دنیا بھر کی رائے: یو این جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے بارے میں جانیے
اشاعت کی تاریخ: 20th, September 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 20 ستمبر 2025ء) عالمی رہنما ان دنوں امریکہ کے شہر نیویارک کے علاقے مین ہٹن میں مشرقی دریا کے کنارے واقع اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اس کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں جسے حالیہ برسوں کا سب سے اہم سالانہ اجلاس قرار دیا جا رہا ہے۔
اس موقع پر 193 رکن ممالک کے نمائندوں سمیت دو مبصر وفود بھی جنرل اسمبلی کے مشہور مرکزی ہال میں ہونے والے عام مباحثے میں خطاب کریں گے۔
اسی دوران اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹر میں اعلیٰ سطحی کے اجلاسوں کا سلسلہ بھی جاری رہے گا جہاں انسانیت کو درپیش سنگین مسائل پر بات چیت ہو گی۔جنگوں، موسمیاتی تبدیلی، صنفی عدم مساوات اور مصنوعی ذہانت سے درپیش اخلاقی مسائل جیسے عالمی بحرانوں کے دوران ہفتہ بھر جاری رہنے والے یہ اعلیٰ سطحی اجلاس محض ایک روایت نہیں بلکہ عالمی برادری کے لیے غور وفکر، عزمِ نو اور مشترکہ مستقبل کی تعمیر کا اہم موقع بھی ہیں۔
(جاری ہے)
یہ تقریبات جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے باقاعدہ آغاز کا اعلان ہیں جسے عام طور پر 'یو این جی اے 80' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ اجلاس اقوام متحدہ کے قیام کی 80ویں سالگرہ کی علامت بھی ہے۔
عام مباحثہ: تقاریر، تقاریر اور مزید تقاریرجنرل اسمبلی اقوام متحدہ کا بنیادی مشاورتی و مباحثی ادارہ ہے۔23 ستمبر سے شروع ہونے والی یہ عام بحث کئی لوگوں کے لیے جنرل اسمبلی کے اجلاس کا سب سے اہم حصہ ہوتی ہے۔
ہر سال عالمی رہنما اسمبلی ہال کے سنہری پس منظر میں پوڈیم پر کھڑے ہو کر اپنی ترجیحات دنیا کے سامنے واضح کرتے ہیں۔ہر تقریر کے لیے اصولی اور رضاکارانہ طور پر پندرہ منٹ کا وقت مقرر ہوتا ہے تاکہ چھ یوم میں 193 سے زیادہ مقررین کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع دیا جا سکے، تاہم اکثر وقت کی اس پابندی پر عمل نہیں کیا جاتا۔
روایتی طور پر سب سے پہلے برازیل خطاب کرتا ہے اور اس کے بعد بطور میزبان ملک امریکہ کو تقریر کا موقع دیا جاتا ہے۔
حالیہ اجلاس کی صدارت جنرل اسمبلی کی نئی صدر اینالینا بیئربوک کریں گی جس کا موضوع ہے 'اتحاد میں بہتری: امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 برس اور اس سے آگے' ہے۔ اینالینا بیئربوک اقوام متحدہ کی 80 سالہ تاریخ میں پانچویں خاتون ہیں جنہیں یہ منصب ملا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے جولائی 2025 میں کہا تھا کہ مسئلہ فلسطین کا دو ریاستی حل اب پہلے سے بھی زیادہ مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کو حل کرنے کے لیے اس فارمالو میں دونوں اقوام کے لیے علیحدہ ریاستوں کی صورت میں پرامن بقائے باہمی کی بات کی گئی ہے۔
یہ فارمولہ موجودہ تنازع سے کہیں پرانا ہے جو اکتوبر 2023 میں حماس کے جانب سے جنوبی اسرائیل پر مہلک دہشت گردحملوں کے بعد شروع ہوا۔
غزہ میں ہلاکتوں کی تعداد 70 ہزار کے قریب پہنچ گئی ہے اور اسرائیل کے یرغمالی اب بھی قید ہیں۔ اقوام متحدہ کے رکن ممالک 22 ستمبر کو ایک بین الاقوامی کانفرنس میں دو ریاستی حل پر بات چیت کو آگے بڑھائیں گے۔
یہ کانفرنس جولائی 2025 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں منعقد ہونے والے اُن اجلاسوں کا تسلسل ہے جن میں اسرائیل اور امریکہ دونوں شریک نہیں ہوئے تھے۔
1995 کا بیجنگ اعلامیہ اور عملی اقدامات کا پلیٹ فارم دنیا بھر میں صنفی مساوات کے قیام اور خواتین و لڑکیوں کے حقوق کے فروغ کے لیے اب تک کا سب سے ترقی پسند منصوبہ تصور کیا جاتا ہے۔
اس تاریخی اعلامیے کو تین دہائیاں بیت چکی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خواتین 'یو این ویمن' نے کہا ہے کہ صنفی مساوات میں پیش رفت کے باوجود خواتین کے حقوق کی مخالفت بڑھ رہی ہے۔
22 ستمبر کو عالمی رہنما 'بیجنگ +30 ایکشن ایجنڈا' پر بات کریں گے جس کا مقصد ڈیجیٹل ترقی، غربت کا خاتمہ، تشدد سے آزادی، مساوی فیصلہ سازی کا حق، امن وسلامتی اور ماحولیاتی انصاف کے امور میں خواتین اور لڑکیوں کی مساوی رائے کو یقینی بنانا ہے۔
دنیا بھر میں یہ کوششیں جاری ہیں کہ عالمی حدت کو قبل از صنعتی دور کے مقابلے میں 1.
