Jasarat News:
2025-10-10@02:36:31 GMT

خاندانی انتشار: اسباب و علاج

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251010-06-1
خاندان کے انتشار کے واقعات پر غور کیا جائے اور ان کا تجزیہ کیا جائے تو اس کے درج ذیل اسباب معلوم ہوتے ہیں:
مادیت کا غلبہ
خاندان کے بکھراؤ کا بنیادی سبب موجودہ دور میں مادیت کا غلبہ ہے۔ ہر شخص زیادہ سے زیادہ مال و دولت جمع کرلینے، اونچا اسٹیٹس (Status)مینٹین کرنے اور اپنے لیے آسائشیں فراہم کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔ہر طرف سے ھل من مزید کی صدا بلند ہو رہی ہے۔ مہنگائی نے اوسط آمدنی والوں کی کمر توڑ دی ہے۔ مادّیت پرستی کے رجحان نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ رشتوں کو مالی حیثیت سے تولا جا رہا ہے۔ کسب معاش کی مصروفیت نے رشتے داروں کی خبرگیری اور کے ساتھ حسن سلوک کا موقع ہی نہیں چھوڑا ہے۔

انا اور خود غرضی
خود غرضی خاندان کے بکھراؤ کا دوسرا بنیادی سبب ہے۔ ہر شخص اپنی ذات میں مگن اور اپنی انا کا قیدی ہے۔ اسے صرف اپنی بھلائی کی فکر ہے۔ دوسروں کو فائدہ ہو یا نقصان، اس کی مطلق پروا نہیں۔ قریب ترین رشتے داروں سے بھی بے توجہی برتی جاتی ہے۔

برداشت کی صلاحیت کا فقدان
خاندان میں بڑوں کے احترام اور چھوٹوں کی خبرگیری کی روایت قائم تھی۔ چھوٹے بڑوں سے ادب سیکھتے تھے۔ بڑے ان کی نگرانی کرتے تھے۔ اگر ان سے کوئی ناشائستہ حرکت سرزد ہوجاتی تو انھیں ٹوکتے، ان کی سرزنش کرتے اور بسا اوقات انھیں سزا دیتے۔ چھوٹے ان چیزوں پر چیں نہ بولتے، بلکہ ان کی ڈانٹ ڈپٹ کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے۔ یہی معاملہ زوجین کے درمیان ہوتا تھا۔ بیوی شوہر کو اپنا سرپرست اور نگراں مانتی اور اس کی اطاعت میں خوشی محسوس کرتی تھی۔ بہو اپنی ساس اور سسر کا حد درجہ احترام کرتی تھی اور ان کی روک ٹوک کا بُرا نہیں مانتی تھی۔ لیکن اب نئی نسل میں برداشت کرنے اور سننے کی قوّت بہت کم بلکہ ختم ہوگئی ہے۔ کوئی روک ٹوک کرے تو اس کی بات نہ ماننے اور پلٹ کر جواب دینے میں کوئی باک نہیں ہوتا۔

دینی شعور کی کمی
دینی شعور کی کمی بھی خاندانی انتشار کا ایک سبب ہے۔ اسلام میں اہل خاندان کے حقوق اور فرائض تفصیل سے بیان کر دیے گئے ہیں۔ ہر ایک کی ذمے داریوں کی تعیین کردی گئی ہے۔ والدین، رشتے داروں اور دوسرے اہلِ تعلّق کے ساتھ حسن سلوک کو باعث اجر عمل قرار دیا گیا ہے۔ صلہ ر حمی پر جنّت کی خوش خبری اور قطع رحمی پر جہنم کی وعید سنائی گئی ہے۔ ایثار، تعاون، ہم دردی، محبت، شفقت، مہمان نوازی وغیرہ کو اعلیٰ اخلاقی اوصاف کی حیثیت سے بیان کیا گیا ہے۔ لیکن دینی شعور کی کمی نے لوگوں کو ان بنیادی قدروں سے کوسوں دور کردیا ہے۔ اب اہل خاندان سے معاملہ کرنے میں ان چیزوں کا خیال بھی نہیں آتا۔

