ایران کیخلاف حالیہ جنگ ایرانی جنرل کی نظر میں
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: امریکی افواج کے براہ راست کسی بڑے پیمانے پر جنگ میں داخل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسے ایک بے لگام اور خوفناک علاقائی ہیولے کی ضرورت تھی اور پے، جس کے ذریعے وہ خطے کے تمام ممالک پر اپنی مرضی مسلط کر سکیں اور اس ثروت مند خطے کے ممالک کے معاشی رویے کی نبض اپنے کنٹرول میں رکھیں اور عالمی معاشی حریفوں کے مقابلے میں دنیا کی توانائی کے مرکز پر قبضہ جما سکیں۔ یہی وجہ ے کہ امریکہ صیہونی حکومت کو ہر قسم کی رعایت دینے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی قسم کی رسوائی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ تحریر: سردار محمد رضا نقدی
(ایرانی جنرل)
حالیہ دنوں میں ترک عوام نے صیہونی حکومت کی طرف سے صمود بحری قافلے پر حملے کے ردعمل میں پوری طرح ہوشیاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے صیہونی سفارت خانے اور قونصل خانے کیطرف جانے کے بجائے انقرہ میں امریکی سفارت خانے کے سامنے جمع ہو کر احتجاج کیا۔ ملائشیا اور تیونس کے عوام نے بھی بالکل ایسا ہی کیا اور امریکی سفارت خانے کے سامنے جا کر مظاہرے کیے۔ یہ اقدام شہداء کے خون سے حاصل ہونے والی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے، یہی معاملے کو حل کرنے کی کلید اور غزہ میں جرائم کو ختم کرنے اور صیہونی حکومت کو دوسرے ممالک پر دوبارہ جارحیت کرنے سے روکنے کا راستہ ہے۔
میڈیا میں شائع ہونے والے تجزیوں میں فلسطین کی حمایت کرنے والے تقریباً تمام یورپی اور امریکی سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نیتن یاہو جنگ کا بنیادی عنصر ہیں اور وہ اقتدار میں رہنے اور مقامی اور بین الاقوامی عدالتوں میں مقدمے اور سزا سے بچنے اور ذاتی مفادات کے لئے مغرب کو بھی یرغمال بنائے ہوئے ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے لوگوں کی وسیع اور شدید مخالفت کے باوجود، وہ جنگ کو جاری رکھنے اور اسے لبنان، شام، ایران اور عراق تک پھیلانے پر مصر ہے، اور وہ کھلے عام نیل سے فرات تک ایک عظیم تر اسرائیل کے قیام کے ہدف کا اعلان بھی کرتا ہے۔
بہت سے ایرانی سیاسی تجزیہ نگار بھی میڈیا میں اپنے بیانات اور تحریروں میں اسی رائے کا اظہار کرتے ہیں اور وہ اسرائیلیوں کی طرف سے وسیع پیمانے پر احتجاج اور مظاہروں کے باوجود جنگ جاری رکھنے کی بڑی وجہ نیتن یاہو اور ان کی کابینہ کے دو سخت گیر ارکان کی ذاتی خواہش کو سمجھتے ہیں۔ ان تمام پیارے لوگوں سے احترام اور معذرت کے ساتھ، جن میں سے بہت سی نامور شخصیات اور بابصیرت ماہرین بھی ہیں، جو اس منظر سے واقف ہیں اور جن سے میں محبت کرتا ہوں، انہیں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ تجزیہ جامع اور مکمل نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ جنگ جاری رکھنا نیتن یاہو کا ذاتی محرک ہے، جیسا کہ بیان کیا گیا ہے، لیکن وہ اس جنگ کے اصل عامل اور کمانڈر نہیں ہیں۔
