Express News:
2025-10-10@02:33:14 GMT

پیغمبر انقلاب ﷺ ; پس ماندہ طبقات کے حقوق کے محافظ

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

اسلام کے سماجی پیغام کی روح ’’رحمت للعٰلمین ﷺ‘‘ ہیں۔ ایسی ہمہ گیر رحمت جو نسل، رنگ، طبقے، جنس، مذہب اور حیثیت کے تمام امتیازات کو پیچھے چھوڑ کر انسان کی آبرو، حق اور شرکت کی ضمانت دیتی ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت کو اگر معاشرتی انصاف اور سماجی برابری کے زاویے سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی دعوت اور عملی اقدامات کے ذریعے ان تمام طبقات کو حقوق، عزت اور سماجی شرکت عطا کی جنھیں اُس وقت کے معاشرے میں کم زور، پس ماندہ یا محروم سمجھا جاتا تھا۔

قرآنِ مجید نے انسانی برابری، بنی آدم کی تکریم، عدل اور سماجی کم زوروں کی دست گیری، احسان کو بنیادی اصول قرار دیا اور رسول اﷲ ﷺ نے اپنی عملی زندگی میں عورت، غلام، بیوہ، یتیم اور مذہبی اقلیت سب کے لیے مساویانہ حقوق قایم کیے۔ ذیل میں اس طبقے کا مرحلہ وار تذکرہ کیا جاتا ہے۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت میں متعدد واقعات ایسے ہیں جو عورتوں کی معاشرتی، دینی اور تعلیمی شرکت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ واقعات جاہلی عرب معاشرت سے بالکل مختلف ایک نئے سماجی تصور کو پیش کرتے ہیں۔

ہجرتِ مدینہ کے بعد جب مسلمانوں نے نبی اکرم ﷺ سے اجتماعی معاہدۂ وفاداری (بیعت) کی تو عورتیں بھی اس بیعت میں شامل ہوئیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ خواتین کو سماجی و سیاسی معاہدات میں شریک کیا گیا۔ مدینہ میں مسجد نبوی ﷺ کی حیثیت مرکزِ ملت اسلامیہ کی تھی جہاں تمام امورِ سلطنت وجود پاتے تھے۔ چناں چہ مدینہ کی خواتین مسجدِ نبویؐ میں آتی تھیں اور وہاں نبی اکرم ﷺ سے بہ راہِ راست سوالات کرتیں۔

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: ’’بے شک! انصار کی عورتیں بہترین ہیں کہ ان کی حیاء نے انھیں دین سیکھنے سے نہیں روکا۔‘‘ (صحیح بخاری) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو تعلیم اور سوال و جواب کی کھلی اجازت تھی۔ ان کی شرکت کو یقینی بنانے کے لیے نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اﷲ کی بندیوں کو مسجدوں سے مت روکو۔‘‘ (صحیح مسلم) اس فرمان کے نتیجے میں عورتیں باقاعدہ مسجد میں نماز اور اجتماعات میں شریک ہوتی تھیں۔ تفریح طبع انسان کی فطری ضرورت ہونے کی وجہ سے اس میں بھی عورتوں کی شرکت کو روا رکھا گیا۔

سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں، مفہوم: ’’حبشی مسجد میں نیزوں سے کھیل رہے تھے۔ رسول اﷲ ﷺ نے مجھے اپنی اوٹ میں کھڑا کیا اور میں انھیں دیکھتی رہی حتیٰ کہ میں خود تھک گئی۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ عورتوں کو تفریحی اور سماجی سرگرمیوں میں بھی باعزت شرکت کی اجازت تھی۔

غزوات میں خواتین نے زخمیوں کی مرہم پٹی، پانی پلانے اور دیگر خدمات انجام دیں۔ ام عطیہؓ فرماتی ہیں، مفہوم: ’’میں نے رسول اﷲ ﷺ کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی، میں مجاہدین کے لیے کھانا پکاتی، زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی اور بیماروں کی خدمت کرتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم)

صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صحابہؓ ابتدائی طور پر قربانی اور حلق کے عمل میں تردد کا شکار ہوئے، تو نبی اکرم ﷺ نے اپنی زوجہ اُمّ سلمہؓ سے مشورہ کیا۔ انھوں نے عرض کیا کہ آپ ﷺ خود قربانی کریں اور سر منڈوائیں۔ آپ ﷺ نے ایسا ہی کیا تو سب صحابہؓ نے فوراً پیروی کی۔ (ابن ہشام) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ خواتین کا مشورہ سیاسی و اجتماعی فیصلوں میں معتبر سمجھا گیا۔ یہ تمام واقعات خواتین کی عملی شمولیت کی حقیقی مثال ہیں اور اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ نبوی معاشرت میں عورت کو ایک فعال اور باوقار رکن کی حیثیت دی گئی۔