اس اجلاس میں عالمی رہنما اپنے نئے قومی موسمیاتی منصوبے پیش کریں گے۔ یہ ہر ملک کی طرف سے کیے گئے وعدے ہیں جن میں بتایا جاتا ہے کہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کرنے کے لیے کون سے اقدامات کریں گے۔
اس اجلاس میں حکومت، کاروباری شعبے اور سول سوسائٹی کے رہنما بھی شرکت کریں گے تاکہ وہ ماحولیاتی تبدیلی کی شدت میں کمی لانے، اس کے اثرات سے موافقت پیدا کرنے، ان پر قابو پانے کے لیے مالی وسائل کی دستیابی اور اس مسئلے پر معلومات کی شفافیت کے حوالے سے عملی اقدامات کی تجاویز پیش کر سکیں۔
اقوامِ متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ یہ دنیا کے لیے ایک اہم موقع ہے۔
یہ اجلاس اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) سے قبل منعقد ہو رہا ہے جو نومبر میں برازیل میں منعقد ہو گی۔
مصنوعی ذہانت (اے آئی) تیزی سے دنیا کو بدل رہی ہے۔ اس میں خودکار گاڑیاں، طبی تصاویر کا تجزیہ، کاروباری و مالیاتی تجارتی الگورتھم، ورچوئل معاونین اور زبانوں کے فوری تراجم شامل ہیں۔
تاہم، مصنوعی ذہانت کے فوائد یکساں طور پر تقسیم نہیں ہوئے اور بہت سے ممالک اس ٹیکنالوجی تک رسائی میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں جو ترقی میں معاون ثابت ہو سکتی ہے اور عام لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنا سکتی ہے۔
مصنوعی ذہانت کی تیز رفتار توسیع کے ساتھ معلومات کی حقیقت پر خدشات اور خفیہ نگرانی کے ذریعے انسانی حقوق کی پامالی جیسے خطرات اور مسائل بھی سامنے آئے ہیں۔
فی الوقت عالمی سطح پر مصنوعی ذہانت کی نگرانی کے لیے کوئی تسلیم شدہ ادارہ موجود نہیں ہے۔ اسی لیے عالمی رہنما 25 ستمبر کو نیویارک میں جمع ہو رہے ہیں تاکہ جامع اور شفاف مصنوعی ذہانت کے نظم ونسق کے لیے کسی فریم ورک پر غور کیا جا سکے۔
سیکرٹری جنرل نے کہا ہے کہ مناسب حفاظتی اقدامات کے بغیر مصنوعی ذہانت عدم مساوات اور ڈیجیٹل خلیج کو مزید بڑھا کر کمزور ترین طبقات کو غیر متناسب طور پر متاثر کر سکتی ہے۔ اسی لیے حالیہ موقع سے فائدہ اٹھانا ہو گا۔
اعلیٰ سطحی ہفتے کے دوران درج ذیل اجلاس بھی منعقد ہو رہے ہیں:
اقوام متحدہ کی 80ویں سالگرہ کی تقریب (22 ستمبر)پائیدار، شمولیتی اور مستحکم عالمی معیشت کے لیے اجلاس (24 ستمبر)غیر متعدی امراض کی روک تھام و کنٹرول اور ذہنی صحت وبہبود کے فروغ پر اجلاس (25 ستمبر)نوجوانوں کے عالمی پروگرامِ عمل کی 30ویں سالگرہ کی تقریب (25 ستمبر)ایٹمی ہتھیاروں کے مکمل خاتمے کے بین الاقوامی دن کی تقریب (25 ستمبر)ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے جنرل اسمبلی کے اقوام متحدہ کی مصنوعی ذہانت عالمی رہنما منعقد ہو ستمبر کو دنیا بھر اجلاس کے کریں گے جاتا ہے رہے ہیں اور اس کے لیے
پڑھیں:
دنیا اسرائیل کی دھمکیوں سے مرعوب نہ ہو، انتونیو گوتیریس
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کہا ہے کہ دنیا کو اسرائیل اور اس کے مقبوضہ مغربی کنارے کے ممکنہ الحاق کی دھمکیوں سے خوف زدہ نہیں ہونا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں:پرتگال سمیت 10 ممالک فلسطین کو تسلیم کرنے کو تیار
انہوں نے خبردار کیا کہ فلسطین کی حالتِ زار اور غزہ میں تباہی ان کی زندگی میں بدترین منظر ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس سے قبل ایک انٹرویو میں گوتیریس نے کہا کہ 10 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کریں گے، چاہے اسرائیل سخت مخالفت کرے۔
ان کے بقول ہمیں جوابی کارروائی کے خطرے سے مرعوب نہیں ہونا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ میں قحط، صحت کی سہولیات کی مکمل تباہی اور لاکھوں بے گھر افراد کا اذیت ناک حال دنیا کی توجہ کا متقاضی ہے۔
ادھر اسرائیل کے انتہا پسند وزیر خزانہ بیزالیل سموترچ نے مغربی کنارے کے بڑے حصوں کے الحاق کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے فلسطینی ریاست کے تصور کو دفن کر دیا جائے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ انتونیو گوتیریس غزہ فلسطین