حقیقت میں اس جنگ کو جاری رکھنے اور اس کو کمانڈ کرنے کا اصل عنصر امریکی اشرافیہ ہے۔ ہم نے پہلے بھی ہمیشہ امریکہ کو صیہونی حکومت کے جرائم میں شریک قرار دیا ہے اور یقیناً یہ کوئی غلط تعبیر نہیں ہے، لیکن ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ دو سال پہلے یعنی آپریشن طوفان الاقصیٰ کے اگلے دن سے، امریکہ اس مجرمانہ شراکت میں مرکزی کردار کا حامل ہے۔ اصل مجرم امریکی حکمران اشرافیہ ہے اور صیہونی حکومت اس کی ہمنوا ہے۔ اس دعوے کی کئی وجوہات ہیں۔ یہ درست ہے کہ امریکی حکومت بین الاقوامی صیہونی لابی کے ماتحت ہے اور صہیونی سرمایہ داروں اور بین الاقوامی صیہونی تھنک ٹینکس کے فیصلوں کے خلاف اس کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہے، لیکن بین الاقوامی صیہونیت کا مطلب اسرائیل نہیں ہے۔
اسرائیل اس شجرہ خبیثہ کے اہم ستونوں میں سے ایک ہے، اور نیتن یاہو عالمی صیہونی لابی کا صرف ایک عنصر ہے۔ خطے میں جنگ کے جاری رہنے کی بنیادی وجہ امریکہ پر حکمران پس پردہ صیہونی لابی ہے، جنہیں اس جنگ کی اشد ضرورت ہے۔ کیونکہ وہ اپنی نااہلی اور شدید معاشی مسائل، خاص طور پر چین کے ساتھ مقابلہ کرنے میں ناکامی، امریکہ کے اندر گہری سماجی تقسیم، داخلی سلامتی کا عدم استحکام، عالمی طاقتوں، حتیٰ کہ یورپ اور کینیڈا جیسے اتحادیوں کے ساتھ امریکہ کو درپیش بڑے چیلنجز ہیں۔ اسی طرح عراق میں پے در پے ناکامیاں، افواج کے پست شدہ حوصلے سمیت، امریکہ بڑے پیمانے پر براہ راست جنگ میں داخل ہونے سے قاصر ہے۔
افغانستان، بحیرہ احمر میں یمنی فوج کے ہاتھوں بری شکست اور یوکرین اور تائیوان میں روس اور چین کے ساتھ انتہائی سنگین سیکورٹی چیلنجز کے دوران امریکہ کو کنٹرول کرنی والی اس لابی نے اسرائیلی ریاست کا کارڈ استعمال کرتے ہوئے ایک بڑا جوا کھیلا ہے، تاکہ وہ اس موقع کو ڈوبتی امریکی معیشت کو سہارا دینے اور اجارہ داری کو برقرار رکھنے کے اپنے مقصد کے حصول کے لیے استعمال کر سکے۔ لیکن پیش کردہ ان تجزیوں کی وجوہات اور شواہد کیا ہیں؟ ہاں کیوں نہیں یہ واضح ہے۔ جیسا کہ آپریشن طوفان الاقصیٰ کے اگلے ہی دن خطے میں امریکی افواج (سینٹ کام) کے کمانڈر مقبوضہ فلسطین روانہ ہوئے اور فوری طور پر مشترکہ آپریشن بیس قائم کرنے کی منصوبہ بندی شروع کردی۔
اس کے تین دن بعد وائٹ ہاؤس کو امریکی صدر اور نیتن یاہو کے درمیان چار فون اور ویڈیو کالز کے ذریعے خطے کے بارے میں معلومات حاصل ہونے کے بعد امریکی وزیر خارجہ تل ابیب پہنچے اور اگلے روز وزیر خارجہ کی جانب سے مشترکہ آپریشن بیس کے قیام کی ضرورت کی تصدیق کے بعد امریکی وزیر دفاع بھی ان کے ساتھ شامل ہوئے اور ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں یہ اڈہ قائم کر دیا گیا۔ امریکی وزیر خارجہ جو تل ابیب کے دورے کے بعد بغداد گئے تھے، انہوں نے عراقی وزیراعظم سے ملاقات میں کہا کہ جب میں تل ابیب پہنچا تو سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ کیا کرنا ہے، اگر ہم انہیں اپنے سہارا نہ دیتے تو وہ منہدم ہو جاتے۔
