غزہ امن معاہدہ: یرغمالیوں کی رہائی کب ہوگی؟ صدر ٹرمپ کا نیا بیان سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حماس اور اسرائیل کے درمیان ہونے والے امن معاہدے کا اعلان سوشل میڈیا پر کرتے ہوئے کہا کہ یہ مشرقِ وسطیٰ میں پائیدار امن کی سمت اٹھایا گیا ایک بڑا قدم ہے۔
صدر ٹرمپ کے مطابق معاہدے کے تحت تمام یرغمالیوں کی جلد رہائی عمل میں لائی جائے گی اور فریقین کے ساتھ منصفانہ سلوک کو یقینی بنایا جائے گا۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس اور اسرائیل کے درمیان طے پانے والے تاریخی امن معاہدے میں مستقل جنگ بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کے تبادلے، غزہ کی تعمیرِ نو اور انسانی و تجارتی امداد کی فراہمی جیسے اہم نکات شامل ہیں۔
اس موقع پر اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے بھی معاہدے کو اپنی ’’سیاسی، اخلاقی اور قومی فتح‘‘ قرار دیا اور امریکی صدر کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔
دوسری جانب حماس نے معاہدے کے ضامن ممالک امریکا، ترکیہ، قطر اور مصر سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کو معاہدے کی تمام شقوں پر سختی سے عمل درآمد کا پابند بنایا جائے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جب تک فریقین ایمانداری سے شرائط پر کاربند نہیں رہتے، حقیقی امن ممکن نہیں۔
امریکی میڈیا کے مطابق معاہدے کے پہلے مرحلے کے تحت ہفتہ یا اتوار سے اسرائیلی یرغمالیوں اور فلسطینی قیدیوں کا تبادلہ شروع کیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے اپنے تازہ بیان میں کہا ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا عمل پیر کے روز شروع ہونے کی توقع ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے معاہدے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ قیدیوں کا تبادلہ باعزت انداز میں ہونا چاہیے اور غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی میں کوئی تاخیر نہیں ہونی چاہیے۔ ان کے مطابق، اس معاہدے پر عمل درآمد ہی خطے میں دیرپا امن کی ضمانت بن سکتا ہے۔
یاد رہے کہ یہ معاہدہ گزشتہ روز مصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں امریکا، ترکیہ، قطر اور مصر کی سرپرستی میں طے پایا، جسے عالمی سطح پر ایک تاریخی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
روس ٹرمپ امن منصوبے سے متفق، یوکرین رکاوٹ ہے: صدر پیوٹن
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کہا ہے کہ روس نے سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے 28 نکاتی امن منصوبے پر اصولی طور پر اتفاق کر لیا تھا، تاہم یوکرین کی مخالفت کے باعث امریکا نے اس پر پیش رفت روک دی ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹ کے مطابق روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے یہ بات کریملن میں سلامتی کونسل کے مستقل اراکین کے اجلاس کے دوران کہی، اجلاس کے آغاز میں چیئر آف فیڈریشن کی سربراہ ویلنٹینا ماتویینکو نے پیوٹن سے ٹرمپ کے منصوبے اور الاسکا میں ہونے والی ملاقات سے متعلق سوال کیا۔
پیوٹن نے جواب میں بتایا کہ امریکی انتظامیہ نے روس سے لچک دکھانے کی درخواست کی تھی، اور روس نے ان تجاویز سے اتفاق کر کے اپنا مثبت مؤقف واضح کر دیا تھا۔
صدر پیوٹن کے مطابق ٹرمپ کا امن منصوبہ الاسکا ملاقات سے پہلے بھی زیرِ غور تھا اور ملاقات میں روس نے دوبارہ اس سے اتفاق کی تصدیق کی، روس نے چین، بھارت، برازیل، جنوبی افریقہ، کوریا اور او ڈی کے بی کے تمام اتحادی ممالک کو مکمل طور پر اعتماد میں لیا، اور تمام شراکت دار ممالک نے اس ممکنہ معاہدے کی حمایت کی۔
پیوٹن نے الزام لگایا کہ امریکی انتظامیہ مذاکرات میں خاموشی اس لیے اختیار کیے ہوئے ہے کہ یوکرین اس منصوبے کو منظور کرنے پر آمادہ نہیں، یوکرین اور اس کے یورپی اتحادی اب بھی روس کو اسٹریٹیجک شکست دینے کے وہم میں مبتلا ہیں اور انہیں میدانِ جنگ کی اصل صورتحال کا ادراک نہیں۔
انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ 4 نومبر کو یوکرین دعویٰ کر رہا تھا کہ کوپیانسک میں صرف 60 روسی فوجی موجود ہیں، جبکہ حقیقت میں اس وقت پورا شہر روسی فوج کے کنٹرول میں آچکا تھا اور صرف چند علاقوں میں کلیئرنس آپریشن جاری تھا۔
صدر پیوٹن نے کہا کہ اگر یوکرین ٹرمپ منصوبے کو قبول نہیں کرے گا تو ایسے واقعات دیگر محاذوں پر بھی دہرائے جائیں گے، تاہم انہوں نے ایک مرتبہ پھر اس بات کا اعادہ کیا کہ روس امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، بشرطیکہ تمام نکات پر عملی گفتگو شروع کی جائے۔
اجلاس کے اختتام پر صدر نے 2026 میں روس کی او ڈی کے بی چیئرمین شپ اور نیو کولونیلزم کے خلاف روسی حکمتِ عملی سے متعلق پالیسی امور پر بھی گفتگو کی۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو امن معاہدہ قبول کرنے کے لیے آئندہ جمعرات تک کا وقت دیا ہے۔
دوسری طرف کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے تصدیق کی ہے کہ روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین میں امن قائم کرنے کے لیے امریکی تجویز کردہ 28 نکاتی منصوبے پر رابطوں کی نوعیت اور سطح ابھی طے نہیں ہوئی ہے۔
پیسکوف نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوتن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان مذاکرات کی ضرورت اور رابطوں کی نوعیت پر ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