Express News:
2025-11-24@16:26:09 GMT

پیغمبر انقلاب ﷺ ; پس ماندہ طبقات کے حقوق کے محافظ

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

اسلام کے سماجی پیغام کی روح ’’رحمت للعٰلمین ﷺ‘‘ ہیں۔ ایسی ہمہ گیر رحمت جو نسل، رنگ، طبقے، جنس، مذہب اور حیثیت کے تمام امتیازات کو پیچھے چھوڑ کر انسان کی آبرو، حق اور شرکت کی ضمانت دیتی ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت کو اگر معاشرتی انصاف اور سماجی برابری کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی دعوت اور عملی اقدامات کے ذریعے ان تمام طبقات کو حقوق، عزت اور سماجی شرکت عطا کی جنھیں اُس وقت کے معاشرے میں کم زور، پس ماندہ یا محروم سمجھا جاتا تھا۔

قرآنِ مجید نے انسانی برابری، بنی آدم کی تکریم، عدل اور سماجی کم زوروں کی دست گیری، احسان کو بنیادی اصول قرار دیا اور رسول اﷲ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں عورت، غلام، بیوہ، یتیم اور مذہبی اقلیت سب کے لیے مساویانہ حقوق قایم کیے۔ ذیل میں اس طبقے کا مرحلہ وار تذکرہ کیا جاتا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت میں متعدد واقعات ایسے ہیں جو عورتوں کی معاشرتی، دینی اور تعلیمی شرکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ واقعات جاہلی عرب معاشرت سے بالکل مختلف ایک نئے سماجی تصور کو پیش کرتے ہیں۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد جب مسلمانوں نے نبی اکرم ﷺ سے اجتماعی معاہدۂ وفاداری (بیعت) کی تو عورتیں بھی اس بیعت میں شامل ہوئیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین کو سماجی و سیاسی معاہدات میں شریک کیا گیا۔ مدینہ میں مسجد نبوی ﷺ کی حیثیت مرکزِ ملت اسلامیہ کی تھی جہاں تمام امورِ سلطنت وجود پاتے تھے۔ چناں چہ مدینہ کی خواتین مسجدِ نبویؐ میں آتی تھیں اور وہاں نبی اکرم ﷺ سے بہ راہِ راست سوالات کرتیں۔

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’بے شک! انصار کی عورتیں بہترین ہیں کہ ان کی حیاء نے انھیں دین سیکھنے سے نہیں روکا۔‘‘ (صحیح بخاری) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو تعلیم اور سوال و جواب کی کھلی اجازت تھی۔ ان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کی بندیوں کو مسجدوں سے مت روکو۔‘‘ (صحیح مسلم) اس فرمان کے نتیجے میں عورتیں باقاعدہ مسجد میں نماز اور اجتماعات میں شریک ہوتی تھیں۔ تفریح طبع انسان کی فطری ضرورت ہونے کی وجہ سے اس میں بھی عورتوں کی شرکت کو روا رکھا گیا۔

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں، مفہوم: ’’حبشی مسجد میں نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے مجھے اپنی اوٹ میں کھڑا کیا اور میں انھیں دیکھتی رہی حتیٰ کہ میں خود تھک گئی۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ عورتوں کو تفریحی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی باعزت شرکت کی اجازت تھی۔

غزوات میں خواتین نے زخمیوں کی مرہم پٹی، پانی پلانے اور دیگر خدمات انجام دیں۔ ام عطیہؓ فرماتی ہیں، مفہوم: ’’میں نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی، میں مجاہدین کے لیے کھانا پکاتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم)

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صحابہؓ ابتدائی طور پر قربانی اور حلق کے عمل میں تردد کا شکار ہوئے، تو نبی اکرم ﷺ نے اپنی زوجہ اُمّ سلمہؓ سے مشورہ کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ خود قربانی کریں اور سر منڈوائیں۔ آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا تو سب صحابہؓ نے فوراً پیروی کی۔ (ابن ہشام) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کا مشورہ سیاسی و اجتماعی فیصلوں میں معتبر سمجھا گیا۔ یہ تمام واقعات خواتین کی عملی شمولیت کی حقیقی مثال ہیں اور اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ نبوی معاشرت میں عورت کو ایک فعال اور باوقار رکن کی حیثیت دی گئی۔

