دہلی دھماکہ کو لیکر مجرموں کو سزا اور کشمیریوں کا تحفظ ضروری ہے، الطاف بخاری
اشاعت کی تاریخ: 22nd, November 2025 GMT
انہوں نے اپنے ایک پوسٹ میں لکھا کہ بھارتی حکومت پر لازم ہے کہ وہ مختلف ریاستوں میں کشمیری طلباء اور تاجروں کو درپیش پریشانیوں اور مسائل کو ختم کرنے کیلئے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ اسلام ٹائمز۔ جموں و کشمیر "اپنی پارٹی" کے صدر اور سابق وزیر سید محمد الطاف بخاری نے دہلی کے لال قلعہ دھماکے میں ملوث افراد کو سزا دئے جانے کی وکالت کرتے ہوئے اس بیچ کشمیریوں کے تحفظ کو یقینی بنائے جانے کا بھی مطالبہ کیا۔ الطاف بخاری کے مطابق 10 نومبر کو ہوئے دھماکے کے تناظر میں ضروری ہے کہ اس واقعے میں ملوث تمام مجرموں اور ان کے معاونین کو گرفتار کر کے سخت سے سخت سزا سی جائے لیکن اسی کے ساتھ ہی یہ بھی اتنا ہی اہم ہے ملک کے کسی بھی حصے میں موجود ہر ایک کشمیری کو کسی بھی قسم کی ہراسانی، دھمکی یا امتیازی سلوک سے محفوظ رکھا جائے۔
انہوں نے سماجی رابطہ گاہ ایکس پر اپنے ایک پوسٹ میں لکھا کہ بھارتی حکومت پر لازم ہے کہ وہ مختلف ریاستوں میں کشمیری طلباء اور تاجروں کو درپیش پریشانیوں اور مسائل کو ختم کرنے کے لئے فوری اور ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ رپورٹنگ کرے اور نفرت انگیزی کو ہوا دینے سے گریز کرے۔ سید الطاف بخاری نے کہا کہ دشمن عناصر کشمیریوں اور ملک کے دیگر حصوں میں آباد شہریوں کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج کو بڑھانا چاہتے ہیں۔
الطاف بخاری کے مطابق ایسی صورتحال پر خاموشی کشمیریوں کے خلاف کسی بھی قسم کی دشمنی، بدگمانی یا ہراسانی ان جیسے دشمن عناصر کے عزائم کو تقویت دیتی ہے، ہمیں ہر حال میں ایسی صورتحال پر قابو پانے کے لئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ انہوں نے امن، اتحاد اور باہمی احترام کو مضبوط کرنے کی تلقین کی تاکہ دشمنوں کا ایجنڈا ناکام ہو۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: الطاف بخاری انہوں نے
پڑھیں:
اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی بتوں کی تعمیر و تخریب کی تاریخ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251121-03-5
برطانیہ کے ممتاز جریدے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق سابق وزیراعظم عمران خان کی تیسری اہلیہ بشریٰ بی بی عمران خان پر گہرے اثرات رکھتی تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 2018ء میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہیں۔ یہاں تک کہ عمران خان کی فیصلہ سازی پر ’’روحانی مشاورت‘‘ کا رنگ غالب ہونے کی شکایت پیدا ہوئی اور عمران خان اپنے اعلان کردہ اصلاحاتی ایجنڈے کو نافذ کرنے میں ناکام رہے۔ دی اکانومسٹ کے مطابق عمران خان کے ڈرائیور اور گھر کے ملازمین نے دعویٰ کیا کہ بشریٰ بی بی کے آنے کے بعد گھر میں عجیب و غریب رسومات شروع ہوگئیں۔ جیسے عمران خان کے سر کے گرد گوشت گھمانا، لال مرچیں جلانا، روزانہ سیاہ بکرے یا مرغیوں کے سر قبرستان میں پھنکوانا۔ ’’دی اکانومسٹ‘‘ کے مطابق عمران خان سرکاری اور سیاسی فیصلوں سے قبل بشریٰ بی بی کی رائے لیتے تھے اور ان کے کہنے پر تصاویر بھیج کر چہرہ شناسی کراتے تھے۔ دی اکنامسٹ کے مطابق اگرچہ آئی ایس آئی نے عمران اور بشریٰ کی شادی نہیں کرائی تھی لیکن اس بات کے اشارے موجود تھے کہ ادارہ اس تعلق سے فائدہ اٹھا رہا تھا۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل فیض نے بشریٰ بی بی کو باریک طریقے سے استعمال کیا۔ رپورٹ کے مطابق آئی ایس آئی اپنے ایک افسر کے ذریعے آئندہ ہونے والے واقعات کی معلومات بشریٰ بی بی کے پیر تک پہنچاتی تھی اور بشریٰ بی بی یہ معلومات عمران خان کے سامنے اپنی روحانی بصیرت سے حاصل ہونے معلومات کے طور پر پیش کرتی تھیں۔ جب یہ پیشگوئیاں درست ثابت ہوتیں تو عمران خان کا اپنی اہلیہ کی روحانی بصیرت پر یقین مزید پختہ ہوجاتا۔ (روزنامہ دنیا 16 نومبر 2025ء)
پی ٹی آئی کے رہنمائوں نے ’’دی اکانومسٹ‘‘ کی اس رپورٹ کو ’’اسپانسرڈ‘‘ قرار دیا ہے اور پاکستان کے خفیہ اداروں کے لیے ’’اسپانسرڈ‘‘ رپورٹ دی اکنامسٹ میں شائع کرانا چنداں دشوار نہیں۔ لیکن اگریہ رپورٹ سو فی صد درست بھی ہے تو بھی اس کے بارے میں یہی کہا جائے گا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ’’سیاسی بتوں‘‘ کی تعمیر اور تخریب سے متعلق تاریخ کو ایک بار پھر دہرا رہی ہے۔
امریکا کی فوج دنیا کی طاقت ور ترین فوج ہے اور اس نے امریکا کو دوسری عالمی جنگ جیت کردی ہے مگر اس کے باوجود امریکا کے جرنیلوں کو کبھی اقتدار پر قبضے کی جرأت ہوئی نہ وہ امریکی سیاست میں کوئی سیاست دان ’’ایجاد‘‘ کرسکے۔ بھارت کے جرنیلوں نے 1971ء میں پاکستان کے دو ٹکڑے کردیے مگر انہوں نے کبھی سیاست دانوں سے اقتدار میں حصہ مانگا نہ کبھی اس بنیاد پر مارشل لا مسلط کیا۔ لیکن پاکستان کے جرنیلوں نے جی ایچ کیو اور خفیہ اداروں کے دفاتر کو سیاست دان تخلیق کرنے کا کارخانہ بنایا ہوا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن علٰیحدگی پسند تھا اور اس نے بھارت کی پشت پناہی سے بنگلا دیش تخلیق کیا لیکن ایسا نہیں ہے۔ شیخ مجیب کو شیخ مجیب جرنیلوں نے بنایا۔ 1990ء کی دہائی میں ملک کے ممتاز قانون دان ایس ایم ظفر نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ شیخ مجیب کے جو چھے نکات ان کی مقبولیت یا انتخابات میں کامیابی اور بالآخر بنگلا دیش کی تخلیق کا سبب بنے وہ چھے نکات پنجاب اور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے الطاف گوہر نے ڈرافٹ کرکے شیخ مجیب کو دیے تھے۔ الطاف گوہر اس وقت روزنامہ نوائے وقت میں کالم تحریر کررہے تھے۔ انہوں نے اپنے کالم میں اس الزام کی تردید کی۔ جس پر ایس ایم ظفر نے ایک بیان میں کہا کہ الطاف گوہر غلط بیانی سے کام نہ لیں میرے پاس میرے دعوے کا ثبوت ہے۔ ایس ایم ظفر کے اس بیان کے بعد الطاف گوہر خاموش ہوگئے۔ یعنی ایس ایم ظفر کا بیان درست تھا۔ 1970ء میں آئی ایس پی آئی آر کے ڈائریکٹر بریگیڈیئر صدیقی تھے۔ انہوں نے جیو کو انٹرویو دیتے ہوئے ایک عجیب بات کہی۔ انہوں نے فرمایا کہ 1970ء کے انتخابات سے پہلے جنرل یحییٰ خفیہ اداروں کی رپورٹس کی روشنی میں یہ جان چکے تھے کہ مشرقی پاکستان میں بھاشانی
