انڈونیشیا کے صدر پرابوو سوبیانتو نے کہا ہے کہ ان کا ملک غزہ، سوڈان اور یوکرین میں قیام امن کےلیے 20 ہزار فوجی بھیجنے کو تیار ہے جب کہ اسرائیل کو اسی صورت میں ریاست تسلیم کیا جائے گا جب فلسطین کو آزاد ریاست تسلیم کیا جائے گا۔
پاکستان کی طرح انڈونیشیا اور دیگر متعدد ممالک اسرائیل کو ریاست اور ملک تسلیم نہیں کرتے اور حال ہی میں دنیا بھر کے ممالک کی جانب سے فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
انڈونیشیائی سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق پرابوو سوبیانتو نے اقوام متحدہ (یو این) اسمبلی اجلاس میں اپنے پہلے خطاب میں دنیا میں امن کو فروغ دینے کی بات کی اور کہا کہ ان کا ملک ہمیشہ کی طرح قیام امن کے لیے تیار ہے۔
اپنے خطاب میں انڈونیشن صدر نے کہا کہ انڈونیشیا اسی دن اسرائیل کو تسلیم کرے گا جس دن اسرائیل فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لے گا۔
انہوں نے فلسطین میں جاری انسانی المیے پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک فلسطین کے لیے آزادی اور انصاف کے حصول کا خواہاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انڈونیشیا دو ریاستی حل کی حمایت جاری رکھے گا، جو خطے میں پائیدار امن کا واحد راستہ ہے۔
انہوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن کے لیے انڈونیشیا کی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر عالمی برادری اجازت دے تو انڈونیشیا غزہ یا دیگر تنازعات والے علاقوں میں 20,000 فوجی بھیجنے کو تیار ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عملی طور پر امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔

Post Views: 1.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

امن کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں، برطانوی نائب وزیر اعظم 

لندن: برطانیہ کے نائب وزیراعظم ڈیوڈ لیمی نے کہا ہے کہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا فیصلہ فوری طور پر آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کا باعث نہیں بنے گا بلکہ یہ اقدام امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی ایک کوشش ہے۔

ڈیوڈ لیمی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فلسطین کو ریاست کے طور پر تسلیم کرنا ایک اہم سفارتی پیش رفت ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اگلے دن ہی فلسطینی ریاست وجود میں آ جائے گی۔ ان کے مطابق یہ قدم ایک طویل المدتی امن معاہدے کی جانب پیش رفت ہے۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے حال ہی میں اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے تاکہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازع کے حل کے لیے عالمی دباؤ بڑھایا جا سکے۔ تاہم نائب وزیراعظم نے واضح کیا کہ اس فیصلے سے فوری طور پر سرحدوں یا حکومتی و عسکری ڈھانچے کا قیام عمل میں نہیں آئے گا۔

ڈیوڈ لیمی نے کہا کہ یہ اقدام فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت کی حمایت ہے، لیکن امن کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں۔ برطانیہ تمام فریقوں کے ساتھ مل کر مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔

فلسطینی حکام نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جبکہ اسرائیلی حکومت نے اسے "غیر مفید" قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ امن کا واحد راستہ براہِ راست مذاکرات ہیں۔ ماہرین کے مطابق فلسطین کو عالمی سطح پر تسلیم کرنے کے اقدامات سفارتی دباؤ تو بڑھا سکتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی کے لیے عملی معاہدوں اور اقدامات کی ضرورت ہے۔

یہ پیش رفت ایسے وقت میں ہوئی ہے جب یورپی یونین کے کئی ممالک بھی فلسطین کو مکمل ریاست کا درجہ دینے پر غور کر رہے ہیں۔


 

متعلقہ مضامین

  • انڈونیشیا کا بڑا فیصلہ؛ غزہ میں امن فوج کیلیے 20 ہزار سے زائد اہلکار بھیجنے کا اعلان
  • انڈونیشیا کا غزہ میں 20 ہزار سے زائد امن فوج بھیجنے کا اعلان
  • ہمیں آزاد فلسطین چاہیئے:انڈونیشیا غزہ میں امن فوج تعینات کرنے کے لئے تیار
  • ’ خوشی بھی، تشویش بھی‘، فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے پر عوامی ردعمل
  • فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرنے کا اعلان
  • فرانس نے بھی فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کا اعلان کردیا
  • امن کے لیے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان مذاکرات لازمی ہیں، برطانوی نائب وزیر اعظم 
  • بگرام ایئربیس کیلئے اگلے 20 برس جنگ لڑنے کو تیار ہیں، افغان حکومت کا ٹرمپ کی دھمکیوں پر جواب
  • برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا کے بعد پرتگال نے بھی فلسطین کو بطور ریاست تسلیم کرلیا