تنہائی سگریٹ سے زیادہ خطرناک کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, September 2025 GMT
انسان معاشرتی حیوان ہے۔ اسے اس طرح سے تخلیق کیا گیا ہے کہ وہ معاشرے میں یا تو کسی کی ضرورت پوری کرتا ہے یا وہ خود کسی کے ہاں ضرورت مند بن کر جاتا ہے۔گویا ایک دوسرے پر انحصار اسے بقاء کا راستہ دکھاتا ہے۔لیکن دورِ حاضر میں انسان مشینی زندگی جینے لگا ہے اور تیزی سے تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔
حالیہ تحقیق سے پتہ چلتا ہے عالمی صحت کو لے کراس وقت تنہائی ایک قابل تشویش امر ہے، کچھ ممالک میں ایک تہائی سے زیادہ بالغ افراد مسلسل تنہائی کے احساسات کی شکایت کرتے ہیں۔ یہ خاموش ’’وباء‘‘ امراض قلب کے بڑھتے ہوئے خطرات، کمزور مدافعتی ردعمل، اور اموات کی بلند شرح کا باعث بن رہی ہے۔ تاہم، تنہائی کے اثرات اکثر اس وقت تک پہچانے نہیں جاتے جب تک کہ صحت کے سنگین خطرات سامنے نہ آجائیں۔درحقیقت اصل چیلنج اس کے نقصان کا پتہ لگانے میں ہے۔ مزید یہ کہ انسانی اعضاء، جسمانی نظاموں اور مجموعی صحت پر اس کے منفی اثرات کو روکنا ایک پیثیدہ اور مشکل کام ہے۔
اموات کا خطرہ
شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ تنہائی قبل از وقت موت کے خطرے کو اس سطح تک بڑھا سکتی ہے جس قدر تمباکو نوشی جیسی مضر صحت عادت بڑھاتی ہے۔ ایک طبی جریدے میں شائع ہونے والے تجزیہ کے مطابق، دائمی تنہائی یا سماجی تنہائی کا سامنا کرنے والے افراد کو ابتدائی عمر میںاموات کے 26% سے 32% زیادہ امکانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگرچہ تمباکو نوشی کو طویل عرصے سے دنیا بھر میںموت کی سب سے بڑی وجہ قرار دیا جاتا ہے، جبکہ تنہائی کو اکثر جلد موت کی وجہ کے بجائے محض ایک جذباتی حالت کے طور پرلیا جاتا ہے۔
یہ موازنہ ایک جسمانی خطرے کے طور پر تنہائی کی شدت کو واضح کرتا ہے اور طبی ماہرین اور عام لوگوں، دونوں کی جانب سے یکساں توجہ کا تقاضہ کرتا ہے۔ تنہائی کے احساسات کو سنجیدگی سے لینا نہ صرف یہ کہ ذہنی تندرستی کے لیے ضروری ہے بلکہ یہ جسمانی صحت کے لیے بھی لازم ہے۔
سگریٹ نوشی کی طرح، دائمی تنہائی سے پیدا ہونے والے صحت کے لئے مستقل خطرات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ تنہائی کے شکار افراد کو اُن کے حال پر نہ چھوڑا جائے بلکہ مداخلت کرتے ہوئے انہیں تنہائی سے نکالنے اور صحت عامہ کی جامع حکمت عملیوں کی ضرورت ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ تنہائی کے خطرات کو پہچانا جائے۔ افراد، خاندانوں اور اور برادریوں کی سطح پر مدد حاصل کرنے اور بامعنی روابط کو فروغ دینے کی ترغیب کا بندوبست کیا جائے۔
قلبی تناؤ
دائمی تنہائی دل کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالتی ہے جس کے نتیجے میں بلڈ پریشر میں اضافہ ہوتا ہے اور ذہنی تناوء کو بڑھانے والے کورٹیسول ہارمونز کی سطح بلند ہو جاتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ مسلسل سماجی تنہائی مستقل ہائی بلڈ پریشر کا باعث بن سکتی ہے، جو کہ دل کی بیماریوں اور فالج کے خطرے میں اضافہ کا باعث بنتا ہے۔ مسلسل تنہائی کے احساسات کے نتیجے میں جو ذہنی تناؤ جنم لیتا ہے اس کی وجہ ایک مخصوص ہار مون میں اضافہ ہے۔ یہی ہارمون انسان کے اندر خطرے کا مقابلہ کرنے یا بھاگ جانے جیسے فوری انسانی رد عمل پاثر انداز ہو تا ہے۔ اس سے دل کی شریانوں پر دباوء بڑھتا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ، یہ شریانوں کو پہنچنے والے نقصان اور سوزش کو مزید بڑھاتا رہتا ہے۔ حال ہی میں سامنے آنے والی طبی تحقیق میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ مسلسل تنہائی کے شکار افراد میں ہائی بلڈ پریشر کا امکان زیادہ ہوتا ہے، جس سے ان کے لئے دل کے دورے اور دیگر امراض قلب لاحق ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر کسی کو طویل عرصے تک تنہائی کا سامنا رہتا ہے تو یہ ضروری ہے کہ اپنے دل کی صحت کی مسلسل نگرانی کی جائے اور اپنے معالج کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہا جائے۔ تنہائی سے نمٹنا صرف دماغی صحت کی ترجیح نہیں ہے ،یہ قلبی امراض کی روک تھام اور مجموعی طور پر انسانی صحت کو اچھی حالت میں رکھنے کا لازمہ ہے۔
کمزور مدافعتی ردعمل
