Express News:
2025-10-04@16:45:23 GMT

جنگی معاہدے اور امن کے سوالات

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

دنیا کی سیاست میں ہر روز کوئی نہ کوئی نیا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ کہیں نئے اتحاد تشکیل پاتے ہیں،کہیں پرانے تعلقات ٹوٹتے ہیں اورکہیں ایک معاہدہ آیندہ نسلوں کے مقدرکو بدل دیتا ہے۔ ابھی کچھ دن پہلے پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ہونے والا دفاعی معاہدہ بھی انھی واقعات میں سے ایک ہے۔

بظاہر یہ محض ایک معاہدہ ہے جیسا کہ دنیا بھر کے ممالک کرتے رہتے ہیں، مقصد بتایا گیا کہ دونوں ممالک اپنی سلامتی کو مزید بہتر بنائیں گے اور ایک دوسرے کے ساتھ دفاعی میدان میں تعاون کریں گے لیکن دنیا کی سیاست اتنی سادہ نہیں ہوتی جتنی بظاہر نظر آتی ہے۔ ایک کاغذ پر لکھے چند جملے آنے والے دنوں میں تاریخ کے دھارے کو بدل دیتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اس معاہدے نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کل کو بھارت پاکستان پر کوئی جارحیت کرتا ہے تو کیا سعودی عرب اس معاہدے کی روشنی میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ اگر وہ کھڑا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کی ممکنہ جنگ صرف دو ممالک تک محدود نہیں رہے گی بلکہ ایک اور طاقتور ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔

یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بھارت اور سعودی عرب کے درمیان بھی درجنوں معاہدے موجود ہیں۔ سعودی عرب وہاں سے اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری لے رہا ہے اور بھارتی افرادی قوت سعودی معیشت کا اہم سہارا ہے۔ کیا سعودی عرب ان سب کو پسِ پشت ڈال دے گا اور صرف پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوگا؟ یا پھر اس معاہدے کی نوعیت محض کاغذی ہوگی جس کی حقیقت کسی بڑے تنازعے میں آشکار ہوگی؟

اسی طرح ایک اور پہلو یہ ہے کہ اگر اسرائیل کل کو سعودی عرب پر حملہ کرتا ہے تو کیا یہ پاکستان پر حملہ شمار ہوگا؟ اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان اس تنازعے میں براہِ راست شامل ہو جائے گا۔ یوں پاکستان ایک ایسی جنگ میں کھینچ لیا جائے گا جس کے نہ تو اس کے مقاصد ہیں اور نہ اس کے عوام نے کبھی اس کی خواہش کی ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے عوام تیار ہیں کہ وہ ایک ایسے تنازعے کا حصہ بنیں جس کا تعلق ان کی سرزمین سے نہیں بلکہ ایک اور خطے کے مسائل سے ہے؟ تاریخ ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ جب قومیں دوسروں کی جنگوں میں الجھتی ہیں تو وہ اپنی زمین اور اپنے عوام کے مسائل کو پیچھے چھوڑ دیتی ہیں اور پھر ان جنگوں کی آگ صدیوں تک بجھتی نہیں۔

ہر ملک کو اپنی سلامتی کے تقاضوں کے تحت فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے مگر اصل سوال یہ ہے کہ ایسے فیصلے کہاں تک جا سکتے ہیں اور ان کے اثرات کتنے دور تک پھیل سکتے ہیں، اگر ایک معاہدہ کسی جنگ کو روکنے کے بجائے اسے بڑھانے کا باعث بن جائے تو اس کا خمیازہ صرف دو ممالک ہی نہیں بلکہ پورا خطہ بھگتتا ہے۔ جنوبی ایشیا پہلے ہی تنازعات کی آگ میں جل رہا ہے، ایسے میں اگر ایک اور جنگی محاذ کھل گیا تو یہ خطہ مکمل طور پر عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔

 انسانی تاریخ اس حقیقت سے بھری پڑی ہے کہ جب قومیں طاقت کے نشے میں ایک دوسرے پر چڑھ دوڑتی ہیں تو وہ محض زمینیں ہی نہیں روندتیں بلکہ لوگوں کی زندگیاں ان کے خواب اور ان کا مستقبل بھی تباہ کر ڈالتی ہیں۔ آج بھی یہی خطرہ ہمارے سامنے کھڑا ہے۔ ہم اپنے آپ کو ترقی یافتہ دور کے باسی کہتے ہیں مگر ہمارے فیصلے ویسے ہی ہیں جیسے صدیوں پہلے تھے۔ ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ جنگ ہی مسائل کا حل ہے حالانکہ ہر جنگ نے صرف نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔

یہ المیہ بھی کم نہیں کہ دنیا کے وسائل محدود ہیں۔ پینے کا پانی کمیاب ہے،لاکھوں بچے بھوک سے بلک رہے ہیں، کروڑوں لوگ بے روزگاری اور غربت کا شکار ہیں، مگر اس کے باوجود ہتھیار بنانے کے لیے بجٹ لامحدود ہے۔ جدید ترین جنگی جہاز، تباہ کن میزائل، ایٹمی اسلحہ ان سب پر اربوں کھربوں خرچ کیے جا رہے ہیں لیکن تعلیم، صحت اور انسانی بہبود کے لیے فنڈز ہمیشہ ناکافی رہتے ہیں۔ یہی وہ تضاد ہے جس نے انسانیت کو بار بار لہولہان کیا ہے اور اب پھر وہی خطرہ ہمارے سامنے ہے۔

پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب دنیا کو امن و سلامتی کی پہلے سے بھی زیادہ ضرورت ہے، اگر یہ معاہدہ کسی نئے تصادم کی راہ ہموارکرتا ہے تو یہ دونوں ممالک کے عوام کے لیے بھی خطرہ ہے اور خطے کے دیگر ملکوں کے لیے بھی۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سرحدوں کی حفاظت بندوقوں اور ٹینکوں سے نہیں ہوتی بلکہ انصاف، مساوات اور باہمی احترام سے ہوتی ہے۔ ایک ایسا ملک جو اپنے عوام کو انصاف اور سہولتیں فراہم کرتا ہے، اس کی سرحدیں خود بخود محفوظ ہو جاتی ہیں لیکن ایک ایسا ملک جو اپنی دولت صرف ہتھیاروں پر خرچ کرتا ہے اور اپنے عوام کی بھوک، غربت اور جہالت کو نظرانداز کرتا ہے وہ اندر سے کھوکھلا ہو جاتا ہے۔

 اب سوال یہ ہے کہ ہم کب سیکھیں گے؟ کب یہ فیصلہ کریں گے کہ جنگوں کی راہ پر چلنے کے بجائے امن اور تعاون کے راستے کو اپنائیں؟ کب ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں گے کہ اصل طاقت توپ اور بندوق میں نہیں بلکہ اس بات میں ہے کہ ہم اپنے عوام کو بہتر زندگی دے سکیں، انھیں تعلیم، صحت اور روزگار فراہم کر سکیں؟ اگر ہم نے یہ سبق نہ سیکھا تو ہر نیا معاہدہ ہمیں امن کے قریب نہیں بلکہ جنگ کے دہانے پر لے جائے گا۔

 یہی وہ لمحہ ہے جب پاکستان اور سعودی عرب کے رہنماؤں کو سوچنا چاہیے کہ ان کا یہ معاہدہ آنے والی نسلوں کے لیے کیا چھوڑے گا۔ کیا یہ انھیں امن کا پیغام دے گا یا جنگ کا خوف؟ کیا یہ انھیں باہمی تعاون اور ترقی کی طرف لے جائے گا یا ایک ایسے راستے پر دھکیل دے گا جہاں صرف خون اور بارود ہے؟ تاریخ کے اوراق انھی سوالوں کے جوابات سے بھرے پڑے ہیں۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان سے سبق سیکھیں یا پھر ایک بار پھر وہی غلطی دہرا دیں جو صدیوں سے انسانیت کرتی آئی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اور سعودی عرب پاکستان اور نہیں بلکہ اپنے عوام یہ ہے کہ کرتا ہے ایک اور ہیں اور جائے گا کے لیے ہیں کہ ہے اور

پڑھیں:

ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو غزہ امن معاہدے کے لیے اتوار تک کا وقت دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس کو آخری وارننگ دی جا رہی ہے اور معاہدے کی آخری تاریخ متعین کی گئی ہے۔

ترتھ سوشل پر اپنے پیغام میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ حماس کے کئی جنگجو مارے جاچکے ہیں اور باقی جنگجو طور محصور ہیں۔ صدر نے معصوم فلسطینیوں سے اپیل کی کہ وہ فوری طور پر خطرناک علاقوں سے نکل کر محفوظ حصّوں میں منتقل ہو جائیں تاکہ انہیں مناسب امداد فراہم کی جاسکے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ کے لیے مجوزہ امن معاہدہ: اہم نکات، مضمرات، اثرات

