data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
حکومت سندھ نے موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965 کی شق 121-اے کے تحت بارہویں شیڈول میں ترمیم کرتے ہوئے صوبے بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے اور ڈی میرٹ پوائنٹس کا نیا نظام نافذ کردیا ہے۔ سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، غلط سمت میں گاڑی چلانے، اوور لوڈنگ اور بغیر لائسنس ڈرائیونگ سمیت دیگر خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اوور اسپیڈنگ پر موٹر سائیکل کے لیے پانچ ہزار، کار کے لیے 15 ہزار اور ہیوی ٹرانسپورٹ کے لیے 20 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا جب کہ 8 ڈی میرٹ پوائنٹس بھی شامل ہوں گے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ اور 6 پوائنٹس مقرر ہیں۔ سینئر وزیر کے بقول یہ اقدامات شہریوں کی جانیں بچانے اور روڈ سیفٹی یقینی بنانے کے لیے کیے گئے ہیں، حکومت کا مقصد صرف جرمانے وصول کرنا نہیں بلکہ شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہے۔ دوسری جانب کراچی کے نجی ہوٹل میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی سندھ جناب غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ شہریوں کو قوانین پر عمل درامد کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ اصل تجویز میں لائسنس کی خلاف ورزی پر 100,000 روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا تھا، لیکن سندھ حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیا نظام کئی سال کی درخواستوں اور روڈ سیفٹی بہتر بنانے کے بعد نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ کراچی میں ٹریفک خلاف ورزیوں کو کم کیا جا سکے۔ حکومت ِ سندھ کے ان اقدامات اور فیصلے کے بعد کراچی میں ٹریفک پولیس نے ای چالان شروع بھی کردیا ہے، حکام کا کہنا ہے کہ جہاں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، فوراً چالان کٹ جائے گا۔ نئے نظام کے تحت شہر بھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرہ سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے فوری کمپیوٹر ای چالان ہوجائیں گے۔ اس حکم نامے کی تعمیل میں کراچی ٹریفک پولیس نے انتہائی مستعدی سے شہریوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔ ٹریفک پولیس جگہ جگہ ناکہ لگائے شہریوں کا چالان کر رہی ہے۔ سندھ حکومت کے ان عوام دشمن اقدامات کی وجہ سے کراچی کے شہری شدید غم و غصے اور اضطراب کا شکار ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے تمام اداروں اور سرکاری محکموں میں میرٹ کو نظر انداز کر کے بھرتیاں کی گئی ہیں، کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوان مجبوراً بائیکیا اور فوڈ پانڈچلانے پر مجبور ہیں ان کی روزانہ کی آمدنی اتنی بھی نہیں ہوتی کہ ان کی روزمرہ کی ضروریات پوری ہوں ایسے میں بھاری بھرکم جرمانہ کسی تازیانہ سے کم نہیں۔ ادھر سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے والدین کو پولیو ویکسین سے انکار کرنے پر سخت کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیو ویکسین سے انکار کرنے والوں کی موبائل سم، قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس منسوخ کردیے جائیں گے، انہوں نے چیف سیکرٹری کو سم، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا پلان تیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ ہے کہ سندھ حکومت کو عوام کے مسائل و مشکلات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں، کراچی کے عوام کے استحصال کے لیے سندھ حکومت کے تمام ہی ادارے باہم شیر و شکر ہوگئے ہیں، اگر وہ ایسی ہی چابکدستی اور مستعدی کا مظاہرہ کراچی کے تعمیر و ترقی، انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے دکھاتے تو آج کراچی کھنڈرات کا منظر نہ پیش کر رہا ہوتا اور نہ ہی پورے ملک میں ان کی کارکردگی کی بھد اڑائی جارہی ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کراچی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے، امن و امان کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتی جارہی ہے، دن دہاڑے شہریوں کو لوٹا جارہا ہے، یہاں کی سڑکیں حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا منظر پیش کر رہی ہیں، انفرا اسٹرکچر تباہ وبرباد ہوچکا ہے، نہ ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہے نہ ہی شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے، ٹریفک کا پورا نظام درہم برہم ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں جن سے تعفن اٹھا رہا ہے، صفائی ستھرائی کی صورتحال انتہائی دگر گوں ہے۔ اس صورتحال پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر کا یہ کہنا بجا ہے کہ کراچی کی سڑکیں تباہ ہیں، ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں، مگر شہریوں کا چالان ہوگا اور بھاری جرمانے بھی، یہ سندھ حکومت کی کراچی دشمنی ہے، انفرا اسٹرکچر دیہات کے معیار کا بھی نہیں مگر جرمانے بین الاقوامی معیار کے! سندھ حکومت صرف کراچی کو نوچنا جانتی ہے کچھ دینا نہیں۔ شہر کراچی آج اندھیر نگری چوپٹ راج کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بااختیار افراد کا شہر کی تعمیر و ترقی سے دلچسپی کا حال یہ ہے کہ اگست کے مہینے میں میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اعلان کیا تھا کہ بارشوں سے متاثرہ 106 سڑکوں کی پیوند کاری اور استرکاری کا کام یکم ستمبر سے شروع کردیا جائے گا، جو 60 دن میں مکمل کر لیا جائے گا، اس کام کے لیے 75 کروڑ روپے بھی مختص کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ عوام بجٹ، ترقیاتی اسکیموں اور کام کے دائرۂ کار سے متعلق سوالات کے جوابات کے لیے کے ایم سی کی آفیشل ویب سائٹ کا معائنہ کر سکتے ہیں جہاں 106 سڑکوں کی تفصیلات، ٹھیکیداروں اور انجینئرز کے نام، کمپنی کی تفصیلات، حتیٰ کہ ایکس ای این کے واٹس ایپ نمبرز بھی موجود ہیں۔ مگر کراچی کی سڑکوں کی زبوں حالی مرتضیٰ وہاب کے تمام تر دعوؤں کی نفی کر رہی ہیں۔ آج بھی کئی اہم شاہراہیں استرکاری کے نام پر ادھیڑ کر تو رکھ دی گئی ہیں مگر پیوند کاری کا نام ونشان تک نہیں ہے، شہر کے اہم سڑکیں اور شاہراہیں بزبانِ حال میئر کراچی کی کارکردگی کا نوحہ پڑھ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے ہر کچھ ماہ بعد استرکاری کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ سڑکوں کی تعمیر یا پیوند کاری میں ناقص میٹریل استعمال ہی کیوں کیا جاتا ہے، آخر اس کے چیک اینڈ بیلنس کا ذمے دار کون ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت جان بوجھ کر شہریوں کو اذیت سے دوچار کر رہی ہے۔ روڈ سیفٹی یقینی بنانے کے اقدامات یقینا خوش آئند ہیں مگر یہ قوانین صرف جرمانے وصول کرنے اور شہریوں کو تنگ و حراساں کرنے کے لیے نہیں ہونے چاہییں، روڈ سیفٹی سے قبل سڑکیں بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، شہر کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی تعمیر و بحالی، امن وامان کی صورتحال کو بہتر اور شہریوں کو ٹرانسپورٹ، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں فراہم کیے بغیر ترقی یافتہ ممالک کی طرح محض قوانین کا نفاذ عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے، عوام پہلے ہی ان گنت مسائل سے دوچار ہیں اور یہ مسائل خود حکومت کے پیدا کردہ ہیں، عوام کے بنیادی مسائل حل کیے بغیر نئی جکڑ بندیاں پیدا کرنا دانشمندی نہیں اشتعال انگیزی ہے حکومت کو ایسی اشتعال انگیزی سے گریز کرنا چاہیے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: انفرا اسٹرکچر کی خلاف ورزی سندھ حکومت شہریوں کو روڈ سیفٹی انہوں نے کراچی کے سڑکوں کی کا کہنا سندھ کے کر رہی رہا ہے کے لیے
پڑھیں:
ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید کا ایم کیو ایم رہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردِعمل
ترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید—فائل فوٹوترجمان سندھ حکومت سعدیہ جاوید نے ایم کیو ایم رہنماؤں کی پریس کانفرنس پر ردِعمل کا اظہار کیا ہے۔
جاری کیے گئے بیان میں ان کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم رہنما بلدیاتی نظام کو نشانہ بنانے کے بجائے اسے مضبوط کرنے پر توجہ دیں۔
سعدیہ جاوید نے کہا ہے کہ سندھ کا بلدیاتی نظام پورے پاکستان میں سب سے زیادہ با اختیار اور آئینی طور پر مضبوط نظام ہے۔
گورنر سندھ کامران ٹیسوری کا کہنا ہے کہ صوبے کا گورنر بعد میں، ایم کیو ایم کا کارکن پہلے ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر پنجاب کا نظام زیادہ پسند ہے تو پھر وہ اسی ماڈل کے نفاذ کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔
سعدیہ جاوید نے مطالبہ کیا کہ پی ایم ایل این کو اپنے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان ہونے والے گورنر شپ کے معاہدے پر عمل درآمد کرنا چاہیے۔
ترجمان سندھ حکومت نے کہا کہ پیپلز پارٹی کراچی کی اصل سیاسی جماعت ہے اور شہر کے لیے مزید بڑے ترقیاتی منصوبے لے کر آئے گی۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ شہری مسائل کا حل صرف تنقید سے نہیں بلکہ عملی اقدامات سے ممکن ہے۔