ذہنی مرض کو توہمات یا پاگل پن سے جوڑنا اپنے پیاروں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے، ڈاکٹر محدد رانا
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
پاکستان میں ذہنی صحت سے متعلق بہت سے توہمات، غلط فہمیاں اور سماجی تعصبات پائے جاتے ہیں۔ لوگوں کے ذہن میں یہ تصور عام ہے کہ اگر کسی کو نفسیاتی مسئلہ درپیش ہے تو وہ کمزور یا ناقابل ہمدردی شخص ہے حالانکہ یہی رویہ معاشرتی بے حسی کو بڑھاتا ہے۔ ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محدد رانا بھی خبردار کرتے ہیں کہ ذہنی مرض کو توہمات یا پاگل پن سے جوڑنا اپنے پیاروں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں ذہنی امراض کے اسپتالوں کی اپ گریڈیشن کا منصوبہ، جدید طریقہ علاج اپنایا جائے گا
وی نیوز ایکسکلوسیو میں سینیئر صحافی عمار مسعود سے ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر محدد رانا نے ’انٹرنیشنل مینٹل ہیلتھ ڈے‘ کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مینٹل ہیلتھ ڈے دراصل عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا ایک پروگرام ہے جس کا مقصد دنیا بھر میں ذہنی صحت کے بارے میں شعور اجاگر کرنا ہے۔
ڈاکٹر محدد رانا نے کہا کہ جب کسی کو دل یا گردے کی بیماری ہوتی ہے تو معاشرہ اس کے علاج کے لیے فکر مند ہوتا ہے لیکن ذہنی بیماری کو یا تو نظرانداز کر دیا جاتا ہے یا مافوق الفطرت اسباب سے جوڑ دیا جاتا ہے جیسے کسی جن یا بدروح کا اثر ہو۔
ڈاکٹر رانا کے مطابق مینٹل ہیلتھ ڈے ایسے تصورات کو توڑنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ہر سال 10 اکتوبر کے لیے ایک الگ تھیم مقرر کیا جاتا ہے تاکہ مختلف ممالک میں دماغی صحت کے حوالے سے آگاہی اور فہم کو فروغ دیا جا سکے۔
اس سال مینٹل ہیلتھ ڈے کی تھیم ’Emergencies and Catastrophes’ ہے یعنی قدرتی یا انسانی آفات میں ذہنی صحت کے وسائل کا کردار۔
ڈاکٹرمحدد رانا کا کہنا ہے کہ آفات، جیسے زلزلے، سیلاب یا جنگ کے بعد جسمانی امداد تو جلد پہنچ جاتی ہے مگر متاثرین کے ذہنی زخم دیرپا ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیے: صحافیوں میں بڑھتے نفسیاتی امراض، ایک تحقیقاتی جائزہ
انہوں نے کہا کہ ’سنہ2005 کے زلزلے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ تباہی کے بعد سب سے زیادہ متاثر انسان کا ذہن ہوتا ہے جس کی گونج برسوں باقی رہتی ہے‘۔
ڈاکٹر رانا نے‘Psychological First Aid’ کے تصور پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ آفت کے بعد متاثرین سے محض خاموشی سے بیٹھ کر بات سننا، ان کا ہاتھ پکڑنا اور ان کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرنا بھی علاج کا ایک اہم عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’قومی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اب اپنے پروگرام میں سائیکو سوشل ریلیف کو بھی شامل کر لیا ہے جو ایک مثبت قدم ہے‘۔
گفتگو کے دوران ڈاکٹر محدد رانا نے اس بات پر زور دیا کہ ذہنی بیماری کو سماجی بدنامی (stigma) سے آزاد کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں اکثر لوگ اسے تسلیم نہیں کرتے یا مریض کو کمزور سمجھتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دماغ بھی جسم کے دوسرے اعضا کی طرح بیمار ہو سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: پاکستان ذہنی صحت کے معاملے میں ترقی یافتہ ممالک سے بہتر، لیکن کیسے؟
ڈاکٹر محدد رانا کے مطابق جب دماغ بیمار ہو جائے تو وہ خود اپنی بیماری ظاہر نہیں کر پاتا لہٰذا اس وقت ذمہ داری اردگرد کے لوگوں پر آتی ہے کہ وہ اس کیفیت کو پہچانیں اور مدد فراہم کریں۔
