Jasarat News:
2025-11-09@04:36:02 GMT

برین ڈرین—- یا —- برین گین

اشاعت کی تاریخ: 24th, September 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

250924-03-3

 

احمد حسن

فائنانشل ٹائم نے اپنی ایک رپورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم کیئر اسٹارمر اس وقت ویزا فیس ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں تاکہ دنیا کے صف اوّل کے ماہرین کو برطانیہ لایا جا سکے، رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق کیئر اسٹارمر کی گلوبل ٹیلنٹ ٹاسک فورس ایسے خیالات پر کام کر رہی ہے جن کے ذریعے دنیا کے بہترین سائنس دانوں، ماہرین تعلیم اور ڈیجیٹل ماہرین کو برطانیہ آنے کے لیے راغب کیا جا سکے تاکہ ملک کی معاشی ترقی کی رفتار تیز تر ہو سکے۔ دوسری جانب چین نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے نوجوان ماہرین کے لیے ’’کے ویزا‘‘ متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے جو یکم اکتوبر سے نافذ ہوگا اس ویزا کے ذریعے اہل امیدواروں کو داخلے، قیام اور بار بار آمدو رفت کی سہولت آسانی سے ملے گی اور انہیں کسی ملکی آجر یا ادارے کے دعوت نامے کی ضرورت نہیں ہوگی، ’’کے ویزا، کے حامل افراد تعلیم، ثقافت سائنس، ٹیکنالوجی اور کاروباری تحقیق میں حصہ لے سکیں گے، یہ اقدام عالمی سائنس ٹیلنٹ کو راغب کرنے اور بین الاقوامی تعاون بڑھانے کے لیے کیا گیا ہے ان خبروں کے بالکل برعکس ایک خبر پاکستان سے ہے جس کے مطابق تین برسوں کے دوران 28 لاکھ 94 ہزار پاکستانی وطن چھوڑ گئے ہیں، بہتر مستقبل اور روزگار کے مواقع کی تلاش میں پاکستانیوں کی ریکارڈ تعداد بیرون ملک منتقل ہو رہی ہے، محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس کے مطابق گزشتہ تین برسوں میں 28 لاکھ 94 ہزار 45 پاکستانی اپنے اہل خانہ کو پیچھے چھوڑ کر دوسرے ممالک کا رُخ کر چکے ہیں، اعداد وشمار ظاہر کرتے ہیں کہ بیرون ملک جاننے والوں میں صرف عام مزدور ہی نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مختلف شعبوں سے وابستہ ماہرین بھی شامل ہیں، ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز، آئی ٹی ایکسپرٹس، اساتذہ، بینکرز، اکاؤنٹنٹس، آڈیٹرز، ڈیزائنرز اور آرکیٹیکٹس شامل ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کی بڑی تعداد پاکستان کے حالات سے پریشان ہے وہ اسے جبر کا ماحول قرار دیتی ہے اور سمجھتی ہے کہ اسے یہاں مساوی مواقع میسر آنے کا کوئی امکان نہیں دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ ان شہروں اور ملکوں نے زیادہ بلکہ بہت زیادہ ترقی کی ہے جہاں بیرون شہر اور بیرون ملک سے ماہرین آئے ہیں، یہ ذہین لوگ عموماً اپنے شہروں یا اپنے ملکوں میں ناموافق حالات، عدل و انصاف کے فقدان، بے امنی اور مساوی مواقع کی عدم دستیابی کی وجہ سے اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور ہوتے ہیں، جن ملکوں اور شہروں میں یہ سہولتیں نسبتاً زیادہ ہوتی ہیں، لوگ وہاں کا رُخ کرتے ہیں، انہیں اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع میسر آتے ہیں، وہاں وہ خود بھی ترقی کرتے ہیں اور اس معاشرے کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اس کی سب سے بڑی مثال ریاست ہائے متحدہ امریکا ہے جہاں دنیا بھر سے ذہین لوگ آتے رہے اور اس معاشرے میں ضم ہوتے گئے اور انہوں نے امریکا کو ہر میدان میں دنیا کا صف اوّل کا ملک بنا دیا، اب تک کی تاریخ کے سب سے بڑے سائنسدان آئن اسٹائن نازی دور میں جرمنی سے امریکا آئے اور طبیعات کی دنیا میں دھوم مچا دی ہے، نکولا ٹیسلا کروشیا سے امریکا آئے تھے، ان کی ایجادات نے امریکا اور پھر ساری دنیا کو بہت فائدہ پہنچایا۔