اسی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ انتھونی بلنکن نے 40 دنوں سے بھی کم عرصے میں مقبوضہ فلسطین کے 4 دورے کیے اور اس حکومت کے سیاسی عہدیداروں کے حوصلے بلند کرنے کے لئے اعلیٰ امریکی فوجی حکام کو ساتھ لے کر آئے۔ لہٰذا اس جنگ میں امریکی مداخلت اور کمان سنبھالنے کا تعلق صرف ٹرمپ سے ہی نہیں ہے، بلکہ امریکی حکمراں ادارے کا وہ فیصلہ ہے جو، بائیڈن کے دور میں شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ ایران پر اسرائیل کے حملوں کی حمایت اسی تناظر میں کی گئی تھی، وعدہ صادق 1، 2 اور 3 میں ایران کیخلاف امریکی کردار، یمن پر جارحیت اور قطر پر حالیہ حملہ، یہ سب امریکی کمانڈ میں کیے گئے تھے۔
اس طرح کی کارروائیوں میں اگر صیہونی حکومت کا امریکہ سے الگ اور آزادانہ مقصد بھی ہو، تو وہ عملی طور پر امریکی کمانڈ سے باہر کام نہیں کر سکتی، کیونکہ اسے جنگ میں متعدد ممالک کے آسمانوں کو عبور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے، جن کی فضائی حدود امریکی فضائیہ کے کنٹرول میں ہیں۔ یہ بھی واضح رہے کہ اس حقیقت کے باوجود کہ صیہونی حکومت نے غزہ کی جنگ میں جتنا گولہ بارود استعمال کیا ہے، وہ یوکرین کے روس کے ساتھ جنگ میں استعمال ہونے والے گولہ بارود سے کہیں زیادہ ہے اور یوکرین کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی فراہمی میں مسلسل مشکلات ہیں، جو یورپ، امریکہ اور یوکرین کے درمیان ایک مستقل چیلنج ہے۔
اس کے برعکس امریکا کے لیے، فلسطین کی جنگ میں، کبھی بھی اسلحے اور گولہ بارود کی فراہمی کے لیے درکار مالی وسائل کی کمی کی معمولی سی خبر نہیں آئی اور نہ ہی اس جنگ کے اخراجات پورے کرنے کے لیے امریکا اور یورپ کے درمیان کوئی تنازعہ سننے میں آیا ہے۔ کیونکہ یہ جنگ امریکہ کی جنگ ہے اور اس کا گولہ بارود بغیر کسی حساب کتاب کے امریکی فوج کے وسائل سے امریکہ کے اندر سے ہی ہوائی جہازوں اور مسلسل سمندری راستوں اور خطے میں موجود امریکی گوداموں سے بروقت فراہم کیا جاتا ہے۔ جب صیہونیوں کے درمیان اندرونی تقسیم اور محاذ پر بڑی شکستوں نے نیتن یاہو کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا اور ان کے حوصلے پست ہوئے تو یہ امریکی کانگریس ہی تھی جس نے نیتن یاہو کو کانگریس میں مدعو کیا۔
امریکی کانگریس میں نتن یاہو کی آمد پر تمام امریکی نمائندوں نے کھڑے ہو کر پورے پانچ منٹ تک تالیاں بجائیں۔ ان کی 44 منٹ کی تقریر کے دوران، وہ 40 سے زیادہ بار ان کی تعریف کرنے کے لیے کھڑے ہوئے، ان کے موقف کی تصدیق کی، جو مکمل طور پر اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف تھا، اور مسلسل تالیاں بجا کر ان کے دعوے کو مستحکم کرتے رہے۔ ایران کے ساتھ جنگ میں امریکہ کی طرف سے اس جنگ کو شروع کرنے کی ابتدائی دھمکیوں کے علاوہ یہ امریکہ ہی تھا جس نے مذاکرات کے پرفریب منصوبے کے ساتھ ایران کے خلاف جارحیت کا منصوبہ تیار کیا۔