تنہائی صرف دماغ کو متاثر نہیں کرتی بلکہ یہ جسم کے مدافعتی دفاع کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ دائمی تنہائی کا شکار ہیں وہ اکثر مدافعتی خلیوں کے افعال میں کمی کا شکار رہتے ہیں ، جس سے انھیں ایک طرف تو انفیکشن کا زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے اور دوسری جانب بیماری سے صحت یاب ہونے میں تاخیر کا سامنا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جو لوگ سماجی طور پر الگ تھلگ رہتے ہیں ان میں سوزش کی سطح دوسری لوگوں سے زیادہ ہوتی ہے جبکہ اینٹی باڈیز کی پیداوار کم ہوتی ہے، جو دونوں ہی کمزور قوت مدافعت کا باعث ہے۔
اس قوت مدافعت کمزور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ تنہا رہنے والے افراد کو عام بیماریوں جیسے کہ نزلہ زکام اور فلو لگنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے، ان میں بیماری کی علامات زیادہ شدید ہوتی ہیں اور صحت یابی میں دوسرے مریضوں کی نسبت طویل وقت درکار ہوتا ہے۔ سماجی روابط اور مدافعتی صحت کے درمیان تعلق اتنا مضبوط ہے کہ ماہرین اب صحت کی مجموعی دیکھ بھال کے اقدامات میں تنہائی سے نمٹنے کو بھی شامل کرتے ہیں۔
گروپ کی سرگرمیوں میں مشغول ہونا، کلبوں میں شامل ہونا، یا کمیونٹی تنظیموں کے ذریعے مدد حاصل کرنا تنہائی کے احساسات کو کم کرکے مدافعتی افعال کو تقویت دینے میں مدد کر سکتا ہے۔ سماجی میل جول کو ترجیح دینا صرف دماغی تندرستی کے لیے فائدہ مند نہیں ہے بلکہ یہ جسم کے قدرتی دفاع کو مضبوط کرنے اور روزمرہ کی بیماریوں سے بچانے کا ایک عملی طریقہ ہے۔
سوزش میں اضافہ
دائمی تنہائی پورے جسم میں مسلسل، کم سطح کی سوزش پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے۔ یہ ایک ایسی حالت ہے جو متعدد سنگین بیماریوں کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ جب لوگ سماجی طور پر الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں، تو ان کے جسم میں سوزش کا باعث بننے والی پروٹینز C-reactive protein (CRP) اور interleukin-6 (IL-6) کی سطح بڑھ جاتی ہے۔ اینالز آف ہیویورل میڈیسن اور نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ذریعہ شائع ہونے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دائمی طور پر تنہا رہنے والے لوگوں میں سوزش کا ردعمل بلکل سگریٹ نوشی کرنے والوں جیسا ہوتا ہے۔
یہ سوزش دل کی بیماریوں، ذیابیطس، گٹھیا، یہاں تک کہ بعض طرح کے کینسر سمیت مہلک بیماریوں کے خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔ عارضی سوزش کے برعکس جو جسم کو چوٹ سے ٹھیک ہونے میں مدد دیتی ہے، تنہائی سے وابستہ دائمی سوزش وقت کے ساتھ ساتھ ٹشوز اور اعضاء کو شدید نقصان پہنچاستی ہے۔ یہ عمل طویل مدتی تمباکو نوشی کرنے والوں میں پائے جانے والے نقصان جیسا ہی ہوتا ہے۔ اس سے باآسانی اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تنہائی انسان کے لئے کتنے سنجیدہ طبی خطرات کا باعث بن سکتی ہے۔ سوزش کو کنٹرول کرنے میں مدد کے لیے، ماہرین باقاعدگی سے جسمانی سرگرمی اور بامعنی سماجی روابط استوار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
ذہنی و دماغی صحت ۔
تنہائی کا دماغی صحت پر گہرا اثر پڑتا ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تنہائی دماغی عمر کو تیز کر سکتی ہے اور اس ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔ تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ سماجی تنہائی الزائمر کی بیماری اور ذہنی مسائل کی دیگر اقسام میں اضافے کا باعث بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پرایک بین الااقوامی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سماجی طور پر الگ تھلگ رہنے والے افراد میں دماغی مسائل اور ڈیمنشیا کی شرح ان کے سماجی طور پر مصروف ساتھیوں کے مقابلے میں نمایاں طور پر زیادہ تھی۔ تنہائی اُن دماغی حصوں کو متاثر کرتی ہے جو یادداشت، سیکھنے اور جذباتی نظم و ضبط کے مسائل کے لیے ذمہ دار ہے، یہ عمر بڑھنے کے عمل میں تیزی لاتی ہے اور نیوروپلاسٹیٹی کو کم کرتی ہے جو دماغ کی موافقت اور بڑھنے کی صلاحیت ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ سماجی سرگرمیوں کی کمی انسان کو دماغی ورزش کے مواقع سے محروم کر دیتی ہے، جس سے نیوروڈیجنریٹیو بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ان اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے، باقاعدہ سماجی رابطے کو برقرار رکھنے اور ذہنی طور پر حوصلہ افزا سرگرمیوں جیسے کہ پہیلیاں بوجھنا، پڑھنا، یا نئی مہارتیں سیکھنے کی سفارش کی جاتی ہے۔ یہ عادات نہ صرف دماغی افعال کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہیں بلکہ یہ جذباتی مدد اور تعلق کا احساس بھی فراہم کرتی ہیں۔