دنیا کے نامور سائنس دان سرگئی برن نے روس کو چھوڑ کر امریکا کو اپنا وطن بنایا تھا، اسپیس ایکس اور ٹیسلا موٹرز کے بانی اور پے پال کے شریک بانی ایلون مسک جنوبی افریقا سے امریکا آئے تھے امریکی اسٹیل انڈسٹری کا سب سے بڑا نام اینڈریو کارنیگی اسکاٹ لینڈ سے ریاست ہائے متحدہ امریکا پہنچے تھے، اسی طرح امریکا کے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے انتہائی بڑے نام ان لوگوں کے ہیں جو امریکی شہری نہیں تھے کسی دوسرے ملک سے امریکا آئے تھے یا ان کے خاندانوں نے امریکا میں پناہ حاصل کی تھی، یہ معاملہ صرف امریکا ہی کا نہیں بیش تر ترقی یافتہ ممالک کا ہے، جنہوں نے اپنے ہاں اتنے اچھے حالات پیدا کیے جن کے باعث دنیا بھر سے ذہین لوگ وہاں کھینچے چلے آئے، اور پھر ان ملکوں کی ترقی میں لازوال حصہ لیا اس سے ثابت ہوا کہ کسی بھی ملک اور قوم کی سب سے بڑی دولت کچھ اور نہیں وہاں کے ذہین لوگ ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس حوالے سے انگریزی اصطلاح وضع ہوئی برین ڈرین یعنی ذہانت کا نکل جانا جب سمجھدار اور ذہین افراد کسی ملک سے چلے جائیں اور صرف بے وقوف اور نااہل لوگ رہ جائیں تو وہاں وہی لوگ بڑے اور اعلیٰ مناصب پر فائز ہوں گے اور وہ احمقانہ فیصلے ہی کریں گے جس کا نتیجہ اس ملک کی تباہی و بربادی کی صورت میں نکلے گا۔

فیلڈ مارشل عاصم منیر نے کچھ عرصے قبل فرمایا تھا کہ پاکستانی شہریوں کا ملک سے باہر جانا برین ڈرین نہیں برین گین ہے، ان کا اشارہ سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ملک میں بھیجی جانے والی رقوم کی طرف تھا، جن سے پاکستانی معیشت کو سہارا ملتا ہے، مگر یہ بہت معمولی فائدہ اور غیر معمولی بڑا نقصان ہے، ذہین لوگوں کے ملک سے چلے جانے کے باعث ہمارے معاشرے پر بہت دور رس خطرناک اثرات مرتب ہوں گے، جبکہ ان کی بھیجی گئی رقوم سے معیشت کو عارضی سہارا تو مل سکتا ہے لیکن وہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو سکتی۔

 

احمد حسن.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سے امریکا ا ئے کرتے ہیں ذہین لوگ ملک سے

پڑھیں:

امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251107-03-3

 

میر بابر مشتاق

نیویارک کی سیاسی تاریخ میں ۴ نومبر ۲۰۲۵ ایک یادگار دن بن گیا۔ دنیا کے اس سب سے متنوع شہر نے ایک ایسے شخص کو منتخب کیا ہے جو صرف سیاست دان نہیں بلکہ ایک نظریہ اور تحریک کی نمائندگی کرتا ہے۔ زہران ممدانی، ایک مسلم، جنوبی ایشیائی نژاد، اصلاح پسند رہنما، جو اب نیویارک شہر کے ۱۱۱ ویں میئر بن چکے ہیں۔ انتخابات میں دو ملین سے زائد ووٹرز نے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا جو ۲۰۰۱ کے بعد سب سے زیادہ ٹرن آؤٹ ہے۔ یہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ عوام کے بدلتے رجحان کا ثبوت ہے۔ لوگ اب نسلی یا جماعتی سیاست سے ہٹ کر عوامی فلاح اور سماجی انصاف کی بنیاد پر ووٹ دینے لگے ہیں۔ پولنگ اسٹیشنوں پر نوجوانوں، مزدور طبقے اور اقلیتوں کی غیر معمولی شرکت نے ایک نئے سیاسی رجحان کو جنم دیا۔ نیویارک کے گلی کوچوں سے ایک ہی صدا بلند ہو رہی تھی: ’’ہمیں وہ قیادت چاہیے جو کرائے کم کرے، انصاف مہیا کرے، اور شہر کو صرف امیروں کا نہیں، سب کا بنائے‘‘۔