اس کے علاوہ اسلام نے غلاموں اور زر خرید خدمت گزاروں کو جو معاشرے میں انتہائی پس ماندہ طبقہ تھا اور منڈیوں میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ بکتا تھا وہ عزت و وقار دیا جو اُس وقت کی دنیا میں بالکل ناپید تھا۔ سیرتِ رسول ﷺ کے کئی واقعات اس سماجی انقلاب کی وضاحت کرتے ہیں۔

حضرت بلالؓ جو ایک حبشی غلام تھے، اسلام قبول کرنے پر قریش کے سخت مظالم کا شکار ہوئے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے انھیں خرید کر آزاد کیا۔ بعد ازاں رسول اﷲ ﷺ نے انھیں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ کا پہلا موذن مقرر فرمایا۔ (صحیح بخاری) آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے بلال! جنّت میں میں نے تمہارے قدموں کی آہٹ سنی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام نے غلام کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اعلیٰ منصب اور روحانی مرتبہ بھی دیا۔

زید بن حارثہؓ غلام تھے، مگر نبی اکرم ﷺ نے انھیں آزاد کر کے اپنا متبنیٰ بنایا اور ’’زید بن محمدؐ‘‘ کہلانے لگے۔ بعد میں اسلام نے متبنّیٰ کی نسبت ختم کر دی۔ (الاحزاب) لیکن رسول اﷲ ﷺ نے زیدؓ کو اپنی محبت کا اعلیٰ مقام دیا۔ غزوہ مؤتہ میں آپ ﷺ نے زیدؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ اس سے واضح ہے کہ اسلام میں سابق غلام بھی اعلیٰ ترین قیادت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔

خیبر کی فتح کے موقع پر حضرت صفیہؓ قیدی بنیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے انھیں آزاد فرمایا اور پھر نکاح کرلیا، آزادی ہی کو مہر قرار دیا۔ (صحیح بخاری) یہ عمل غلامی کے خاتمے اور عورت کو عزت کے ساتھ معاشرے میں شامل کرنے کی بہترین مثال ہے بلکہ کائنات کی عظیم ترین ہستی کی زوجہ محترمہ اور اہل ایمان کی ماں ہونے کا اعزاز بھی بخشا گیا۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، جو خود کھاؤ وہی انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو وہی انھیں پہناؤ اور ان پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالو۔‘‘ (صحیح مسلم) یہ تعلیم عملی طور پر آپ ﷺ کے اپنے گھریلو برتاؤ میں بھی نظر آتی ہے۔ انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے دس سال رسول اﷲ ﷺ کی خدمت کی، کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔‘‘ (صحیح بخاری) کم زور و پس ماندہ طبقات کے اعزاز و اکرام کی اس سے بڑی مثال پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے۔ آپ ﷺ نے مزدور کے حق کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ’’مزدور کی اْجرت اُس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) یہ اصول غلامی اور مزدوری دونوں کو عزت و وقار دینے کا منشور ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ اسلام نے محنت کش طبقے کو سماج میں بنیادی حق دار مانا۔

یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے غلامی کے قدیم نظام میں رحمت، مساوات اور تدریجی آزادی کا راستہ دیا جس سے کم زور ترین طبقہ بھی معاشرتی عزت اور حقوق کا حامل بن گیا۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت میں بیواؤں کے حقوق اور سماجی عزت کی مثالیں نہایت نمایاں ہیں۔ اسلام نے بیوہ عورت کو صرف ترحم کا مستحق نہیں بلکہ عزت، نکاح، معاشی کفالت اور سماجی شرکت کا اہل قرار دیا۔ امّ سلمہؓ اپنے شوہر ابوسلمہؓ کی وفات کے بعد بیوہ ہوگئیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا تاکہ ان کے یتیم بچوں کی کفالت اور ان کی عزت و عافیت محفوظ ہو۔ امّ سلمہؓ خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’میں تمہارا سب سے بہتر کفیل ہوں۔‘‘ (مسند احمد) یہ نکاح اس بات کی دلیل ہے کہ بیوہ عورت کو تحفظ اور عزت دی گئی اور نکاح کو ایک سماجی فلاحی ذریعہ بنایا گیا۔ زینب بنت خزیمہؓ اپنے پہلے شوہر کی وفات کے بعد بیوہ ہوئیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے نکاح کیا۔ وہ سخاوت اور بیواؤں و مسکینوں کی خدمت کی وجہ سے ’’اُمّ المساکین‘‘ کہلاتی تھیں۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے بیواؤں کو صرف کفالت ہی نہیں بلکہ سماج میں باعزت مقام بھی عطا کرنے کے لیے آپ ﷺ خود اعلیٰ ترین مثال بنے۔

