خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں 4.3 شدت کے زلزلے جھٹکے
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پشاور: محکمہ موسمیات کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں 4.3 شدت کا زلزلہ آیا ہے۔
پی ایم ڈی کے مطابق زلزلہ رات 8 بج کر 59 منٹ پر پٹن کے جنوب مشرق میں 22 کلومیٹر دور 31 کلومیٹر کی گہرائی میں ریکارڈ کیا گیا۔
واضح رہے کہ پاکستان، تین بڑی ٹیکٹونک پلیٹوں (عربین، یورو-ایشین اور انڈین) کے سنگم پر واقع ہے، جو ملک میں پانچ زلزلہ خیز زونز بناتی ہیں، مختلف فالٹ لائنوں کے امتزاج کے باعث اس خطے میں ٹیکٹونک حرکات اکثر رونما ہوتی رہتی ہیں۔
ویب ڈیسک
عادل سلطان
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
یو این ادارہ زلزلہ زدہ افغانستان کی زراعت بحال کرنے میں مصروف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 04 اکتوبر 2025ء) 'یہ 31 اگست 2025 کو نصف شب کا وقت تھا جب زمین اچانک لرزنے لگی۔ ایسا محسوس ہوا جیسے قیامت آ گئی ہو۔ گھر منہدم ہو رہے تھے اور ہر جانب چیخ و پکار مچی تھی۔ پلک جھپکتے میں ہم اپنے خاندان، زمینیں اور مال مویشی سمیت سب کچھ کھو بیٹھے۔'
افغانستان کے صوبہ کنڑ کے گاؤں شمش سے تعلق رکھنے کسان سلیمان دکھی لہجے میں اس زلزلے کی روداد بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بہت سے مویشی ملبے تلے دب کر یا زمین برد ہو گئے۔
ان کے بغیر لوگوں کی بڑی تعداد روزگار اور خوراک سے محروم ہو گئی ہے۔ Tweet URL6.0 شدت کے اس زلزلے اور اس کے زوردار ثانوی جھٹکوں کے باعث لینڈ سلائیڈنگ کے بہت سے واقعات پیش آئے جن کے نتیجے سڑکیں بند ہو گئیں اور دور دراز کے وہ علاقے دیگر جگہوں سے بالکل کٹ کر رہ گئے جہاں کے لوگ پہلے ہی مسلسل بارشوں اور برسوں کی مشکلات سے نڈھال تھے۔
(جاری ہے)
سلیمان کے گاؤں میں تقریباً 800 خاندان آباد تھے لیکن اب وہاں ایک بھی مکان قابل رہائش نہیں رہا۔ کچھ لوگ کھلے میدانوں میں نصب خیموں میں پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ دیگر عارضی کیمپوں میں منتقل ہو چکے ہیں۔ سلیمان کے بقول، زیادہ تر خاندانوں کے پاس دس سے پندرہ مویشی ہوا کرتے تھے، لیکن اب بمشکل دو یا تین ہی بچے ہیں۔
شدید غذائی قلت کا خدشہصوبہ ننگرہار میں حبیب اللہ اپنے گاؤں اتران کے ملبے پر نگاہ دوڑاتے ہوئے کہتے ہیں کہ زلزلے نے ان کا سب کچھ تباہ کر دیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی مکئی کی فصلیں برباد ہو گئی ہیں، آبپاشی کی نہر ٹوٹ چکی ہے یہاں تک کہ پھلدار درخت بھی سوکھ گئے ہیں۔ زلزلے میں باڑے تباہ ہونے سے مویشی ہلاک ہو گئے۔ اب جبکہ سردی قریب آ رہی ہے تو انہیں خوف ہے کہ جو تھوڑے بہت جانور باقی بچے ہیں، وہ بھی نہ بچ پائیں گے۔سلیمان اور حبیب اللہ کے دیہات کی طرح یہ زلزلہ ایسی بہت سی بستیوں کو تاراج کر گیا جو پہلے ہی کئی سال سے جاری خشک سالی، سیلابوں اور معاشی بدحالی سے دوچار تھیں۔
