یہ نوے کی دہائی کے لگ بھگ وسط کی بات ہے، جب جاوید قریشی صاحب پنجاب کے چیف سیکریٹری تھے۔ میں ان دنوں فین روڈ لاہور پر ایک لاء چیمبر سے وابستہ تھا اور صحافتی تجربات بھلانے کی سعی ِ لا حاصل کر رہا تھا۔ ایک روز چیمبر سے نکلا تو ایک سینئر صحافی، جن کے ان سے دیرینہ مراسم تھے، آتے دکھائی دیے۔ قریب پہنچے تو بتایا کہ کل چیف سیکریٹری کے ساتھ میٹنگ ہے، جس میں انھوں نے آپ کو بھی مدعو کیا ہے۔
میں حیران ہوا ، کیونکہ میری ان سے شناسائی نہ تھی۔ بہرحال، دوسرے روز ہم مقررہ وقت پر جی او آر ان کے دفتر پہنچ گئے۔ یہ جاوید قریشی کے سرکاری کیریئر کے عروج کا دور تھا۔ گرمیوں میں بھی سفاری سوٹ میں تھے، سر کے بال کنپٹیوں کے قریب بالکل سفید، جن کی ایک لٹ سر کے درمیانی حصہ، جو بالوں سے خالی ہو چکا تھا، پر پیچھے کی اور خوب جمی ہوئی، چہرہ کھنچا ہوا اور ہونٹ اس طرح بھینچے ہوئے، جیسے منہ میں دونوں طرف روئی دبا رکھی ہو، یا ڈینٹسٹ ڈاڑھ نکالنے کے بعد منہ میں روئی ٹھونس دیتے ہیں، اجلا گندمی رنگ ، ڈیل ڈول کے لحاظ سے مضبوط اور چوکس۔ ان سے ملتے ہی، مگر جو پہلی چیز اپنی طرف کھنچتی تھی، وہ ان کی بڑی بڑی ، گہری جھیل جیسی آنکھیں تھیں، جو بطور چیف سیکریٹری ان کی انتظامی ہیبت کو غیر محسوس انداز میں، جس کا شاید ان کو بھی پوری طرح ادراک نہیں تھا، کم کر رہی، بلکہ نرمی، محبت اور ملائمت میں بدل رہی ہوتی تھیں۔
میٹنگ شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنی یادداشتوں کی ترتیب وتدوین کے خواہش مند ہیں، جو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد شایع ہوں گی ، اوراس کے لیے اس سینئر صحافی نے، جو میرے ساتھ ہی بیٹھے تھے، میرا نام تجویز کیا ہے۔
جاوید قریشی پنجاب یونیورسٹی لاء کالج کے گریجوایٹ تھے۔ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں نے بھی وہیں سے ایل ایل بی کیا ہے، تو مسکرائے اور خوش ہو کے کہا ، پھر تو ہم آپ’ کالج فیلو‘ بھی ہوئے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس سینئر صحافی اور ان کے درمیان کیا طے پایا تھا، مگر جب میں نے کہا ، ’تو میں اپنے ’سینئر کالج فیلو‘ سے اس کام کو کوئی معاوضہ قبول نہیں کروں گا‘، تو مجھے یاد ہے جاوید قریشی صاحب چند لمحوں تک خاموش رہے، اور ٹک میری طرف دیکھتے رہے اور پھر بڑی شفقت یوں گویا ہوئے ،’ پھر میری بھی ایک شرط ہے۔
اس کام کے دوران آپ میرے مہمان ہوں گا، اورآج ہی جی او آر شفٹ ہو جائیں گے۔ قصہ مختصر، اسی روز میں جی اوآر منتقل ہو گیا۔ مگر، یہ وہ دورہے، جب پنجاب اور وفاق کے درمیان شدید کشمکش چل رہی تھی، اوربحیثیت چیف سیکریٹری، ان کی مشکلات اور مصروفیات غیر معمولی حد تک بڑھ چکی تھی۔ چنانچہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی ان کو یادداشتیں ریکارڈ کرانے کی فرصت میسر آتی تھی۔ ان کے ساتھ ان ملاقاتوں کی خوشگوار یادیں اس وقت میرے ذہن پر ہجوم کر رہی ہیں، مگر وہ اس مختصرکالم میں سما نہیں سکتی ہیں۔