ایران کیخلاف اس جارحیت میں اپنے ٹینکروں، ڈرونز اور لڑاکا طیاروں کے ساتھ اپنی فعال لیکن غیر اعلانیہ شرکت کے علاوہ، امریکہ نے سرکاری طور پر جنگی آپریشن میں حصہ لیا، اور یہ امریکہ ہی تھا جس نے اسرائیل کو میزائل حملوں کے دباؤ سے نجات دلوانے کے لیے ایک خاص وقت پر جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ یہ حقیقت ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات میں واضح اور صاف طور پر نظر آتی ہے اور اس کے لیے کسی اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹرمپ نے 10 اپریل 2025 کو وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کے سامنے ایران پر حملے کی پیشگی منصوبہ بندی کی ذمہ داری قبول کی۔ اس انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا کہ اگر ایران کے جوہری پروگرام پر نئے معاہدے تک پہنچنے میں کامیاب نہ ہو سکے تو ایران کے خلاف فوجی کارروائی مکمل طور پر ممکن ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر فوجی کارروائی کی ضرورت پڑی تو ہم یہ کارروائی کریں گے، اسرائیل بلاشبہ اس میں سنجیدگی سے شامل ہوگا، وہ حملے کی قیادت کریں گے، لیکن ہماری قیادت کوئی نہیں کرے گا، ہم وہی کریں گے جو ہم چاہتے ہیں۔ امریکہ کے ان بیانات اور اس کے بعد کے عملی اقدامات سے پتہ چلتا ہے کہ ایران کے خلاف اسرائیل کی 12 روزہ جنگ کا عنوان غلط ہے اور ہمیں 12 روزہ جنگ کے عنوان کو ایران کے خلاف امریکہ اور اسرائیل کی جنگ کہنا چاہیے۔ لہٰذا، اس جنگ کا تزویراتی انتظام اور کمان بھی امریکی حکومت کی ذمہ داری ہے، اور اگر ہم امریکہ اور اسرائیل کے درمیان عدم مطابقت، نافرمانی اور بعض اوقات زبانی جھگڑے کا مشاہدہ کرتے ہیں، تو یہ نسل کشی کو جاری رکھنے اور عالمی سطح پر احتجاج کے ماحول کو منظم طریقے سے بے اثر کرنے کے لیے ایک مربوط سیاسی کھیل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے ایک حالیہ بیان میں صیہونی حکومت کو ایران کے خلاف اپنی جارحیت میں ایک آزاد فیصلہ ساز کے طور پر نہیں، بلکہ امریکی حاکمیت کی طرف سے اشتعال دلانے والی طاقت کے طور پر متعارف کرایا۔ مارچ 2025 میں رہبر انقلاب نے صیہونی حکومت کو ایک آزاد قوت نہیں، بلکہ خطے میں صرف ایک پراکسی فورس قرار دیا۔ اس سے پہلے دسمبر 2024 کو رہبر انقلاب نے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ شام میں جو کچھ ہوا وہ امریکی اور صیہونی مشترکہ منصوبے کا نتیجہ ہے۔ امام راحل اسرائیل کے بارے میں اپنے خیالات میں بھی بہت واضح اور صاف گو تھے۔
انہوں نے متعدد بیانات میں بارہا امریکہ کو شیطان بزرگ اور اسرائیل کو امریکہ کی کٹھ پتلی اور خطے میں امریکہ کے منصوبوں کو نافذ کرنے والے آلہ کار کے طور پر متعارف کرایا۔ امام خمینی کے مطابق اسرائیل ہمارے خطے میں امریکہ کا پولیس مین ہے، اور صیہونی تحریک خطے میں امریکہ کے آمرانہ منصوبوں کی تکمیل کرتی ہے۔ شاید یہ شک اور سوال اٹھایا جائے کہ اسرائیل اور نیتن یاہو کے اس جنگ کو جاری رکھنے کے عزائم تو واضح ہیں، لیکن امریکہ کو اس سے کیا فائدہ؟