نیند میں خلل
تنہائی صرف جاگنے کے اوقات کو متاثر نہیں کرتی، یہ نیند کے معیار کو بھی نمایاں طور پر خراب کر سکتی ہے۔ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ جو لوگ سماجی طور پر الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں ان میں بے چین راتوں، بے خوابی والی نیند کا زیادہ امکان ہوتا ہے۔ ممتاز جریدے ’سلیپ‘ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ تنہائی کا تعلق نیند میں اضافے اور نیند کی خراب کارکردگی کے ساتھ ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ، نیند میں خلل مدافعتی نظام کو کمزور کر سکتا ہے، علمی افعال کو خراب کر سکتا ہے، اور ذیابیطس اور دل کی بیماری جیسی دائمی بیماریوں کے خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔
تنہائی اور نیند کے درمیان تعلق پیچیدہ ہے: سماجی تنہائی تناؤ اور اضطراب کو بڑھا سکتی ہے، جس سے آرام کرنا اور سو جانا مشکل ہو جاتا ہے۔ نتیجہ میں ایک منفی چکر شروع ہو جاتا ہے جس میں کم نیند تنہائی کے جذبات کو بڑھا دیتی ہے، اور تنہائی نیند کے معیار کو مزید گرا دیتی ہے۔ اس چکر کو توڑنے کے لیے، ماہرین نیند کی حفظان صحت کے اچھے طریقوں کو اپنانے کا مشورہ دیتے ہیں، جیسے کہ سونے کے وقت کو برقرار رکھنا، سونے سے پہلے نیم خوابیدگی کے وقت کو محدود کرنا، اور رات کے وقت آرام کرنے کا معمول بنانا۔ مزید برآں، میل ملاپ کے معمولات کو شامل کرنا ، جیسے کہ پیاروں کے ساتھ شام کی فون کالز یا ورچوئل سوشل گروپس میں شرکت ،تنہائی کو کم کرنے اور صحت مند، زیادہ آرام دہ نیند کو فروغ دینے میں مدد کر سکتی ہے۔
ڈپریشن کی بلند شرح
تنہائی اور افسردگی کے درمیان تعلق مستند اور گہرا ہے، متعدد تحقیقات سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ مستقل تنہائی کا سامنا کرنے والے افراد میں افسردگی کی علامات پیدا ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ جرنل آف کلینیکل سائیکاٹری کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تنہائی ڈپریشن کے امکانات کو 40 فیصد تک بڑھا سکتی ہے، اور یہاں تک کہ شدید ڈپریشن ڈس آرڈر کے آغاز کا باعث بھی بن سکتی ہے۔
سماجی تنہائی اکثر بے مقصدیت، مسلسل اداسی، اور روزمرہ کی سرگرمیوں میں دلچسپی کے خاتمے کا باعث بنتی ہے، جو ڈپریشن کی نمایاں علامات ہیں۔ عالمی سطح پر کیے گئے دماغی صحت کے سروے کا خلاصہ کیا گیا جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ ڈپریشن کی شرح میں اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ایسی آبادیوں میں جہاں COVID-19 کی وبا جیسے واقعات کے دوران تنہائی کی سطح بلند تھی۔ ابتدائی مداخلت کلیدی ہے؛ دماغی صحت کے پیشہ ور افراد سے تعاون حاصل کرنا اور سماجی علاج میں حصہ لینا، جیسے کہ گروپ کاؤنسلنگ یا کمیونٹی پر مبنی سرگرمیاں، تنہائی اور افسردگی کی علامات دونوں کو نمایاں طور پر ختم کر سکتی ہیں۔ تنہائی اور ڈپریشن کی علامات کو جلد پہچاننا زیادہ موثر علاج اور بہتر نتائج کی اجازت دیتا ہے، ذہنی تندرستی کے لیے سماجی رابطے کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔
بے چینی اور اضطراب
تنہائی نہ صرف ڈپریشن کا باعث بنتی ہے بلکہ اضطراب کی علامات کو بھی نمایاں طور پر بڑھا سکتی ہے۔شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ طویل عرصے تک سماجی تنہائی کا تجربہ کرنے والے افراد اکثر پریشانی، گھبراہٹ اور یہاں تک کہ گھبراہٹ کے بڑھتے ہوئے احساسات کا شکار رہتے ہیں۔ سائیکولوجی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق دائمی تنہائی جسم کے تناؤ کے ردعمل کو بڑھا سکتی ہے، جس کے نتیجے میں مسلسل ہائپر ویجیلنس اور ممکنہ خطرات کے بارے میں مبالغہ آمیز تصور پیدا ہوتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اضطراب کی یہ علامات تمباکو نوشی کرنے والوں میں بھی نظر آتی ہیں۔ تمباکو نوشی کرنے والے بہت سے لوگ تناؤ اور اضطراب سے نمٹنے کے طریقہ کے طور پر سگریٹ پر سگریٹ پیئے چلے جاتے ہیں۔