ڈونلڈ ترمپ نے کہا کہ علاقائی اور بین الاقوامی فریقین ایک بڑے امن معاہدے کی حمایت کرتے ہیں اور حماس کو ایک آخری موقع دیا جا رہا ہے بشرطیکہ یرغمالیوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور ہلاک شدگان کی لاشیں واپس کی جائیں۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر معاہدہ طے نہ پایا تو حماس کے خلاف بے مثال کارروائیاں عمل میں لائی جائیں گی۔ صدر نے معاہدے کو تسلیم نہ کرنے کی صورت میں سخت ردِ عمل کی دھمکی دیتے ہوئے پھر کہا کہ ہر صورت میں مشرقِ وسطیٰ میں امن قائم کیا جائے گا۔

صدر ڈونلڈ جے ٹرمپ نے کہا ہے کہ حماس برسوں سے مشرقِ وسطیٰ میں ایک ظالم اور پرتشدد خطرہ رہی ہے اور اس کے حملوں میں بے شمار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا، جس کا نقطہ عروج 7 اکتوبر کو اسرائیل میں ہونے والا بڑے پیمانے پر قتل عام ہے۔ ان کے بقول اس حملے میں بچے، خواتین، بزرگ اور آنے والے مستقبل کو منانے والے جوڑے بھی نشانہ بنے۔

صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ 7 اکتوبر کے بعد سے حماس کے 25 ہزار سے زائد جنگجو مارے جاچکے ہیں اور باقی زیادہ تر محصور یا فوجی طور پر پھنس چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کا معاہدہ تسلیم کیا جائے تو غزہ کی جنگ فوراً ختم ہو سکتی ہے، نیتن یاہو

انہوں نے کہا کہ وہ ایک لفظ کہنے کے انتظار میں ہیں تاکہ ان کے خلاف کارروائی تیز ہوسکے، اور جن لوگوں کو باقی رہ جانے کی صورت میں مل جائے گا انہیں ٹریک کر کے ختم کیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے کہ حماس کو ایک آخری موقع بھی دیا جا رہا ہے۔ ان کے مطابق مشرقِ وسطیٰ کی چند بڑی اور امیر قوموں نے، جن کے ساتھ امریکہ اور اسرائیل نے بھی متفقہ دستاویز پر دستخط کیے ہیں، امن کا بڑا معاہدہ طے کیا ہے جو 3 ہزار سال کے دوران علاقے کے لیے بڑی تبدیلی ثابت ہوگا،اس معاہدے کے تحت بقیہ حماس جنگجویوں کی جانیں بھی بخش دی جا سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نیتن یاہو غزہ جنگ بندی کے خواہاں، آئندہ ہفتے حماس کے ساتھ معاہدہ طے پا سکتا ہے، ٹرمپ

صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ حماس کو اتوار شام 6 بجے واشنگٹن، ڈی سی کے وقت کے مطابق آخری موقع پر مذاکرات کے لیے کہا گیا ہے اور اگر یہ معاہدہ طے نہ پایا تو حماس کے خلاف بے مثال شدت کی کارروائیاں ہوں گی۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ تمام یرغمالیوں کو فوراً رہا کیا جائے، ہلاک شدگان کی لاشیں واپس کی جائیں اور وہ امن کے حصول کے بارے میں پراعتماد ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

we news اسرائیل امن معاہدہ حماس ڈونلڈ ٹرمپ غزہ فلسطین وارننگ

متعلقہ مضامین

  • سعودی پاک دفاعی معاہدہ اسٹریٹیجک، معیشت اور خوشحالی کا احاطہ کرتا ہے، سیکیورٹی حکام
  • پاک سعودی معاہدے میں وسعت کا مطالبہ
  • ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس کو غزہ امن معاہدے کے لیے اتوار تک کا وقت دے دیا
  • سعودیہ سے معاہدہ آنا فانا نہیں ہوا، یہ ایک نیٹو طرز کا اتحاد بن جائیگا: وزیر خارجہ
  • سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ فوج کے بغیر ممکن نہیں تھا: طلال چوہدری
  • سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدہ فوج کے بغیر ناممکن تھا، طلال چوہدری
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی معاہدہ کے بعد کئی ملکوں نے شمولیت کااظہار کیا،وہ وقت جلد آئے گا جب پاکستان 57اسلامی ممالک کی قیادت کرے،اسحاق ڈار
  • پاک سعودی دفاعی معاہدہ، اسرائیل کے لیے سخت پیغام ہے، محمد عاطف
  • پاکستان سعودی عرب دفاعی اسٹرٹیجک معاہدہ
  • ابراہیمی معاہدہ پر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی مُبینہ حمایت کی مذمت کرتے ہیں، علامہ باقر زیدی