دیہی علاقوں میں انتہائی مقبول ہیں اور اگر ان کی جماعت کے امیدوار شیخ مجیب کی عوامی لیگ کے خلاف انتخابات میں حصہ لیں گے تو شیخ مجیب انتخابات جیت نہیں سکیں گے۔ چنانچہ جنرل یحییٰ نے بھاشانی کو خطیر رقم بھی دے دی تھی مگر بریگیڈیئر صدیقی کے بقول بالآخر بھاشانی کی جماعت نے عوامی لیگ کے خلاف انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ انٹرویو کرنے والے نے بریگیڈیئر صدیقی سے اس کی وجہ پوچھی تو بریگیڈیئر صدیقی نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ جنرل یحییٰ پاکستان توڑنے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
بھٹو صاحب جنرل ایوب کی تخلیق تھے۔ وہ جنرل ایوب کے اس حد تک احسان مند تھے کہ انہیں ’’ڈیڈی‘‘ کہا کرتے تھے۔ مگر 1965ء کی جنگ کے بعد جنرل ایوب اور بھٹو کے تعلقات خراب ہوگئے۔ جنرل ایوب نے بھارت کے ساتھ معاہدۂ تاشقند پر دستخط کیے تو بھٹو نے جنرل ایوب کو دھمکایا کہ وہ معاہدۂ تاشقند کے ’’راز‘‘ افشاں کردیں گے۔ ایسا تو نہ ہوسکا مگر بھٹو ملک کے وزیر اعظم بن گئے اور وہ بھارت کی قید سے 90 ہزار پاکستانی فوجیوں کو رہا کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ اور بھٹو کے تعلقات ’’نارمل‘‘ نہ ہوئے اور 1977ء میں سیاسی حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جنرل ضیا الحق نے بھٹو کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا۔ یہاں تک کہ جنرل ضیا الحق نے ایک ایسے قتل کے مقدمے میں بھٹو کو پھانسی پر لٹکادیا جس قتل میں بھٹو ملوث نہیں تھے۔ اس طرح اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہی تخلیق کردہ ایک سیاسی کردار کو سیاسی منظرنامے سے منہا کردیا۔
میاں نواز شریف بھی اسٹیبلشمنٹ کی ’’سیاسی ایجاد‘‘ تھے۔ انہیں جنرل ضیا الحق اور جنرل جیلانی نے پنجاب کا وزیر بنایا، کچھ ہی عرصے میں وہ ’’ترقی‘‘ کرکے پنجاب کے وزیراعلیٰ بن گئے۔ یہ ’’ترقی‘‘ بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرہون منت تھی۔ انتہا یہ کہ میاں نواز شریف نے ’’اسلامی جمہوری اتحاد‘‘ کا حصہ ہونے کے باوجود پنجاب میں ’’جاگ پنجابی جاگ تیری پگ کو لگ گیا داغ‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس کے باوجود اسٹیبلشمنٹ نے انہیں ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ لیکن اس سطح پر پہنچنے کے بعد میاں نواز شریف کی اسٹیبلشمنٹ سے نہیں بن سکی۔ چنانچہ دو تہائی اکثریت ہونے کے باوجود میاں نواز شریف کو برطرف کردیا گیا اور ماضی کے ’’ہیرو‘‘ کو اسٹیبلشمنٹ نے خود ہی ’’زیرو‘‘ بنادیا۔