ایسا کرنے سے اضطراب اور بے چینی تو کم نہیں ہوتی اُلٹا زیادہ سگریٹ نوشی کے مُضر اثرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کے ایک مطالعے سے اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ دائمی تنہائی اور تمباکو نوشی کی عادت بے چینی کو کم کرنے کے بجائے اسے بڑھاتی ہے۔ کورٹیسول اور ایڈرینالین کی بڑھتی ہوئی سطحوں سے جسمانی تناؤ میں اضافہ ہوتا ہے اور اس کے دماغی اور جسمانی صحت پر طویل مدتی منفی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔
نامناسب دیکھ بھال
تنہائی کے شکار افراد اکثر اپنی دیکھ بھال سے غفلت کی عادت میں مبتلا ہوتے ہیں۔ الگ تھلگ رہنے والے افراد صحت مند عادات جیسے متوازن غذائیت، باقاعدگی سے ورزش، اور معمول کے طبی معائنے کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ تنہائی کا تعلق غیر صحت بخش کھانے کے انداز، پراسیسڈ فوڈز کے بڑھتے ہوئے استعمال اور بیٹھے رہنے والے طرز زندگی سے ہے۔ اس کے علاوہ، جو لوگ اکیلے رہتے ہیں ان میں تجویز کردہ ادویات کے استعمال، صحت کے لئے بتائی گئی احتیاطی تدابیر پر عمل اور دیگر ایسے معمولات کو اختیار کرنے کا امکان کم ہوتا ہے، جو ان کے دائمی بیماری کے خطرے کو مزید بڑھا دیتے ہیں۔
صحت کے لئے ضروری معمولات کو نظر انداز کرنے کا یہ انداز تمباکو نوشی کرنے والوںکی طرح ہے، جو اکثر صحت کے لئے خطرناک رویوں میں مبتلا رہتے ہیں ۔ دونوں گروہ ایسی عادات کا شکار ہو سکتے ہیں جہاں اپنی ناقص دیکھ بھال کے باعث صحت کے مسائل کو بڑھا لیتے ہیں، صحت یابی اور تندرستی میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ ان رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے، ماہرین ایک ساتھی تلاش کرنے کی تجویز دیتے ہیں،کسی ایسے شخص یا دوست کی موجودگی جو حوصلہ افزائی کر سکے اور صحت مند سرگرمیوں میں شامل کر سکے۔
غلط استعمال کا خطرہ
تنہائی صحت اور کردار دونوں کے لئے خطرات کو نمایاں طور پر بڑھاتی ہے، کیونکہ لوگ تنہائی کے احساسات سے نمٹنے کے لیے الکوحل، سگریٹ یا منشیات کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ بلکل تنہارہتے ہیں ان میں سگریٹ نوشی، شراب نوشی اور منشیات کے ناجائز استعمال میں ملوث ہونے کا امکان نمایاں طور پر زیادہ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ سماجی طور پر الگ تھلگ رہنے والے بالغوں میں ان کے مصروف ساتھیوں کے مقابلے میں غلط اور مضر صحت اشیاء کے استعمال کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ رویے اکثر ایک چکر بناتے ہیں جس میں منشیات کا استعمال وقتی طور پر جذباتی تلخی کے احساس سے نجات دے دیتا ہے دوسرے لفظوں میں انسان کو بے حس کر دیتا ہے لیکن بعد میں احساس تنہائی کو گہرا کر دیتا ہے اور جسمانی صحت کو مزید خراب کر دیتا ہے۔
کیونکہ تنہا لوگ صحت کے خطرات کے باوجود، خود کو سکون دینے کے لیے سگریٹ کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اس چکر کو توڑنے کے لیے، ماہرین تنہائی کے سے نکلنے کی جدوجہد پر زور دیتے ہیں کہ صحت مند طریقے سے ان منفی رحجانات سے نمٹنے کی حکمت عملی بنائی جائے، جیسے ذہن سازی کا عمل، تخلیقی مشاغل، یا سپورٹ گروپس میں شرکت کے ذریعے ایسی صورتحال کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔
شفایابی میں رکاوٹ
تنہائی نہ صرف بیماری کے خطرے کو بڑھاتی ہے بلکہ شفا یابی کے عمل میں بھی رکاوٹ ڈالتی ہے، جس کی وجہ سے سرجری یا بیماری سے صحت یابی کی رفتار کم ہوتی ہے۔ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو مریض سرجری سے قبل تنہائی کا شکار تھے وہ طویل عرصے تک ہسپتال میں پڑے رہے اور بعد از آپریشن پیچیدگیوں کا سامنا کرتے رہے، جبکہ ان لوگوں کے مقابلے میں مضبوط سماجی تعلقات اور میل جول رکھنے والے جلد صحت یاب ہونے میں کامیاب ہوئے۔مثال کے طور پر، دل کی سرجری جیسے پیچیدہ عمل سے صحت یاب ہونے والے تنہا افراد کو دوبارہ طاقت بحال کرنے کے لیے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے اور ان میں انفیکشن کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔
یہ رجحان صرف جراحی سے بحالی تک محدود نہیں ہے۔ یہاں تک کہ عام بیماریاں جیسے کہ فلو یا نمونیا ان لوگوں میں زیادہ دیر تک رہتا ہے جو خود کو الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔ تیزی سے شفا یابی کو یقینی بنانے اور پیچیدگیوں کو کم کرنے کے لیے، ماہرین فعال طور پر ایک سپورٹ نیٹ ورک بنانے کی تجویز کرتے ہیں، خواہ خاندان، دوستوں، یا کمیونٹی گروپس کے ذریعے ہو۔