مسئلہ واضح ہے: امریکہ معاشی طور پر بری طرح ناکام ہو چکا ہے اور تیزی سے اپنے حریفوں سے مقابلہ ہار رہا ہے۔ پیرس معاہدے سے دستبردار ہو کر اس مسئلے پر قابو پانے کی جدوجہد، خام امریکی فوسل ایندھن کے وسائل کی فروخت، ٹیرف کی جنگیں، اور کینیڈا اور گرین لینڈ کو امریکی سرزمین کے ساتھ الحاق کرنے جیسی متنازعہ بحثیں اس عمل کو بہتر کرنے کی معمولی سی امید پیدا کرنے میں بھی ناکام رہی ہیں۔
دوسری طرف، اسلامی انقلاب کی فتح یابی اور تیز رفتار ترقی کی وجہ سے انقلاب کے خطے کے ممالک پر مثبت اثرات کیوجہ سے ایسے حالات پیدا ہو چکے ہیں کہ اب خطے میں ممالک کو دھمکانہ امریکہ کے لیے آسان کام نہیں ہے، اور امریکہ کے پاس خلیجی ممالک کے ساتھ ٹرمپ کے حالیہ استعماری معاہدوں سے زیادہ کی صلاحیت نہیں ہے۔
امریکی سمجھتے ہیں کہ اب امریکہ کے لئے ایک ہی راستہ بچا ہے کہ وہ خطے میں ریاستوں کی خودمختاری کو تباہ کر کے ان کے وسائل کو لوٹ کر روبہ زوال امریکی معیشت کو سہارا دیں۔ امریکیوں کا خیال ہے کہ ایران، عراق، سعودی عرب، وینزویلا، نائجیریا وغیرہ کو توڑ کر تقسیم شدہ کمزور ممالک میں تبدیل کر دیا جائے۔ لیبیا، شام اور سوڈان کی طرح ان ممالک میں حاکمیت نہ وہنے کے برابر ہو اور امریکی تیل کے ٹینکر شورش زدہ علاقوں کے کنوؤں میں سے تیل نکالیں، جس سے امریکی معیشت مضبوط کی جائے۔
لیکن امریکی فوج کے لئے انہی وجوہات کی بنا پر جن کا اس مضمون کے آغاز میں ذکر کیا گیا ہے، اس مقصد کے حصول کے لیے براہ راست کسی بڑے پیمانے پر جنگ میں داخل ہونے کا امکان نہیں ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اسے ایک بے لگام اور خوفناک علاقائی ہیولے کی ضرورت تھی اور پے، جس کے ذریعے وہ خطے کے تمام ممالک پر اپنی مرضی مسلط کر سکیں اور اس ثروت مند خطے کے ممالک کے معاشی رویے کی نبض اپنے کنٹرول میں رکھیں اور عالمی معاشی حریفوں کے مقابلے میں دنیا کی توانائی کے مرکز پر قبضہ جما سکیں۔ یہی وجہ ے کہ امریکہ صیہونی حکومت کو ہر قسم کی رعایت دینے اور اس مقصد کے حصول کے لیے کسی بھی قسم کی رسوائی کو قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: مقصد کے حصول کے لیے صیہونی حکومت کو کو جاری رکھنے ایران کے خلاف بین الاقوامی کرنے کے لیے گولہ بارود اسرائیل کے اور صیہونی میں امریکہ امریکہ کو نیتن یاہو پیمانے پر امریکہ کے کے درمیان کی طرف سے ممالک کے کی ضرورت ممالک پر نہیں ہے کے ساتھ کرنے کی خطے کے اور اس قسم کی جنگ کو کے بعد ہے اور کی جنگ کے لئے جنگ کے
پڑھیں:
ٹرمپ کا امن منصوبہ یا دفاعِ اسرائیل روڈ میپ؟
اسلام ٹائمز: نجانے کیوں ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنا نہیں آرہا کہ امریکہ کے عروج کا سورج غروب ہونیوالا ہے۔ دنیا میں چین سمیت دیگر قوتیں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ امریکہ خود کسی ایک جھٹکے کی مار ہے۔ اس کی جنگ کسی بھی قوت کیساتھ ہوگئی تو وہ امریکہ کی آخری جنگ ہوگی، اس لئے ٹرمپ دنیا میں جنگیں بند کروانے کا راگ آلاپ کر امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔ تحریر: تصور حسین شہزاد
