یہ نوے کی دہائی کے لگ بھگ وسط کی بات ہے، جب جاوید قریشی صاحب پنجاب کے چیف سیکریٹری تھے۔ میں ان دنوں فین روڈ لاہور پر ایک لاء چیمبر سے وابستہ تھا اور صحافتی تجربات بھلانے کی سعی ِ لا حاصل کر رہا تھا۔ ایک روز چیمبر سے نکلا تو ایک سینئر صحافی، جن کے ان سے دیرینہ مراسم تھے، آتے دکھائی دیے۔ قریب پہنچے تو بتایا کہ کل چیف سیکریٹری کے ساتھ میٹنگ ہے، جس میں انھوں نے آپ کو بھی مدعو کیا ہے۔
میں حیران ہوا ، کیونکہ میری ان سے شناسائی نہ تھی۔ بہرحال، دوسرے روز ہم مقررہ وقت پر جی او آر ان کے دفتر پہنچ گئے۔ یہ جاوید قریشی کے سرکاری کیریئر کے عروج کا دور تھا۔ گرمیوں میں بھی سفاری سوٹ میں تھے، سر کے بال کنپٹیوں کے قریب بالکل سفید، جن کی ایک لٹ سر کے درمیانی حصہ، جو بالوں سے خالی ہو چکا تھا، پر پیچھے کی اور خوب جمی ہوئی، چہرہ کھنچا ہوا اور ہونٹ اس طرح بھینچے ہوئے، جیسے منہ میں دونوں طرف روئی دبا رکھی ہو، یا ڈینٹسٹ ڈاڑھ نکالنے کے بعد منہ میں روئی ٹھونس دیتے ہیں، اجلا گندمی رنگ ، ڈیل ڈول کے لحاظ سے مضبوط اور چوکس۔ ان سے ملتے ہی، مگر جو پہلی چیز اپنی طرف کھنچتی تھی، وہ ان کی بڑی بڑی ، گہری جھیل جیسی آنکھیں تھیں، جو بطور چیف سیکریٹری ان کی انتظامی ہیبت کو غیر محسوس انداز میں، جس کا شاید ان کو بھی پوری طرح ادراک نہیں تھا، کم کر رہی، بلکہ نرمی، محبت اور ملائمت میں بدل رہی ہوتی تھیں۔
میٹنگ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی یادداشتوں کی ترتیب وتدوین کے خواہش مند ہیں، جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شایع ہوں گی ، اوراس کے لیے اس سینئر صحافی نے، جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے، میرا نام تجویز کیا ہے۔
جاوید قریشی پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے گریجوایٹ تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں نے بھی وہیں سے ایل ایل بی کیا ہے، تو مسکرائے اور خوش ہو کے کہا ، پھر تو ہم آپ’ کالج فیلو‘ بھی ہوئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سینئر صحافی اور ان کے درمیان کیا طے پایا تھا، مگر جب میں نے کہا ، ’تو میں اپنے ’سینئر کالج فیلو‘ سے اس کام کو کوئی معاوضہ قبول نہیں کروں گا‘، تو مجھے یاد ہے جاوید قریشی صاحب چند لمحوں تک خاموش رہے، اور ٹک میری طرف دیکھتے رہے اور پھر بڑی شفقت یوں گویا ہوئے ،’ پھر میری بھی ایک شرط ہے۔
اس کام کے دوران آپ میرے مہمان ہوں گا، اورآج ہی جی او آر شفٹ ہو جائیں گے۔ قصہ مختصر، اسی روز میں جی اوآر منتقل ہو گیا۔ مگر، یہ وہ دورہے، جب پنجاب اور وفاق کے درمیان شدید کشمکش چل رہی تھی، اوربحیثیت چیف سیکریٹری، ان کی مشکلات اور مصروفیات غیر معمولی حد تک بڑھ چکی تھی۔ چنانچہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی ان کو یادداشتیں ریکارڈ کرانے کی فرصت میسر آتی تھی۔ ان کے ساتھ ان ملاقاتوں کی خوشگوار یادیں اس وقت میرے ذہن پر ہجوم کر رہی ہیں، مگر وہ اس مختصرکالم میں سما نہیں سکتی ہیں۔
