WE News:
2025-10-18@17:25:12 GMT

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ

اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT

بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ واجد کو سزائے موت دینے کا مطالبہ

بنگلہ دیش کی ایک خاص ٹریبونل عدالت نے سابق وزیرِ اعظم شیخ حسینہ واجد کے خلاف جرائمِ بشریت کے الزامات پر موت کی سزا کا مطالبہ کیا ہے، جن کا تعلق جولائی-اگست 2024 میں ہونے والے طلبہ احتجاجی مظاہروں کے دوران ہونے والی ہلاکتوں سے ہے۔

الزامات اور الزامات کی نوعیت

پروسی کیوشن کے مطابق مظاہروں کے دوران سیکڑوں طلبہ، پولیس اہلکار اور سیاسی کارکنان ہلاک ہوئے، اور شیخ حسینہ نے مظاہرین کی کریک ڈاؤن کے احکامات دیے، یا کم از کم ان واقعات کی روک تھام میں ناکام رہیں۔

یونائیٹڈ نیشنز کے مطابق یہ ہلاکتیں ممکنہ طور پر جرائمِ بشریت کی حیثیت رکھتی ہیں۔

شیخ حسینہ کی موجودہ حالت اور مقدمے کا پسِ منظر

یاد رہے کہ شیخ حسینہ واجد ملک سے باہر ہیں اور عدالتِ سے غیر حاضری میں مقدمے کا سامنا کر رہی ہیں۔ ان پر یہ الزام ہے کہ انہوں نے عوامی احتجاج کے دوران طاقت کا غیر متناسب استعمال کیا۔

پروسیکیوشن کا مؤقف ہے کہ وہ ایک ایسے مرکزی کردار کے طور پر ذمہ دار ہیں جس کے گرد تمام جرائم جولائی-اگست کی بغاوت کے دوران گھومتے تھے۔

سیاسی اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی تشویش

متعدد انسانی حقوق کی تنظیمیں اور سیاسی حلقے عدالت کے فیصلے اور مقدمے کی شفافیت پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ شیخ حسینہ کے خلاف عائد الزامات کی اِنتہائی سنگینی کے پیش نظر مناسب قانونی شواہد اور انصافِ مؤثر ضروری ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: کے دوران

پڑھیں:

جرائم اور طاقت کی دنیا عام انسان کو اتنی پرکشش کیوں لگتی ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 18 اکتوبر 2025ء) سینما ہال میں خاموشی اور اندھیرا چھایا ہوا ہے۔ پردے پر ایک گینگسٹر پولیس کو للکارتا ہے اور ہال تالیوں سے گونجنے لگتا ہے۔ یہ گینگسٹر دیسی فلموں کا سلطان راہی، بالی وڈ فلم کا سردار یا ہالی وڈ کے گاڈ فادر گینگ کا کوئی بھی کردار ہو سکتا ہے۔ اس کی طاقت کو سراہنے والے تماشائی وہ لوگ ہیں جو روز اپنے دفتر، دکان یا رکشہ چلاتے ہوئے معمولی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔

سماجی ماہرین اور نفسیات دانوں کے مطابق یہ تضاد حیران کن اور دلچسپ ہے۔ آخر ہم ان لوگوں سے اتنے متاثر کیوں ہوتے ہیں جو قانون توڑتے ہیں، جو طاقت اور خطرے کی سرحد پر جیتے ہیں؟

یہ سوال محض فلموں یا فرضی کرداروں تک محدود نہیں بلکہ حقیقی زندگی میں بہت سے ایسے لوگ ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

حال ہی میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارا جانے والا پشاور کا ملک آدم خان ہو یا لاہور کا طیفی بٹ، سوشل میڈیا پر لاکھوں کی فالوئنگ رکھنے والے ایسے افراد کی جرائم پیشہ زندگی لوگوں سے ڈھکی چھپی نہیں ہوتی ، مگر لوگوں کا رویہ نفرت سے زیادہ دلچسپی اور تجسس پر مبنی ہوتا ہے۔

