۔
اعداد و شمار کے مطابق 2013 میں پنجاب میں جنگلات کا رقبہ سات لاکھ ایک ہزار ایکڑ کے قریب تھا جو اب بڑھ کر 12 لاکھ 63 ہزار ایکڑ ہو گیا ہے، اسی عرصے میں بنجر رقبہ 9 لاکھ 60 ہزار ایکڑ سے کم ہوکر 3 لاکھ 99 ہزار ایکڑ رہ گیا۔
ماہرین کے مطابق شرح کے اعتبار سے یہ اضافہ ناکافی ہے، جنگلات کا رقبہ صرف ایک فیصد بڑھانے کے لیے چھانگا مانگا جیسے 43 مزید جنگلات درکار ہیں لیکن صوبے میں اتنا وسیع خالی رقبہ دستیاب نہیں ہے۔
انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر (آئی یوسی این) کے نیشنل پراجیکٹ ڈائریکٹر عاصم جمال نے کہا کہ پنجاب کے 3 فیصد جنگلاتی رقبے میں سے صرف 0.45 فیصد درحقیقت درختوں سے ڈھکا ہے جبکہ باقی بنجر ہے اور ان زمینوں پر شجرکاری کے ذریعے صوبے کو اصل تین فیصد تک لایا جانا ضروری ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ کسانوں اور زمین مالکان کو یہ باور کرانا ہوگا کہ درخت زمین کی زرخیزی بڑھاتے ہیں، فصلوں کو آفات سے بچاتے ہیں اور کاربن مارکیٹ کے ذریعے آمدن کا ذریعہ بھی بن سکتے ہیں۔
ورلڈ وائیڈ فنڈ فار نیچر پاکستان (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے مطابق ملک میں ہر سال تقریباً 11 ہزار ہیکٹر جنگلات ختم ہو جاتے ہیں، بڑے خطرات میں بے دریغ کٹائی، جنگل کی آگ، ماحولیاتی تبدیلی اور زرعی و تجارتی منصوبوں کے لیے جنگلاتی زمین کا خاتمہ شامل ہے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف-پاکستان کے ڈائریکٹر جنرل حماد نقی خان نے کہا کہ جنگلات کا تحفظ محض ماحولیاتی ضرورت نہیں بلکہ معاشی مجبوری بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بڑے اور پرانے درختوں کی کٹائی ماحولیاتی نقصان کو بڑھا رہی ہے جبکہ شہروں میں سبز احاطے کم ہونے سے اربن فلڈنگ کے مسائل بڑھ گئے ہیں، انہوں نے زور دیا کہ نئے پودے لگانے کے ساتھ بالغ درختوں کا تحفظ اور شہری منصوبہ بندی میں سبزہ برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
محکمہ جنگلات کا دعویٰ ہے کہ جنگلات کی نگرانی اور تحفظ کے لیے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جا رہی ہے، جی آئی ایس لیب کے ذریعے 67 فیصد رقبے کی سیٹلائٹ امیجری مانیٹرنگ ہو رہی ہے جبکہ مصنوعی ذہانت والے ڈرونز سے جنگلات میں آگ کی نگرانی کی جا رہی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ 2024 میں جنگلات میں آگ کے 269 واقعات رپورٹ ہوئے تھے جن سے ساڑھے 6 ہزار ایکڑ متاثر ہوا تاہم 2025 میں یہ واقعات کم ہو کر 200 رہ گئے اور متاثرہ رقبہ ڈھائی ہزار ایکڑ تک محدود رہا۔
صوبائی وزیر مریم اورنگزیب کے مطابق وزیراعلیٰ مریم نواز شریف نے پہلی بار جنگلات کی لکڑی کی نیلامی کے روایتی نظام پر پابندی عائد کر دی ہے، اس فیصلے کے تحت جنگلات کی کٹائی کے واقعات کو روکنے اور شفاف ضوابط وضع کرنے کے لیے جدید میپنگ اور ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی۔
حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام نہ صرف درختوں کے تحفظ بلکہ زمینی کٹاؤ روکنے کے لیے بھی اہم سنگ میل ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگرچہ پنجاب میں شجرکاری کی پیش رفت حوصلہ افزا ہے لیکن زمین کی کمی کے باعث بڑے جنگلات لگانا ممکن نہیں، ایسے میں ایگروفاریسٹری، اربن فاریسٹری اور موجودہ جنگلات کا تحفظ ہی وہ راستہ ہے جس سے سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات کو کم کرتے ہوئے صوبے کو پائیدار ماحول کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جنگلات کا رقبہ میں جنگلات کا جنگلات کی ہزار ایکڑ نے کہا کہ کے مطابق انہوں نے ہے جبکہ رہی ہے کے لیے
پڑھیں:
سیلاب کی تباہ کاریاں : پنجاب و سندھ کی سینکڑوں بستیاں اجڑ گئیں، فصلیں تباہ
ویب ڈیسک: پنجاب میں سیلاب نے تباہی کی خوفناک داستانیں رقم کر دیں، جہاں متاثرہ اضلاع میں پانی کی بھرمار کے باعث بحالی کا کام شروع نہیں ہو سکا۔ پانی کے اترنے کے بعد ہی مرمت اور بحالی کے کام کا آغاز ممکن ہوگا۔ کئی بستیاں اور مکانات مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں جبکہ کئی علاقے کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں۔
لاہور کی پانچ تحصیلوں کے 26 موضع جات سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں، جہاں 82 ہزار 952 افراد کو نقصان پہنچا اور 36 ہزار 658 افراد کو نقل مکانی کرنی پڑی۔ علی پور میں کئی بستیاں جیسے بستی لاشاری، بستی چنجن، بستی میسر اور بستی چانڈیہ سیلابی پانی کی لپیٹ میں آ گئیں۔ خان گڑھ ڈوئمہ، سیت پور، لتی ماڑی، چوکی گبول، عظمت پور اور گھلواں دوم سمیت دیگر علاقے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔
پاکستان کرکٹ بورڈ نےڈائریکٹر انٹرنیشنل کرکٹ عثمان واہلہ کو معطل کر دیا
دریائے ستلج کے منچن آباد کے مقام پر پانی کی سطح میں کمی آئی ہے مگر تاحال بحالی کا عمل شروع نہیں ہو سکا۔ موضع بہرامکا ہٹھاڑ میں متاثرین کی زندگی معمول پر نہیں آ سکی۔ منچن آباد کے 15 سے زائد دیہات کا زمینی رابطہ منقطع ہے، اور متاثرہ علاقوں میں 5 سے 7 فٹ تک سیلابی پانی موجود ہے، جس سے سیکڑوں ایکڑ فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
ادھر اوچ شریف اور احمد پور شرقیہ میں صورتحال مزید ابتر ہو گئی ہے۔ اوچ شریف کے 36 موضع جات میں مکانات منہدم ہو گئے اور ہزاروں ایکڑ رقبہ متاثر ہوا ہے۔ دریائے ستلج کے ریلے نے منچن آباد کے 67 موضع جات میں تباہی مچا دی ہے، جہاں 56 ہزار 374 افراد متاثر ہوئے ہیں اور 20 سے زائد دیہات کا زمینی رابطہ اب تک منقطع ہے۔ چشتیاں میں سیلابی ریلے نے 47 موضع جات کو زیر آب لے لیا ہے اور لوگوں کے گھر بار تباہ ہو چکے ہیں۔ شجاع آباد کی بستی سو من میں بھی شدید تباہی ہوئی ہے، جہاں سیکڑوں مکانات گرنے سے ہزاروں افراد بے گھر ہو گئے ہیں۔
جب انکم ٹیکس مسلط نہیں کر سکتے تو سپر ٹیکس کیسے مسلط کر سکتے ہیں، جج سپریم کورٹ