معلوم ہوا کہ قیام پاکستان سے قبل ان کا خاندان ہریانہ (بھارت) میں آباد تھا ۔ البتہ ان کے والد اقبال قریشی، جو ریلوے میں معمولی ملازم تھے، نئی دہلی ریلوے کوارٹرز میں رہتے تھے۔ یہ بڑے سخت دن تھا۔ مگر وہ اپنا پیٹ کاٹ کے بچوں کو پڑھا رہے تھے ۔ جاوید قریشی پانچ بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ گاؤں سے پرائمری کے بعد نئی دہلی میونسپل کارپوریشن اسکول میں آگئے۔ وہ ساتویں جماعت میں تھے، جب 47ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے لاہور آیا۔ یہاں ابتدائی طور پر گوالمنڈی میں ٹھیرے، اس کے بعد پاکپتن اور پھر حسن ابدال، جہاں ان کے والد کی نئی تعیناتی ہوئی تھی۔
والد کا تبادلہ سرگودھا ہوا، تو انھوں نے بچوں کو سرگودھا کے بجائے لاہور سینٹرل ماڈل اسکول میں داخل کرا دیا تاکہ فیملی لاہورمیں ہی رہے۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہو گیا۔مگر، ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے جاوید قریشی اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے،’’ اصغر، تم یقین نہیں کرو گے، لیکن میں روزانہ ایک ہی پینٹ بشرٹ پہن کے کالج جایا کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر ایک روز میری خالہ زاد بہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، تو میں نے کہا، دیکھو، دکھی مت ہو، ایک وقت آئے گا، میرے پاس اتنے سوٹ ہوں گے کہ ہر روز نیا سوٹ پہنا کروں گا، اور پھر وقت آیا بھی کہ دل میں کوئی حسرت نہیں رہی‘‘۔ بی اے کے بعد وہ فلسفہ یا اکنامکس میں ایم اے کرنا چاہتے تھے، مگر والد نے کہا کہ ایم اے نہیں، ایل ایل بی کرنا ہے۔ سر تسلیم خم کیا اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔لاء کے بعد بطور جونیئر، ایک سینئر وکیل کے ساتھ کام بھی کیا۔
اس دوران بینک میں ملازمت مل گئی ۔ پھر سوچا، مقابلے کے امتحان کا معرکہ بہرصورت سر کرنا ہوگا۔ وہ ان دنوں ملتان روڈ لاہور پر رہتے تھے۔ دو مرتبہ مطلوبہ نمبر حاصل نہ ہوئے، مگر ہمت نہیں ہاری۔ تیسری مرتبہ تحریری امتحان میں تیسرے نمبر پر تھے۔ مگر، انٹرویو میں تین سو میں سے صرف سو نمبر آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ فیڈرل بورڈ کے کچھ ارکان پہلے سے ذہن بنا کے بیٹھے تھے کہ اتنے معمولی پس منظرکا حامل امیدوار کیسے اتنے اچھے نمبر لے کر آ گیا ہے۔
بطور اسٹنٹ کمشنر پہلی تعیناتی فیصل آباد ہوئی، جو اس وقت لائل پورکہلاتا تھا۔ 1965ء کی جنگ شروع ہوئی، تو ان کو سرگردھا میں ’او ایس ڈی وار‘ کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ قبل ازیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں، جہاں صدارتی انتخاب بطور کمشنر ان کی نگرانی میں ہوا تھا، جنرل ایوب، محترمہ فاطمہ جناح پر واضح برتری حاصل نہ کر سکے ۔ بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک میں ان کی ہمدردیاں اپوزیشن کے ساتھ تھیں، بلکہ آخری دنوں میں ان کی نظم ’جینا اگر یہی ہے تو مر جانا چاہیے‘ ایک ہفت روزہ میں اداریہ کی جگہ پر شایع ہوئی۔ بھٹو کے ازسرنو انتخابات کرانے کے اعلان پر ان کا تبصرہ تھا، ’ کتنے لعل لہو میں تڑپے، کتنے گھر بے نور ہوئے، تب کہیں جا کر تنے ہوئے سر، جھکنے پر مجبور ہوئے‘۔