طاقت، خطرہ اور بغاوت: انسانی کشش کی جڑیں کہاں ہیں؟

2011 میں شائع ہونے والی تحقیق ''اٹریکٹڈ ٹو کرائم: یورپ کے تین شہروں میں مجرمانہ رجحان کی جانچ‘‘ جرائم سے دلچسپی کو غربت، محرومی اور غیر مساوی مواقع سے جوڑنے والے روایتی نظریات کو چیلنج کرتی ہے۔

امریکہ کے جسٹس ڈیپارٹمنٹ کی ویب سائٹ پر موجود اس تحقیق کے مطابق سنسنی، بغاوت اور طاقت کے احساس سے جڑی سرگرمیاں عام انسان کے لیے ایک خاص قسم کی کشش اور گرمجوشی رکھتی ہیں، یہ الگ بات کہ وہ حقیقی زندگی میں موقع ملنے پر ایسا قدم نہ اٹھا سکے، مگر عام شخص اپنے اندر اس کی خواہش ضرور رکھتا ہے۔

یہ تحقیق بتاتی ہے کہ، ”جرم اور طاقت کی دنیا کی کشش محض سماجی عوامل کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی فطرت میں موجود خطرے، غلبے اور پابندیوں سے آزادی کی خواہش کا مظہر ہے۔ سماجی اصولوں اور اخلاقی ضابطوں کی حدود پار کرنے سے حاصل ہونے والا یہ لذت گیر احساس ہمیں بار بارجرائم پیشہ افراد یا باغی کرداروں کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے۔

"

اس نفسیاتی احساس کی وضاحت کرتے ہوئے نفسیات دان ڈاکٹر اسامہ بن زبیر ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتے ہیں، ”یہ تسکین بقا کی جبلت سے جڑی ہوئی ہے۔ انسانی دماغ کا نظام آج بھی قبائلی طرز زندگی کے زیر اثر ہے جہاں بقا کی ضمانت طاقت تھی۔ جرائم پیشہ افراد یا گینگسٹرز کا خطرہ مول لینا، اصول توڑنا اور دوسروں پر غلبہ حاصل کرنا ہمیں کسی پرانی فطری یاد کی طرح مسحور کرتا ہے۔

" کیا طاقت کی کشش ارتقاء سے جڑی ہے؟

قائد اعظم یونیورسٹی میں کرمنالوجی شعبے کے بانی اور ماہر سماجیات ڈاکٹر محمد زمان اس سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”انسانی دماغ ہمیشہ سے طاقت کو تحفظ کے ساتھ جوڑتا آیا ہے۔ ارتقائی طور پر وہی زندہ رہا جو زیادہ طاقتور تھا، اسی لیے دوسروں پر غلبہ پانے کی خواہش انسان کی گہری جبلتوں میں رچ بس گئی۔

شاید اسی فطری یادداشت کے باعث آج بھی انسان طاقتور کرداروں سے خوف نہیں بلکہ ایک عجیب سا اطمینان اور اعتماد محسوس کرتا ہے۔"

وہ کہتے ہیں، ”جو معاشرے ابھی تک قدیم رویے اور طاقت کے روایتی تصور سے جڑے ہیں وہاں طاقت کی گلوریفیکشن زیادہ ہے، جہاں ادارے اور سسٹم مضبوط ہیں وہاں ایسا کم ہے۔ ہمارا سماج روایتی طرز زندگی اور موثر سسٹم نہ ہونے کے سبب طاقتور اور باغی کرداروں کو زیادہ اہمیت دیتا ہے۔

" جرم کی ثقافتی فینٹسی: فلم کے پردے سے سوشل میڈیا پوسٹ تک

بہت سے ناقدین کی رائے ہے کہ گاڈ فادر اور سکارفیس جیسی فلموں نے جرم کی دنیا کو خوفناک سے زیادہ دلکش بنا کر پیش کیا اور ان کے اثرات دنیا بھر کے سینما اور سماج پر مرتب ہوئے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ثقافتی نقاد زیف سید کہتے ہیں، ”سوٹ، سگریٹ اور فلسفیانہ جملوں سے سجی گینگسٹر فلمیں شاید براہِ راست ذمہ دار نہ ہوں، مگر تشدد کو دلکش بنانے میں ان کا کردار انتہائی اہم اور وسیع ہے۔