غذائیت کی کمی
تتنہائی کا تعلق اکثر کھانے کی غیر صحت بخش عادات سے بھی ہوتا ہے،جس میں پروسیسرڈ فوڈز، زیادہ میٹھے اور تلے ہوئے کھانے پر زیادہ انحصار۔ مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ سماجی طور پر تنہا رہتے ہیں وہ کھانا چھوڑ دیتے ہیں، اکیلے کھاتے ہیں، اور غذائیت سے بھرپور کھانے کی بجائے آسان غذا کا انتخاب کرتے ہیں۔تحقیق سے پتا چلا ہے کہ اکیلے بالغ افراد پھل اور سبزیاں کم کھاتے ہیں اور پروسیس شدہ اور زیادہ کیلوریز والی غذائیں زیادہ کھاتے ہیں جس سے ان میں موٹاپا، ذیابیطس اور دیگر دائمی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
یہی غذائی عادات تمباکو نوشی کرنے والوں میں بھی نظر آتی ہیں جو کم صحت بخش غذا اور زیادہ چکنائی والی، اور میٹھی غذائیں کھاتے ہیں۔ دونوں گروہ کھانے میں اس بات کا دھیان نہیں رکھتے کہ آیا وہ پُر سکون ماحول میں کھا رہے ہیں بے آرامی اور انتشار کے ماحول میں۔ اس کے نتیجے میں صحت پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ان رجحانات کا مقابلہ کرنے کے لیے، ماہرین کھانے کی منصوبہ بندی کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کہ کھانے کے باقاعدہ اوقات طے کریں، متوازن پکوان تیار کریں، اور جب بھی ممکن ہو دوسروں کے ساتھ کھانا بانٹیں۔
موٹاپے کا زیادہ خطرہ
تنہائی کا وزن بڑھنے اور موٹاپے کے بڑھتے ہوئے خطرے سے گہرا تعلق ہے۔ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ مستقل سماجی تنہائی کا شکار رہتے ہیں ان میں موٹاپے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو بالغ افراد تنہائی کا شکار تھے ان کا باڈی ماس انڈیکس (BMI) نمایاں طور پر زیادہ ہے اور ان کے سماجی طور پر متحرک دوستوں کے مقابلے دس سال کی مدت میں وزن میں اضافہ زیادہ ہوا۔ اس تعلق کی وجوہات کثیر جہتی ہیں، جن میں صحت مند کھانا تیار کرنے کی خواہش میں کمی، بے وجہ زیادہ کھاتے رہنا اور جسمانی سرگرمی میں کمی شامل ہیں۔
مزید برآں، تنہائی جسم کے میٹابولک عمل میں خلل ڈال سکتی ہے، جس سے صحت مند وزن برقرار رکھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی طرح تمباکو نوشی کرنے والوں میں دیکھا گیا کہ بہت سے لوگ ناقص غذا کے انتخاب اور بیٹھے رہنے والے طرز زندگی کی وجہ سے وزن بڑھ جانے کی شکایت کرتے ہیں۔ موٹاپے کے خطرے کو کم کرنے کے لیے، ماہرین روزانہ کے معمولات میں باقاعدگی سے نقل و حرکت کو شامل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
کم جسمانی سرگرمی
تنہائی اکثر جسمانی سرگرمیوں میں کمی کا باعث بنتی ہے، کیونکہ سماجی میل جول اور صحبت کی عدم موجودگی میں ورزش کرنے کی ترغیب ختم ہوجاتی ہے۔ تحقیق سے ثابت ہوا کہ جو لوگ تنہائی کا شکار ہوتے ہیں ان میں مضبوط سوشل نیٹ ورک والوں کے مقابلے میں باقاعدگی سے ورزش کرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ تقابلی طور پر، جو لوگ باقاعدگی سے سماجی رابطے سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ جسمانی طور پر زیادہ فعال ہوتے ہیں، گروپ ورزش اور تفریحی کھیلوں میں مصروف رہتے ہیں۔
ان لوگوں کو اپنے احباب کی طرف سے ایسی سرگرمیوں میں شمولیت کی حوصلہ افزائی کی سہولت حاصل رہتی ہے جبکہ تنہائی کے شکار لوگوں کو یہ کہنے والا کوئی نہیں ہوتا کہ وہ ایسی سرگرمیوں میں شرکت کریں۔ مصروف لوگ فٹنس کے اہداف طے کرنے، معمولات پر قائم رہنے اور مجموعی طور پر بہتر صحت کے حصول کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ جسمانی سرگرمیوں پر تنہائی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے، ماہرین گروپ فٹنس کلاسز، واکنگ کلبوں یا تفریحی کھیلوں کی ٹیموں میں شامل ہونے کی تجویز دیتے ہیں۔ یہ ترغیبات نہ صرف نقل و حرکت کے منظم مواقع فراہم کرتی ہیں بلکہ نئے سماجی روابط کو بھی فروغ دیتی ہیں۔
ہارمونل بیلنس میں خلل
سماجی تنہائی جسم کے ہارمونل توازن میں نمایاں طور پر خلل ڈال سکتی ہے، خاص طور پر موڈ اور سماجی تعلقات سے منسلک ہارمونز جیسے کہ آکسیٹوسن اور سیروٹونن کو متاثر کرتا ہے۔ آکسیٹوسن، جسے اکثر "محبت کا ہارمون" کہا جاتا ہے، اعتماد پیدا کرنے، تناؤ کو کم کرنے اور باہمی تعلق کے جذبات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ جب لوگ تنہا ہوتے ہیں، تو ان کی آکسیٹوسن کی سطح کم ہو جاتی ہے، جو تنہائی اور اضطراب کے جذبات کو بڑھاوا دے سکتی ہے۔