بعینہ، وہ جنرل ضیاء، بے نظیر اور نوازشریف کی سیاست اور حکومت سے بھی مطمئن نہ تھے ۔ بطور چیف سیکریٹری ان کا تقرر ہوا، تو بعض لوگوں نے اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، حالانکہ اس وقت پنجاب میں وہی سینئر ترین افسر تھے۔ یہ الگ بات ہے ، جیسے ہی پنجاب میں منظور وٹو کی حکومت ختم ہوئی، ان کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا، جس میں بظاہرکوئی انتظامی مصلحت کار فرما نہ تھی۔ میں اس روز جی او آر آفیسرز میس میں ان کی آمدکا منتظر تھا کہ ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی اطلاع موصول ہوئی۔ میں نے تصدیق کے لیے فون کیا، توکہا، ہاں ایسا ہی ہے۔ چند روز بعد وہ سینئر صحافی، جنھوں نے مجھے ان سے ملوایا تھا، بڑی عجلت میں آئے اور ان کی ریکارڈنگ اور مسودہ ساتھ لے گئے ۔ یہ ’’جاوید نامہ‘‘ اشاعت پذیر نہ ہو سکا، یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے، جو پھر کبھی سہی۔
جاوید قریشی صاحب نے آخری عمر میں کالم نگاری بھی کی، مگر یہ ان کا میدان نہیں تھا۔ موسیقی سے البتہ ان کو جوگہر الگاؤ تھا، وہ تال میل ان کی شاعری میں بھی موجودہے۔ ان کی غزلیں ’’آشیانے کی بات کرتے ہو‘‘ اور ’’شمار لمحوں کا صدیوں میں کر رہا ہوں‘‘ نورجہاں، فریدہ خانم، جگجیت سنگھ اور مہدی حسن نے اس قدر ڈوب کے گائی ہیں کہ فنکاروں پر ان کے تمام احسانات چکا دیے ہیں۔
چند روز پہلے یوٹیوب پر جاوید قریشی صاحب کی قبر اور اس پرکتبہ کی فوٹیج دیکھی، تو جی بہت اداس ہوا، اور ایکا ایکی برسوں پہلے کی ان کی شان و شوکت اور جی او آرکی وہ سہانی شام آنکھوں کے سامنے پھر گئی، ان کے کمرے میں میز پر چائے سجی تھی، وہ بیتے دنوں کو آواز دے رہے تھے، اور اپنی یہ غزل گنگنا رہے تھے،’’اس طرف سے ذرا گزر جاؤ، خشک پتوں میں رنگ بھر جاؤ‘‘۔ ایک لمحہ کے لیے بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ یہ خوب صورت شام بھی وقت کے دائمی بہاو میں بہہ رہی ہے، ’چار پہر دن گزر چکا ہے، چار پہر رات گزر جائے گی، ہر پہر میں آٹھ گھڑیاں ہیں، ہر آٹھویں گھڑی پرگجر بجتا ہے، انسانوں کا جلوس اپنی اپنی قبروں میں اتر رہا ہے، وقت موت ہے‘ بقول خواجہ شیراز ؎
حافظؔ شکایت از غم ہجراں چہ میکنی
در ہجر وصل باشد و در ظلمت است نور
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جاوید قریشی صاحب چیف سیکریٹری معلوم ہوا کہ سینئر صحافی جی او ا ر کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
ذکرِ فیض چلے!