سینما نے جرم کو ایک 'ڈرامیٹک رومانس‘ کی شکل دی، جہاں بندوق سے زیادہ کشش کردار کے اعتماد، انداز اور خود مختاری میں ہوتی ہے۔"

وہ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”سکارفیس میں تقریباً چالیس افراد کی موت دکھائی جاتی ہے لیکن فلم دیکھنے کے بعد ہمارے ذہنوں میں بے دردی سے مارے جانے والے مناظر کی بجائے ٹونی مونٹانا (فلم کا مرکزی کردار، ڈان) کی شان و شوکت اور طاقت کا نقش زیادہ گہرا ہوتا ہے۔

"

ڈیجیٹل کلچر کی محقق اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنسز اینڈ ٹیکنالوجی سے وابستہ اسکالر زنیرہ چوہدری سمجھتی ہیں کہ سوشل میڈیا نے جرائم کی دنیا کے بارے میں انسانی تجسس کو ایک نئی جہت دی ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”اب جرم صرف کہانی کا موضوع نہیں، وائرل مواد ہے۔ ہر شہر اور گاؤں کی ایک سوشل میڈیا کمیونٹی ہے جہاں ایسے لوگ ہیرو کی طرح راج کرتے ہیں۔

اگر طاقت اور پیسہ زیادہ ہے، جرائم کا دائرہ وسیع ہے تو ایسا ڈان پورے ملک میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ اور طیفی بٹ کی لڑائی کے قصے محض لاہور تک محدود نہیں رہے بلکہ یوٹیوب، ٹک ٹاک اور فیس بک کے زریعے پورے ملک میں پھیلے ہیں۔" سوشل میڈیا پر ایسے لوگوں کی مقبولیت عام افراد کو کس طرح متاثر کرتی ہے؟

زنیرہ چودھری کہتی ہیں، ”سوشل میڈیا نے اپنی ایک الگ زبان پیدا کی، جہاں طاقت، خطرہ، جارحیت اور بغاوت اکثر دلچسپ مواد کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔

لوگ بندوق، گاڑی، یا گینگ لائف کی ویڈیوز محض تشدد یا کسی کو اکسانے کے لیے نہیں بلکہ طاقت کی علامت کے طور پر پوسٹ کرتے ہیں۔"

ان کے نزدیک سوشل میڈیا نے تشدد کو خوبصورت بنانے کے رجحان کو بے حد فروغ دیا ہے کیونکہ، ”یہاں جارحیت کو لائکس، ویوز اور فالوورز کی شکل میں انعام ملتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ جہاں پہلے فلموں یا خبروں میں تشدد دکھایا جاتا تھا، اب عام لوگ خود اس کا حصہ بن کر تشدد کو تفریح بنا رہے ہیں۔ طاقت کا اظہار ثقافتی فینٹسی ہے جسے نوجوان بسر کرتے ہیں۔"

متعلقہ مضامین

  • انسدادِ دہشتگردی عدالت سے پی ٹی آئی وکلا کے وارنٹ گرفتاری جاری، خاور مانیکا تشدد کیس بھی زیرِ سماعت
  • خاور مانیکا پر تشدد کیس: پی ٹی آئی وکلا کو گرفتار کر کے پیش کرنے کا حکم
  • عمران خان دورانِ عدت نکاح  کیس کی سماعت میں خاور مانیکا پر تشدد؛ وکلا کو گرفتار کرکے پیش کرنے کا حکم
  • جرائم اور طاقت کی دنیا عام انسان کو اتنی پرکشش کیوں لگتی ہے؟
  • بنگلہ دیش میں نئے انتخابات کے لیے ’جولائی چارٹر‘ تیار، ادھوری سیاسی موجودگی کے دوران دستخطی تقریب
  • حسینہ واجد 1400 مرتبہ سزائے موت کی مستحق ہیں: چیف پراسیکیوٹر بنگلادیش
  • حسینہ واجد نے ایسے جرائم کیے کہ 1400 بار موت کی حقدار بنتی ہیں، چیف پراسیکیوٹر بنگلادیش
  • ٹرمپ کے سابق مشیر پر سنگین الزامات، امریکی محکمہ انصاف نے فردِ جرم عائد کردی
  • بنگلہ دیش کی مفرورشیخ حسینہ کو سزائے موت کا مطالبہ