اسی طرح، سیروٹونن جو موڈ ریگولیشن کے لیے ایک اہم نیورو ٹرانسمیٹر ہے مثبت سماجی تعاملات کی عدم موجودگی میں عدم توازن کا شکار ہو سکتا ہے، جس سے ڈپریشن اور جذباتی عدم استحکام کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ایک جائزہ اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ کس طرح دائمی تنہائی ان نیورو اینڈوکرائن راستوں کو منفی طور پر متاثر کرتی ہے۔ سماجی تنہائی کا ہارمونل اثر نیکوٹین کے اثرات سے مشابہت رکھتا ہے۔ نیکوٹین ڈوپامائن اور سیروٹونن کے عوامل کو تبدیل کرتی ہے، عارضی طور پر موڈ کو بہتر کرتی ہے لیکن آخر کار طویل استعمال سے بے ضابطگی کا باعث بنتی ہے۔ ہارمونل توازن کو بحال کرنے میں مدد کے لیے، ماہرین مثبت سماجی روابط کو فعال طور پر فروغ دینے کی تجویز کرتے ہیں۔
ڈیمنشیا کا بڑھتا ہوا خطرہ
دائمی تنہائی ڈیمنشیا کی نشوونما کے لیے ایک اہم خطرناک عنصر ہے، خاص طور پر بوڑھے افرادمیں۔ تحقیقی نتائج یہ ثابت کرتے ہیں کہ مسلسل سماجی تنہائی ذہنی صلاحیتوں کے زوال کا باعث بن سکتی ہے۔ مثال کے طور پرایک جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق سے پتا چلا ہے کہ عمر رسیدہ بالغ افراد جنہوں نے خود کو تنہا محسوس کیا تھا، ان میں 10 سال کی مدت میں ڈیمنشیا ہونے کا خطرہ 40 فیصد بڑھ گیا تھا۔ اس خطرے کے پیچھے میکانزم کے بارے میںحیاتیاتی اور طرز عمل دونوں کا عمل دخل ہے۔ ذہنی محرک میں کمی، اور تناؤ کے ہارمونز کی اعلی سطح ، یہ سب دماغی صحت پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔
تنہائی اور ڈیمنشیا کے خطرے کے درمیان تعلق اتنا مضبوط ہے کہ ماہرین اب دائمی تنہائی کا سامنا کرنے والوں کے لیے ابتدائی شعوری اسکریننگ تجویزکر تے ہیں۔ ابتدائی پتہ لگانے سے یادداشت اور سوچ میں باریک تبدیلیوں کی نشاندہی کرنے میں مدد مل سکتی ہے، بروقت مداخلت کے نتیجے میں ہم ڈیمنشیا کے بڑھنے میں تاخیر یا تخفیف کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے سماجی سرگرمیاں، علمی مشقیں، اور پیاروں کے ساتھ باقاعدہ بات چیت بہترین حفاظتی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
تعلیم و تربیت
دورجدید میں تعلیم کی اہمیت و ضرورت سے کسی فرد واحد کو مفر نہیں، اچھی اور معیاری تعلیم سے اپنے بچوں کو آراستہ کرنا فی زمانہ بے حد ضروری ہے، کیوں کہ بچے کسی بھی سماج اور معاشرہ کا سرمایہ اور تاب ناک مستقبل کی تعمیر کے لیے ضروری اساس ہوتے ہیں، بچوں کے ذہنی خدوخال نہایت ہی حساس اور کورے کاغذ کی طرح ہوتے ہیں۔
ان کی بہتر، نشوونماء اور تربیت ایک روشن مستقبل کے لیے بنیاد کی فراہمی کا کام کرتی ہے، بچوں کے تعلق سے کسی بھی موقع پر تساہل یا کسی بھی زاویے سے بے اعتنائی ملک و ملت کے لیے کسی المیہ سے کم نہیں، کیوں کہ جو قوم تعلیمی پس ماندگی کا شکار ہوجائے اور اپنی فکری و تہذیبی نہج سے دست بردار ہوجائے، تو اس قوم کو زمانے کے ساتھ چلنے میں ہر قدم پر ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کی نسلوں کو اس قعر مذلت سے باہر نکلنے اور امید افزاء شعور و آگہی تک رسائی حاصل کرنے میں زمانہ لگ جاتا ہے۔
یوں بھی عالمی تباہی و معاشی بدحالی کے تسلسل میں ہمیں فی زمانہ اپنی نسلِ نو کی بہتر پرورش اور دینی حمیت کی پاس داری کے ساتھ زندہ رکھنے کے لیے معیاری تعلیم گاہوں کا انتخاب کرنا چاہیے اور یہ اسی صورت میں ممکن ہوپائے گا، جب ہم اسکول، کالج اور عصری تعلیم گاہ کے انتخاب میں بہت ہی محتاط قدم کے ساتھ آگے بڑھیں گے، کیوں کہ موجودہ دور میں ہر طرف الحادی و ارتدادی قوتیں سرراہ اس تاک میں ہیں کہ دین حنیف کے پیرو کاروں کے پائے ثبات میں کس طرح تزلزل پیدا کریں ، تاکہ اس کی نسلیں اپنے اسلاف و اکابر سے کٹ کر رہ جائیں، جب کہ تاریخی حوالہ جات یہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں پر ایک دور ایسا بھی گزارا ہے، جب اقوام عالم کی باگ ڈور ان کے ہاتھوں میں تھی، لوگ دنیا کے کونہ کونہ سے علم و ادب کی چاہ میں مسلم حکماء، دانش ور اور مفکرین کے سامنے زانوے تلمذ تہہ کرنے کے لیے دشوار گزار راستوں کا سفر طے کرتے تھے اور تعلیم کے حصول کے لیے ہر طرح کی صعوبتیں بھی برداشت کرتے تھے۔