اس کے علاوہ اسلام نے غلاموں اور زر خرید خدمت گزاروں کو جو معاشرے میں انتہائی پس ماندہ طبقہ تھا اور منڈیوں میں ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ بکتا تھا وہ عزت و وقار دیا جو اُس وقت کی دنیا میں بالکل ناپید تھا۔ سیرتِ رسول ﷺ کے کئی واقعات اس سماجی انقلاب کی وضاحت کرتے ہیں۔

حضرت بلالؓ جو ایک حبشی غلام تھے، اسلام قبول کرنے پر قریش کے سخت مظالم کا شکار ہوئے۔ سیدنا ابوبکرؓ نے انھیں خرید کر آزاد کیا۔ بعد ازاں رسول اﷲ ﷺ نے انھیں مدینہ منورہ میں مسجد نبوی ﷺ کا پہلا موذن مقرر فرمایا۔ (صحیح بخاری) آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’اے بلال! جنّت میں میں نے تمہارے قدموں کی آہٹ سنی ہے۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ اسلام نے غلام کو نہ صرف آزاد کیا بلکہ اعلیٰ منصب اور روحانی مرتبہ بھی دیا۔

زید بن حارثہؓ غلام تھے، مگر نبی اکرم ﷺ نے انھیں آزاد کر کے اپنا متبنیٰ بنایا اور ’’زید بن محمدؐ‘‘ کہلانے لگے۔ بعد میں اسلام نے متبنّیٰ کی نسبت ختم کر دی۔ (الاحزاب) لیکن رسول اﷲ ﷺ نے زیدؓ کو اپنی محبت کا اعلیٰ مقام دیا۔ غزوہ مؤتہ میں آپ ﷺ نے زیدؓ کو سپہ سالار مقرر فرمایا۔ اس سے واضح ہے کہ اسلام میں سابق غلام بھی اعلیٰ ترین قیادت کے منصب پر فائز ہوسکتے ہیں۔

خیبر کی فتح کے موقع پر حضرت صفیہؓ قیدی بنیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے انھیں آزاد فرمایا اور پھر نکاح کرلیا، آزادی ہی کو مہر قرار دیا۔ (صحیح بخاری) یہ عمل غلامی کے خاتمے اور عورت کو عزت کے ساتھ معاشرے میں شامل کرنے کی بہترین مثال ہے بلکہ کائنات کی عظیم ترین ہستی کی زوجہ محترمہ اور اہل ایمان کی ماں ہونے کا اعزاز بھی بخشا گیا۔

رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’تمہارے خادم تمہارے بھائی ہیں، جو خود کھاؤ وہی انھیں کھلاؤ، جو خود پہنو وہی انھیں پہناؤ اور ان پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالو۔‘‘ (صحیح مسلم) یہ تعلیم عملی طور پر آپ ﷺ کے اپنے گھریلو برتاؤ میں بھی نظر آتی ہے۔ انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں: ’’میں نے دس سال رسول اﷲ ﷺ کی خدمت کی، کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا۔‘‘ (صحیح بخاری) کم زور و پس ماندہ طبقات کے اعزاز و اکرام کی اس سے بڑی مثال پیش کرنے سے تاریخ قاصر ہے۔ آپ ﷺ نے مزدور کے حق کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ’’مزدور کی اْجرت اُس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کرو۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) یہ اصول غلامی اور مزدوری دونوں کو عزت و وقار دینے کا منشور ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ اسلام نے محنت کش طبقے کو سماج میں بنیادی حق دار مانا۔

یہ واقعات ثابت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے غلامی کے قدیم نظام میں رحمت، مساوات اور تدریجی آزادی کا راستہ دیا جس سے کم زور ترین طبقہ بھی معاشرتی عزت اور حقوق کا حامل بن گیا۔

