آئی ایم ایف پاکستان پر قومی مفاد کیخلاف کوئی شرط عائد نہیں کر سکتا: وزیر خزانہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
واشنگٹن (نیوزڈیسک) وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان پر قومی مفاد کے خلاف کوئی شرط عائد نہیں کر سکتا۔
واشنگٹن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے ہونے والے حالیہ مذاکرات مثبت اور تعمیری ثابت ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول مذاکرات میں ٹیکس اصلاحات اور معیشت کی بہتری سے متعلق امور پر تفصیلی بات چیت ہوئی، اب تک تمام اصلاحات پاکستان کی اپنی معاشی ترجیحات کے مطابق ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کے تحت کی گئی اصلاحات نے معیشت کو مستحکم کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو 31 دسمبر تک آئی ایم ایف سے 1.
وزیر خزانہ نے کہا کہ پاکستان میں ٹیکس اصلاحات کے نظام کو پذیرائی مل رہی ہے، کئی امریکی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کی خواہش مند ہیں، نہ صرف امریکی و بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کے معاشی اقدامات پر اعتماد کا اظہار کیا بلکہ مصر جیسے ممالک نے بھی پاکستان کی اقتصادی پالیسیوں کو سراہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکا کے ساتھ تجارتی و ٹیرف معاہدہ ایک سے دو ہفتوں میں متوقع ہے، حکومت نیویارک کے روز ویلٹ ہوٹل کی نجکاری سے متعلق فیصلے کے قریب ہے۔
محمد اورنگزیب نے کہا کہ پاکستان تیزی سے معاشی بحالی کے راستے پر گامزن ہے اور آنے والے دنوں میں چینی سرمایہ کاری سے ترقی کے مزید مواقع پیدا ہوں گے، حکومت کا ہدف معیشت کو مستحکم کرنا اور عالمی برادری کا اعتماد بحال رکھنا ہے، جس میں اب تک نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف نے کہا
پڑھیں:
پاکستان میں اشرافیہ اصلاحات اور معاشی ترقی میں بڑی رکاوٹ
کراچی:ترقی پذیر ممالک میں ایلیٹ کی گرفت کوئی انوکھی بات نہیں مگر پاکستان میں یہ رجحان کہیں زیادہ گہرا، وسیع اور مالیاتی طور پر نقصان دہ صورت اختیار کر چکاہے۔
آئی ایم ایف کے تازہ سیاسی معیشت کے تجزیے کے مطابق پاکستان میں اقتدار اورفوائد پرقبضہ کسی ایک طبقے کانہیں بلکہ مختلف طاقتور گروہوں،عسکری اداروں، سیاسی خانوادوں، بڑے زمینداروں، تحفظ یافتہ صنعتی لابیوں اور شہری تجارتی مراکزکے درمیان بٹ چکاہے.
یہ گروہ ایک متحدہ اشرافیہ کی طرح نہیں بلکہ مسابقتی مفاداتی بلاکس کی شکل میں کام کرتے ہیں جو ریاستی فیصلوں کوکمزور اورمعاشی پالیسیوں کوغیر مربوط بناتے ہیں۔ نتیجتاً اصلاحات بار بار رک جاتی ہیں، ٹیکس کادائرہ نہیں بڑھ پاتا اور ریاست مسلسل مالیاتی بحران کاشکاررہتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ٹیکس چھوٹ،مراعاتی ٹیرف، پسندیدہ صنعتوں کیلیے سبسڈیز اور بڑے غیر رسمی کاروباری طبقات کی حفاظت نے قومی آمدنی کوشدیدنقصان پہنچایاہے۔ جہاں دیگر ممالک بحرانوں کے بعدٹیکس اصلاحات پر زوردیتے ہیں، پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی تناسب جوں کا توں یا بدتر ہوجاتاہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ پاکستان میں ایلیٹ کی گرفت صرف معاشی نہیں، بلکہ گہرے سیاسی و ادارہ جاتی ڈھانچے میں پیوست ہے۔ سول و عسکری عدم توازن،سیاسی انتشار اور بیوروکریسی کی جمودی سوچ اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
تجزیے میں سفارش کی گئی ہے کہ پاکستان کو روایتی اصلاحاتی نسخے نہیں،بلکہ ایک ایسے فریم ورک کی ضرورت ہے،جو سیاسی حقیقتوں کے مطابق ہو،جیسے ٹیکس نظام کی ڈیجیٹل اصلاح،مراعات کے بجائے کارکردگی پر مبنی سہولیات،سنگاپور ماڈل کے مطابق ایس او ایز کی غیر سیاسی نگرانی،شفاف معاشی فیصلہ سازی کے فورمز اور سب سے بڑھ کر پائیدارسیاسی استحکام ضروری ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کی مشکل محض ایلیٹ کی گرفت نہیں بلکہ ’’ ایلیٹ ان ٹینگلمنٹ‘‘ ہے جس میں طاقت تقسیم تو ہے مگر تبدیلی کے خلاف متحد ہے، تاہم محتاط،مرحلہ وار اور سیاسی طور پر ہم آہنگ اصلاحات کے ذریعے صورتحال کو بہتر بنایاجاسکتاہے۔