Jasarat News:
2025-10-07@23:11:24 GMT

اندھیر نگری چَوپٹ راج

اشاعت کی تاریخ: 8th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حکومت سندھ نے موٹر وہیکلز آرڈیننس 1965 کی شق 121-اے کے تحت بارہویں شیڈول میں ترمیم کرتے ہوئے صوبے بھر میں ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر بھاری جرمانے اور ڈی میرٹ پوائنٹس کا نیا نظام نافذ کردیا ہے۔ سندھ کے سینئر وزیر اور صوبائی وزیر برائے اطلاعات، ٹرانسپورٹ و ماس ٹرانزٹ شرجیل انعام میمن کا کہنا ہے کہ اوور اسپیڈنگ، سگنل توڑنے، غلط سمت میں گاڑی چلانے، اوور لوڈنگ اور بغیر لائسنس ڈرائیونگ سمیت دیگر خلاف ورزیوں پر سخت کارروائی ہوگی۔ ان کا کہنا تھا کہ اوور اسپیڈنگ پر موٹر سائیکل کے لیے پانچ ہزار، کار کے لیے 15 ہزار اور ہیوی ٹرانسپورٹ کے لیے 20 ہزار روپے جرمانہ عائد ہوگا جب کہ 8 ڈی میرٹ پوائنٹس بھی شامل ہوں گے۔ شرجیل انعام میمن نے کہا کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس گاڑی چلانے پر 50 ہزار روپے تک جرمانہ اور 6 پوائنٹس مقرر ہیں۔ سینئر وزیر کے بقول یہ اقدامات شہریوں کی جانیں بچانے اور روڈ سیفٹی یقینی بنانے کے لیے کیے گئے ہیں، حکومت کا مقصد صرف جرمانے وصول کرنا نہیں بلکہ شہریوں کی زندگیوں کو محفوظ بنانا ہے۔ دوسری جانب کراچی کے نجی ہوٹل میں سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے آئی جی سندھ جناب غلام نبی میمن کا کہنا تھا کہ شہریوں کو قوانین پر عمل درامد کرنا ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ اصل تجویز میں لائسنس کی خلاف ورزی پر 100,000 روپے تک جرمانہ تجویز کیا گیا تھا، لیکن سندھ حکومت نے اسے مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ نیا نظام کئی سال کی درخواستوں اور روڈ سیفٹی بہتر بنانے کے بعد نافذ کیا جا رہا ہے تاکہ کراچی میں ٹریفک خلاف ورزیوں کو کم کیا جا سکے۔ حکومت ِ سندھ کے ان اقدامات اور فیصلے کے بعد کراچی میں ٹریفک پولیس نے ای چالان شروع بھی کردیا ہے، حکام کا کہنا ہے کہ جہاں بھی ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی ہوگی، فوراً چالان کٹ جائے گا۔ نئے نظام کے تحت شہر بھر میں لگے سی سی ٹی وی کیمرہ سے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں کے فوری کمپیوٹر ای چالان ہوجائیں گے۔ اس حکم نامے کی تعمیل میں کراچی ٹریفک پولیس نے انتہائی مستعدی سے شہریوں کے خلاف کارروائیوں کا آغاز بھی کردیا ہے۔ ٹریفک پولیس جگہ جگہ ناکہ لگائے شہریوں کا چالان کر رہی ہے۔ سندھ حکومت کے ان عوام دشمن اقدامات کی وجہ سے کراچی کے شہری شدید غم و غصے اور اضطراب کا شکار ہیں۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ سندھ کے تمام اداروں اور سرکاری محکموں میں میرٹ کو نظر انداز کر کے بھرتیاں کی گئی ہیں، کراچی کے تعلیم یافتہ نوجوان مجبوراً بائیکیا اور فوڈ پانڈچلانے پر مجبور ہیں ان کی روزانہ کی آمدنی اتنی بھی نہیں ہوتی کہ ان کی روزمرہ کی ضروریات پوری ہوں ایسے میں بھاری بھرکم جرمانہ کسی تازیانہ سے کم نہیں۔ ادھر سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے والدین کو پولیو ویکسین سے انکار کرنے پر سخت کارروائی کی دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیو ویکسین سے انکار کرنے والوں کی موبائل سم، قومی شناختی کارڈز اور پاسپورٹس منسوخ کردیے جائیں گے، انہوں نے چیف سیکرٹری کو سم، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کرنے کا پلان تیار کرنے کا حکم بھی دیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ ہے کہ سندھ حکومت کو عوام کے مسائل و مشکلات سے قطعاً کوئی سروکار نہیں، کراچی کے عوام کے استحصال کے لیے سندھ حکومت کے تمام ہی ادارے باہم شیر