اقوامِ متحدہ کا غزہ کے لیے 60 روزہ ہنگامی امدادی منصوبہ تیار
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی ہوتے ہی انسانی امداد کی فراہمی کے لیے 60 روزہ منصوبہ تیار کر لیا گیا ہے، جس کے تحت لاکھوں فلسطینیوں کو فوری مدد فراہم کی جائے گی۔
اقوامِ متحدہ کے سربراہِ انسانی امداد ٹام فلیچر نے بتایا کہ ہمارا منصوبہ مکمل، جانچا ہوا اور تیار ہے۔ ہمارے پاس 1 لاکھ 70 ہزار میٹرک ٹن خوراک، ادویات اور دیگر ضروری سامان موجود ہے، اور ہماری ٹیم پوری طرح متحرک ہے۔
مزید پڑھیں: صدر ٹرمپ آئندہ ہفتے مصر جائیں گے، غزہ جنگ بندی معاہدے کی تقریب میں شرکت کا امکان
غزہ کی بڑی آبادی اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں سے متاثر ہو چکی ہے جبکہ غزہ کے کئی حصوں میں اقوامِ متحدہ نے قحط کی تصدیق کی ہے، جہاں درجنوں فلسطینی بھوک اور غذائی قلت سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔
فلیچر کے مطابق اقوامِ متحدہ کا مقصد یہ ہے کہ جنگ بندی کے بعد روزانہ سینکڑوں ٹرک امداد لے کر غزہ میں داخل ہوں تاکہ غذائی بحران اور قحط پر قابو پایا جا سکے۔
منصوبے کے مطابق 21 لاکھ افراد کو خوراک فراہم کی جائے گی، 5 لاکھ شدید غذائی قلت کے شکار بچوں اور افراد کو خصوصی غذائی امداد دی جائے گی۔ 2 لاکھ افراد کو نقد امداد دی جائے گی تاکہ وہ اپنی پسند کی اشیا خرید سکیں۔
مزید پڑھیں: سعودی عرب کا غزہ جنگ بندی معاہدے کا خیر مقدم
اس کے علاوہ 14 لاکھ افراد کو صاف پانی، نکاسیٔ آب اور صفائی کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ اقوامِ متحدہ پانی کے نظام کی بحالی، سیوریج پائپ لائنوں کی مرمت، کوڑا کرکٹ ہٹانے اور حفظانِ صحت کی اشیاء (صابن، شیمپو، سینیٹری پیڈ وغیرہ) کی فراہمی بھی یقینی بنائے گا۔
فلیچر نے بتایا کہ غزہ کے تباہ شدہ صحت کے نظام کو بھی بحال کیا جائے گا، جس میں ہنگامی طبی امداد، زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی صحت، نفسیاتی علاج اور دیگر خدمات شامل ہوں گی۔
اقوامِ متحدہ ہر ہفتے ہزاروں خیمے غزہ میں بھیجے گا اور 7 لاکھ بچوں کے لیے عارضی اسکول قائم کرے گا۔ فلیچر نے واضح کیا کہ منصوبے کی کامیابی کے لیے چند اہم شرائط ضروری ہیں، جن میں:
ہفتہ وار کم از کم 19 لاکھ لیٹر فیول کی فراہمی،
مزید پڑھیں: اسرائیل نے غزہ میں روزانہ کتنا جانی و مالی نقصان کیا؟
کھانا پکانے والی گیس کی ترسیل کی بحالی،
متعدد امدادی راستوں کی دستیابی،
اور امدادی قافلوں کی سیکیورٹی ضمانتیں شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ فی الحال 4 ارب ڈالر کے اقوامِ متحدہ کے ہنگامی فنڈ کا صرف 28 فیصد ہی حاصل ہو سکا ہے، جو ناکافی ہے۔
اقوامِ متحدہ کے پاس فی الوقت 170,000 ٹن امدادی سامان اسرائیل، اردن، مصر اور قبرص میں محفوظ ہے، مگر فلیچر کے مطابق یہ جنگ بندی کے بعد ابتدائی 60 دن کے لیے بھی ناکافی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
60 روزہ ہنگامی امدادی منصوبہ اقوام متحدہ غزہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: 60 روزہ ہنگامی امدادی منصوبہ اقوام متحدہ افراد کو جائے گی کے لیے
پڑھیں:
اقوامِ متحدہ میں مالی بحران کے باعث امن فوج میں بڑی کمی کا فیصلہ، 9 ممالک متاثر ہوں گے
اقوامِ متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ مالی مسائل کے باعث دنیا کے مختلف ممالک میں تعینات امن فوجیوں (پیس کیپرز) اور پولیس اہلکاروں کی تعداد میں 25 فیصد کمی کی جائے گی۔ یہ فیصلہ امریکا کی جانب سے امداد کی فراہمی غیر یقینی ہونے پر تنظیم کو شدید فنڈز کی کمی کے باعث کیا گیا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے ایک اعلیٰ اہلکار نے رائٹرز کو بتایا کہ ’ہمیں تقریباً 13 سے 14 ہزار امن فوجی، پولیس اہلکار اور ان کا ساز و سامان واپس بلانا پڑے گا، جبکہ بہت سے سول ملازمین بھی متاثر ہوں گے۔‘
یہ کمی ان ممالک میں ہوگی جہاں اقوامِ متحدہ کے امن مشنز جاری ہیں، جن میں جنوبی سوڈان، جمہوریہ کانگو، لبنان، کوسوو، قبرص، وسطی افریقہ، مغربی صحارا، گولان کی پہاڑیاں (اسرائیل اور شام کے درمیان) اور ابیئی (سوڈان اور جنوبی سوڈان کے درمیان علاقہ) شامل ہیں۔
امریکا اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کا سب سے بڑا مالی مددگار ہے جو 26 فیصد سے زیادہ فنڈز فراہم کرتا ہے، لیکن اس نے گزشتہ سالوں کئی ادائیگیاں وقت پر نہیں کیں۔ رپورٹ کے مطابق امریکا پر اس وقت اقوامِ متحدہ کے 2.8 ارب ڈالر سے زائد واجبات ہیں۔
امریکی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ جلد ہی 680 ملین ڈالر ادا کرے گی، مگر اس پر تاحال کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔
یاد رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اگست میں 2024 اور 2025 کے لیے مختص 800 ملین ڈالر کی امن مشنز فنڈنگ منسوخ کر دی تھی۔ وائٹ ہاؤس نے 2026 کے لیے فنڈز ختم کرنے کی بھی تجویز دی ہے، جس کی وجہ کچھ امن مشنز کی ناکامی کو بتایا جا رہا ہے۔
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ تنظیم اپنے اخراجات میں کمی اور کارکردگی میں بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے تاکہ مالی بحران کے باوجود امن کے مشنز جاری رہ سکیں۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ بحران جاری رہا تو اقوامِ متحدہ کے امن مشنز کمزور ہو جائیں گے اور دنیا بھر میں تنازعات کے حل میں ادارے کا کردار متاثر ہو سکتا ہے۔