براستہ قبرص ترکی کا اسرائیلی گھیراؤ
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
گزشتہ مضمون میں جائزہ لیا گیا کہ اسرائیل علاقے کے آخری فوجی چیلنج یعنی ترکی کو کس طرح گھیرنے کے لیے اپنے اور ترکی کے بیچ واحد ریاست شام کو لسانی و علاقائی بنیادوں پر کمزور کرنے یا توڑنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔جب کہ ترکی شام کی بفر ریاست کو ایک مستحکم مرکزی حکومت کے تحت دیکھنا چاہتا ہے۔
اپنے اپنے علاقائی اہداف حاصل کرنے کے لیے اسرائیل اور ترکی شام میں اسٹرٹیجک حلقہِ اثر بڑھانا چاہتے ہیں۔بلکہ اسرائیل نے تو مقبوضہ گولان سے متصل شامی علاقے میں نئے اڈے بھی قائم کر لیے ہیں اور اس کی کوشش ہے کہ ترکی کو شام میں پاؤں جمانے کے لیے ایسی کوئی عسکری سہولت نہ مل سکے۔چنانچہ دمشق میں قائم صدر احمد الشرح کی حکومت کو اندرونی طور پر طرح طرح کے بحرانوں میں الجھائے رکھنا ضروری ہے۔
اسرائیل کی دوسری آنکھ ترکی کے جنوبی ساحل سے محض پچاسی کلومیٹر پرے مشرقی بحیرہ روم کے جزیرہ قبرص پر ہے۔قبرص کی دس لاکھ آبادی میں سے تہتر فیصد آبادی یونانی نژاد مسیحی ہے اور تاریخی طور پر یونان کا حصہ بننا چاہتی ہے۔جب کہ پچیس فیصد مسلمان آبادی کا تاریخی رشتہ ترکی سے ہے اور یہ ترک جزیرے میں تب سے آباد ہیں جب عثمانیوں نے پندرہ سو ستر میں جزیرے پر قبضہ کیا اور پھر اٹھارہ سو اٹھتر سے اگست انیس سو ساٹھ تک اس جزیرے پر برطانیہ کی حکمرانی رہی۔
ترکی کے زیرِ قبضہ قبرص کے چھتیس فیصد رقبے پر انیس سو بیاسی سے شمالی جمہوریہ قبرص جب کہ چونسٹھ فیصد حصے پر جمہوریہ قبرص قائم ہے۔ترک فوج نے جولائی انیس سو چوہتر میں شمالی قبرص پر یوں قبضہ کیا کیونکہ مقامی فوج نے منتخب صدر آرچ بشپ میکاریوس کا تختہ الٹ کے قبرص کے یونان سے الحاق کا اعلان کر دیا تھا۔ یونان اور ترکی میں طویل عرصے سے تاریخی دشمنی چلی آ رہی ہے۔
شمالی جمہوریہ قبرص کو اقوامِ متحدہ ایک متنازعہ علاقہ قرار دیتی ہے۔جب کہ یونانی اکثریتی جمہوریہ قبرص بطور قانونی حکومت دو ہزار چار سے یورپی یونین کا حصہ ہے۔جزیرے کی معیشت ترقی یافتہ ہے اور فی کس آمدنی پینسٹھ ہزار ڈالر سالانہ ہے۔موسم معتدل ہے لہٰذا کثیر تعداد میں متمول غیر ملکی باشندے سیاحت کے علاوہ یہاں گھر بنانا بھی پسند کرتے ہیں۔قبرص کی گولڈن ویزا اسکیم کے تحت شہریت کا حصول بھی نسبتاً آسان ہے۔
اسرائیل کے ساحل سے قبرص کا فاصلہ تین سو چونسٹھ کلومیٹر ہے۔دو ہزار پندرہ کے بعد سے اسرائیل نے جہوریہ قبرص پر خصوصی اسٹرٹیجک توجہ دینا شروع کی ۔ دو ہزار اٹھارہ میں یہاں اسرائیلی باشندوں کی تعداد ساڑھے چھ ہزار کے لگ بھگ تھی۔آج پندرہ ہزار سے زائد اسرائیلی قبرص منتقل ہو چکے ہیں اور اس عرصے میں انھوں نے چار ہزار سے زائد رقبوں اور املاک کی خریداری کی ہے۔
اسرائیلی اخبار ہاریٹز کے مطابق اسرائیلی باشندے چار دیواری والی کالونیوں میں رہتے ہیں۔ان کالونیوں کے اپنے ہوٹل اور سپر مارکیٹیں ہیں۔وہاں مقامی باشندوں سمیت کسی غیر اسرائیلی کو خواہ مخواہ داخلے کی اجازت نہیں۔اسرائیلی انٹیلی جنیس موساد نے یہاں کئی سیف ہاؤسز بھی قائم کر رکھے ہیں۔
اگرچہ قبرص میں روسی اور دیگر یورپی ممالک کے باشندے بھی رہتے ہیں مگر وہ اسرائیلیوں کی طرح الگ تھلگ قلعہ بند نہیں بلکہ مقامی آبادی کے درمیان رہنا پسند کرتے ہیں۔اسرائیلیوں کے اس طرزِ عمل کے سبب قبرص کے قوم پرست حلقوں میں شکوک بھی بڑھ رہے ہیں۔