معلوم ہوا کہ قیام پاکستان سے قبل ان کا خاندان ہریانہ (بھارت) میں آباد تھا ۔ البتہ ان کے والد اقبال قریشی، جو ریلوے میں معمولی ملازم تھے، نئی دہلی ریلوے کوارٹرز میں رہتے تھے۔ یہ بڑے سخت دن تھا۔ مگر وہ اپنا پیٹ کاٹ کے بچوں کو پڑھا رہے تھے ۔ جاوید قریشی پانچ بھائی بہنوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ گاؤں سے پرائمری کے بعد نئی دہلی میونسپل کارپوریشن اسکول میں آگئے۔ وہ ساتویں جماعت میں تھے، جب 47ء میں ان کا خاندان ہجرت کرکے لاہور آیا۔ یہاں ابتدائی طور پر گوالمنڈی میں ٹھیرے، اس کے بعد پاکپتن اور پھر حسن ابدال، جہاں ان کے والد کی نئی تعیناتی ہوئی تھی۔
والد کا تبادلہ سرگودھا ہوا، تو انھوں نے بچوں کو سرگودھا کے بجائے لاہور سینٹرل ماڈل اسکول میں داخل کرا دیا تاکہ فیملی لاہورمیں ہی رہے۔ میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ ہو گیا۔مگر، ان دنوں کو یاد کرتے ہوئے جاوید قریشی اکثر آبدیدہ ہو جایا کرتے تھے،’’ اصغر، تم یقین نہیں کرو گے، لیکن میں روزانہ ایک ہی پینٹ بشرٹ پہن کے کالج جایا کرتا تھا۔ یہ دیکھ کر ایک روز میری خالہ زاد بہن کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، تو میں نے کہا، دیکھو، دکھی مت ہو، ایک وقت آئے گا، میرے پاس اتنے سوٹ ہوں گے کہ ہر روز نیا سوٹ پہنا کروں گا، اور پھر وقت آیا بھی کہ دل میں کوئی حسرت نہیں رہی‘‘۔ بی اے کے بعد وہ فلسفہ یا اکنامکس میں ایم اے کرنا چاہتے تھے، مگر والد نے کہا کہ ایم اے نہیں، ایل ایل بی کرنا ہے۔ سر تسلیم خم کیا اور پنجاب یونیورسٹی لاء کالج میں داخلہ لے لیا۔لاء کے بعد بطور جونیئر، ایک سینئر وکیل کے ساتھ کام بھی کیا۔
اس دوران بینک میں ملازمت مل گئی ۔ پھر سوچا، مقابلے کے امتحان کا معرکہ بہرصورت سر کرنا ہوگا۔ وہ ان دنوں ملتان روڈ لاہور پر رہتے تھے۔ دو مرتبہ مطلوبہ نمبر حاصل نہ ہوئے، مگر ہمت نہیں ہاری۔ تیسری مرتبہ تحریری امتحان میں تیسرے نمبر پر تھے۔ مگر، انٹرویو میں تین سو میں سے صرف سو نمبر آئے، بعد میں معلوم ہوا کہ فیڈرل بورڈ کے کچھ ارکان پہلے سے ذہن بنا کے بیٹھے تھے کہ اتنے معمولی پس منظرکا حامل امیدوار کیسے اتنے اچھے نمبر لے کر آ گیا ہے۔
بطور اسٹنٹ کمشنر پہلی تعیناتی فیصل آباد ہوئی، جو اس وقت لائل پورکہلاتا تھا۔ 1965ء کی جنگ شروع ہوئی، تو ان کو سرگردھا میں ’او ایس ڈی وار‘ کی ذمے داری سونپ دی گئی۔ قبل ازیں ٹوبہ ٹیک سنگھ میں، جہاں صدارتی انتخاب بطور کمشنر ان کی نگرانی میں ہوا تھا، جنرل ایوب، محترمہ فاطمہ جناح پر واضح برتری حاصل نہ کر سکے ۔ بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک میں ان کی ہمدردیاں اپوزیشن کے ساتھ تھیں، بلکہ آخری دنوں میں ان کی نظم ’جینا اگر یہی ہے تو مر جانا چاہیے‘ ایک ہفت روزہ میں اداریہ کی جگہ پر شایع ہوئی۔ بھٹو کے ازسرنو انتخابات کرانے کے اعلان پر ان کا تبصرہ تھا، ’ کتنے لعل لہو میں تڑپے، کتنے گھر بے نور ہوئے، تب کہیں جا کر تنے ہوئے سر، جھکنے پر مجبور ہوئے‘۔
بعینہ، وہ جنرل ضیاء، بے نظیر اور نوازشریف کی سیاست اور حکومت سے بھی مطمئن نہ تھے ۔ بطور چیف سیکریٹری ان کا تقرر ہوا، تو بعض لوگوں نے اس کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی، حالانکہ اس وقت پنجاب میں وہی سینئر ترین افسر تھے۔ یہ الگ بات ہے ، جیسے ہی پنجاب میں منظور وٹو کی حکومت ختم ہوئی، ان کو بھی عہدے سے ہٹا دیا گیا، جس میں بظاہرکوئی انتظامی مصلحت کار فرما نہ تھی۔ میں اس روز جی او آر آفیسرز میس میں ان کی آمدکا منتظر تھا کہ ان کے عہدے سے ہٹائے جانے کی اطلاع موصول ہوئی۔ میں نے تصدیق کے لیے فون کیا، توکہا، ہاں ایسا ہی ہے۔ چند روز بعد وہ سینئر صحافی، جنھوں نے مجھے ان سے ملوایا تھا، بڑی عجلت میں آئے اور ان کی ریکارڈنگ اور مسودہ ساتھ لے گئے ۔ یہ ’’جاوید نامہ‘‘ اشاعت پذیر نہ ہو سکا، یہ بھی ایک دل چسپ کہانی ہے، جو پھر کبھی سہی۔