آج بھی جدید طبی سائنس، ریاضی، شہری ہوا بازی، جہاز رانی اور دیگر بہت سے میدان میں استعمال ہونے والے بنیادی اصول و فروع مسلم مفکرین کی مرہون منت ہیں، لیکن اب وہ مبادیات اور فروعات ہماری نظروں سے اوجھل ہیں ، کیوں کہ وہاں تک ہماری رسائی بہت ہی محدود ہوچکی ہے، اگر تھوڑی بہت ہے بھی تو ہماری نسلیں ان اصولوں، فلسفوں اور قواعد کے بارے میں اس لیے کچھ نہیں جان پاتی کہ اب ان کے نام انگریزی لاحقہ کے ساتھ متعارف کردیے گئے ہیں ، کہا جاتا ہے کہ یہ وہ دور تھا جب تعلیم و حکمت میں ان بزرگوں کا طوطی بول رہا تھا، پھر آپس کی چپقلش، اپنوں کی بے رخی اور رب ذوالجلال کی عطا کردہ نعمت کی ناقدری کی وجہ سے اس عظیم دولت سے یک لخت ہم دور کردیے گئے اور آج ہماری یہ حالت ہوچکی ہے کہ ہم اپنی کھوئی ہوئی اس لازوال نعمت کے عشرعشیر کے بھی لائق نہیں، الامان الحفیظ۔
اس وقت ہمارا مطمع نظر مسلم امہ میں تعلیمی پس ماندگی کے تناظر میں کچھ گوش گزار کرنے سے ہے، انسانی فطرت میں خالق کائنات نے یہ بات ودیعت کررکھی ہے کہ انسانی جبلت کسی محدود شے کے حصول پر قانع نہیں رہ تی، وہ خوب سے خوب تر کی تلاش میں دن رات سرگرداں رہتی ہے، ہمیشہ سے انسانی خواہش رہی ہے کہ سماج اور معاشرتی زندگی میں کس طرح اپنی عزت و جاہ کی بالادستی قائم کی جاسکے، خواہ اس کو حاصل کرنے میں کسی حد تک جانا پڑجائے، لیکن ہماری کوشش آج بھی انسانی زندگی پر اثرانداز ہونے والی سب سے مؤثر ترین دولت تعلیم کے حوالے سے بے پروا اور لاابالی پن کا شکار ہے۔ رائج اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مسلم معاشرہ عصری اور تکنیکی تعلیم کی طرف مثبت قدم بڑھا تو رہا ہے لیکن جس تیزی اور برق رفتاری کا یہ میدان متقاضی ہے، اس میں اب بھی ہم دوسری اقوام سے ابھی بہت زیادہ پیچھے ہیں، جس کا اندازہ گاہے گاہے جاری ہونے والے مختلف بین الاقوامی سروے اور دیگر رپورٹوں سے بہ خوبی لگایا جاسکتا ہے، اس طرح کے شماریات کو دیکھنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم امہ میں تعلیم کا رجحان پہلے کے مقابلے میں کچھ بڑھا ضرور ہے، لیکن جدید تعلیم کی تحقیقات اور جدید مشمولات تک رسائی میں سرد مہری جوں کی توں برقرار ہے۔
عصری تعلیم سے منسلک اسکالرز اور محقق عام طور پر موجودہ مواد کی تحقیق کے بہ جائے اس کے تراجم پر زیادہ دھیان مرکوز کر رہے ہیں، جس کا خاطرخواہ فائدہ نظر نہیں آرہا ہے، ہماری معاشرتی زندگی میں اب پہلے سے کہیں زیادہ لوگوں میں بچوں کی تعلیم کے لیے فکری مندی دیکھنے میں آرہی ہے، لوگ اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کے لیے پس انداز بھی کرنے لگے ہیں اور اس کے لیے گھریلو بجٹ تک مختص کررہے ہیں، جس کی تحسین کی جانی چاہیے اور اس کی ہر طرح سے حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہیے، تاکہ اس بیدار مغزی کی لو کو اور تیز کیا جاسکے۔ لیکن بہ حیثیت مسلم امہ ہماری کچھ دینی و ملی ذمے داریاں بھی ہیں، جس سے ہمارا معاشرہ اب بھی باہر نہیں نکل پایا ہے، معاشرے اور سماج کو اس سے باہر نکالنے کے لیے بڑے پیمانے پر تعلیمی مہم کی ضرورت ہے، تاکہ دوردراز گاؤں میں بسنے والے افراد اور معاشی پس ماندگی کے شکار لوگوں کے دلوں میں بھی تعلیم کی جوت جگائی جاسکے اور ان کو اس بات پر قائل کیا جائے کہ بچوں کے بہتر مستقبل کی تعمیر میں اچھی اور معیاری تعلیم کیوں کر ضروری ہے؟ اس تسلسل میں اگر ہم ملت کے بچوں کا تجزیہ کرتے ہیں تو ہمیں ایک طرح کی سرد مہری کے ساتھ جدید کلچر کی طرف رغبت زیادہ محسوس ہوتی ہے، بچوں کی تربیت اور تربیت یافتہ اساتذہ کی ہوتی ہے۔
ہم اپنے بچوں کو نامی گرامی اسکول و کالجز میں داخل کروا تو دیتے ہیں لیکن اس میں بڑی حد تک بے پروائی بھی کرجاتے ہیں، ہماری سوچ صرف اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ ہمارے بچے معیاری اور ہائی لیول اسکول کے طالب علم ہیں باقی اور کچھ نہیں دیکھتے، جب کہ بحیثیت سرپرست ہمارے اوپر دہری ذمے داری عاید ہوتی ہے کہ ہم اپنے بچوں کی عادات و اطوار کا تجزیہ کریں، اور اس کے ہر عمل پر اپنی نظر رکھیں ، اس کے آپس کے برتاؤ اور دینی معاملات کے حوالے سے بھی گاہے بہ گاہے جائزہ لیتے رہیں، کیوں کہ عام طور پر آزادخیال ادارے میں بے جا آزادی کو فروغ دینے کا ایک رجحان پایا جاتا ہے، جس کا منفی اثر بچوں کے ذہن میں گھر کر جاتا ہے اور اس کے نتیجہ میں زندگی بھر ہمیں اس لاابالی پن کے سہارے جینا پڑتا ہے۔
اس وقت جب کہ مختلف عصری تعلیم گاہوں میں داخلے کی کارروائی جاری ہیں ، ہمیں پہلی فرصت میں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے، اپنی اولاد کو اچھی تعلیم سے آراستہ کرنے اور اس کے تابناک مستقبل کی طرف راہ نمائی ہمارا مذہبی، ملی و اخلاقی فریضہ بھی ہے، ہماری ایک معاشرتی ذمے داری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے پاس پڑوس اور محلے میں لوگوں کو اس جانب متوجہ کریں۔