ڈونلڈ ٹرمپ کے 20 نکاتی امن منصوبے کا چرچا اس وقت عروج پر ہے۔ یہاں تک کہ اس منصوبے کو ’’بہترین‘‘ قرار دلوانے کیلئے ہمارے میڈیا میں بھی خبریں چلوائی گئیں کہ اس پر حماس نے بھی مشروط آمادگی ظاہر کر دی ہے، جبکہ ہمارے وزیراعظم نے بھی ’’شاہ کی شاہ سے زیادہ وفاداری‘‘ میں عجلت میں اس منصوبے کے نکات پڑھے بغیر، قبول ہے، قبول ہے، کہہ دیا، جبکہ زمینی حقائق یہ ہیں کہ خود ٹرمپ نے بھی اسے حتمی شکل نہیں دی تھی، ایک مجوزہ منصوبہ تھا، جس کا مسودہ قبل از وقت پبلک کر دیا گیا۔ بعدازاں نیتن یاہو کیساتھ ملاقات کے بعد ٹرمپ نے اس میں ’’بڑی‘‘ تبدیلیاں کیں اور وائٹ ہاوس کی جانب سے وہ تبدیل شدہ منصوبہ ایک بار پھر جاری کیا گیا۔ جس پر کہا گیا کہ پہلے سے جاری کردہ مسودہ درست نہیں تھا، اب اس میں ’’غلطیاں‘‘ ٹھیک کرکے دوبارہ جاری کیا جا رہا ہے۔
اس میں جو ’’غلطیاں‘‘ درست کی گئیں، وہ یہ تھیں کہ وہ پوائنٹس اسرائیلی مفادات کیخلاف جا رہے تھے اور نیتن یاہو کو وہ قبول نہیں تھے، جس پر فوری ’’غور و خوض‘‘ کے بعد ٹرمپ نے وہ پوائنٹس نکال دیئے اور نیا مسودہ تیار کرکے جاری کروا دیا۔ اب حماس سمیت فلسطینی اتھارٹی، قطر اور سعودی عرب سمیت دیگر مسلم حکمرانوں کو بھی وہ مسودہ دیا گیا، کسی نے بھی اتنی عجلت میں اسے ’’منظور‘‘ نہیں کیا، جتنی تیزی ہمارے وزیراعظم نے دکھائی، اب نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کو اس کی وضاحتیں دینی پڑ رہی ہیں، جبکہ عسکری قیادت کے حوالے سے بھی ہدایات ملنے کے بعد پارلیمنٹ کو بتایا گیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے نہیں جا رہے۔
لاہور میں گفتگو میں سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے واضح کر دیا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی منصوبہ زیر غور نہیں۔ البتہ ایک اور حکومتی عہدیدار سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا ہم مشرق وسطیٰ میں امن چاہتے ہیں اور ہماری خواہش ہے کہ فلسطینیوں کی نسل کشی کا یہ سلسلہ بند ہو جائے۔ اس کیلئے ہم کسی بھی امن معاہدہ کی حمایت کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اس ٹرمپی منصوبے کو حماس تسلیم کرتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ منصوبے کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو اس سے کھلے بندوں یہ واضح ہوتا ہے کہ یہ منصوبہ قیام امن کیلئے نہیں، بلکہ دفاعِ اسرائیل کیلئے ہے۔ اس منصوبے کو صرف اور صرف اسرائیل کو طاقتور بنانے اور اسے تحفظ فراہم کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
کیونکہ حالیہ حماس اسرائیل جنگ میں، اسرائیل کو عبرتناک شکست ہوئی ہے۔ اوپر سے ایران اسرائیل جنگ نے 12 دنوں میں اسرائیل کے نام نہاد دفاعی نظام کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ یہ حقیقت ہے کہ غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی ہے، بہت زیادہ تباہی ہوئی ہے، لیکن اس تباہی کے باوجود، شکست اسرائیل کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے۔ پوری دنیا، بالخصوص یورپی ممالک میں اسرائیل کیخلاف ہونیوالے مظاہرے اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اب عالمی رائے عامہ اسرائیل کیخلاف اور فلسطین کے حق میں ہوچکی ہے۔ یہ حماس کی فتح ہے۔ آج 7 اکتوبر کو حماس کی جدوجہد آزادی کو پورے دو سال مکمل ہوگئے ہیں۔ اسرائیل آج کے دن کو کس نظر سے منا رہا ہے، یہ اسرائیل میڈیا اور اسرائیل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ 7 اکتوبر کو شروع ہونیوالی مزاحمت نے اسرائیل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اسرائیلی وزارتِ دفاع نے غزہ جنگ کے دو سال مکمل ہونے پر فوجی جانی نقصان کی تفصیلات بھی جاری کی ہیں۔ جن میں اعتراف کیا ہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے اب تک 1152 اسرائیلی فوجی ہلاک ہوچکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہلاک ہونیوالوں میں اسرائیلی فوج، پولیس، شن بیٹ ایجنسی اور دیگر سکیورٹی اداروں کے اہلکار شامل ہیں۔ وزارت نے اعتراف کیا کہ غزہ جنگ کی بھاری قیمت اسرائیلی ریاست اپنے کندھوں پر اٹھا رہی ہے اور اس تنازع نے اسرائیلی معاشرے کو گہرے زخم دیئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس وقت سامنے آئے ہیں، جب بین الاقوامی سطح پر اسرائیل پر جنگ بندی کے دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے اور غزہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔
ایسے وقت میں نیتن یاہو کی مقبولیت کا گراف بھی بُری طرح نیچے آیا ہے اور اس کی سیاسی ساکھ بھی خطرے سے دوچار ہے۔ ٹرمپ کا یہ اقدام نتین یاہو کو بچا پائے گا اور نہ ہی اسرائیل کو محفوظ رکھ سکے گا۔ کیونکہ عالمی بیانیہ تبدیل ہوچکا ہے، خود امریکہ کی کیفیت بھی ڈوبتی ناؤ کی سی ہے۔ نجانے کیوں ہمارے حکمرانوں کو نوشتہ دیوار پڑھنا نہیں آرہا کہ امریکہ کے عروج کا سورج غروب ہونیوالا ہے۔ دنیا میں چین سمیت دیگر قوتیں اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہی ہیں۔ امریکہ خود کسی ایک جھٹکے کی مار ہے۔ اس کی جنگ کسی بھی قوت کیساتھ ہوگئی تو وہ امریکہ کی آخری جنگ ہوگی، اس لئے ٹرمپ دنیا میں جنگیں بند کروانے کا راگ آلاپ کر امریکہ کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کی ناکام کوشش کر رہا ہے۔
کچھ حلقے کہہ رہے ہیں کہ حماس نے اسرائیل پر 7 اکتوبر کو حملہ کرکے غلطی کی اور غزہ کی تباہی کا سامان کیا۔ راقم اس سوچ سے متفق نہیں، حماس نے مزاحمت کرکے غلطی نہیں کی، بلکہ بروقت اور موثر فیصلہ کیا ہے۔ اس سے عربوں میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے جو ایک لہر چل پڑی تھی، وہ رک گئی ہے۔ مشرق وسطیٰ کا منظرنامہ تبدیل ہوا ہے اور عالمی رائے عامہ اسرائیل کیخلاف ہوگئی ہے۔ یہ حماس کی بہت بڑی فتح ہے۔ جانوں اور املاک کی قربانیاں اپنی جگہ، لیکن بڑے ہدف کیلئے قربانی بھی بڑی دینی پڑتی ہے۔ حماس نے بڑی قربانیاں دے کر بڑا ہدف حاصل کیا ہے۔ اب حماس کی اس کامیابی کو ناکامی میں بدلنے کا ٹرمپی منصوبہ خود ناکام ہو جائے گا اور فلسطین ایک آزاد ریاست کے طور پر ایک بار پھر دنیا کے نقشے پر نمودار ہوگا۔ ان شاء اللہ