امّ حبیبہؓ کے شوہر عبید اﷲ بن جحش حبشہ میں وفات پاگئے، وہ بیوہ اور پردیس میں اکیلی رہ گئیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے نکاح کیا اور ان کی کفالت فرمائی۔ (صحیح بخاری) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بیوہ عورت کو تنہا نہیں چھوڑا گیا بلکہ اسے بین الاقوامی سطح پر بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے بیواؤں اور مسکینوں کی مدد کو جہاد کے برابر قرار دیا۔ اور فرمایا: ’’جو بیوہ اور مسکین کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘ سیرت کے واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بیوہ عورت اسلام میں نہ محتاجِ ترحم ہے نہ سماجی بوجھ، بلکہ وہ ایک باعزت و حقوق یافتہ فرد اور معاشرہ کا باوقار طبقہ ہے۔

اسلامی معاشرت میں یتیم سب سے زیادہ توجہ اور شفقت کے مستحق قرار پائے۔ رسول اﷲ ﷺ کی اپنی زندگی بھی یتیمی میں گزری۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ ﷺ نے ذاتی طور پر یتیمی کا درد محسوس کیا اور بعد میں اپنے اْمتیوں کو یتیموں کے حقوق پر خاص زور دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے یتیم کا مال بلا حق کھایا، وہ قیامت کے دن اپنے پیٹ میں آگ لے کر آئے گا۔‘‘ (صحیح بخاری) نیز نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہوں گے۔‘‘ اور اپنی دو انگلیاں ملا دیں۔ (صحیح بخاری) ایک اور روایت میں فرمایا: ’’سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) غزوہ خیبر کے بعد جب حضرت صفیہؓ کو آزاد کرکے نکاح میں لیا گیا تو ان کے یتیم بھانجے کو بھی نبی اکرم ﷺ نے اپنی سرپرستی میں شامل کرلیا۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ) چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی یتیم کی کفالت فرمائی۔

مدینہ میں کئی بیوائیں اور یتیم بچے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے انصار کو ان کی کفالت اور سرپرستی کی ترغیب دی۔ ایک موقع پر فرمایا: ’’میں یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور اسے کھانا کھلانے کو پسند کرتا ہوں۔‘‘ (مسند احمد) یہ عمل یتیم کے دل میں اعتماد اور محبت پیدا کرنے کا ذریعہ تھا۔ یوں سیرتِ نبوی ﷺ نے یتیم کو سماج کا سب سے زیادہ محفوظ اور شرف یافتہ فرد بنا دیا۔

اسلام نے غیر مسلموں، خصوصاً یہود و نصاریٰ اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کی سخت تاکید کی۔ رسول اﷲ ﷺ کی سیرت کے کئی واقعات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے ان کے ساتھ عدل، مساوات اور حسنِ سلوک کو بنیادی اصول قرار دیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے ایک تاریخی معاہدہ کیا جسے ’’صحیفہ مدینہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں مسلمانوں اور یہود دونوں کو ایک سیاسی اکائی قرار دیا گیا: ’’یہود بنی عوف مسلمانوں کے ساتھ ایک امت ہیں، یہود کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہے۔‘‘ (ابن ہشام، السیرت النبوی ﷺ) یہ پہلی دستوری مثال ہے جس میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور اجتماعی برابری فراہم کی گئی۔

ایک بار رسول اﷲ ﷺ کے سامنے سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ ﷺ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ انسان کی جان نہیں ہے۔؟‘‘ (صحیح بخاری) یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے انسانی جان کی حرمت مذہبی فرق سے ماورا قرار دی، لہٰذا تمام نسل انسانی اس میں برابر کی شریک ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کسی معاہد غیر مسلم کو قتل کیا وہ جنت کی خوش بُو بھی نہ پائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ اعلان اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ کو اسلامی معاشرت کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔

نجران سے ایک عیسائی وفد مدینہ آیا اور مسجد نبوی ﷺ میں قیام کیا۔ انھیں مسجد نبویؐ میں اپنی عبادت کے لیے اجازت دی گئی۔ (ابن ہشام) اس واقعہ سے بڑھ کر مذہبی اقلیت کے دینی تقدس کی کیا مثال ہوسکتی ہے۔ آج کے مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے علم بردار معاشرے میں بھی اس کی مثال ناممکن و محال ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے بعض اوقات یہودی تاجروں سے قرض بھی لیا اور ان کے ساتھ کاروباری معاملات کیے۔