الطاف حسین کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین بنایا۔ اسٹیبلشمنٹ نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کو ’’مقبول عوام‘‘ بنانے کے لیے کراچی میں مہاجر پٹھان آویزش کو ہوا دی۔ سندھی مہاجر تصادم کو اُبھارا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم نے 30 سال تک کراچی پر راج کیا۔ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے 30 برسوں میں 90 ہزار افراد قتل ہوئے۔ اربوں روپے کا بھتا لیا گیا۔ ایک سال میں 50 سے زیادہ پرتشدد ہڑتالیں کرائی گئیں جن سے معیشت کو کھربوں روپے کا نقصان ہوا۔ مگر جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ نے نہ الطاف حسین کو روکا نہ ایم کیو ایم کا ہاتھ پکڑا لیکن جیسے ہی الطاف حسین نے جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا اسٹیبلشمنٹ کی ’’رگِ حمیت‘‘ پھڑک اُٹھی اور اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان کی سیاست سے الطاف حسین کا پتا صاف کردیا۔ اس طرح اسٹیبلشمنٹ نے اپنے ہی تیار کردہ ایک اور ’’سیاسی بُت‘‘ کو پاش پاش کردیا۔ الطاف حسین اسٹیبلشمنٹ کو اس حد تک عزیز تھے کہ الطاف حسین نے اپنے دورہ بھارت میں صاف کہا کہ اگر وہ 1947ء میں ہوتے تو ہرگز پاکستان کے حق میں ووٹ نہ دیتے اس کے باوجود جنرل پرویز مشرف نے دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کو حکم دیا کہ وہ الطاف حسین کو دعوت پر مدعو کرے اور سفارت خانے نے ایسا ہی کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ پاکستان میں پاکستان کے خلاف بات کرنا بھی اتنا بڑا جرم نہیں جنتا بڑا جرم اسٹیبلشمنٹ اور جرنیلوں کے خلاف بات کرنا ہے۔
عمران خان کا معاملہ تو کل کی بات ہے۔ وہ صرف ایک کرکٹر اور ’’عوامی خدمت گار‘‘ تھے۔ انہوں نے لاہور میں شوکت خانم کینسر اسپتال بنایا تھا۔ وہ ایسے ایک درجن ادارے بنانے کی صلاحیت رکھتے تھے مگر اسٹیبلشمنٹ انہیں سیاست میں لے آئی اور انہیں ملک کا وزیراعظم بنادیا۔ حالانکہ عمران خان کو سیاست کی الف ب بھی معلوم نہ تھی۔ وہ ریاست چلانے کے فن یا State Craft کی اے بی سی بھی نہیں جانتے تھے مگر چونکہ وہ جرنیلوں اور اسٹیبلشمنٹ کے جوتے چاٹ رہے تھے تو سب کچھ درست تھا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ ہی نے بشریٰ بی بی سے ان کی شادی کرائی۔ ایک رات عمران خان اور بشریٰ بی بی میں اتنا جھگڑا ہوا کہ بشریٰ بی بی نے گھر جانے کے لیے رات ایک بجے سامان باندھ لیا۔ اتنے میں ان کے فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جنرل باجوہ تھے۔ انہوں نے بشریٰ بی بی کو سمجھایا کہ وہ جھگڑا ترک کریں اور عمران خان کے ساتھ رہیں۔ معلوم ہوا کہ کمرے کی ہر بات ’’کہیں‘‘ ریکارڈ ہورہی تھی اور اس سے جنرل باجوہ کو آگاہ کیا جارہا تھا۔ کبھی اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان اتنے عزیز تھے مگر جیسے ہی انہوں نے اسٹیبلشمنٹ کے دائرۂ اثر سے نکلنے کی کوشش کی انہیں لات مار کر اقتدار سے نکال دیا گیا اور اب وہ جیل میں سڑ رہے ہیں اور ’’دی اکنامسٹ‘‘ میں ان کے خلاف رپورٹیں شائع ہورہی ہیں۔