جی ایچ کیو حملہ کیس، عمران خان کے وکلا کی کیس التوا کی نئی درخواست بھی خارج
اشاعت کی تاریخ: 27th, September 2025 GMT
انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سید امجد علی شاہ کے روبرو جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت ہوئی، جس میں سرکار کے 3 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے گئے جب کہ عدالت نے وکلائے صفائی کی جانب سے کیس کے التوا کی درخواست خارج کردی۔ اسلام ٹائمز۔ جی ایچ کیو حملہ کیس میں عدالت نے عمران خان کے وکلا کی جانب سے التوا کی نئی درخواست بھی خارج کردی۔ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج سید امجد علی شاہ کے روبرو جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت ہوئی، جس میں سرکار کے 3 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے گئے جب کہ عدالت نے وکلائے صفائی کی جانب سے کیس کے التوا کی درخواست خارج کردی۔ عدالت نے جی ایچ کیو حملہ کیس کی سماعت 30 ستمبر تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ تاریخ پر آخری 3 گواہوں کو بھی طلب کرلیا جب کہ کیس کے 71 گواہان غیر ضروری قرار دے کر فارغ کر دیے گئے۔ واضح رہے کہ اب تک 44 گواہان کے بیان ریکارڈ ہوئے ہیں اور 13 پر تاحال جرح نہیں ہو سکی۔
قبل ازیں بانی پی ٹی آئی عمران خان کے وکلا نے جی ایچ کیو حملہ کیس میں ویڈیو لنک کارروائی کو ایک بار پھر چیلنج کیا اور آج کی کارروائی ملتوی کرنے کی درخواست دی، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ جب تک وڈیو لنک پٹیشن پر ہائی کورٹ فیصلہ نہیں کرتی، تب تک سماعت ملتوی کی جائے۔ دورانِ سماعت پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ تاخیری حربہ ہے، وکلائے صفائی پہلے ہی بائیکاٹ کر چکے ہیں، ان کی یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں۔ عدالت درخواست خارج کرے اور 3 گواہان موجود ہیں، ان کے بیان ریکارڈ کیے جائیں۔ واضح رہے کہ آج ہونے والی سماعت میں بانی پی ٹی آئی کی لیگل ٹیم نے عمران خان کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کی کارروائی کو ایک بار پھر چیلنج کیا اور اس سلسلے میں تیسری درخواست دائر کی گئی تھی۔
گزشتہ سماعت میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے عمران خان کو بذریعہ ویڈیو لنک پیش کرنے کا حکم جاری کیا تھا۔ اس موقع پر آج سرکاری گواہوں کے ساتھ ساتھ تفتیشی ٹیم بھی مکمل ریکارڈ کے ساتھ کمرہ عدالت میں موجود تھی۔ سماعت کے دوران پی ٹی آئی پشاور جلسے کی وجہ سے ملزمان کی حاضری انتہائی کم رہی جب کہ ویڈیو لنک بھی فعال نہ ہونے کی وجہ سے عدالت نے سماعت میں وقفہ کیا اور سپرنٹنڈنٹ جیل اڈیالہ کو 11 بجے تک واٹس ایپ کال، ویڈیو لنک فعال کرنے کا حکم دیا۔ دریں اثنا 26 نومبر کے 8 کیسز میں کرنل اجمل صابر کی عبوری ضمانت میں 7 اکتوبر تک توسیع کردی گئی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جی ایچ کیو حملہ کیس کے بیان ریکارڈ ویڈیو لنک عدالت نے التوا کی
پڑھیں:
جسٹس طارق موقع ملنے کے باوجود کمرہ عدالت سے چلے گئے، سندھ ہائیکورٹ کا تحریری فیصلہ جاری
کراچی:سندھ ہائیکورٹ نے اسلام آباد کے جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ڈگری سے متعلق درخواستوں کی گزشتہ روز کی سماعت کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
فیصلہ آئینی بینچ کے سربراہ جسٹس کے کے آغا نے تحریر کیا، عدالت نے 7 درخواستوں کے فیصلے علیحدہ پیراگراف کی صورت میں شامل کیے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے وکیل درخواست گزاروں سے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کیے۔ وکلا درخواست گزاروں کا اصرار تھا کہ پہلے اعتراضات پر فیصلہ کیا جائے۔ وکلا درخواست گزاروں نے درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل سے انکار کیا۔