قبرص کی سرکردہ قوم پرست جماعت پروگریسو ورکرز پارٹی کے ترجمان سٹیفانوس سیٹیفانو نے تین ماہ قبل یہ دھواں دار بیان دیا کہ اسرائیلی باشندے دھڑا دھڑ املاک خرید کر وہاں اپنی عبادت گاہیں اور اسکول بنا رہے ہیں اور نصاب بھی اپنا پڑھا رہے ہیں۔ اب تک زیادہ تر املاک لرناکا ، لیماسول اور پاپوس سمیت حساس ساحلی و اسٹرٹیجک علاقوں کے نزدیک خریدی گئی ہیں۔ لہٰذا یہ محض آبادکاری نہیں۔شاید اسرائیل قبرص کو ایک ذیلی اسرائیل بنانے کا سوچ رہا ہے۔اس بیان کے بعد قبرص میں اسرائیلی سفیر اورین انولیل نے پروگریسو پارٹی پر یہود دشمنی کا الزام لگاتے ہوئے باضابطہ احتجاج کیا۔
دو ہزار سترہ میں جمہوریہ قبرص اور اسرائیل کے مابین فوجی تعاون کا سمجھوتہ ہوا۔تب سے دونوں ممالک متعدد بری اور بحری جنگی مشقیں کر چکے ہیں۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق غزہ کی مہم کے دوران اسرائیلی فضائیہ نے قبرص کے ارکوتیری بیس کو غزہ پر نگراں پروازوں کے لیے استعمال کیا حالانکہ اس بیس کا انتظام برطانیہ کے ہاتھ میں ہے۔
گزشتہ ماہ اسرائیل نے قبرص کو جدید ترین براک ایم ایکس میزائیل سسٹم بھی فراہم کر دیا۔اس کی مار کا دائرہ ڈیڑھ سو کلومیٹر ہے۔براک سسٹم کے تھری ڈی ریڈار نظام کے ذریعے چار سو ساٹھ کلومیٹر کے دائرے میں دشمن کی نقل و حرکت دیکھی جا سکتی ہے۔یہی نہیں بلکہ ایک سو کلومیٹر کے دائرے میں متحرک توپ خانے اور لانچرز کا بھی باآسانی پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
اس کا مطلب ہے کہ نہ صرف شمالی قبرص کی ترک جمہوریہ بلکہ پورا جنوبی ترکی اسرائیل کی ہمہ وقت نگرانی کی زد میں ہے ۔انیس سو ستانوے میں جمہوریہ قبرص نے روسی ساختہ ایس تھری ہنڈرڈ میزائیل سسٹم خریدنے کی کوشش کی تھی مگر ترکی کے پرزور احتجاج اور ماسکو پر دباؤ کے سبب یہ ڈیل نامکمل رہ گئی۔جب کہ اسرائیل کا فراہم کردہ نیا براک سسٹم روسی میزائل شکن سسٹم سے زیادہ جدید اور موثر ہے۔
اگرچہ ترکی نے تازہ پیش رفت پر فوری ردِعمل ظاہر نہیں کیا البتہ اسے لامحالہ اس پیش رفت پر تشویش ہے۔سابق ترک ایڈمرل اور حزبِ اختلاف کے رہنما یانکی باغچی اوغلو نے خبردار کیا ہے کہ اس اسرائیلی اقدام سے مشرقی بحیرہ روم کا خطہ نہ صرف غیر مستحکم ہو گا بلکہ ترکی کی قومی سلامتی بھی براہ راست زد میں ہے۔
ایک اور سابق ترک ایڈمرل جم گردنیز کی رائے ہے کہ وقت آ گیا ہے کہ ترکی مشرقی بحیرہ روم ، یونان اور ترکی کو الگ کرنے والے بحیرہ ایجین اور بحرِ اسود میں اپنی قومی مفادات کے تحفظ کے لیے سنجیدگی سے کمر بستہ ہو کیونکہ مصالحتی پالیسی کا آس پاس کے حریف غلط تاثر لے رہے ہیں۔امریکی تائید سے یونان ، جمہوریہ قبرص اور اسرائیل کا اتحاد اس خدشے کا بین ثبوت ہے۔اس سہہ فریقی اتحاد سے نہ صرف قبرص کی ترک جمہوریہ بلکہ خود ترکی اور اس کے بحری تجارتی راستے بھی سنگین خطرے میں ہیں۔
اسرائیل نے بھی اپنے عزائم خفیہ نہیں رکھے۔ جولائی میں براک میزائیل سسٹم بنانے والی کمپنی اسرائیل ایروسپیس انڈسٹریز کے سابق نائب صدر شائی گال نے ایک مضمون میں لکھا کہ اسرائیل کو مشرقی بحیرہ روم کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظرِ ثانی کرتے ہوئے شمالی قبرص کو ترک تسلط سے آزادی دلانے میں مدد کرنا چاہیے۔اس بابت یونان اور قبرص کے ساتھ مل کے ایک مشترکہ حکمتِ عملی طے کرنے کا وقت ہے۔شمالی قبرص سے ترک فوجی انفرااسٹرکچر کا خاتمہ کر کے قبرص کے دونوں حصوں کو متحد کیا جا سکتا ہے۔