یہ تحریر پہلی بار 20 نومبر 2023 کو شائع کی گئی تھی۔ فیض احمد فیضؔ کی 41ویں برسی کے موقع پر اس تحریر کو دوبارہ شائع کیا جارہا ہے۔
’’14 دسمبر 1958 کی یخ بستہ صبح تھی جب ایک کالی گاڑی مجھے اسکول سے لیکر گھر پہنچی تھی۔ عجیب منظر دیکھا کہ کچھ اجنبی افراد نے آپ کو پکڑ رکھا تھا، جو آپ کو گرفتار کرنے آئے تھے۔ آپ گزشتہ روز ہی لندن سے لوٹے تھے۔ آپ کو پھر کھو دینے کے خیال سے میں شدید ذہنی صدمے میں تھی، میں چلائی آپ کہاں جارہے ہیں ابو، آپ کب واپس آئیں گے؟ لیکن آپ نے مڑ کر میری کُرلاتی نم آنکھوں میں نہیں دیکھا تھا۔ بنا کسی وضاحت کے آپ سے دُوری کا دکھ زندگی بھر میرے ساتھ رہے گا۔‘‘
منزہ ہاشمی کے اپنے والد (فیض احمد فیض) کے ساتھ اس مکالمے میں 40 برس کی مسافت حائل ہے۔ منزہ ہاشمی اپنی کتاب (Conversations with my father) کے بارے میں کہتی ہیں ’فیض صاحب نے مجھے بہت سے خط لکھے، وہ ہم سے دور رہے، کبھی جیل میں، کبھی جلا وطنی میں۔ دنیا کے ہر کونے سے خط یا پوسٹ کارڈ بھجواتے تھے۔ اگرچہ فاصلے جذباتی اور جسمانی تھے، لیکن انہیں ہماری سالگرہ سمیت تمام دوسرے اہم دن یاد رہتے تھے۔ ایک بار لکھا تھا ’تمہارا پچپن میں نے مِس کر دیا کہ میں جیل میں تھا۔‘
منزہ ہاشمی کہتی ہیں کہ اب جبکہ میں ریٹائرڈ لائف گزار رہی ہوں۔ جن دنوں کورونا کے باعث گھر میں محصور تھی، فراغت کے ان لمحات میں خطوط میرے ہاتھ لگ گئے اور انہیں پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ کیوں نہ یہ فیض کے پرستاروں سے شیئر کیے جائیں۔ اگرچہ خطوط فیض نے مجھے لکھے لیکن فیض تو سب کے ہیں۔ کچھ کرنے کی ٹھان لوں تو پھر وہ کرکے دم لیتی ہوں، یہ جبلت مجھے والدین سے ورثے میں ملی ہے۔
چھوٹے بیٹے عدیل ہاشمی نے مشورہ دیا کہ محض خطوط شائع کرنے سے کتاب بوریت کا شکار ہو جائے گی، آپ ان خطوط پر اپنا ردعمل دیں اور دل کھول کر رکھ دیں، پھر ایسا ہی ہوا۔ لیکن کچھ سینسر شپ بھی کرنا پڑی۔ 50 کے قریب خط شائع کیے، کچھ بچا لیے۔
’تمہاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں‘9 مارچ 1951 کو فیض صاحب کو راولپنڈی سازش کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ چار، ساڑھے 4 برس انتظار، آس اور امید میں گزرے، 20 اپریل 1955 کو انہیں رہائی ملی تھی۔ ماضی کی یاد کے زخم بھرنے لگے تو خطوط کے بہانے انہیں یاد کیا پھر لکھنے بیٹھی تو یادوں کی رَو میں لکھتے چلی گئی۔ اپنا لکھا ہوا دوبارہ نہیں پڑھتی، تاہم میری دوستوں نے اس سلسلے میں میری بہت مدد کی۔
پھر یہ پشیمانی بھی لاحق تھی کہ ذاتی مراسلے شیئر کر رہی ہوں لیکن دوستوں نے حوصلہ بڑھایا کہ فیض بطور والد کیسے تھے؟ وہ آپ اور سلیمہ ہاشمی کے علاوہ اور کون بتا سکتا ہے۔ یوں جو باتیں فیض صاحب سے نہیں کرسکی تھی وہ سب کردیں۔
’جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے‘فیض صاحب کے خطوط، ان کی ٹائم لائن، پھر ان کا 40 برس بعد جواب، جن میں گلے شکوے اور پیار بھرا ہے۔ خطوط کا سیاق و سباق بھی بتانا ضروری تھا۔ خطوط میں جن شخصیات کا ذکر آیا، ان کا تعارف بھی کروایا گیا ہے۔ اس کتاب میں جگ بیتی بھی ہے اور آپ بیتی بھی، آپ اسے کتھارسس بھی کہہ سکتے ہیں، پڑھنے والے اس کتاب کو جو ٹائٹل دینا چاہیں دے دیں۔ اس میں اپنے والد سے کہی ان کہی سب باتیں شامل ہیں، اور یہ بھی کہ مجھے ان سے کیا کیا شکایتیں تھیں۔
