شاہ رخ خان کے نزدیک ’دسترخوان‘ کی اہمیت کیا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
بالی ووڈ کے بے تاج بادشاہ معروف اداکار شاہ رخ خان المعروف کنگ خان کو یوں ہی بالی ووڈ کا بادشاہ نہیں کہا جاتا بلکہ انہوں نے اپنی اداکاری کے ساتھ ساتھ اپنے خیالات و نظریات سے بھی لاکھوں لوگوں کے دل جیتے ہیں۔
حال ہی میں کنگ خان کا ایک پرانا ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر دوبارہ وائرل ہوا ہے، جس میں انہوں نے سنتِ نبویﷺ کی پیروی کرتے ہوئے ’دسترخوان‘ پر کھانا کھانے کی اہمیت کو اجاگر کیا تھا۔
اداکار کہتے ہیں کہ ’ہمیں بچپن سے ’دسترخوان‘ پر بیٹھ کر کھانا کھانا سکھایا گیا ہے، اگر آپ زمین پر ٹانگیں اندر کی طرف موڑ کر بیٹھیں اور کھائیں، تو معدے کا ایک تہائی حصہ دب جاتا ہے۔ اس طرح آپ کبھی پیٹ کو مکمل نہیں بھرتے، لیکن محسوس ہوتا ہے کہ آپ سیر ہوگئے ہیں۔
شاہ رخ خان نے مزید کہا کہ ہم کھانا کھاتے ہوئے پیٹ بھر کر کھانا کھا لیتے ہیں، جبکہ تھوڑی بھوک باقی رہنے دینا صحت کے لیے ہمیشہ فائدہ مند ہوتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگرچہ میں اس کے سائنسی پہلو سے واقف نہیں ہوں لیکن یہ میرا عقیدہ ہے کہ کھانے کا یہی سب سے بہتر طریقہ ہے۔
مذکورہ وائرل ویڈیو نے ایک مرتبہ پھر سوشل میڈیا صارفین کے دل جیت لیے ہیں، صارفین شاہ رخ خان کے روایتی نظم و ضبط اور سادہ طرزِ زندگی کی تعریف کر رہے ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: شاہ رخ خان
پڑھیں:
بھارت میں سبزی خوری: ذاتی انتخاب یا ذات پات کی سیاست؟
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 اکتوبر 2025ء) گزشتہ ایک دہائی کے دوران، بھارت میں لوگوں کے کھانے پینے کے انتخاب پر بحث و مباحثے میں کافی تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔ حتیٰ کہ اس نے بعض اوقات پرتشدد صورت اختیار کرلی ہے۔
نریندر مودی کے 2014 میں وزیرِ اعظم بننے کے بعد سے، ملک کے کئی حصوں، خاص طور پر شمالی بھارت کی ہندی بولنے والی ریاستوں میں، گوشت کا استعمال کرنے والوں کو نشانہ بنانے والے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
کچھ صوبائی حکومتوں نے وقتاً فوقتاً ایسے احکامات بھی جاری کیے، جن کے تحت اسکولوں اور عبادت گاہوں کے قریب یا مذہبی تہواروں کے دوران گوشت اور گوشت پر مبنی کھانوں کو روکنے یا ان کے فروخت کی حوصلہ شکنی کی گئی ہے۔
بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے ضلع ڈوڈہ میں حکام نے حال ہی میں تمام تعلیمی اداروں میں گوشت، مچھلیوں اور انڈوں پر پابندی عائد کر دی۔
(جاری ہے)
ان کا کہنا تھا کہ یہ اقدام ''سیکولر اصولوں‘‘ کے تحفظ، ''سماجی ہم آہنگی‘‘ کے فروغ اور ''غذائی اختلافات سے پیدا ہونے والے مسائل‘‘ کو روکنے کے لیے ضروری ہے۔اس فیصلے پر تنقید ہوئی اور انفرادی آزادی، شمولیت اور مذہبی حساسیت کے حوالے سے خدشات پیدا ہوئے۔
بھارت کے تمام شہروں میں، ایسے کھانے سے متعلق ضابطے لوگوں کی روزمرہ زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