ممدانی کا مقابلہ سابق گورنر اینڈریو کومو اور ری پبلکن امیدوار کرٹس سلیوا سے تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ، ایلون مسک اور دیگر ارب پتی سرمایہ کاروں نے کومو کی حمایت کی، مگر اس انتخاب نے ایک بات ثابت کر دی: عوامی طاقت، سرمایہ دارانہ اثر سے بڑی ہے۔ ٹرمپ کی حمایت، میڈیا پر اشتہارات اور سرمایہ دار طبقے کی بھرپور پشت پناہی کے باوجود عوام نے فیصلہ اس طبقے کے حق میں کیا جو برسوں سے دباؤ میں تھا۔ ورکنگ کلاس۔ ممدانی کا ایجنڈا ’’عوام کے لیے شہر‘‘ زہران ممدانی کا منشور سادہ مگر انقلابی تھا۔ گھروں اور دفاتر کے کرائے منجمد کیے جائیں۔ مفت پبلک ٹرانسپورٹ کا آغاز کیا جائے۔ یونیورسل چائلڈ کیئر فراہم کی جائے۔ مڈل کلاس اور لوئر کلاس کے مسائل کو ترجیح دی جائے، یہ وہ نکات تھے جنہیں نیویارک کے عام شہریوں نے اپنی زندگی سے جڑا پایا۔

ممدانی نے انتخابی مہم میں نعرے نہیں، حل اور پالیسی دی۔ ان کا مؤقف تھا: ’’جب شہر کی ترقی کا بوجھ صرف غریب اٹھاتا ہے، تو وہ ترقی نہیں، استحصال کہلاتا ہے‘‘۔ زہران نے نیویارک کی کوئینز یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور نوجوانی میں ہی سماجی سرگرمیوں سے وابستہ ہو گئے۔ انہیں نیویارک کے شہری مسائل کا براہِ راست تجربہ ہے۔ وہ خود کرائے کے فلیٹ میں پلے بڑھے، اور یہی تجربہ ان کے سیاسی وژن کی بنیاد بنا۔ زہران ممدانی کی کامیابی امریکی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔ امریکا میں اسلاموفوبیا، نسل پرستی اور تعصبات کے دور میں، نیویارک جیسے شہر کا ایک مسلمان، جنوبی ایشیائی نژاد شخص کو منتخب کرنا اس بات کا اعلان ہے کہ جمہوریت اب شناخت سے زیادہ کارکردگی پر یقین رکھتی ہے۔ دنیا بھر کے مسلم حلقوں نے اس کامیابی پر خوشی اور فخر کا اظہار کیا۔

عالمی تجزیہ نگاروں نے کہا کہ: ’’یہ انتخابی جیت صرف نیویارک کی نہیں، پوری مسلم دنیا کی اخلاقی فتح ہے‘‘۔ ممدانی نے اپنی مہم کے دوران فلسطینیوں کی کھل کر حمایت کی۔ انہوں نے کہا تھا: ’’اگر عالمی عدالت ِ انصاف کے وارنٹ کے باوجود اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نیویارک آئے، تو میں قانون کے مطابق انہیں گرفتار کراؤں گا‘‘۔ یہ بیان امریکی مین اسٹریم سیاست کے لیے غیرمعمولی تھا۔ لیکن ممدانی نے دکھا دیا کہ انصاف پسندی، اخلاقی جرأت اور سچ بولنے کا حوصلہ بھی سیاست کا حصہ ہو سکتا ہے۔