گویا ترکی کا بھاری پتھر بھی اسرائیل کے راستے سے ہٹ جائے تو عظیم تر اسرائیل کا اگلا مرحلہ تل ابیب سے محض گز بھر کے فاصلے پر ہوگا۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جمہوریہ قبرص اسرائیل نے شمالی قبرص کہ اسرائیل اور ترکی ترکی کے قبرص کو رہے ہیں کہ ترکی ہیں اور قبرص کے قبرص کی کے لیے اور اس
پڑھیں:
پولینڈ کا اسرائیل سے تاریخی غلط بیانی پر احتجاج، اسرائیلی سفیر طلب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
وارسا: پولینڈ اور اسرائیل کے درمیان ہولوکاسٹ سے متعلق تاریخی بیانیے کے معاملے پر نیا سفارتی تنازع کھڑا ہوگیا ہے، پولینڈ کے وزیر خارجہ رادوسواف سکوورسکی نے اسرائیلی سفیر کو طلب کرکے اسرائیلی یادگاری ادارے یاد و شیم کی ایک سوشل میڈیا پوسٹ پر سخت اعتراض اٹھایا اور باضابطہ تصحیح کا مطالبہ کیا۔
(یاد و شیم ایک اسرائیلی ادارہ ہے جو ہولوکاسٹ کی تاریخ محفوظ کرتا ہے، اس پر تحقیق کرتا ہے اور نازی ظلم میں مارے گئے یہودیوں کی یادگاروں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔)
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کےمطابق پولش وزارتِ خارجہ نے اسے تاریخی مسخ شدہ تاثر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پوسٹ غلط طور پر یہ ظاہر کرتی ہے کہ یہودیوں پر پابندی پولینڈ کی ریاست یا معاشرے نے لگائی، حالانکہ 1939 سے 1945 تک پورا پولینڈ نازی جرمنی کے قبضے میں تھا اور تمام سیاسی و سماجی نظام جرمن کنٹرول میں تھا۔
(پولش وزارتِ خارجہ یہ وہ سرکاری ادارہ ہے جو پولینڈ کے دوسرے ممالک سے تعلقات سنبھالتا ہے، سفیروں سے بات کرتا ہے)
تنقید کے بعد یاد و شیم نے پوسٹ کے نیچے ایک وضاحتی پیغام شامل کیا کہ بیج پہننے کا حکم جرمن حکام کے کہنے پر نافذ ہوا تھا بعد ازاں ادارے کے چیئرمین دانی دیان نے مزید وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا کہ یاد و شیم کی تمام تحقیقی دستاویزات میں واضح ہے کہ پولینڈ اُس وقت مکمل طور پر جرمن قبضے میں تھا، کوئی بھی مختلف تاثر درست نہیں۔
خیال رہےکہ معاملہ اُس پوسٹ سے شروع ہوا تھا جو ایکس (سابق ٹوئٹر) پر شائع ہوئی، جس میں لکھا گیا تھا کہ پولینڈ وہ پہلا ملک تھا جہاں یہودیوں کو شناختی بیج پہننے پر مجبور کیا گیا تاکہ انہیں باقی آبادی سے الگ کیا جاسکے، پوسٹ میں نہ تو نازی جرمن قبضے کا ذکر تھا نہ یہ واضح کیا گیا کہ یہ پابندی جرمن حکام نے مسلط کی تھی، جس پر وارسا میں فوری ردعمل سامنے آیا۔
واضح رہےکہ پولینڈ اس موقف پر قائم ہے کہ وہ مکمل طور پر جرمن قبضے میں تھا، بطور ریاست اس نے کبھی نازیوں سے تعاون نہیں کیا اور تین ملین پولش یہودیوں سمیت لاکھوں شہری مارے گئے۔
دوسری جانب اسرائیل کو خدشہ ہے کہ پولینڈ بعض اوقات تاریخ کا مکمل تناظر بیان کرنے سے گریز کرتا ہے اور مقامی سطح پر یہودی دشمنی یا بعض تعاون کے واقعات کا ذکر کم کیا جاتا ہے حالانکہ مورخین ان واقعات پر تفصیل سے لکھ چکے ہیں۔
یاد رہےکہ جنگ سے پہلے پولینڈ تین ملین سے زائد یہودیوں کا گھر تھا، جہاں مذہبی، ثقافتی اور علمی سرگرمیوں سے بھرپور زندگی موجود تھی، ہولوکاسٹ نے اس تہذیبی ورثے کو تقریباً مکمل طور پر تباہ کر دیا، جنگ کے بعد صرف ایک چھوٹا یہودی طبقہ باقی بچا جو کمیونسٹ دور میں بھی وقتاً فوقتاً یہودی دشمنی کا شکار ہوتا رہا ۔