رسول اﷲ ﷺ کی سیرت میں بیواؤں کے حقوق اور سماجی عزت کی مثالیں نہایت نمایاں ہیں۔ اسلام نے بیوہ عورت کو صرف ترحم کا مستحق نہیں بلکہ عزت، نکاح، معاشی کفالت اور سماجی شرکت کا اہل قرار دیا۔ امّ سلمہؓ اپنے شوہر ابوسلمہؓ کی وفات کے بعد بیوہ ہوگئیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے نکاح فرمایا تاکہ ان کے یتیم بچوں کی کفالت اور ان کی عزت و عافیت محفوظ ہو۔ امّ سلمہؓ خود بیان کرتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا: ’’میں تمہارا سب سے بہتر کفیل ہوں۔‘‘ (مسند احمد) یہ نکاح اس بات کی دلیل ہے کہ بیوہ عورت کو تحفظ اور عزت دی گئی اور نکاح کو ایک سماجی فلاحی ذریعہ بنایا گیا۔ زینب بنت خزیمہؓ اپنے پہلے شوہر کی وفات کے بعد بیوہ ہوئیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے نکاح کیا۔ وہ سخاوت اور بیواؤں و مسکینوں کی خدمت کی وجہ سے ’’اُمّ المساکین‘‘ کہلاتی تھیں۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے بیواؤں کو صرف کفالت ہی نہیں بلکہ سماج میں باعزت مقام بھی عطا کرنے کے لیے آپ ﷺ خود اعلیٰ ترین مثال بنے۔

امّ حبیبہؓ کے شوہر عبید اﷲ بن جحش حبشہ میں وفات پاگئے، وہ بیوہ اور پردیس میں اکیلی رہ گئیں۔ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے نکاح کیا اور ان کی کفالت فرمائی۔ (صحیح بخاری) یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ بیوہ عورت کو تنہا نہیں چھوڑا گیا بلکہ اسے بین الاقوامی سطح پر بھی تحفظ فراہم کیا گیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے بیواؤں اور مسکینوں کی مدد کو جہاد کے برابر قرار دیا۔ اور فرمایا: ’’جو بیوہ اور مسکین کے لیے کوشش کرتا ہے وہ اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔‘‘ سیرت کے واقعات سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بیوہ عورت اسلام میں نہ محتاجِ ترحم ہے نہ سماجی بوجھ، بلکہ وہ ایک باعزت و حقوق یافتہ فرد اور معاشرہ کا باوقار طبقہ ہے۔

اسلامی معاشرت میں یتیم سب سے زیادہ توجہ اور شفقت کے مستحق قرار پائے۔ رسول اﷲ ﷺ کی اپنی زندگی بھی یتیمی میں گزری۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ ﷺ نے ذاتی طور پر یتیمی کا درد محسوس کیا اور بعد میں اپنے اْمتیوں کو یتیموں کے حقوق پر خاص زور دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے یتیم کا مال بلا حق کھایا، وہ قیامت کے دن اپنے پیٹ میں آگ لے کر آئے گا۔‘‘ (صحیح بخاری) نیز نبی اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں ایسے ہوں گے۔‘‘ اور اپنی دو انگلیاں ملا دیں۔ (صحیح بخاری) ایک اور روایت میں فرمایا: ’’سب سے اچھا گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ حسنِ سلوک کیا جائے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ) غزوہ خیبر کے بعد جب حضرت صفیہؓ کو آزاد کرکے نکاح میں لیا گیا تو ان کے یتیم بھانجے کو بھی نبی اکرم ﷺ نے اپنی سرپرستی میں شامل کرلیا۔ (ابن سعد، الطبقات الکبریٰ) چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی یتیم کی کفالت فرمائی۔

مدینہ میں کئی بیوائیں اور یتیم بچے تھے۔ نبی اکرم ﷺ نے انصار کو ان کی کفالت اور سرپرستی کی ترغیب دی۔ ایک موقع پر فرمایا: ’’میں یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرنے اور اسے کھانا کھلانے کو پسند کرتا ہوں۔‘‘ (مسند احمد) یہ عمل یتیم کے دل میں اعتماد اور محبت پیدا کرنے کا ذریعہ تھا۔ یوں سیرتِ نبوی ﷺ نے یتیم کو سماج کا سب سے زیادہ محفوظ اور شرف یافتہ فرد بنا دیا۔