انہوں نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں ذہنی امراض کے شکار افراد کو ’پاگل‘ کہہ کر مسترد کر دیا جاتا ہے حالانکہ ایسے لوگ علاج سے مکمل طور پر صحتیاب ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ایسے مریضوں کو الزام دینے یا ان پر انگلی اٹھانے کی بجائے ان کا ساتھ دیں اور ان کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جائیں۔
سوشل میڈیا اور نئی نسل کے ذہنی مسائل پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر محدد رانا کا کہنا تھا کہ آج کے نوجوان ایک ’ورچوئل دنیا‘ میں رہنے لگے ہیں جو ان کے لیے حقیقی دنیا سے زیادہ پرکشش بن گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ ایک بڑی سماجی تبدیلی ہے جس کا اثر بچوں کی نفسیات پر پڑ رہا ہے۔ والدین، اساتذہ اور معاشرہ اگر اس تبدیلی کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرے گا تو ذہنی دباؤ، تنہائی اور بے چینی میں اضافہ ہوتا رہے گا‘۔
یہ بھی پڑھیے: دماغی امراض آپ کے جسم کو جلد بوڑھا کر دیتے ہیں
ڈاکٹر محدد رانا نے اپنی گفتگو میں واضح کیا کہ مینٹل ہیلتھ صرف بیماریوں کا معاملہ نہیں بلکہ انسان کی پوری شخصیت، اس کے احساس، رویے اور زندگی کے توازن کا مسئلہ ہے اور جب تک معاشرہ اس کو سنجیدگی سے نہیں لے گا جسمانی صحت کے تمام اقدامات بھی ادھورے ہی رہیں گے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انٹرنیشنل مینٹل ہیلتھ ڈے ذہنی مرض ذہنی مریض.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ڈاکٹر محدد رانا نے انہوں نے کہا کہ جاتا ہے کے ساتھ کے بعد کے لیے صحت کے
پڑھیں:
دو ریاستی حل گریٹر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا ‘ملی یکجہتی کونسل سندھ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251009-08-23
کراچی (اسٹاف رپورٹر)ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں کونسل کے مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ کی زیر صدارت منعقدہ’’ یکجہتی فلسطین‘‘ سیمینار میںمقررین نے مسلم حکمرانوں پر زور دیا ہے کہ وہ ٹرمپ کے نام نہاد امن معاہدے کے نام پر ٹریپ ہونے کے بجائے غزہ کے مظلوم مسلمانوں اور حماس کے ساتھ کھڑے ہو جائیں اور 2 سال سے جاری جارحیت و دہشت گردی اور انسانیت سوز مظالم پر امریکا و اسرائیل کی مذمت کریں۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کے دل اہل غزہ کے ساتھ دھڑکتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں غزہ کے مظلوموں کے حق میں احتجاج نے سب کی آنکھیں کھول دیں ہیں۔2 ریاستی حل گریٹر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مترادف ہوگا اورپھرکشمیر سے بھی دستبردارہونا پڑے گا۔ فلسطین فلسطینیوں کا ہے، ریاست صرف ایک آزاد فلسطین ہے۔طوفان الاقصیٰ کامیاب اور حماس بیانیہ کی جنگ بھی جیت چکی ہے جس کے اثرات آج پوری دنیا میں نظر آنے لگے ہیں۔قوم اسرائیل کو کبھی تسلیم کرنے نہیں دے گی۔سیمینار سے کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو،علامہ قاضی احمد نورانی ، علامہ ناظرعباس تقوی،مفتی اعجازمصطفی،ڈاکٹر صابر ابومریم ،مسلم پرویز،محمد حسین محنتی ،مولانا صادق جعفری،مولانا عبدالوحید اخوانی ،علامہ اصغرحسین شہیدی ،مہدی اسحاق،شیخ سجاد حسین حاتمی ،مولانا عبدالماجد فاروقی نے بھی خطاب کیا ۔ لیاقت بلوچ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہاکہ کیمپ ڈیوڈ، ابراہم اکاررڈ سے لے کر ٹرمپ کا 20 نکاتی امن معاہدہ اسرائیل کا ناجائز وجود تسلیم کرانے کی کوشش ہے،اسرائیل ایک ناسور ہے، یہ جب تک قائم رہے گا اس وقت تک دنیا میں امن قائم نہیں رہ سکتا۔ بانی پاکستان نے اس کو امریکا کا ناجائز بچہ قرار دیا تھا۔ قطر پر حملے سے واضح ہوگیا ہے کہ امریکا کسی کا دوست نہیں ہے وہ صرف اپنے مفادات اورخواہشات کا اسیر ہے۔