دنیا سے رخصتی کے وقت آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ (صحیح بخاری) یہ عمل بتاتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ مالی و معاشی تعلقات بھی باوقار اور اعتماد پر مبنی تھے۔ سیرت کے واقعات میں رسول اﷲ ﷺ نے اقلیتوں کو معاشرتی شرکت اور شہری برابری کے حقوق دے کر ایک ایسا نمونہ فراہم کیا جس پر آج بھی کثیرالمذہبی معاشروں میں عمل کیا جاسکتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے معاشرتی عدل کو اس سطح پر قائم کیا کہ قانون کے نفاذ میں کسی قبیلے، خاندان یا سماجی مرتبے کی رعایت نہیں کی گئی۔ کم زور اور طاقت ور سب کے لیے ایک ہی معیار مقرر ہُوا۔

فتح مکہ کے بعد ایک معزز قبیلے (بنو مخزوم) کی عورت نے چوری کی۔ قریش نے سفارش کے لیے اسامہ بن زیدؓ کو بھیجا۔ رسول اﷲ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اﷲ کی حد میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم) یہ اعلان قانون کی نظر میں برابری کا عملی منشور تھا۔

ایک موقع پر ایک دیہاتی (اعرابی) نے آپؐ سے زکوٰۃ کے مال کے بارے میں سخت کلامی کی۔ صحابہؓ نے اسے سزا دینا چاہی لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، حق دار کو بولنے کا حق حاصل ہے۔‘‘ (مسند احمد) یہ واقعہ بتاتا ہے کہ معاشرتی کم زور بھی اپنی آواز بلند کر سکتا ہے اور قانون کے دائرے میں اسے تحفظ حاصل ہے۔

ایک یہودی اور مسلمان کا جھگڑا آیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فیصلہ یہودی کے حق میں کیا کیوں کہ اس کے پاس واضح ثبوت تھا۔ (سنن ابی داؤد) یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ عدالت میں فیصلہ مذہب یا طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہادت اور دلیل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی معاملے میں منصب اُن کو دیا جائے جو اس کے اہل نہ ہوں تو قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ معیار سماجی انصاف اور میرٹ پر مبنی نظام کی بنیاد ہے۔

یوں عدلِ عام اور قانون کی غیر جانب داری نبوی معاشرت کا بنیادی ستون تھا، جس نے کم زور و طاقت ور سب کو ایک ہی ترازو میں تول کر حقیقی مساوات کو قائم کیا۔ یوں سیرتِ نبوی ﷺ نے ہر پس ماندہ اور کم زور طبقے خواتین، غلام، بیوہ، یتیم اور مذہبی اقلیت کو مساوات، عزت، کفالت اور عملی شرکت کے ساتھ معاشرتی ڈھانچے میں جگہ دی اور ایک ایسا ماڈل پیش کیا جو آج بھی انسانی سماج کے لیے راہ نمائی کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے معاشرے کے محروم، پس ماندہ اور کم زور طبقات کو باوقار زندگی گزارنے کے لیے جو راہ نمائی سیرت نبوی ﷺ سے حاصل ہوسکتی ہے دیگر ذرایع اور انسانی حقوق کے منشور اسے پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رسول اﷲ ﷺ نے ان سے رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ا پ ﷺ نے فرمایا نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی ایک یہودی کفالت اور بیوہ عورت اور سماجی ﷺ نے اپنی اس بات کی اسلام نے کی کفالت قرار دیا کرتے ہیں نے انھیں کے لیے ا کہ ا پ ﷺ بیواو ں عورت کو کے ساتھ میں بھی کے حقوق ہے کہ ا نبوی ﷺ ہیں کہ اور ان کے بعد دی اور کو ایک

پڑھیں:

موجودہ ورلڈ آرڈر اور کمزور بین الاقوامی قانونی نظام

اسلام ٹائمز: عالمی قانونی نظام کا زوال ظاہر کرتا ہے کہ مغربی لبرل ثقافت اور نظم و نسق انسانی ضروریات اور عالمی برادری کے انسانی حقوق پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ کام ایسے ممالک کو سنبھالنا چاہیے جن کی تاریخ امن پسندی، انسان دوستی، انصاف کے لیے آواز اٹھانے اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ لہذا ایک نئے عالمی قانونی نظام کے تشکیل کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی ممالک میں سے ایک اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو ایک طرف اپنی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ اور ثقافت کی روشنی میں مظلوموں کا حامی اور ظالموں کا دشمن رہا ہے جبکہ دوسری طرف دین مبین اسلام کی اعلی تعلیمات کا دامن تھامے ہوئے ہے۔ امام علی علیہ السلام کی شخصیت عدالت اور انصاف کی علمبردار ہے جو عیسائی محقق جورج جورداق کے بقول "انسانی عدالت کی آواز" اور "منصفانہ حکمرانی کا رول ماڈل" ہیں۔ تحریر: ڈاکٹر احمد کاظمی
 