جسٹس کے کے آغا نے تحریری فیصلے میں کہا کہ وکلا کو سماعت کا موقع دیا گیا تھا تاہم انہوں نے موقع ضائع کیا۔ درخواست گزاروں کے وکلا دوران سماعت کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے، اس لیے تمام درخواستوں کو عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کیا جاتا ہے۔
تحریری فیصلے میں جسٹس کے کے آغا نے کہا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری نے عدالت کی اجازت سے باوقار انداز میں بات کی لیکن جسٹس طارق محمود جہانگیری نے درخواست کے کسی نکتے پر بات نہیں کی اور موقع دیے جانے کے باوجود جسٹس طارق محمود جہانگیری کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔
جسٹس کے کے آغا نے تحریری فیصلے میں کہا کہ جسٹس طارق محمود جہانگیری کی فریق بننے کی درخواست بھی عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی جاتی ہے، درخواست گزار اور فریق نے جان بوجھ کر سماعت سے انکار کیا اور واک آوٹ کیا۔ دانستہ عدم دلچسپی کی بنیاد پر عدالتی کارروائی کو نقصان پہنچایا گیا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ اعلیٰ عدالتوں کے پاس عدم پیروی یا عدم تعمیل کی صورت میں درخواستوں کو مسترد کرنے کا اختیار ہے۔ عدم پیروی پر عدالت کو مجبوراً درخواستوں کو مسترد کرنا پڑا۔ بیرسٹر صلاح الدین اور فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے بینچ کی تشکیل پر اعتراض کیا، عدالتی کارروائی کس طرح چلانی ہے یہ طے کرنے کی مجاز عدالت ہے۔ وکلا کی خواہش کے مطابق عدالتی کارروائی طے نہیں کی جا سکتی۔
عدالت نے فیصلہ کیا تھا کہ اعتراضات اور قابل سماعت ہونے کا فیصلہ مشترکہ آرڈر کے ذریعے کیا جائے گا۔ اعتراضات درست ثابت ہونے کی صورت میں قابل سماعت ہونے کا معاملہ ثانوی ہو جاتا لیکن بدقسمتی سے وکلا درخواست گزاروں نے اصرار کیا کہ پہلے اعتراضات پر فیصلہ کیا جائے، عدالت نے وکلا درخواست گزاروں کو آگاہ کیا کہ تمام معاملات ایک ساتھ سنے اور طے کیے جائیں گے۔ تمام درخواست گزاروں کے وکلا کمرہ عدالت چھوڑ کر چلے گئے۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ وکلا درخواست گزاروں کا رویہ واضح عدم دلچسپی ظاہر کرتا ہے، وکیل درخواست گزاروں نے دانستہ طور پر سماعت کا موقع استعمال نہیں کیا۔ وکلا نے عدالت کے خلاف نعرے بازی کی اور عدالتی وقار کو مجروح کیا۔ ایسا طرز عمل سینیئر وکلا کے لیے نامناسب اور ان کے شایان شان نہیں، عدالت نے زیادہ سے زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے نوٹس جاری نہیں کیا۔ امید ہے وکلا آئندہ عدالتی وقار کا خیال رکھیں گے۔
عدالت کی تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ بیرسٹر صلاح الدین اور فیصل صدیقی ایڈووکیٹ کے اعتراضات 22 ستمبر کے عدالتی آرڈر سے متعلق تھے وار یہ عدالتی آرڈر اب تک برقرار ہے۔ عدالتی آرڈر پر اعتراض کی صورت میں درست طریقہ سپریم کورٹ سے رجوع کرنا تھا۔ ایک ہفتہ گزر جانے کے باوجود سپریم کورٹ سے رجوع نہیں کیا گیا۔
بینچ کی جانبداری سے متعلق طے شدہ اصول ہے کہ یہ جج کا خود کو الگ کرنا یا نا کرنا جج کے ضمیر یا مرضی پر منحصر ہے۔ بینچ کے دونوں ججز اس نتیجے پر پہنچے کہ خود کو الگ کرنے کا کوئی جواز موجود نہیں۔
طے شدہ اصول ہے کہ کسی درخواست کے قابل سماعت کا سوال موجود ہو تو پہلے اس کا فیصلہ کیا جانا چاہیئے۔ عدالت سمجھتی ہے کہ درخواستوں میں مانگے گئے ریلیف کی بنیاد پر درخواستیں آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آتی ہیں۔
وکلا درخواست گزاروں نے سماعت کا موقع ضائع کیا اور عدالت کے باہر جاتے ہوئے شور شرابہ کیا۔ وکلا کی جانب سے ایسا رویہ قابل مذمت ہے۔ رجسٹرار ہائیکورٹ سماعت کے دوران کمرہ عدالت کے اندر اور باہر کی سی سی ٹی وی ریکارڈنگز اور آڈیو ریکارڈنگ فوری طور پر محفوظ کریں۔ عدالت اپنی کارروائی کو خود ریگولیٹ کرے گی۔ عدالتی کارروائی کو وکلا کے خواہش کے سامنے یرغمال نہیں بننے دیا جائے گا۔
درخواستیں عارف اللہ خان، اسلام آباد ہائیکورٹ بار، ڈاکٹر ریاض احمد، قادر راجپر، عامر نواز وڑائچ صدر کراچی بار ایسوسی ایشن، ملیر کورٹ بار ایسوسی ایشن، محمد عابد حسین ساقی و دیگر وکلا کی جانب سے دائر کی گئیں تھیں۔