عارف والا میں بھی سیلاب کی تباہ کاریوں نے تباہی کے مناظر پیش کیے ہیں، کئی بستیاں مکمل طور پر برباد ہو چکی ہیں۔ جلالپور پیروالا میں موٹر وے بھی سیلابی پانی کی نذر ہو گئی ہے اور ایم فائیو کو بند کر دیا گیا ہے۔
سندھ کے کچے میں بھی درجنوں دیہات زیر آب آ چکے ہیں۔ گڈو، سکھر اور کوٹری بیراج پر پانی کی آمد میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں گڈو بیراج پر پانی کی آمد 5 لاکھ 94 ہزار 936 کیوسک، سکھر بیراج پر 5 لاکھ 8 ہزار 830 کیوسک اور ہیڈ پنجند پر 2 لاکھ 30 ہزار کیوسک پر آ گئی ہے۔ گھوٹکی میں سیلابی پانی بچاؤ بند سے ٹکرا گیا ہے، کپاس اور گنے کی فصلیں بھی زیر آب آ چکی ہیں۔
لاہور کے مختلف علاقوں سے خاتون سمیت4 افراد کی لاشیں برآمد
اوباڑو کی یونین کونسل بانڈ اور قادرپور کے کچے کے کئی دیہات زیر آب آ گئے ہیں۔ نوشہرو فیروز میں کمال ڈیرو کے قریب ماہی جو بھان کا زمیندارہ بند ٹوٹنے سے 50 سے زائد دیہات ڈوب چکے ہیں۔ نوڈیرو میں بھی اونچے درجے کا سیلاب ہے، جہاں پانی کا بہاؤ 5 لاکھ 26 ہزار 67 کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے، اور موریا لوپ بند اور برڑا پتن پر پانی کا دباؤ بڑھ رہا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے مٹھو کھڑو گاؤں شدید متاثر ہو چکا ہے اور پانی گھروں میں داخل ہونا شروع ہو گیا ہے۔
9 شہریوں کے قتل میں ملوث اشتہاری ملزم سعودی عرب سے گرفتار
پنجاب کے دریاؤں کی صورتحال کے حوالے سے پی ڈی ایم اے کے مطابق دریائے سندھ تربیلا کے مقام پر پانی کا بہاؤ نارمل ہے اور ایک لاکھ 96 ہزار کیوسک ہے، کالا باغ پر بھی بہاؤ نارمل ہے اور ایک لاکھ 69 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔ چشمہ اور تونسہ کے مقام پر پانی کا بہاؤ نارمل رہنے کے ساتھ بالترتیب ایک لاکھ 78 ہزار اور ایک لاکھ 61 ہزار کیوسک ہے۔
دریائے چناب کے مختلف مقامات پر بھی پانی کا بہاؤ نارمل ہے، مرالہ پر 56 ہزار کیوسک، خانکی پر 68 ہزار کیوسک، قادر آباد پر 75 ہزار کیوسک اور ہیڈ تریموں پر 80 ہزار کیوسک ہے۔ دریائے پنجند کے مقام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے اور پانی کا بہاؤ 2 لاکھ 34 ہزار کیوسک ریکارڈ کیا گیا ہے۔
اسلام آباد اور پنڈی کے درمیان جدید تیز رفتار ٹرین چلانے کا فیصلہ
دریائے راوی کے مقامات جسڑ، شاہدرہ، بلوکی اور سدھنائی پر پانی کا بہاؤ نارمل ہے، جہاں پانی کی مقدار بالترتیب 8 ہزار، 10 ہزار، 29 ہزار اور 23 ہزار کیوسک ہے۔ دریائے ستلج کے گنڈا سنگھ والا اور ہیڈ اسلام پر درمیانے درجے کا سیلاب ہے، جبکہ سلیمانکی پر نچلے درجے کا سیلاب موجود ہے اور پانی کا بہاؤ 90 ہزار کیوسک ہے۔
سیلاب کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر متاثرہ علاقوں میں امدادی اور بحالی کا کام شروع کرنے کے لئے پانی کے اترنے کا انتظار کیا جا رہا ہے تاکہ متاثرین کی زندگیوں کو جلد از جلد معمول پر لایا جا سکے۔