اسلام نے غیر مسلموں، خصوصاً یہود و نصاریٰ اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے حقوق اور تحفظ کی سخت تاکید کی۔ رسول اﷲ ﷺ کی سیرت کے کئی واقعات اس حقیقت کو ظاہر کرتے ہیں کہ آپؐ نے ان کے ساتھ عدل، مساوات اور حسنِ سلوک کو بنیادی اصول قرار دیا۔ مدینہ پہنچنے کے بعد رسول اﷲ ﷺ نے ایک تاریخی معاہدہ کیا جسے ’’صحیفہ مدینہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے میں مسلمانوں اور یہود دونوں کو ایک سیاسی اکائی قرار دیا گیا: ’’یہود بنی عوف مسلمانوں کے ساتھ ایک امت ہیں، یہود کے لیے ان کا دین اور مسلمانوں کے لیے ان کا دین ہے۔‘‘ (ابن ہشام، السیرت النبوی ﷺ) یہ پہلی دستوری مثال ہے جس میں اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور اجتماعی برابری فراہم کی گئی۔

ایک بار رسول اﷲ ﷺ کے سامنے سے ایک یہودی کا جنازہ گزرا تو آپ ﷺ احتراماً کھڑے ہوگئے۔ صحابہؓ نے عرض کیا کہ یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا یہ انسان کی جان نہیں ہے۔؟‘‘ (صحیح بخاری) یہ واقعہ واضح کرتا ہے کہ آپ ﷺ نے انسانی جان کی حرمت مذہبی فرق سے ماورا قرار دی، لہٰذا تمام نسل انسانی اس میں برابر کی شریک ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کسی معاہد غیر مسلم کو قتل کیا وہ جنت کی خوش بُو بھی نہ پائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ اعلان اقلیتوں کی جان و مال کے تحفظ کو اسلامی معاشرت کا لازمی حصہ قرار دیتا ہے۔

نجران سے ایک عیسائی وفد مدینہ آیا اور مسجد نبوی ﷺ میں قیام کیا۔ انھیں مسجد نبویؐ میں اپنی عبادت کے لیے اجازت دی گئی۔ (ابن ہشام) اس واقعہ سے بڑھ کر مذہبی اقلیت کے دینی تقدس کی کیا مثال ہوسکتی ہے۔ آج کے مذہبی آزادی اور انسانی حقوق کے علم بردار معاشرے میں بھی اس کی مثال ناممکن و محال ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے بعض اوقات یہودی تاجروں سے قرض بھی لیا اور ان کے ساتھ کاروباری معاملات کیے۔

دنیا سے رخصتی کے وقت آپ ﷺ کی زرہ ایک یہودی کے پاس رہن تھی۔ (صحیح بخاری) یہ عمل بتاتا ہے کہ اقلیتوں کے ساتھ مالی و معاشی تعلقات بھی باوقار اور اعتماد پر مبنی تھے۔ سیرت کے واقعات میں رسول اﷲ ﷺ نے اقلیتوں کو معاشرتی شرکت اور شہری برابری کے حقوق دے کر ایک ایسا نمونہ فراہم کیا جس پر آج بھی کثیرالمذہبی معاشروں میں عمل کیا جاسکتا ہے۔ رسول اﷲ ﷺ نے معاشرتی عدل کو اس سطح پر قائم کیا کہ قانون کے نفاذ میں کسی قبیلے، خاندان یا سماجی مرتبے کی رعایت نہیں کی گئی۔ کم زور اور طاقت ور سب کے لیے ایک ہی معیار مقرر ہُوا۔

فتح مکہ کے بعد ایک معزز قبیلے (بنو مخزوم) کی عورت نے چوری کی۔ قریش نے سفارش کے لیے اسامہ بن زیدؓ کو بھیجا۔ رسول اﷲ ﷺ کا چہرہ متغیر ہوگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا: ’’کیا تم اﷲ کی حد میں سفارش کرتے ہو؟‘‘ پھر فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا۔‘‘ (صحیح مسلم) یہ اعلان قانون کی نظر میں برابری کا عملی منشور تھا۔

ایک موقع پر ایک دیہاتی (اعرابی) نے آپؐ سے زکوٰۃ کے مال کے بارے میں سخت کلامی کی۔ صحابہؓ نے اسے سزا دینا چاہی لیکن آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے چھوڑ دو، حق دار کو بولنے کا حق حاصل ہے۔‘‘ (مسند احمد) یہ واقعہ بتاتا ہے کہ معاشرتی کم زور بھی اپنی آواز بلند کر سکتا ہے اور قانون کے دائرے میں اسے تحفظ حاصل ہے۔