CNN, The New York Times اور Politico نے ممدانی کی کامیابی کو “Progressive Revolution in Urban Politics” قرار دیا۔ امریکی میڈیا نے تسلیم کیا کہ ممدانی نے نیویارک کے عوام کے ذہنوں میں ایک نیا فریم ورک بنا دیا ہے —”City for People, Not for Profit”۔ کچھ دائیں بازو کے تبصرہ نگاروں نے انہیں “Left Populist” اور “Idealist” کہا، مگر حقیقت یہ ہے کہ ممدانی نے صرف خواب نہیں دکھائے بلکہ ان کے لیے پالیسی روڈ میپ بھی پیش کیا۔ اب جبکہ نیویارک کا انتظام سنبھالنا ممدانی کی ذمے داری ہے، انہیں شدید عملی مشکلات کا سامنا ہوگا: مالی وسائل کی کمی۔ ریاستی قوانین کی رکاوٹیں۔ رئیل اسٹیٹ لابی کا دباؤ۔ وفاقی حکومت کے ساتھ ہم آہنگی کے چیلنجز۔ ان چیلنجز کے باوجود ممدانی کی اخلاقی برتری اور عوامی مقبولیت انہیں ایک مضبوط پوزیشن میں رکھتی ہے۔

ان کے لیے اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ تحریک کو پالیسی میں کیسے ڈھالتے ہیں۔ زہران ممدانی کی کامیابی صرف امریکی سیاست نہیں، بلکہ عالمی بیانیے کی تبدیلی کی علامت ہے۔ یہ کامیابی بتاتی ہے کہ دنیا کی طاقتور معیشتوں میں بھی سماجی انصاف اور عوامی فلاح کی سیاست جگہ بنا سکتی ہے۔ برطانیہ، کینیڈا، اور فرانس میں بھی مسلم نژاد امیدواروں کی مہم کو نئی توانائی ملی ہے۔ امریکا کے اندر بھی یہ نتیجہ بتا رہا ہے کہ ریاستی اشرافیہ کے خلاف عوامی مزاحمت اب محض نعرہ نہیں، ایک حقیقت ہے۔

زہران ممدانی کی کامیابی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ جب مسلمان معاشروں میں تعلیم، سماجی خدمت، اور فکری خوداعتمادی کو بنیاد بنایا جائے تو وہ دنیا کے کسی بھی سیاسی نظام میں عزت، اثر اور قیادت حاصل کر سکتے ہیں۔

یہ جیت امت کے نوجوانوں کے لیے پیغام ہے: ’’تبدیلی کا انتظار مت کرو۔ خود وہ تبدیلی بنو جس کی تمہیں ضرورت ہے‘‘۔ زہران ممدانی کا یہ جملہ اب عالمی سطح پر مقبول ہو چکا ہے: ’’ہم شہر کو دوبارہ انسانی ہاتھوں میں لوٹا رہے ہیں، طاقت کے ایوانوں سے عوام کے دلوں تک‘‘۔ یہی وہ فلسفہ ہے جو نیویارک کی گلیوں سے اْٹھ کر دنیا بھر کے شہریوں کے ضمیر میں گونج رہا ہے۔ اور شاید یہی وہ لمحہ ہے جب امریکی خواب ایک نئے مفہوم میں زندہ ہوا۔ انصاف، برابری اور انسانی وقار کے خواب کے طور پر۔

میر بابر مشتاق

متعلقہ مضامین

  • کیا اب بھی اقوام متحدہ کی ضرورت ہے؟
  • یہ دنیا بچوں کی امانت ہے
  • مصنوعی ذہانت اور میڈیا کی نئی دنیا
  • خواب دیکھنے والے کہاں ہیں؟
  • دنیا تیسری عالمی جنگ کی جانب بڑھ رہی ہے
  • بھارت، امریکا تعلقات میں نیا موڑ
  • ڈونلڈ ٹرمپ دنیا بدل سکتے ہیں، ان سے ملنا چاہتا ہوں، کرسٹیانو رونالڈو امریکی صدر کے مداح نکلے
  • فیلڈ مارشل نے زبردست لیڈر شپ فراہم کی، دنیا ہماری بات سن رہی ہے: مریم نواز
  • لاہور،پی ایچ اے کے ملازمین ہڈیارہ ڈرین کے کنارے شجرکاری کررہے ہیں
  • امریکا میں تاریخ رقم؛ پہلا مسلم میئر منتخب