ممبئی کی ایک کارپوریٹ وکیل ابھیپ سیتا پرکایستھا کے مطابق، بہت سے لوگوں کو اپنی خوراک کی عادات کی وجہ سے رہائش گاہ تلاش کرنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب میں ممبئی منتقل ہوئی تو گھر تلاش کرنے کے دوران ایک ہی شرط سامنے آئی، سبزی خور ہونا لازمی ہے! جیسے ہی مکان مالک کو معلوم ہوا کہ ہم گوشت کھاتے ہیں، انہوں نے ہمیں مکان دینے سے انکار کر دیا۔
آخرکار ہمیں ایک ایسی عمارت میں فلیٹ ملا جہاں پڑوسیوں نے ہم سے مرغ کھانے سے اجتناب برتنے کا مطالبہ کیا۔ پچھلے دو سال سے ہم چکن کے پکوان چھپ کر کھاتے ہیں، اور ایسا کرتے وقت بھی لوگوں کی تجسس بھری نظروں سے محتاط رہتے ہیں۔‘‘ کھانوں پر پابندی یا شناخت ختم کرنے کی کوشش؟نئی دہلی کی ایک یونیورسٹی کی پروفیسر نبانِپا بھٹاچارجی نے بتایا کہ ایک بار ان کی ایک پڑوسن نے ان سے شکایت کی کہ ان کے کھانے کی خوشبو کھڑکی سے باہر جاتی ہے اس لیے انہوں نے ان سے کھڑکیاں بند کرلینے کو کہا۔
''اس نے کھانے کا نام نہیں لیا، صرف کہا کہ وہ 'فلاں‘ کھانا۔ حالانکہ سبزی خور کبھی کھڑکیاں بند نہیں کرتے، ان کا کھانا تو ایک مسلمہ معیار سمجھا جاتا ہے۔ لیکن میرا؟ مجھے ایک گنہگار سمجھا گیا، جس سے اپنے پسند کے کھانے چھوڑنے کی توقع کی جاتی ہے۔‘‘بھٹاچارجی کے ساتھ پیش آنے والا واقعے سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بھارت میں گوشت پر مبنی غذا کو بعض طبقات کیوں ناپسند کرتے ہیں، جس سے گوشت کھانے والے خود کو سماجی طور پر الگ تھلگ محسوس کرتے ہیں۔
بھٹاچارجی کے مطابق، سبزی خوری کا ہندو ثقافتی شناخت اور قومی فخر کے ساتھ تعلق ہی بھارت میں خوراک سے متعلق سماجی اصولوں کو تشکیل دیتا ہے۔
اسّی فیصد بھارتی گوشت کھاتے ہیںہندو قوم پرست گروہ سبزی خوری کو ''روایتی‘‘ ہندو اقدار کی علامت کے طور پر فروغ دیتے ہیں، جبکہ وہ بھارت میں موجود متنوع غذائی روایات، حتیٰ کہ ہندو برادریوں کے اندر بھی غذائی تنوع ، کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔
یہ گروہ اکثر گوشت کھانے کو مذہبی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات، جیسے مسلمانوں، عیسائیوں، آدی واسیوں (قبائلی برادریوں)، اور دلتوں، کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
ماہرِ غذائیت کرنمئی بھوشی کے مطابق ''بھارت میں گوشت خوری، خاص طور پر گائے کا گوشت کھانا، دلتوں اور آدی واسیوں سے جوڑا جاتا ہے جو سستی غذائیت کے لیے اس پر انحصار کرتے ہیں۔
یہ ذات پر مبنی درجہ بندی اور سماجی الگ تھلگ کو مضبوط کرتا ہے۔‘‘اگرچہ ہندو، جو ملک کی تقریباً 80 فیصد آبادی پر مشتمل ہیں، کی ایک بڑی تعداد بھی گوشت کھاتی ہے، لیکن غذائی عادات علاقے اور ذات کے لحاظ سے مختلف ہیں۔
شمالی ہندی بولنے والی ریاستوں میں سبزی خوری زیادہ عام ہے، جب کہ جنوبی اور شمال مشرقی بھارت میں زیادہ تر لوگ گوشت کھاتے ہیں۔
اسی طرح، دلت اور قبائلی برادریوں میں گوشت خوری عام ہے، جب کہ اعلیٰ ذاتوں میں سبزی خوری غالب ہے۔
