مشن نور عوامی خود مختاری اور بیداری کی تحریک ہے، علامہ مقصود ڈومکی
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
جیکب آباد میں نوجوانوں کے ہمراہ ازان کے بعد علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ فراڈ الیکشن اور فارم سینتالیس کی جعلی حکومت کے سبب وطن عزیز پاکستان اس وقت سنگین سیاسی اور آئینی بحران سے گزر رہا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے چلائی جانے والی "مشن نور / آذان تحریک" دراصل ایک ایسی ملک گیر بیداری کی تحریک ہے جس کا مقصد آئین پاکستان کی حفاظت، عوامی خود مختاری، بنیادی حقوق کا تحفظ اور بیرونی و اندرونی دباؤ سے آزاد ایک خوددار پاکستان کی تشکیل ہے۔ قائد وحدت کے شانہ بشانہ جدوجہد جاری رہے گی۔ ایم ڈبلیو ایم رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے ملک گیر مہم کے موقع پر نوجوانوں کے ہمراہ جیکب آباد میں اذان دی۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ فراڈ الیکشن اور فارم سینتالیس کی جعلی حکومت کے سبب وطن عزیز پاکستان اس وقت سنگین سیاسی اور آئینی بحران سے گزر رہا ہے۔ روزانہ جمہوری اقدار کو کچلنے اور عوام کی آواز کو دبانے کے لیے نت نئے کالے قوانین نافذ کیے جا رہے ہیں، جو آئین اور بنیادی انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین، تحریک تحفظ آئین پاکستان کی ایک فعال رکن جماعت کی حیثیت سے ان تمام غیر جمہوری اقدامات کی شدید مذمت کرتی ہے اور عوامی جدوجہد کی مکمل حمایت کا اعلان کرتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج قائد وحدت، مجاہد عالم دین سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے اذان دے کر تحریک میں براہ راست شمولیت اختیار کی ہے اور یہ اعلان کیا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے لیے متحد ہوں۔ ہم قائد وحدت کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے ظلم و جبر کے خلاف عملی میدان میں ہر اول دستے کا کردار ادا کریں گے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے چلائی جانے والی "مشن نور/آذان تحریک" دراصل ایک ایسی ملک گیر بیداری کی تحریک ہے جس کا مقصد آئین پاکستان کی حفاظت، عوامی خود مختاری، بنیادی حقوق کا تحفظ اور بیرونی و اندرونی دباؤ سے آزاد ایک خوددار پاکستان کی تشکیل ہے۔ اس تحریک کے ذریعے عوام کو یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ ظلم و ناانصافی کے اندھیروں کو توڑنے کے لیے اجتماعی طور پر میدان میں آنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج ہم نے نوجوانوں کے ہمراہ اذان دے کر اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا۔ اذان کا یہ عمل ایک علامتی مگر پرعزم اعلان ہے کہ ہم ظلم کے مقابلے میں خاموش نہیں رہیں گے۔
انکا کہنا تھا کہ جس طرح اذان اللہ کی حاکمیت اور بندوں کی بیداری کا اعلان ہے، اسی طرح یہ تحریک آئین و قانون کی بالادستی اور قومی خود مختاری کی عملی جدوجہد ہے۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ تحریک تحفظ آئین پاکستان کے بنیادی مقاصد میں عوام کی حکمرانی، جمہوری اقدار کی بحالی، قانون کی حکمرانی، ریاستی اداروں کو آئین کے دائرے میں لانا، اور سیاسی انتقام کے دروازے بند کرنا شامل ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر یہ تحریک کامیاب ہوئی تو پاکستان حقیقی معنوں میں ایک خودمختار، جمہوری اور عوام دوست ریاست کے طور پر ابھرے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ اتحاد امت، مظلوم عوام کی حمایت اور آئین کی بالادستی ہی پاکستان کو بحرانوں سے نکالنے کا واحد راستہ ہے۔ لہٰذا ہم قائد وحدت سینیٹر علامہ راجہ ناصر عباس جعفری اور تحریک تحفظ آئین پاکستان کے ساتھ مل کر اس جدوجہد کو منطقی انجام تک پہنچائیں گے۔ یہ تحریک صرف چند افراد یا جماعتوں کی نہیں بلکہ پوری قوم کے مستقبل کی ضمانت ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: علامہ مقصود علی ڈومکی نے آئین پاکستان ڈومکی نے کہا کی بالادستی خود مختاری پاکستان کی نے کہا کہ انہوں نے قانون کی کے لیے
پڑھیں:
برطانیہ: اب عوامی نمائندوں، سرکاری عہیدیداروں کے گھروں پر احتجاج عوام کو مہنگا پڑے گا
برطانیہ نے ایک نئے قانون کے تحت منتخب نمائندوں، ججوں اور مقامی کونسلروں کے گھروں کے باہر احتجاج کو جرم قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدام سیاست میں بڑھتی ہوئی ہراسانی اور دھمکیوں کو روکنے کی وسیع تر کوششوں کا حصہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کا نیا پاسپورٹ جاری کرنے کا فیصلہ، یہ کن منفرد خصوصیات کا حامل ہوگا؟
رائٹرز کے مطابق برطانوی حکومت کا کہنا ہے کہ ’کرائم اینڈ پولیسنگ بل‘ کے تحت پولیس کو ایسے مظاہروں کو روکنے کا اختیار حاصل ہوگا جو کسی عوامی عہدیدار کو اس کے سرکاری فرائض یا ذاتی زندگی میں متاثر کرنے کے ارادے سے کیے جائیں۔ قانون کی خلاف ورزی پر 6 ماہ تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔
سیکیورٹی وزیر ڈین جاروس نے ایک بیان میں کہا کہ برطانوی سیاست میں حصہ لینے والوں کو جس سطح کی بدسلوکی کا سامنا ہے، وہ واقعی چونکا دینے والی ہے یہ ہماری جمہوریت کے لیے خطرہ ہے۔ لوگوں کو سیاست میں حصہ لیتے وقت اپنے یا اپنے خاندان کے تحفظ کے بارے میں خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔
ایک پارلیمانی سروے کے مطابق 96 فیصد ارکان پارلیمان نے ہراسانی یا دھمکیوں کا سامنا کیا ہے جبکہ برطانیہ کے انتخابی نگران ادارے کے مطابق پچھلے عام انتخابات میں نصف سے زائد امیدواروں کو بھی اسی نوعیت کے خطرات کا سامنا رہا۔
مزید پڑھیے: سارہ مولالی برطانیہ کی پہلی خاتون آرچ بشپ آف کینٹربری مقرر
گزشتہ برس موجودہ وزیراعظم کیر اسٹارمر کے گھر کے باہر فلسطین نواز مظاہرین نے بچوں کے جوتے اور ایک بینر چھوڑا تھا جس میں اسرائیل پر اسلحہ کی پابندی کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اس سے قبل سنہ 2023 میں سابق وزیراعظم رِشی سونک کے لندن اور شمالی یارکشائر کے گھروں کے باہر بھی ماحولیاتی کارکنوں نے احتجاج کیا تھا۔
حکومت کے مطابق نئے قانون کے تحت احتجاج سے متعلق مزید اقدامات بھی شامل ہوں گے جن میں جنگی یادگاروں پر چڑھنے، آتش بازی یا فلیئرز کے استعمال اور چہرہ چھپانے کے لیے ماسک پہننے پر پابندی شامل ہے۔
حکومتی وزرا کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کا مقصد جمہوری اداروں کے تحفظ اور عوامی سلامتی کو یقینی بنانا ہے جبکہ ناقدین کا مؤقف ہے کہ اس قانون سے اظہارِ رائے اور احتجاج کے حق پر مزید قدغنیں لگ سکتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پی آئی اے کا برطانیہ کے لیے فضائی آپریشن 5 سال بعد بحال، مانچسٹر کے لیے پہلی پرواز روانہ
یہ کرائم اینڈ پولیسنگ بل اس وقت برطانوی پارلیمان سے منظوری کے مراحل میں ہے اور توقع ہے کہ آئندہ سال اسے شاہی توثیق حاصل ہو جائے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
برطانیہ برطانیہ احتجاج پر سزا برطانیہ نیا قانون