تہران میں حال ہی میں "بین الاقوامی قانونی نظام یلغار کا شکار: جارحیت اور دفاع" کے عنوان سے ایک کانفرنس منعقد ہوئی ہے جس میں چار بنیادی موضوعات، عالمی قانونی نظام محاصرے کا شکار: قانون پر مبنی نظام سے ضوابط پر مبنی نظام تک، سفارت کاری سے غداری: امریکہ اور اسرائیل کا ایران پر حملہ، جوہری عدم پھیلاو خطرے کا شکار: غالب رویے اور نظریات اور خطے کے سیکورٹی حالات کا جائزہ: بنیادی عناصر اور فیصلہ کن اسباب، زیر بحث لائے گئے ہیں۔ اس کانفرنس میں ایک بار پھر عالمی قانون کے روایتی نظام کے زوال اور لاگو ہونے کی گارنٹی کے ساتھ نئے قانونی نظام کی برپایی کی ضرورت پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ عالمی قانونی نظام کے پانچ بنیادی عناصر ہیں: بین الاقوامی انسانی حقوق، انسان پسندانہ قوانین، فوجداری قوانین، ماحولیات سے متعلق قوانین اور تجارتی قوانین۔
 
ان عناصر کی روشنی میں دیکھا جائے تو گذشتہ سات عشروں، خاص طور پر گذشتہ چند سالوں کے دوران رونما ہونے والے عالمی حالات نے عالمی قانونی نظام کو انتہائی شدت سے کمزور کر کے زوال کی جانب گامزن کر دیا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق، جو انسانی حقوق کے عالمی منشور (1948ء کی تین دستاویزات اور 1966ء کے دو معاہدے) کے ذریعے تمام بنی نوع انسان کے لیے عالمی امن، مساوات، امتیازی سلوک کی نفی اور بین الاقوامی انصاف کے درپے تھا اس وقت خاص طور پر انسانی حقوق اور دہشت گردی سے متعلق دوغلے معیاروں، بعض عالمی طاقتوں کی جانب سے خارجہ سیاست میں خودمختار ممالک کا رویہ تبدیل کرنے کے لیے ظالمانہ پابندیوں کو سیاسی جبر کا ذریعہ بنائے، شمال اور جنوب میں عالمی دراڑ اور بعض مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ اور برطانیہ میں سسٹمٹک نسلی تعصب کے تسلسل کے باعث کمزور ترین پوزیشن میں پہنچ چکا ہے۔
 
غزہ، میانمار، سوڈان، قفقاز وغیرہ میں نسل کشی، موجود رہنے کے حق اور ثقافتی، مذہبی اور لسانی حقوق کی نفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ 1992ء کے اعلامیے سمیت اقوام متحدہ کی انسانی حقوق سے متعلق اعلی دستاویزات کے لاگو ہونے کی کوئی گارنٹی نہیں پائی جاتی۔ بین الاقوامی انسانی حقوق، عالمی قانونی نظام کا ایک اہم رکن ہے لیکن بین الاقوامی قانون کی پابندی کا عہد کرنے والوں کی جانب سے سب سے زیادہ خلاف ورزی اسی شعبے میں دیکھی جا رہی ہے۔ یہی گذشتہ پانچ برس میں ایسے پانچ بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں جو عالمی قانونی نظام کی دھجیاں اڑا دینے کے لیے کافی ہیں۔ ان میں 7 اکتوبر 2023ء سے غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی، ایران پر تھونپی گئی 12 روزہ جنگ نیز ایران کی جوہری تنصیبات کی حفاظت میں آئی اے ای اے کی ناکامی، یوکرین جنگ، سوڈان میں انجام پانے والا افسوسناک قتل عام اور وینزویلا کے خلاف امریکہ کا جارحانہ رویہ شامل ہیں۔
 