ایک یہودی اور مسلمان کا جھگڑا آیا۔ رسول اﷲ ﷺ نے فیصلہ یہودی کے حق میں کیا کیوں کہ اس کے پاس واضح ثبوت تھا۔ (سنن ابی داؤد) یہ مثال ثابت کرتی ہے کہ عدالت میں فیصلہ مذہب یا طاقت کی بنیاد پر نہیں بلکہ شہادت اور دلیل کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: ’’جب کسی معاملے میں منصب اُن کو دیا جائے جو اس کے اہل نہ ہوں تو قیامت کا انتظار کرو۔‘‘ (صحیح بخاری) یہ معیار سماجی انصاف اور میرٹ پر مبنی نظام کی بنیاد ہے۔

یوں عدلِ عام اور قانون کی غیر جانب داری نبوی معاشرت کا بنیادی ستون تھا، جس نے کم زور و طاقت ور سب کو ایک ہی ترازو میں تول کر حقیقی مساوات کو قائم کیا۔ یوں سیرتِ نبوی ﷺ نے ہر پس ماندہ اور کم زور طبقے خواتین، غلام، بیوہ، یتیم اور مذہبی اقلیت کو مساوات، عزت، کفالت اور عملی شرکت کے ساتھ معاشرتی ڈھانچے میں جگہ دی اور ایک ایسا ماڈل پیش کیا جو آج بھی انسانی سماج کے لیے راہ نمائی کا سرچشمہ ہے۔ اس لیے معاشرے کے محروم، پس ماندہ اور کم زور طبقات کو باوقار زندگی گزارنے کے لیے جو راہ نمائی سیرت نبوی ﷺ سے حاصل ہوسکتی ہے دیگر ذرایع اور انسانی حقوق کے منشور اسے پیش کرنے سے قاصر ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: رسول اﷲ ﷺ نے ان سے رسول اﷲ ﷺ کی سیرت ا پ ﷺ نے فرمایا نبی اکرم ﷺ نے مسجد نبوی ایک یہودی کفالت اور بیوہ عورت اور سماجی ﷺ نے اپنی اس بات کی اسلام نے کی کفالت قرار دیا کرتے ہیں نے انھیں کے لیے ا کہ ا پ ﷺ بیواو ں عورت کو کے ساتھ میں بھی کے حقوق ہے کہ ا نبوی ﷺ ہیں کہ اور ان کے بعد دی اور کو ایک

پڑھیں:

سماجی رہنما ساجد عثمانی پر جھوٹا مقدمہ ظلم ہے‘رئیس احمد خان ایڈووکیٹ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی( پ ر)سابق چیئرمین زکوۃ کمیٹی کورنگی لانڈھی ،ممبر امن کمیٹی ضلع کورنگی اور الفجر فائونڈیشن کے صدر رئیس احمد خان ایڈووکیٹ نے کورنگی لانڈھی کے معروف سماجی رہنما امید اسکولنگ سسٹم کے ایڈمنسٹر یٹر محمد ساجد عثمانی پر زمان ٹائون تھانے میں جھوٹے مقدمے میں پھنسائے جانے پرسخت احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ ساجد عثمانی ایک تعلیم یافتہ شریف النفس شخصیت ہیں اور انھوں نے علاقہ سو کواٹر میں عوام کی عملی خدمت کی ہے ۔ ان کے سیاسی مخالفین نے انھیں جھوٹے مقدمے میں پھنسایا ہے جس کی ہم شدید مذمت اور احتجاج کرتے ہیں۔

خبر ایجنسی گلزار

متعلقہ مضامین

  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • علی امین کو بانی پی ٹی آئی نے دہشتگردوں کی صحیح سہولتکاری نہ کرنے پر ہٹایا، عطا تارڑ
  • مقدس مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے ہمیشہ محافظ رہیں گے: وزیراعظم
  • وہ اسکول جو ملالہ جیسی سماجی کارکنوں کے منتظر ہیں
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  •  پہلے بھی کشمیری بہن بھائیوں کے حقوق کے محافظ تھے اور آئندہ بھی انکے حقوق کا تحفظ کرتے رہیں گے:وزیرِ اعظم
  • پاکستان میں ڈیجیٹل انقلاب: سعودی کمپنی نے بڑا اعلان کردیا
  • سماجی رہنما ساجد عثمانی پر جھوٹا مقدمہ ظلم ہے‘رئیس احمد خان ایڈووکیٹ
  • جب محافظ ہی مجرم بن جائیں: پولیس اہلکاروں کے جرائم اور عوام کی بے بسی، حل کیا ہے؟