data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس انعام امین منہاس نے خبردار کیا ہے کہ اگر تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی میں کوئی بھی ملوث پایا گیا تو ذمہ داری ادارے کے پرنسپل پر عائد ہوگی اور کارروائی بھی انہی کے خلاف کی جائے گی۔

وفاقی تعلیمی اداروں میں منشیات کے پھیلاؤ سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد پولیس نے عدالت میں اپنی رپورٹ پیش کی، جس کے مطابق رواں سال اب تک 1314 منشیات سے متعلق مقدمات درج کیے جا چکے ہیں اور 1408 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تعلیمی اداروں کے آس پاس کے علاقوں سے 22 منشیات فروشوں کو گرفتار کیا گیا، جن سے مجموعی طور پر 3 کلو ہیروئن، 3 کلو آئس اور 18 کلو چرس برآمد کی گئی۔

سماعت کے دوران پولیس اور سرکاری وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ منشیات کے خلاف “نشہ اب نہیں” کے عنوان سے ایک مہم شروع کی گئی ہے، جس کے تحت آگاہی سیمینارز منعقد کیے گئے اور تعلیمی اداروں میں کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔

جسٹس انعام منہاس نے ان اقدامات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ اسکولوں میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی کارکردگی کی باقاعدہ رپورٹ پیش کی جائے۔ انہوں نے ہدایت کی کہ تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کی سرگرمی یا چیز کی آمد کے لیے پرنسپل کی پیشگی اجازت لازمی قرار دی جائے۔

عدالت نے مزید کہا کہ منشیات کی اسمگلنگ ایک سنگین مسئلہ ہے، جس کے کئی طریقے ہیں، اس لیے جو افراد منشیات سمیت پکڑے جائیں، ان سے یہ بھی تفتیش کی جائے کہ وہ کن کن تعلیمی اداروں کو منشیات سپلائی کرتے رہے ہیں۔

عدالت نے یہ بھی ہدایت دی کہ ایس او پیز میں واضح طور پر شامل کیا جائے کہ اگر کسی تعلیمی ادارے سے منشیات کی شکایت موصول ہوئی تو اس کے پرنسپل اور مالک کے خلاف بھی کارروائی کی جائے گی۔

جسٹس انعام منہاس نے پولیس کو حکم دیا کہ جن تعلیمی اداروں کے اطراف سے مقدمات درج ہوئے ہیں، وہاں جا کر تحقیقات کریں اور اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر اسکول، کالج یا یونیورسٹی تک منشیات پہنچتی ہیں تو اس کی ذمہ داری ادارے کی انتظامیہ پر عائد ہوگی۔

ویب ڈیسک مقصود بھٹی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: تعلیمی اداروں میں کی جائے

پڑھیں:

پشاور ہائیکورٹ نے نومنتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے انتخاب کیخلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا

پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پشاور ہائیکورٹ نے نومنتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے انتخاب کیخلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔

نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق  نومنتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے انتخاب کیخلاف درخواست خارج  کر دی گئی،جے یو آئی نے وزیراعلیٰ کے انتخاب کو چیلنج کیا تھا۔

قبل ازیں پشاورہائیکورٹ میں نومنتخب وزیراعلیٰ کے انتخاب کے خلاف جے یو آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی،سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ گورنر نے کہا ہے آج نومنتخب وزیراعلیٰ سے حلف لیں گے ،عدالت نے کہا ہمیں پتہ ہے لیکن درخواست گزار کے وکیل کو سنتے ہیں، وہ کیا کہتے ہیں۔

نیٹ میٹرنگ 6 ہزارمیگاواٹ تک پہنچ گئی،نیٹ میٹرنگ لوڈ سے سسٹم کے استحکام کو خطرہ ہے: سیکرٹری پاور

وکیل درخواست گزار نے کہاکہ علی امین گنڈاپور کا استعفیٰ منظور نہیں ہوا، استعفیٰ منظور ہونے کے بعد وزیراعلیٰ کا انتخاب ہوتا ہے،کابینہ کو ابھی تک ڈی نوٹیفائی نہیں کیا گیا۔

جسٹس  سید ارشد علی نے کہاکہ وزیراعلیٰ استعفیٰ دیتا ہے تو پھر کابینہ تو ویسے بھی نہیں رہتی،عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ درخواست خارج کردیں یا آپ واپس لیں گے؟آئینی فورم نے ایک آرڈر کیا تو ہم کیسے اس میں مداخلت کریں ؟

سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ چیف جسٹس کا آرڈر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا،گورنر نے شیڈول جاری کیا، درخواست غیرموثر ہو گئی۔

شاندانہ گلزار کو وزیراعظم شہبازشریف کی اسرائیلی وزیراعظم کیساتھ ملاقات کا جھوٹا پراپیگنڈہ مہنگا پڑ گیا

وقفے کے بعد درخواست پر دوبارہ سماعت ہوئی تو وکیل درخواستگزار نے کہاکہ آپ میرٹ پر فیصلہ دیں،عدالت نے جے یو آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔بعدازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے نومنتخب وزیراعلیٰ کے انتخاب کے خلاف جے یو آئی کی درخواست خارج کردی۔

مزید :

متعلقہ مضامین

  • اسلام آباد ہائیکورٹ کا کتوں کو ہلاک کرنے پر متعلقہ حکام کیخلاف مقدمہ درج کرنے کا عندیہ
  • پشاور ہائیکورٹ: وزیراعلیٰ کے پی کے انتخاب کیخلاف جے یو آئی کی درخواست خارج
  • پشاور ہائیکورٹ نے نومنتخب وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے انتخاب کیخلاف درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا
  • پشاور ہائیکورٹ ؛نومنتخب وزیراعلیٰ کے انتخاب کیخلاف جے یو آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ 
  • حکومت کا ٹی ایل پی واقعے پر جعلی خبروں کیخلاف سخت ایکشن کا اعلان، مرکزی کرداروں کی فہرست تیار
  • وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے انتخاب کیخلاف جمعیت علمائے اسلام کی درخواست، سماعت آج ہوگی
  • جس افسر نے کام کرنا ہے وہ کام کا ہے، جو نہیں کرتا وہ گھر جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ
  • جس افسر نے کام کرنا ہے وہ کام کا ہے، جو نہیں کرتا وہ گھر جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