لاہورکراچی میں تاریخی مارچ اورارض فلسطین میں شہادتوں سے امت میں بیداری کی ایک لہر پیدا ہوگئی ہے۔اسرائیل سمجھتا تھا کہ وہ امریکا وبرطانیہ کی سرپرستی اوراسلحہ وگولہ بارود کی طاقت سے سب کچھ مٹاکر اپنا قبضہ مستحکم کرے گا مگر حماس کے شاہینوں اورفلسطینی عوام کی قربانیوں سے وہ ناکام ہوگیا اب وہ ٹرمپ کے ذریعے خود کو دلدل سے نکالنے کی بھیک مانگ رہا ہے۔مسلم حکمرانوں کو حماس وحزب اللہ اوراخوان المسلمون سے خوف کھانے کے بجائے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔9اکتوبر لاہور اور14اکتوبر کواسلام آباد میں’’ یکجہتی فلسطین ‘‘سمینار کا انعقاد کیا جائے گا۔انہوں نے علما کرام سے اپیل کی کہ وہ جمعہ 10 اکتوبر کو منبرومحراب کے ذریعے مسئلہ فلسطین کو اُجاگر اورغزہ میں انسانیت کے قتل عام پر مذمتی قراردادیں منظور کرائیں۔ کونسل کے صوبائی صدراسداللہ بھٹو نے کہاکہ مسلم وغیر مسلم پوری دنیا کے عوام یکجہتی ٔ فلسطین کر رہے ہیں۔مسلم حکمرانوں پراپنے عوام کا بڑا دباؤ ہے مگر وہ امریکا واسرائیل سے ڈرتے ہیں۔ان شاء اللہ عوام کی جدوجہد ضرور کامیاب ہوگی۔علامہ قاضی احمد نورانی نے کہاکہ ملی یکجہتی کونسل گلدستہ ہے جس نے امت کے ہرمسئلے پرآواز اٹھائی ہے۔طوفان الاقصیٰ کے بعد غزہ پر سفاکی اور درندگی کے2سال مکمل ہونے کے باوجود اقوام متحدہ سمیت عالمی ضمیر نیتن یاہو کو ناک میں نکیل ڈالنے میں ناکام رہے۔ علامہ ناظرعباس تقوی نے کہاکہ حماس مسئلہ فلسطین کو اُجاگرکرنے میں کامیاب اوراسرائیل ناکامی کے راستے پر ہے اب وہ اپنی بقا کے لیے سہارے تلاش کر رہا ہے۔پورا یورپ لاکھوں کی تعداد میں غزہ میں ظلم کے خلاف اورفلسطین کے ساتھ اظہار یکجہتی کر رہا ہے۔مفتی اعجازمصطفی نے کہاکہ صہیونیت کے منصوبے گریٹراسرائیل میں خانہ کعبہ بھی شامل ہے۔2ریاستی حل کا مطلب ہی گریٹر اسرائل کا راستہ ہموار کرنا ہے۔مسلم حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہیں۔ڈاکٹر صابر ابومریم نے کہاکہ طوفان الاقصیٰ نے پوری دنیا کو مسئلہ فلسطین کے حق میں کھڑا کردیا ہے جو حماس کے بیانیے کی جیت ہے۔مسلم پرویز نے کہاکہ مزاحمت میں ہی زندگی ہے جہاد ہی عزیمت کا راستہ ہے فلسطینی عوام کی جدوجہد ضرور ایک دن رنگ لائے گی۔محمد حسین محنتی نے کہاکہ جہاد مومن کی معراج ہے حق وباطل کے معرکہ غزہ سے ظالم ومظلوم کا فرق دنیا کے سامنے آگیا ہے۔مولانا صادق جعفری نے کہاکہ کراچی میںجماعت اسلامی کا غزہ مارچ قابل تحسین اورسابق سینٹر مشتاق احمد خان کے ایمانی جذبہ قابل قدر ہے۔مولانا عبدالوحید اخوانی نے کہاکہ فلسطین کے حوالے سے پوری امت متحد ہے۔جنگی جرائم کے مرتکب نیتن یاہو نے غزہ کو مٹی کا ڈھیر بنا دیا ہے لیکن قحط ،پیاس اور بھوک کے باوجود سرفروشوں کا جذبہ جہاد ختم نہیں کرسکا ہے اب وہ اپنی ناکامی کی خفت مٹانے کے لیے ٹرمپ کے ذریعے امن معاہدے کی باتیں کر رہا ہے۔علامہ اصغرحسین شہیدی نے کہاکہ مسلم حکمران غیروں کی غلامی کے بجائے اپنی تمام پالیسیاں عوام کے جذبات کے مطابق بنائیں۔مہدی اسحاق نے کہاکہ صہیونیوں نے فرعون سے بھی بڑھ کر غزہ کے مظلوم مسلمانوں پر ظلم کیا ہے،مسلم حکمرانوں کی خاموشی بے حمیتی وبے حسی کی انتہا ہے۔شیخ سجاد حسین حاتمی نے اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کرتے ہوئے کہاکہ خون ناحق پرعالمی ضمیر کی خاموشی شرمناک ہے۔غزہ کے مظلوموں کا ساتھ دینے والے مشتاق احمد خان پاکستانی ہیرو اورایران کا کردار بھی قابل تعریف ہے۔مولانا عبدالماجد فاروقی نے کہاکہ ہرکامیابی قربانی مانگتی ہے۔75ہزار شہدا کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔
کراچی : مرکزی جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے تحت ادارہ نورحق میں یکجہتی فلسطین سیمینار سے خطاب کررہے ہیں