مشترکہ وقت نہ گزارنا
اہل خاندان کو جوڑے رکھنے والی چیز ان کا میل جول، ایک ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، بات چیت کرنا اور وقت گزارنا ہوتا تھا۔ لیکن اب کسی کو ساتھ بیٹھ کر کچھ وقت گزارنے کی فرصت نہیں ہے۔ اگر گھر میں صرف میاں بیوی ہیں تو بھی انھیں مشترکہ وقت گزارنے کا موقع نہیں، اس لیے کہ دونوں ملازمت پیشہ ہیں۔ دونوں کے گھر سے باہر جانے اور واپس آنے کے اوقات الگ الگ ہیں۔ بیوی جیسے تیسے کھانا پکا کر چلی جاتی ہے، لیکن دسترخوان پر انھیں ساتھ بیٹھنا نصیب نہیں ہوتا۔ دونوں کام سے واپس آتے ہیں تو اتنے تھکے ہوتے ہیں کہ چپ چاپ بستر استراحت پر پہنچ جانے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
سوشل میڈیا کا غلبہ
سوشل میڈیا نے آج کل تمام انسانوں کو تنہائی پسند بنا دیا ہے۔ وہ موبائل کے ذریعے سارے جہاں سے جڑے رہتے ہیں، لیکن اپنے جہاں کی انھیں کوئی خبر نہیں ہوتی۔ اگر گھر میں پانچ افراد ایک جگہ بیٹھے ہیں تو بھی انھیں ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی، ہر ایک اپنی دنیا میں مست رہتا ہے۔ بچے موبائل چلا رہے ہیں، ماں نے کوئی کام کرنے کو کہہ دیا تو انھیں اتنا برا لگتا ہے کہ کوئی حد نہیں۔ وہ کام کرنے سے صاف منع کردیتے ہیں۔

اولاد کی تربیت کی کمی
والدین کی ذمے داری ہے کہ وہ ابتدا ہی سے اپنے بچوں کی تربیت کی فکر کریں، انھیں اچھے اخلاق سکھائیں اور انھیں ذمے دار اور مہذّب شہری بنانے کی کوشش کریں۔ لیکن وقت کی کمی نے والدین کے لیے اس کا موقع ہی نہیں چھوڑا ہے۔ جب بچے بہت چھوٹے ہوں تو انّاؤں اور خادماؤں کے حوالے ہوتے ہیں اور جب کچھ بڑے ہوتے ہیں تو اپنی مرضی کے مالک بن جاتے ہیں۔ ان کی پرورش خودرَو پودوں کے مثل ہوتی ہے، چنانچہ بڑے ہوکر وہ سماج کے لیے وبال جان بن جاتے ہیں۔

اسلامی حل اور راہنمائی
اسلام پُر امن اور ہم درد سماج قائم کرنا چاہتا ہے۔ اس لیے اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ خوش گوار خاندان وجود میں آئے، جس کے افراد ایک دوسرے سے محبّت کریں، ایک دوسرے کا خیال رکھیں اور ان کے درمیان مضبوط تعلّقات استوار ہوں۔ خاندان کے استحکام اور استقرار کے لیے اس نے جو ہدایات دی ہیں انھیں درج ذیل نکات کی شکل میں بیان کیا جا سکتا ہے۔

حقوق و فرائض کا شعور
اسلام نے خاندان کے تمام افراد کو حقوق اور فرائض کا پابند بنایا ہے۔ عورتوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے:
’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں‘‘ (البقرۃ: 228)۔
عورتوں کے حقوق مردوں کے فرائض ہیں اور مردوں کے حقوق عورتوں کے فرائض ہیں۔ شوہر کے حقوق بیوی کے فرائض ہیں اور بیوی کے حقوق شوہر کے فرائض ہیں۔ اولاد کے حقوق والدین کے فرائض ہیں اور والدین کے حقوق اولاد کے فرائض ہیں۔ بہو کے حقوق ساس سسر اور سسرالیوں کے فرائض ہیں اور سسرالیوں کے حقوق بہو کے فرائض ہیں۔ اسلام حقوق کو حاصل کرنے کا نہیں بلکہ انھیں ادا کرنے کا تصوّر دیتا ہے۔ اگر ہر ایک کی توجہ دوسروں کے حقوق ادا کرنے کی طرف رہے تو کسی کو اپنا حق طلب کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک
اسلام نے صلہ رحمی پر بہت زور دیا ہے اور اس کی بڑی فضیلت بیان کی ہے۔ سورۂ النساء کی پہلی آیت، جو خطبۂ نکاح میں شامل ہے اور ہر تقریب نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے، اس میں ہے:
’’اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنے حق مانگتے ہو اور رشتۂ و قرابت کے تعلّقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو‘‘ (النساء: 1)۔
قرآن مجید میں جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے وہیں رشتے داروں کا تذکرہ کیا گیا ہے اور انھیں بھی اچھے برتاؤ کا مستحق قرار دیا گیا ہے:
’’ماں باپ کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو اور اور رشتے داروں سے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ‘‘ (النساء: 36)۔

اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا
ضروری ہے کہ اہل خاندان کے ساتھ اچھا وقت گزارا جائے، ان سے رابطہ رکھا جائے اور ان سے خوش گوار تعلقات استوار کیے جائیں۔ زوجین ایک دوسرے کے ساتھ جتنا زیادہ ممکن ہو وقت گزاریں، آپس میں خوش طبعی سے پیش آئیں، پیارو محبت کی باتیں کریں۔ اس طرح بھی تعلقات میں گرم جوشی پیدا ہوتی اور دلوں میں پیدا معمولی کدورتیں دور ہوجاتی ہیں۔
اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے: ’’تم میں بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہوں اور میں اپنے گھر والوں سے تعلقات کے معاملے میں تم سب سے بہتر ہوں‘‘ (ترمذی)۔
آپؐ کا معمول تھا کہ روزانہ تمام ازواج مطہرات کے ساتھ کچھ وقت گزارتے تھے، پھر جس کی باری ہوتی اس کے یہاں شب باشی کے لیے چلے جاتے تھے۔

صبر اور عفو و درگزر
خاندان کے استحکام میں عفو و درگزر کی بڑی اہمیت ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر ناراض ہوجانا اور تعلقات توڑ لینا مناسب نہیں۔ اہل خاندان میں کسی کی جانب سے کوئی اذیت پہنچے یا کوئی بات بُری لگے تو صبر کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی ایک آیت سے اس سلسلے میں رہ نمائی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو! تمھارے جوڑوں اور تمھاری اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن ہیں، ان سے ہوشیار رہو۔ اور اگر تم معاف کردو، درگزر سے کام لو اور بخش دو تو اللہ بہت زیادہ معاف کرنے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘ ( التغابن: 14)۔
اس آیت میں بیوی، شوہر اور اولاد کے دین کے راستے میں مزاحم بننے پر ہوشیار رہنے کی تاکید تو کی گئی ہے، لیکن ساتھ ہی تین مرتبہ الگ الگ تعبیرات سے معاف کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔

باہم مشورہ
خانگی معاملات میں افراد خانہ کو شریک مشورہ کرنا ان کے دل میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ خاص طور سے شوہر کو بیوی پر صرف حکم چلانا اور اس سے اطاعت کا مطالبہ کرنا زیب نہیں دیتا، بلکہ اس سے گھر کے چھوٹے بڑے معاملات میں مشورہ کرنا چاہیے۔ اللہ کے رسولؐ کا اسوہ یہی سکھاتا ہے۔ آپ ازواج مطہرات سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ صلح حدیبیہ کے موقع کا واقعہ بہت مشہور ہے۔ اس موقع پر آپؐ نے ام المومنین سیدہ ام سلمہؓ سے مشورہ کیا تھا، پھر ان کے مشورے پر عمل کیا تھا، جس سے بہت بڑی الجھن رفع ہوگئی تھی۔

نکاح سے قبل کونسلنگ
موجودہ دور میں کونسلنگ کو بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔ کونسلنگ باقاعدہ ایک فن بن گیا ہے۔ خاندان میں استحکام اور مضبوطی لانے کے لیے اس سے استفادہ کیا جانا چاہیے۔ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو جمع کیا جائے، ان کے سامنے وہ امور و مسائل بیان کیے جائیں جن کا ازدواجی زندگی کے بعد انھیں سابقہ پیش آنے والا ہے۔ نکاح کے مقاصد کیا ہیں؟ شریعت میں زوجین کے کیا حقوق اور فرائض بیان کیے گئے ہیں؟ خاندان کی خوش گواری کے لیے زوجین میں سے ہر ایک کو کن امور کا خیال رکھنا چاہیے؟ اگر تنازعات سر ابھارنے لگیں تو ان کے ازالے کے لیے کیا تدابیر اختیار کرنی چاہیے؟ ان موضوعات پر شرعی، قانونی اور نفسیاتی اعتبارات سے لیکچر کا اہتمام کرنا چاہیے۔