ان کو تعلیم کی اہمیت و ضرورت سے متعلق ترغیب دیں تاکہ قوم کے بچے تعلیم سے آراستہ ہوکر ایک اچھا شہری بن سکیں اور ملک و ملت کی خدمت کے قابل ہوسکیں ، اس سے کسی بھی مرحلہ میں کاہلی سستی اور بے رغبتی ملک و ملت دونوں کے لیے خسارہ کا سودا ہوگا، کیوں کہ تعلیم کے تناظر میں آنے والی اکثر رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ گاؤں دیہات کے اکثر بچے ڈراپ آؤٹ میں سب سے آگے ہیں، ہائر سیکنڈری اسکول تک جاتے جاتے ہمارے بچے اسکول سے ڈراپ آؤٹ ہوجاتے ہیں جو قابل توجہ نکتہ ہے، اس پر بہت سنجیدگی سے غور و فکر اور تجزیہ کی ضرورت ہے، آج کے تقابلی دور میں تعلیم سے جی چرانے کوایک فکری غلطی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جو یقیناً خودکشی کے مترادف ہے۔
موجودہ وقت میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی درپیش ہے کہ بغیر کسی تحقیق کے ہم اپنے بچے کو غیرمعیاری اسکول کے حوالے کردیتے ہیں، پھر فکرمعاش اور دیگر دنیاوی جھمیلوں میں کچھ اس قدر مشغول ہوجاتے ہیں کہ پلٹ کر کوئی خبر نہیں لیتے، بس صرف بچوں کو اس کی صلاحیت سے زیادہ بوجھ تلے جکڑ دیتے ہیں اور انگریزی کے چند الفاظ بول لینے کو تعلیمی معراج تصور کر بیٹھتے ہیں، اگر یہی طالب علم کسی مقابلے وغیرہ میں خاطرخواہ کارکردگی نہیں دکھا پاتا ہے، تو طرح طرح کے طعنوں سے اس ناپختہ ذہن کو گزرنا پڑتا ہے جس کا نتیجتاً کبھی کبھی اس قدر بھیانک صورت اختیار کرلیتی ہے کہ بچہ زندگی کی قیمتی ڈور اپنی سانس تک کو ختم کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے، ایسے لاتعداد واقعات ہمارے سامنے آتے رہتے ہیں اور پھر ہم ہائے افسوس کا ماتم کرنے لگتے ہیں۔
عصری تعلیم وقت کی ضرورت ہے، اگر یوں کہا جائے کہ ناگزیر ہے تو کسی طور غلط نہ ہوگا، اکیسویں صدی کے بدلتے ہوئے حالات میں عصری تعلیم سے محرومی جہالت کے زمرہ میں ہی تصور کی جائے گی، لیکن اگر یہ تعلیم دین و ایمان کے سودے کے ساتھ ہو تو ہمارے لیے بہت بڑی حرماں نصیبی ہوگی جس کی بھرپائی کا ہمارے پاس کوئی موقع میسر نہ ہوگا؛ کیوں کہ جب سادہ دلوں اور کچے اذہان پر ایمانیات اور وحدانیت سے بے زاری کی لکیریں کھینچ دی جاتی ہیں تو اس کو محو کر پانا بے حد مشکل مرحلہ ہوتا ہے، اس لیے ملت کے بہی خواہ اور سماجی کارکنان کو آگے آنا چاہیے اور اپنے زیراثر علاقوں میں بچوں کے سرپرست کو اس بات کی راہ نمائی کرنی چاہیے کہ عصری تعلیم کے لیے ہم کس طرح کے ادارہ کا انتخاب کریں۔
اسلام میں علوم کے حصول کی حدود نہیں ہیں، کیوں کہ نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ اور آپ کے بے شمار اقوال و افکار سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے غیرمسلم قیدی کو جرمانے کے عوض عبرانی زبان اور اس وقت جس زبان کی ضرورت تھی صحابہ کرامؓ کو سکھانے کے لیے متعین کیا تھا، اس طرح کے اقوال سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلام میں تعلیم کے حصول میں کسی طرح کی کوئی بندش نہیں ہے، ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس زبان و علم کی رو میں بہہ کر اپنے ایمان کا سودا کر بیٹھنے کی اسلام میں کوئی جگہ نہیں ہے۔
ہمارے لیے ضروری ہے کہ موجودہ دنیاوی تقاضے کو سامنے رکھتے ہوئے جس علم کی بھی ضرورت ہو اس کے حصول کے لیے ہر ممکن کوشش کریں ، اس کے حصول میں کسی طور بھی بے اعتنائی کا ثبوت نہ دیں، بل کہ ہر لمحہ بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کریں لیکن پھر بات وہیں آجاتی ہے کہ ایمان کے سودے کے ساتھ کسی طرح کی تعلیم ہماری عاقبت کی خرابی کا باعث نہ بنے، تاکہ ہمیں روز محشر شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیوں کہ بہ طور سرپرست ہمیں روزِقیامت اپنی اولاد اور کنبے کے حوالے سے بھی سوالات کا سامنا کرنا ہے، یاد رکھیں! ترقی کے مواقع خود نہیں آتے بل کہ انھیں حاصل کیا جاتاہے اور اس کے لیے تعلیم سے بہتر کوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا، ہم تعلیم کے ہتھیار سے ہی درپیش چیلینجوں کا نہ صرف کام یابی سے مقابلے کرسکتے ہیں، بل کہ خود کو پس ماندگی کی دلدل سے باہر نکال کر قوم و ملت کو عزت و وقار کے مقام پر کھڑا کرسکتے ہیں۔