جاوید قریشی صاحب نے آخری عمر میں کالم نگاری بھی کی، مگر یہ ان کا میدان نہیں تھا۔ موسیقی سے البتہ ان کو جوگہر الگاؤ تھا، وہ تال میل ان کی شاعری میں بھی موجودہے۔ ان کی غزلیں ’’آشیانے کی بات کرتے ہو‘‘ اور ’’شمار لمحوں کا صدیوں میں کر رہا ہوں‘‘ نورجہاں، فریدہ خانم، جگجیت سنگھ اور مہدی حسن نے اس قدر ڈوب کے گائی ہیں کہ فنکاروں پر ان کے تمام احسانات چکا دیے ہیں۔
چند روز پہلے یوٹیوب پر جاوید قریشی صاحب کی قبر اور اس پرکتبہ کی فوٹیج دیکھی، تو جی بہت اداس ہوا، اور ایکا ایکی برسوں پہلے کی ان کی شان و شوکت اور جی او آرکی وہ سہانی شام آنکھوں کے سامنے پھر گئی، ان کے کمرے میں میز پر چائے سجی تھی، وہ بیتے دنوں کو آواز دے رہے تھے، اور اپنی یہ غزل گنگنا رہے تھے،’’اس طرف سے ذرا گزر جاؤ، خشک پتوں میں رنگ بھر جاؤ‘‘۔ ایک لمحہ کے لیے بھی محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ یہ خوب صورت شام بھی وقت کے دائمی بہاو میں بہہ رہی ہے، ’چار پہر دن گزر چکا ہے، چار پہر رات گزر جائے گی، ہر پہر میں آٹھ گھڑیاں ہیں، ہر آٹھویں گھڑی پرگجر بجتا ہے، انسانوں کا جلوس اپنی اپنی قبروں میں اتر رہا ہے، وقت موت ہے‘ بقول خواجہ شیراز ؎
حافظؔ شکایت از غم ہجراں چہ میکنی
در ہجر وصل باشد و در ظلمت است نور
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جاوید قریشی صاحب چیف سیکریٹری معلوم ہوا کہ سینئر صحافی جی او ا ر کے ساتھ کے بعد
پڑھیں:
صنم جاوید کو مبینہ طور پر پشاور سے اغوا
پاکستان تحریک انصاف کی رہنما صنم جاوید کو مبینہ طور پر پشاور سے اغوا کرلیا گیا، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر صنم جاوید کے اغوا کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈاپور کی ہدایت پر درج کی گئی صنم جاوید کے اغوا کی ایف آئی آر میں موقف اپنایا گیا ہے کہ رات ساڑھے 10 بجے کیفے میں کھانا کھاکر کینٹ کی جانب جارہے تھے، 2 گاڑیوں میں سوار 5 نامعلوم افراد نے زبردستی روکا اور صنم جاوید کو زبردستی ساتھ لے گئے۔ صوبائی حکومت کے مطابق وزیراعلیٰ کی سخت ہدایات پر اغوا کاروں کیخلاف ایف آئی آر درج کر کے فوری کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ایف آئی آر پر مکمل انکوائری کی جائے گی، نامعلوم افراد کی شناخت کرکے ملوث عناصر کو قانون کے مطابق سزا دی جائے گی۔ یاد رہے کہ انسداد دہشت گردی عدالت لاہور نے صنم جاوید کو 9 مئی 2023 کو تھانہ شادمان جلانے کے کیس میں 5 سال قید کی سزا سنائی تھی۔ قبل ازیں، صنم جاوید کو 27 اپریل کو ریاستی اداروں کے سربراہان کیخلاف سوشل میڈیا پر پروپیگنڈا پوسٹس کرنے پر گرفتار کیا گیا تھا، اس سے قبل وہ گزشتہ سال بھی گرفتار ہوچکی ہیں۔ واضح رہے کہ صنم جاوید کی بہن فلک جاوید کو بھی گزشتہ ماہ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) نے وزیر اطلاعات پنجاب عظمیٰ بخاری کی فیک ویڈیوز کے کیس میں گرفتار کیا تھا۔