حقیقت تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل چند عالمی طاقتوں کے ہاتھوں یرغمال بنی ہوئی ہے اور اس کا رویہ اقوام متحدہ کے منشور اور مثالی اہداف، بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسان پسندانہ قوانین کے برعکس رہا ہے۔ اسی وجہ سے اب تک سلامتی کونسل نہ تو غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی رکوا سکی ہے اور نہ ہی غاصب صیہونی رژیم کے ہاتھوں غزہ کے فلسطینیوں کے خلاف بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے، اسپتال تباہ کرنے اور خواتین اور بچوں کا قتل عام کرنے سے روک سکی ہے۔ اگرچہ 2002ء میں عالمی فوجداری عدالت کے قیام کے بعد یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ اب عالمی سطح کے مجرم سزا سے بچ نہیں پائیں گے لیکن عالمی طاقتوں نے قانونی تحفظ کا غلط استعمال کرتے ہوئے جنگی مجرموں کو سزا پانے سے محفوظ رکھا۔
 
دوسری طرف عالمی فوجداری عدالت میں جنگی جرائم ثابت ہو جانے کے بعد غاصب صیہونی رژیم کے وزیراعظم اور وزیر جنگ کے وارنٹ گرفتاری جاری ہو جانے کے باوجود امریکہ اور برطانیہ نے قانون لاگو ہونے میں رکاوٹیں ڈالیں اور اب تک یہ مجرم عدالت کے کٹہرے میں نہیں لائے جا سکے ہیں۔ ماحولیات سے متعلق عالمی قانونی نظام بھی بہت سی مشکلات کا شکار ہے۔ 1972ء اور 1992ء میں کئی کانفرنسز کے انعقاد اور اسٹاک ہوم اور ریو بیانیوں کے بعد ماحولیات سے متعلق کچھ قوانین وضع ہوئے جن میں احتیاطی تدابیر اور اطلاع رسانی کا لازمی قرار پانا شامل ہیں، لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامی قوانین لاگو ہونے کی گارنٹی کے لحاظ سے ماحولیات سے متعلق قوانین سب سے زیادہ کمزور اور ناتوان ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کچھ عالمی طاقتیں ماحولیات سے متعلق قوانین قبول کرنے پر ہی تیار نہیں ہیں۔
 
عالمی قانونی نظام کا زوال ظاہر کرتا ہے کہ مغربی لبرل ثقافت اور نظم و نسق انسانی ضروریات اور عالمی برادری کے انسانی حقوق پورا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ یہ کام ایسے ممالک کو سنبھالنا چاہیے جن کی تاریخ امن پسندی، انسان دوستی، انصاف کے لیے آواز اٹھانے اور ظلم کے خلاف جدوجہد سے بھری پڑی ہے۔ لہذا ایک نئے عالمی قانونی نظام کے تشکیل کی ضرورت ہے۔ ایسے ہی ممالک میں سے ایک اسلامی جمہوریہ ایران ہے جو ایک طرف اپنی اڑھائی ہزار سالہ تاریخ اور ثقافت کی روشنی میں مظلوموں کا حامی اور ظالموں کا دشمن رہا ہے جبکہ دوسری طرف دین مبین اسلام کی اعلی تعلیمات کا دامن تھامے ہوئے ہے۔ امام علی علیہ السلام کی شخصیت عدالت اور انصاف کی علمبردار ہے جو عیسائی محقق جورج جورداق کے بقول "انسانی عدالت کی آواز" اور "منصفانہ حکمرانی کا رول ماڈل" ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی روزہ رسول ﷺ پر حاضری
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہ ﷺ
  • بچے ہمارا مستقبل، حقوق کا تحفظ ترجیح: وزیراعلیٰ سندھ
  • خاندان‘ وصیت اور وراثت میں چلنے والی پارٹیاں کبھی انقلاب نہیں لاسکتیں‘حافظ نعیم الرحمن
  • تہران، ایام فاطمیہؑ کی دوسری شبِ عزاداری رہبرِ انقلاب کی حاضری
  • موجودہ ورلڈ آرڈر اور کمزور بین الاقوامی قانونی نظام
  • خاندانوں، وراثت اور وصیت پر چلنے والے کبھی کوئی بڑا انقلاب نہیں لاسکتے: حافظ نعیم الرحمٰن
  • تھران، ایام فاطمیہؑ کی پہلی مجلس میں رہبر انقلاب اسلامی کی حاضری
  • ماتلی ،محکمہ سماجی بہبود کے تحت بچوں کے تحفظ سے متعلق سیمینار