پولیس پارٹی پر فائرنگ، مراد سعید کو پناہ دینے کا الزام، کامران بنگش بری
اشاعت کی تاریخ: 26th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور(مانیٹرنگ ڈیسک)انسداد دہشت گردی عدالت نے پولیس پارٹی پر فائرنگ اور مراد سعید کو پناہ دینے کے الزامات میں سابق صوبائی وزیر و پی ٹی آئی رہنما کامران بنگش کو بری کردیا۔ پولیس پارٹی پر فائرنگ اور دہشت گردی کیس میں نامزد سابق صوبائی وزیر کامران بنگش کیس کی سماعت انسداد دہشت گردی عدالت میں ہوئی جو کہ جج اسد اللہ کے روبرو ہوئی۔پراسیکیوشن نے کہا کہ کامران بنگش پر الزام ہے کہ انھوں نے سابق وفاقی وزیر مراد سعید کو پناہ دی تھی، کامران بنگش نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی، واقعہ 20 اکتوبر 2023ء کو تھانہ چمکنی کے حدود میں پیش آیا تھا۔ کامران بنگش کے وکیل بیرسٹر سرور شاہ نے کہا کہ 20 اکتوبر 2023ء کو پولیس نے کامران بنگش کے حجرے پر چھاپہ مارا، پولیس کے مطابق کامران بنگش نے سابق وفاقی وزیر مراد سعید کو پناہ دی تھی، پولیس کے مطابق کامران بنگش نے پولیس پارٹی پر فائرنگ کی لیکن ویڈیو موجود ہے جس میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کامران بنگش خود پولیس کے ساتھ جارہے ہیں۔کامران بنگش کے ایک اور وکیل علی زمان ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایسا کوئی ریکارڈ موجود نہیں کہ کامران بنگش نے پولیس پر فائرنگ کی یا مراد سعید کو پناہ دی، یہ مقدمہ سیاسی بنیادوں پر بنایا گیا۔عدالت نے عدالت عدم ثبوت کی بنا پر سابق صوبائی وزیر کامران بنگش کو بری کردیا۔سابق صوبائی وزیر کامران بنگش نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ 2023ء میں پولیس نے میرے گھر پر چھاپہ مارا اور الزام لگایا کہ میں نے سابق وفاقی وزیر مراد سعید کو پناہ دی ہے، جھوٹ پر مبنی کیس سے آج عدالت نے مجھے بری کردیا ہے، مجھ پر الزام لگایا گیا کہ پولیس پر فائرنگ کی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پولیس پارٹی پر فائرنگ مراد سعید کو پناہ دی کامران بنگش نے پر فائرنگ کی نے پولیس کہا کہ
پڑھیں:
پی آئی اے‘ سابق سی ای اومالی تناز ع کیس‘ تحقیقاتی ٹیم بنانیکا حکم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد ( آن لائن) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی آئی اے کے سابق چیف ایگزیکٹو آفیسر مشرف رسول، وقاص احمد اور سہیل علیم کے درمیان مبینہ مالی لین دین کے تنازع سے متعلق مقدمات پر بڑا حکم جاری کرتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے کو مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم دے دیا ہے۔جسٹس محسن اختر کیانی نے اپنے تحریری حکمنامے میں پولیس کی اب تک کی تفتیش پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے قرار دیا کہ تمام مقدمات کی آزادانہ، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کی ضرورت ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ جے آئی ٹی نہ صرف مقدمات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لے بلکہ اس میں تفتیشی افسران اور پولیس اہلکاروں کے کردار کی بھی چھان بین کی جائے، بالخصوص ان معاملات میں جہاں خاتون اور کم سن بچوں کے اغوا کے الزامات سامنے آئے ہیں۔عدالت نے ڈی جی ایف آئی اے اور وفاقی سیکرٹری داخلہ کو ہدایت کی کہ وہ ڈائریکٹر کرائمز کے مساوی عہدے کا ایک سینئر افسر ان تحقیقات کی نگرانی کے لیے تعینات کریں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ نے متعلقہ افسر سے تمام مقدمات کے پہلوؤں پر مشتمل جامع رپورٹ 20 نومبر تک پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ تحریری حکمنامے کے مطابق لاہور سے ایک خاتون اور اس کی 3 کم سن بیٹیوں کے اغوا کے واقعے کو مثالی کیس کے طور پر سامنے لایا جائے تاکہ مستقبل میں اس نوعیت کے مقدمات میں تفتیشی عمل کو بہتر بنایا جا سکے۔