خاص طور پر وہ خاندان اس آفت سے بری طرح متاثر ہوئے ہیں جو حال ہی میں ایران یا پاکستان سے افغانستان واپس لوٹے تھے اور نئے سرے سے زندگی شروع کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔اگست سے پہلے بھی ان صوبوں میں تقریباً 9 لاکھ 50 ہزار افراد کے شدید غذائی قلت کا شکار ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا تھا جبکہ اب یہ تعداد تیزی سے بڑھنے کا امکان ہے۔
'ایف اے او' کے امدادی اقداماتزلزلے کے بعد چند ہی روز میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت (ایف اے او) کی ٹیموں نے متاثرہ علاقوں میں نقصانات کے فوری جائزے شروع کر دیے۔
مقامی لوگوں سے براہ راست بات چیت کے بعد یہ سامنے آیا کہ پانی تک رسائی فوری اور اہم ترین ضرورت ہے۔آبپاشی کی نہریں یا تو مکمل تباہ ہو گئی تھیں یا ملبہ گرنے سے بند ہو چکی تھیں جس کی وجہ سے سیکڑوں خاندان پینے کے صاف پانی سے بھی محروم تھے۔ 'ایف اے او' نے نہروں کی صفائی اور مرمت کا کام فوری طور پر شروع کیا تاکہ مکئی اور پھلیوں کی بچی کھچی فصلوں کو آخری پانی دیا جا سکے۔
زلزلے کے باعث 445 مربع کلومیٹر سے زیادہ رقبے پر زرعی اراضی ناقابل کاشت ہونے کا خدشہ ہے جبکہ پانچ لاکھ سے زیادہ مویشیوں کی صحت بھی خطرے میں پڑ گئی ہے۔ جانوروں کے لیے جمع کیا گیا چارہ ملبے سے آلودہ ہو چکا ہے اور ان کے باڑے تباہ ہو چکے ہیں۔ وہ خاندان جو کبھی مکئی، گندم، پھلیاں، چاول، دودھ اور گوشت استعمال کرتے تھے اب اپنے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا کھلانے سے بھی قاصر ہیں۔
متاثرہ برادریوں نے مویشیوں کے علاج کی سہولیات بحال کرنے، جانوروں کے باڑوں کی دوبارہ تعمیر اور چارے و مویشیوں کی فراہمی کے لیے فوری مدد کی اپیل کی ہے۔ 'ایف اے او' اور اس کے مقامی شراکت دار زندہ بچ جانے والے جانوروں کا علاج کر رہے ہیں اور انہیں حفاظتی ٹیکے لگا رہے ہیں۔
کنڑ میں زلزلے سے شدید متاثرہ اضلاع میں 5,600 سے زیادہ مردہ مویشیوں کو محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگایا گیا ہے تاکہ جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہونے والی بیماریوں اور پانی کی آلودگی سے بچا جا سکے۔
'ایف اے او' کی ٹیمیں کئی گھنٹے پہاڑی علاقوں میں پیدل چل کر لینڈ سلائیڈز اور ملبے سے گزرتے ہوئے دور افتادہ دیہات تک پہنچیں۔ اس جگہ تک پہنچنے اور مردہ جانوروں کو دفنانے کے لیے ساڑھے تین گھنٹے پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ادارہ 'نقد برائے کام' پروگرام بھی شروع کر رہا ہے جس کے تحت مقامی مزدوروں کو مویشیوں کے باڑے تعمیر کرنے کے لیے روزگار دیا جائے گا۔
سرما کی فصلوں کے لیے تیاریموسم سرما کی آمد میں محض چند ہفتے باقی ہیں اور زلزلے سے متاثرہ خاندانوں کے پاس اپنی زمین تیار کرنے اور مویشیوں کو بچانے کے لیے بہت کم وقت ہے۔ اگر وہ اس موقع سے محروم ہو گئے، تو اگلے سال کی فصل خطرے میں پڑ جائے گی اور بھوک کا بحران گہرا ہو سکتا ہے۔
'ایف اے او' نے افغانستان میں ہنگامی زرعی امداد فراہم کرنے کے لیے 2 کروڑ 34 لاکھ ڈالر کی ہنگامی اپیل کی ہے تاکہ متاثرہ خاندانوں کی بنیادی ضروریات پوری کی جا سکیں۔