خاندانی تنازعات کو حل کرنے کی تدابیر
اگر افراد خاندان کے درمیان شکایات پیدا ہونے لگیں تو قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ پہلے متعلقہ افراد خود انھیں حل کرنے کی کوشش کریں۔ اگر باوجود کوشش کے کامیاب نہ ہوں تو خاندان کے دوسرے افراد اپنا تعاون پیش کریں اور مل جل کر اختلافات کو دور کریں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اگر تم لوگوں کو میاں بیوی کے تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہو تو ایک حَکَم مرد کے رشتے داروں میں سے اور ایک حَکَم عورت کے رشتے داروں میں سے مقرر کردو۔ وہ دونوں اصلاح کرنا چاہیں گے تو اللہ ان کے درمیان موافقت کی صورت نکال دے گا۔ اللہ سب کچھ جانتا ہے اور باخبر ہے‘‘ (النساء: 35)۔
قرآن کہتا ہے کہ اختلافات کو باقی رکھنا اور ان کی وجہ سے رشتوں کو منقطع کرنے کی بات سوچنا دانش مندی نہیں ہے، بلکہ فریقین کو ہر حال میں صلح کی کوشش کرنی چاہیے:
’’اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضایقہ نہیں اگر میاں بیوی (کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں‘‘ (النساء: 128)۔

خاندان پر توجہ دینا ضروری ہے
خاندانی نظام کا استحکام ہی فرد، خاندان اور سماج کی خوش حالی کا ضامن ہے۔ جب دین داری، محبت، اخلاق، ایثار وقربانی اور صبر پر خاندانی زندگی کی بنیاد ہو تو اس میں بکھراؤ کی گنجائش نہیں رہتی۔ اسلام نے ہمیں ایک مکمل خاندانی نظام دیا ہے، جس پر عمل کر کے ہم نہ صرف اپنے خاندان میں رشتوں، محبتوں اور مسرتوں کو بچا سکتے ہیں، بلکہ اسی راستے پر اور آگے بڑھ کر ایک صالح معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

مولانا رضی الاسلام ندوی گلزار

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے فرائض ہیں اور کے ساتھ حسن سلوک رشتے داروں اہل خاندان عورتوں کے خاندان کے کے درمیان ایک دوسرے والدین کے ہوتے ہیں کرنے کی کے حقوق ہے اور اور ان لیے اس کے لیے دیا ہے ہیں تو گیا ہے گئی ہے ہر ایک کی کمی اور اس

پڑھیں:

حیدرآباد ،ماہی گیر اپنے خاندان کی کفالت کیلیے دریائے سندھ سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

حیدرآباد ،ماہی گیر اپنے خاندان کی کفالت کیلیے دریائے سندھ سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں

راصب خان

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال
  • حیدرآباد ،ماہی گیر اپنے خاندان کی کفالت کیلیے دریائے سندھ سے مچھلیاں پکڑ رہے ہیں
  • کمر درد دور کرنے کیلئے 8 زندہ مینڈک کھانے والی معمر خاتون اسپتال پہنچ گئیں
  • تحریک لبیک پاکستان کی 10 اکتوبر کو اسلام آباد میں احتجاج کی کال‘سکیورٹی کے انتظامات سخت
  • کمر درد ٹھیک کرنے کے لیے 8 زندہ مینڈک نگلنے والی خاتون کے ساتھ کیا ہوا؟
  • بھارت: ڈیم میں نہانے والے ایک ہی خاندان کے 7 افراد ڈوب گئے
  • شاہد کپور کا خاندان پاکستان کے کس شہر میں رہتا تھا؛ والد پنکج کپور کا بڑا انکشاف
  • سپر ٹیکس کیس؛ سپریم کورٹ ہماری دلیل نہیں مانتی تو ہمارے حقوق متاثر ہوں گے، وکیل کمپنیز
  • ڈی جی خان میں دل کے سرکاری اسپتال میں سکیورٹی گارڈ مریضوں کا علاج کرنے لگا