40 برس پاکستان ٹیلی وژن (پی ٹی وی) پر کام کیا، وہاں فیض صاحب پر پابندی تھی اور میں وہاں تھی۔ وہاں ضیاء دور کے 10 گیارہ برس بہت مشکل میں گزارے۔ ’فیض کی بیٹی ہے‘ اس جملے کو لیکر مجھے بہت تنگ کیا گیا۔ ضیاء دور میرے لیے ہی نہیں، پورے ملک کے لیے خوفناک تھا۔
جب بھی کبھی کوئی شکایت کرتی تو لکھتے تھے کہ دفتری سر درد کا تو کوئی علاج نہیں، جہاں تک ہو سکے ’سوئچ آف‘ کرلیا کریں۔ کہتے تھے’ہمارا نسخہ اپناؤ‘ وہ ہم کا صیغہ استعمال کرتے تھے کہ خود کو دنیا کا فرد کہتے تھے۔ ’سوئچ آف‘ کے حوالے سے فیض صاحب کہا کرتے تھے کہ بیروت میں قیام کے دوران جب رات گئے بمباری کی آوازیں آتیں تو روم میٹ خوفزدہ رہتے جبکہ میں منہ پر تکیہ رکھ کر سوجایا کرتا تھا، سوئچ آف کر لیتا تھا۔ یہ آرٹ سب کو سیکھنا چاہیے۔
کتاب کے پیش لفظ میں زہرا نگاہ لکھتی ہیں کہ ’مجھے پورا یقین ہے کہ تمہارے خط فیض صاحب تک ضرور پہنچ گئے ہوں گے۔ اور ان کے چہرے پر مسکراہٹ بھی آتی ہوگی۔‘ اور پھر انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں کہا ہوگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’ہمارے جانے کے بعد ہماری میزو واقعی بڑی ہوگئی ہے۔ اب تو اسے سوئچ Off کرنا اور on کرنا بھی آگیا ہے۔‘ پھر انہوں نے سگریٹ بجھا دیا ہوگا۔ معلوم نہیں جنت میں سگریٹ کی اجازت ہے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر نہیں ہے تو ہوسکتا ہے انہیں اسپیشل پرمیشن مل گئی ہو۔‘
یہ فیض صاحب کی وہ زندگی ہے جو دنیا نے نہیں دیکھی، میں نے وہ سب کچھ کرنے کی کوشش کی جو فیض کرنا چاہتے تھے، ان کے فٹ پرنٹ فالو کیے ہیں۔ میں کہاں کہاں نہیں گئی؟ جب وہ جیل میں تھے، میں 8 برس کی تھی، میں ساہیوال جیل بھی گئی جہاں وہ اسیر رہے۔ میں نے حضرت امام حسینؑ کے روضے پر جا کر فیض صاحب کا سلام بھی پڑھا۔
فیض کے تمام خطوط اردو میں ہیں جبکہ منزہ ہاشمی نے ان کا جواب اپنی مادری زبان، انگریزی میں دیا ہے۔ کہتی ہیں ’مجھے دادی اور پھوپھو نے پنجابی سکھائی تھی۔ فیض شاید اس لیے اردو لکھتے تھے کہ میں مادری زبان کے ساتھ ساتھ اردو پر بھی توجہ دوں۔ کیوں کہ گھر میں انگریزی زیادہ بولی جاتی تھی۔ والد صاحب کچھ بھی لکھتے تھے تو ماں کو انگریزی میں سمجھاتے تھے۔ اب دوستوں اور پرستاروں کی پرزور فرمائش پر کتاب کا اردو ترجمہ بھی جلد آ جائے گا۔
’ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے‘میرے دو بیٹے ہیں۔ بڑا بیٹا علی مدیح ہاشمی ڈاکٹر ہے، ماہر نفسیات ہے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں پروفیسر ہے۔ امریکا اور پاکستان میں پرائیویٹ پریکٹس بھی کر رہا ہے۔ لاہور کے مینٹل اسپتال کا سی ای او بھی ہے۔ بہت اچھا لکھاری ہے، 2 کتابوں کے تراجم کیے ہیں اور اپنے نانا (فیض احمد فیض) کی سوانح عمری (Love and Revolution) بھی انگریزی میں لکھی جو فیض پر لکھے جانے والی بہترین اور مستند کتاب ہے۔