و شکر ہوگئے ہیں، اگر وہ ایسی ہی چابکدستی اور مستعدی کا مظاہرہ کراچی کے تعمیر و ترقی، انفرا اسٹرکچر کی بحالی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے دکھاتے تو آج کراچی کھنڈرات کا منظر نہ پیش کر رہا ہوتا اور نہ ہی پورے ملک میں ان کی کارکردگی کی بھد اڑائی جارہی ہوتی۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کراچی مسائل کی آماجگاہ بن چکا ہے، امن و امان کی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ ابتر ہوتی جارہی ہے، دن دہاڑے شہریوں کو لوٹا جارہا ہے، یہاں کی سڑکیں حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کا منظر پیش کر رہی ہیں، انفرا اسٹرکچر تباہ وبرباد ہوچکا ہے، نہ ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہے نہ ہی شہریوں کو پینے کا صاف پانی دستیاب ہے، ٹریفک کا پورا نظام درہم برہم ہے، جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر پڑے ہیں جن سے تعفن اٹھا رہا ہے، صفائی ستھرائی کی صورتحال انتہائی دگر گوں ہے۔ اس صورتحال پر جماعت اسلامی کراچی کے امیر منعم ظفر کا یہ کہنا بجا ہے کہ کراچی کی سڑکیں تباہ ہیں، ٹرانسپورٹ کا کوئی نظام نہیں، مگر شہریوں کا چالان ہوگا اور بھاری جرمانے بھی، یہ سندھ حکومت کی کراچی دشمنی ہے، انفرا اسٹرکچر دیہات کے معیار کا بھی نہیں مگر جرمانے بین الاقوامی معیار کے! سندھ حکومت صرف کراچی کو نوچنا جانتی ہے کچھ دینا نہیں۔ شہر کراچی آج اندھیر نگری چوپٹ راج کا منظر پیش کر رہا ہے۔ بااختیار افراد کا شہر کی تعمیر و ترقی سے دلچسپی کا حال یہ ہے کہ اگست کے مہینے میں میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے اعلان کیا تھا کہ بارشوں سے متاثرہ 106 سڑکوں کی پیوند کاری اور استرکاری کا کام یکم ستمبر سے شروع کردیا جائے گا، جو 60 دن میں مکمل کر لیا جائے گا، اس کام کے لیے 75 کروڑ روپے بھی مختص کیے گئے۔ انہوں نے کہا کہ عوام بجٹ، ترقیاتی اسکیموں اور کام کے دائرۂ کار سے متعلق سوالات کے جوابات کے لیے کے ایم سی کی آفیشل ویب سائٹ کا معائنہ کر سکتے ہیں جہاں 106 سڑکوں کی تفصیلات، ٹھیکیداروں اور انجینئرز کے نام، کمپنی کی تفصیلات، حتیٰ کہ ایکس ای این کے واٹس ایپ نمبرز بھی موجود ہیں۔ مگر کراچی کی سڑکوں کی زبوں حالی مرتضیٰ وہاب کے تمام تر دعوؤں کی نفی کر رہی ہیں۔ آج بھی کئی اہم شاہراہیں استرکاری کے نام پر ادھیڑ کر تو رکھ دی گئی ہیں مگر پیوند کاری کا نام ونشان تک نہیں ہے، شہر کے اہم سڑکیں اور شاہراہیں بزبانِ حال میئر کراچی کی کارکردگی کا نوحہ پڑھ رہی ہیں۔ سوال یہ ہے ہر کچھ ماہ بعد استرکاری کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی ہے؟ سڑکوں کی تعمیر یا پیوند کاری میں ناقص میٹریل استعمال ہی کیوں کیا جاتا ہے، آخر اس کے چیک اینڈ بیلنس کا ذمے دار کون ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سندھ حکومت جان بوجھ کر شہریوں کو اذیت سے دوچار کر رہی ہے۔ روڈ سیفٹی یقینی بنانے کے اقدامات یقینا خوش آئند ہیں مگر یہ قوانین صرف جرمانے وصول کرنے اور شہریوں کو تنگ و حراساں کرنے کے لیے نہیں ہونے چاہییں، روڈ سیفٹی سے قبل سڑکیں بنانے پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے، شہر کے تباہ حال انفرا اسٹرکچر کی تعمیر و بحالی، امن وامان کی صورتحال کو بہتر اور شہریوں کو ٹرانسپورٹ، صحت اور تعلیم کی بنیادی سہولتیں فراہم کیے بغیر ترقی یافتہ ممالک کی طرح محض قوانین کا نفاذ عوام کو مشتعل کرنے کی کوشش ہے، عوام پہلے ہی ان گنت مسائل سے دوچار ہیں اور یہ مسائل خود حکومت کے پیدا کردہ ہیں، عوام کے بنیادی مسائل حل کیے بغیر نئی جکڑ بندیاں پیدا کرنا دانشمندی نہیں اشتعال انگیزی ہے حکومت کو ایسی اشتعال انگیزی سے گریز کرنا چاہیے۔

اداریہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: انفرا اسٹرکچر کی خلاف ورزی سندھ حکومت شہریوں کو روڈ سیفٹی انہوں نے کراچی کے سڑکوں کی کا کہنا سندھ کے کر رہی رہا ہے کے لیے

پڑھیں:

کراچی میں سیوریج اور کچرے کا بگڑتا نظام شہریوں کیلئے اذیت کا باعث بن گیا

کراچی:

شہر قائد میں سیوریج اور کچرے کا بگڑتا نظام شہریوں کیلئے اذیت کا باعث بن گیا۔

اولڈ سٹی ایریا میں جوبلی سے گارڈن کی جانب جانے والی سڑک کا ایک ٹریک گندے پانی میں ڈوبا ہوا ہے جبکہ کچرا کنڈی سے بہنے والی گندگی نے صورتحال کو مزید خراب کردیا۔  گندے پانی اور کچرے کے ڈھیروں کے درمیان آوارہ کتوں نے بھی بسیرا کر لیا۔ متاثرہ ٹریک اب ٹریفک کے لیئے ناقابل استعمال ہوگیا ہے۔

سڑک پر جمع گندا پانی نہ صرف تعفن پھیلا رہا ہے بلکہ کنارے پر موجود کچرا کنڈی کی غلاظت سیوریج کے پانی میں مل کر صورتحال مزید ابتر کررہی ہے۔ اس گندے پانی و کچرے کے ڈھیروں میں آوارہ کتوں نے بسیرا کر لیا ہے جس سے شہریوں کو گزرنے میں خطرہ محسوس ہونے لگا ہے۔

یہ سڑک سول اسپتال، جوبلی مارکیٹ اور ایس آئی یو ٹی اسپتال جانے والے شہریوں کے لیے اہم ہے جبکہ سڑک کے ایک جانب سول ڈیفنس کا دفتر تو دوسری جانب گارڈن پولیس ہیڈکوارٹرز واقع ہے، اس کے باوجود متعلقہ اداروں کی غفلت کے باعث یہ علاقہ مسلسل گندگی اور بدبو کی لپیٹ میں ہے۔

طارق نامی علاقہ مکین کے مطابق گزشتہ دو برسوں سے یہ صورتحال بار بار پیدا ہوجاتی ہے، شکایات کے باوجود کوئی عملی اقدام نہیں کیے گئے۔ شہری اب حکمرانوں کے دعوؤں سے نا امید ہوچکے ہیں، اب صورتحال اس حد تک پہنچ چکی ہے کہ ایک ہی ٹریک پر دونوں جانب سے ٹریفک چلانے سے حادثات کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔

علاقہ مکینوں نے بتایا کہ گندے پانی میں مچھروں کی افزائش تیزی سے ہو رہی ہے جس سے ڈینگی اور دیگر بیماریوں کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے۔ شہریوں نے متعلقہ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ علاقے میں صفائی اور نکاسیِ آب کا نظام فوری طور پر بہتر بنایا جائے تاکہ سڑک کو مکمل طور پر قابلِ استعمال بنایا جا سکے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ شہر کے مرکزی علاقوں میں ایسی حالت انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو گندگی اور سیوریج کا یہ مسئلہ مزید سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دودھ کی قیمت بڑھانے کی اجازت نہیں دی جائے گی، سندھ حکومت
  • سندھ حکومت کا بڑا فیصلہ، ٹائر جلانے اور پائرولائسز پلانٹس پر مکمل پابندی
  • شہریوں کی سہولت کیلیے جلد از جلد الیکٹرک ٹیکسی سروس شروع کرنا چاہتے ہیں، شرجیل میمن
  • کراچی میں ابلتے گٹر اور کچرا شہریوں کیلئے اذیت بن گئے
  • شہریوں کی سہولت کیلیے ڈیتھ سرٹیفکیٹ کی فیس معاف کردی، وزیراعلیٰ سندھ
  • کراچی میں سیوریج اور کچرے کا بگڑتا نظام شہریوں کیلئے اذیت کا باعث بن گیا
  • سندھ میں پانی کی کمی دہائیوں سے ہے: سعید غنی
  • سندھ کے عوام صوبائی حکومت کی نااہلی سے تنگ آ چکے: ن لیگ
  • سندھ میں 17 سال سے پی پی حکومت‘ مسائل کے انبار لگے ہیں: عظمیٰ بخاری