ٹرمپ-شی فون کال: تعلقات میں بہتری کا اشارہ، مگر ٹک ٹاک ڈیل تاحال غیر یقینی
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان 3 ماہ بعد پہلی فون کال میں تعلقات میں نرمی کا اشارہ ملا، تاہم مشہور ایپ ٹک ٹاک کے مستقبل پر کوئی حتمی فیصلہ سامنے نہیں آیا۔
یہ بھی پڑھیں:توانائی کے صاف اور قابلِ تجدید ذرائع کا استعمال، چین امریکا پر بازی لے گیا
ٹرمپ نے کال کے بعد دعویٰ کیا کہ ڈیل قریب ہے، مگر بیجنگ کے بیان میں محتاط لہجہ اختیار کیا گیا۔ چینی صدر نے کہا کہ کاروباری مذاکرات مارکیٹ اصولوں اور ملکی قوانین کے مطابق ہونے چاہییں۔
ماہرین کے مطابق یہ کال بظاہر تعلقات میں ’برف پگھلنے‘ کا اشارہ ہے، مگر بڑے تجارتی معاہدے کا امکان اکتوبر میں جنوبی کوریا میں ہونے والے ایپیک سربراہی اجلاس تک مؤخر ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ نے حال ہی میں بائٹ ڈانس کو امریکا میں ٹک ٹاک بیچنے یا پابندی کا سامنا کرنے کی ڈیڈ لائن ایک بار پھر بڑھا دی تھی۔
ماہرین کہتے ہیں کہ اصل تنازع ایپ کے ڈیٹا سیکیورٹی سے زیادہ اس کے الگورتھم کے اثر و رسوخ کا ہے، جسے چین چھوڑنے پر تیار نہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرچہ امریکا دباؤ ڈال رہا ہے، مگر نایاب معدنیات اور ٹیکنالوجی میں برتری کے باعث بیجنگ خود کو زیادہ مضبوط اور پر اعتماد محسوس کر رہا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ٹک ٹاک چین صدر ٹرمپ صدر شی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ٹک ٹاک چین ٹک ٹاک
پڑھیں:
امریکا بگرام ائر بیس کی واپسی کیوں چاہتا ہے؟
گزشتہ روز برطانیہ کے دورے کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانوی وزیر اعظم کیئر اسٹارمر کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا، ’ہم بگرام ائر بیس کو طالبان حکومت سے واپس لینا چاہتے ہیں کیونکہ یہ چین کے اُس مقام سے ایک گھنٹے کے فاصلے پر ہے جہاں چین اپنے جوہری ہتھیار بناتا ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے طالبان سے بگرام ایئربیس واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ
اُسی پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے اپنے پیش رو امریکی صدر جو بائیڈن کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ بائیڈن کے دورِ حکومت میں امریکا افغانستان سے شرمناک طریقے سے نکلا۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ ائربیس واپس چاہیے کیونکہ طالبان حکومت کو بھی ہم سے کچھ چیزیں چاہئیں۔
بگرام ائر بیس کی اہمیت کیا ہے؟بگرام ائر بیس افغانستان کا سب سے بڑا اور سب سے اسٹریٹیجک فوجی اڈہ سمجھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کئی حوالوں سے ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے یہ مقام کابل سے تقریباً 40 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔ یہاں سے وسطی ایشیا، چین، ایران اور پاکستان تک فوجی آپریشنز کی کڑی نگرانی ممکن ہے۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ نے افغانستان میں چھوڑا گیا امریکی اسلحہ واپس لینے کا اعلان کر دیا
امریکی فوج کے افغانستان پر قبضے کے دوران یہ اُن کی فوجی طاقت کا مرکز تھا؛ یہ بیس امریکی اور نیٹو افواج کے لیے افغانستان میں کمانڈ، لاجسٹکس اور ایئر آپریشنز کا بنیادی ہیڈکوارٹر تھا۔ یہاں سے لڑاکا طیارے، ڈرون اور ہیلی کاپٹر اڑان بھرتے تھے جو افغانستان کے اندرونی حصوں اور سرحدی علاقوں میں کارروائیاں کرتے رہے۔
بعض اطلاعات کے مطابق یہ خفیہ سرگرمیوں کا مرکز بھی تھا۔ بگرام پر قید خانہ اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کے مراکز بھی قائم تھے جہاں اہم طالبان اور القاعدہ جنگجوؤں کو رکھا جاتا رہا۔ بگرام ائر بیس کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ اس بیس سے امریکا نہ صرف افغانستان بلکہ ایران، پاکستان، وسطی ایشیا اور چین کے مغربی حصوں پر بھی نظر رکھ سکتا تھا۔
جو بائیڈن کی غلطیامریکا نے 15 اگست 2021 کو، سابق صدر جو بائیڈن کے دورِ حکومت میں، افغانستان سے انخلا کے دوران یہ بیس خالی کر دیا تھا جس پر طالبان نے قابو پالیا۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسے سب سے بڑی غلطی قرار دیا اور اب اسے واپس لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔
چین کا ردعمل: کشیدگی بڑھانے والے بیانات سے گریز کیا جائےامریکی صدر کے بیان پر چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ چین افغانستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرتا ہے اور کسی بھی ملک کو وہاں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
چینی ترجمان نے مزید کہا کہ خطے میں استحکام سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ متعلقہ فریقین ایسے اقدامات سے گریز کریں گے جو کشیدگی بڑھائیں۔
امریکی عہدیداران بھی مخالفبین الاقوامی خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق ایک امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بگرام ائربیس کو فوجی طاقت کے ذریعے واپس لینے کی کوئی فعال منصوبہ بندی نہیں کی جا رہی۔ اس عہدیدار کے بقول، یہ اڈہ 2021 میں چھوڑ دیا گیا تھا اور دوبارہ حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش ایک بڑی مہم ہو گی۔
یہ بھی پڑھیے ٹرمپ کو پاکستان سے کیا کام ہے؟
ان کے مطابق بگرام ائربیس کو قبضے میں لینے اور برقرار رکھنے کے لیے دس ہزار فوجیوں کی ضرورت ہوگی، اڈے کی مرمت پر بھاری اخراجات آئیں گے، اور رسد کی فراہمی کے لیے ایک لازمی مگر مشکل لاجسٹک کام کرنا پڑے گا۔ چاہے امریکی فوج اس بیس کا کنٹرول حاصل بھی کر لے، تب بھی اس کے گرد پھیلے ہوئے وسیع علاقے کو صاف اور محفوظ کرنا ایک بڑا چیلنج ہوگا تاکہ وہاں سے امریکی افواج پر راکٹ حملے نہ کیے جا سکیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان بگرام ایئر بیس ڈونلڈ ٹرمپ