چھوٹا بیٹا عدیل ہاشمی آرٹ اور میڈیا سے وابستہ ہے، فیض فاؤنڈیشن کا سیکریٹری جنرل بھی ہے۔ اپنے نانا کے پیغام کو آگے بڑھا رہا ہے۔ بہت اچھی شاعری کر رہا ہے۔ اس حوالے سے زہرا نگاہ، یاسمین حمید اور ڈاکٹر عارفہ سیدہ سے مشورے لے رہا ہے۔
’اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا‘زندگی میں پیسے صرف فیض صاحب سے مانگے۔ ایک خط میں انہوں نے لکھا کہ پیسے بھیجنے میں تاخیر کے باعث سود کے ساتھ لوٹا رہا ہوں، ماں کو مت بتانا۔ پیسے ابو سے ہی مانگنے تھے، ماں کے پاس تو ہوتے نہیں تھے۔ ایک خط میں لکھا کہ ’اگر تمہیں ہاسٹل کا کھانا پسند نہیں تو ہوٹل سے منگوا لیا کرو، اپنی ماں کی طرح پیسوں کی فکر مت کیا کرو۔‘ اب بھی جب کبھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے تو اللہ جانے کیسے انتظام ہوجاتا ہے، ان کی رائلٹی کے پیسے آ جاتے ہیں۔
میری والدہ سمیت کبھی کسی نے نہیں کہا کہ انہوں نے اونچی آواز میں بھی بات کی ہو، گالی تو دور کی بات وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہتے تھے وہ بڑا ’پاجی‘ ہے۔ وہ میرے خط محفوظ نہیں رکھ پائے، اس لیے کہ وہ زیادہ سفر میں ہی رہے۔
ایک بار میں نے انہیں لکھا کہ آپ بہت دور ہیں میرا دل کرتا ہے کہ آپ کی خدمت کروں، تو انہوں نے جواب دیا کہ خدمت کی ضرورت تو شاید جب پڑے گی، اگر اور دس 20 برس جینا پڑا اور ہاتھ پاؤں جواب دے گئے، پھر ہم گاؤں چلے جائیں گے، جہاں مراثی حقہ تازہ کرے گا اور مراثن پاؤں دبایا کرے گی۔
’مقام فیضؔ کوئی راہ میں جچا ہی نہیں‘فیض احمد فیض کی ادبی خدمات کو ملکی اور بین الاقوامی سطح پر بھی سراہا گیا۔ 1962 میں سوویت یونین نے انہیں لینن امن انعام دیا تھا۔ 1976 میں ادب کے لوٹس ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔ 1990 میں حکومت پاکستان نے ’نشان امتیاز‘ سے نوازا۔ جبکہ ان کے صد سالہ یوم پیدائش پر 2011 کو ’فیض کا سال‘ قرار دیا گیا تھا۔
فیض کی تصانیف میں نقش فریادی، دست صبا، زنداں نامہ، دست تہ سنگ، سر وادیٔ سینا، شام شہر یاراں اور میرے دل مرے مسافر کے علاوہ نثر میں میزان، صلیبیں مرے دریچے میں اور متاع لوح و قلم شامل ہیں۔ انہوں نے 3 فلموں ’قسم اس وقت کی‘۔ ’جاگو ہوا سویرا‘ اور ’دور ہے سُکھ کا گاؤں‘ کے لیے گیت بھی لکھے تھے۔
فیض 13 فروری 1911 کو پنجاب کے ضلع نارووال کی اک چھوٹی سی بستی کالا قادر (اب فیض نگر) کے علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ 1984 میں انہیں ادب کے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا لیکن انعام کا فیصلہ ہونے سے قبل ہی 20 نومبر 1984 کو ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
پھر کوئی آیا دل زار نہیں کوئی نہیں
راہرو ہوگا کہیں اور چلا جائے گا
ڈھل چکی رات بکھرنے لگا تاروں کا غبار
لڑکھڑانے لگے ایوانوں میں خوابیدہ چراغ
سو گئی راستہ تک تک کے ہر اک راہ گزار
اجنبی خاک نے دھندلا دیئے قدموں کے سراغ
گل کرو شمعیں بڑھا دو مے و مینا و ایاغ
اپنے بے خواب کواڑوں کو مقفل کر لو
اب یہاں کوئی نہیں کوئی نہیں آئے گا
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ایلس فیض دست تہہ سنگ دست صبا زندان نامہ ساہیوال جیل سلیمہ ہاشمی عدیل ہاشمی علی مدیح ہاشمی فیض فیض احمد فیض مشکورعلی منزہ ہاشمی وی نیوز