تاہم، اعلیٰ ذاتوں میں بھی صرف اقلیت ہی مکمل سبزی خور ہیں، کئی لوگ کسی نہ کسی شکل میں گوشت کھاتے ہیں۔
سن دو ہزار اکیس میں پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق، تقریباً 40 فیصد بھارتی بالغ خود کو سبزی خور قرار دیتے ہیں۔ لیکن اسی سال کے نیشنل فیملی ہیلتھ سروے کے مطابق، پندرہ سے 49 سال کے 80 فیصد بھارتی کسی نہ کسی شکل میں گوشت کھاتے ہیں، جو بھارت کو زیادہ تر سبزی خور ملک سمجھنے کے عام تصور کے برعکس ہے۔
خوراک، پاکیزگی اور سماجی درجہ بندیمحققین طویل عرصے سے بھارت کے ذات پات کے نظام اور خورد ونوش کی عادات کے درمیان اس تعلق کو اجاگر کرتے آئے ہیں جو ''پاکیزگی‘‘ اور ''آلودگی‘‘ کے تصورات پر مبنی ہے۔ ان کے مطابق، یہ تصورات ذات پات کے نظام کی جڑوں میں ہیں۔
کرنمئی بھوشی کہتی ہیں کہ بھارت کی ''سبزی خور ملک‘‘ کی شبیہ دراصل اعلیٰ ذات ہندوؤں، خصوصاً برہمنوں اور بنیوں، کے کھانے پینے کی عادات سے متاثر ہے، جنہوں نے رسم و رواج کے طور پر پاکیزگی اور سماجی مرتبے کی علامت کے طور پر سبزی خوری اپنائی۔
تاہم، وہ زور دیتی ہیں کہ حقیقت اس سے مختلف ہے۔
مثلاً مشرقی ریاست مغربی بنگال کے کئی برہمن مچھلی کھاتے ہیں۔
سنسکرت اسکالر پُنیتا شرما کا کہنا ہے کہ کھانے پینے کی عادات دراصل آب و ہوا اور جغرافیہ سے متاثر ہوتی ہیں، جو غذائی وسائل کی دستیابی طے کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ''بھارت میں روایتی غذائیں قدرتی وسائل اور موسمی دستیابی پر مبنی تھیں، جو ماحول اور کھانے پینے کی عادات کے درمیان گہرے تعلق کی عکاسی کرتی ہیں۔
‘‘شرما کے مطابق لوگ اپنی روایات اور ثقافت کا احترام کرنے کے لیے غذائی اصولوں پر عمل کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ''سبزی خور غذا زیادہ صحت مند ہے اور گوشت پر مبنی غذا کے مقابلے میں بیماریوں کا امکان کم کرتی ہے۔‘‘
شہری زندگی اور کھانے پینے میں تبدیلیاںحال کے برسوں میں بھارت میں کھانے پینے کی عادات میں تبدیلی آئی ہے، کیونکہ زیادہ سے زیادہ نوجوان بہتر مواقع کے لیے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔
یہ نوجوان اب طرح طرح کے کھانا کھانے لگے ہیں، جن میں گوشت بھی شامل ہے۔
کرنمئی بھوشی کے مطابق، ''یہ تبدیلی شہری کاری اور بڑھتی ہوئی آمدنی کی وجہ سے ہے، جو روایتی سبزی خور اصولوں سے آگے غذائی تنوع کو فروغ دے رہی ہے۔‘‘
شہری نوجوانوں میں ایک نیا رجحان ویگان ازم کا بھی بڑھ رہا ہے۔
بہت سے نوجوانوں کے لیے، جیسے 24 سالہ اُجل چکرورتی، یہ صرف طرزِ زندگی کا انتخاب نہیں بلکہ ذات پر مبنی سبزی خوری کے خلاف ایک نظریاتی موقف ہے۔
انہوں نے کہا، ''بھارت میں ویگان ازم ابھی نیا ہے اور اکثر اسے ذات سے جڑی سبزی خوری کے ساتھ الجھا دیا جاتا ہے۔ لیکن ویگان ازم کا تعلق ماحولیات سے ہے، ذات سے نہیں۔‘‘
چکرورتی کے مطابق، سوشل میڈیا کے اثر و رسوخ رکھنے والے افراد اور کارکنوں نے ویگان ازم کو ایک اخلاقی، قابلِ فخر اور ذات پات سے ماورا انتخاب کے طور پر اجاگر کیا ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