Juraat:
2025-11-27@10:14:42 GMT

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی

اشاعت کی تاریخ: 27th, November 2025 GMT

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی

پنجاب کی قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی پہلے ہی سے متوقع تھی، کیونکہ اپوزیشن کے امیدواروں کو برابری کا میدان حاصل نہیں تھا۔ ان بے رونق انتخابات کا پی ٹی آئی نے بائیکاٹ کیا تھا اور پی ٹی آئی کی جانب سے بائیکاٹ کی کال کی وجہ سے ووٹر گھر سے باہر نہیں نکلے اور یہی ان انتخابات میں پی آٹی آئی کی کامیابی کی دلیل ہے اور اس سے ثابت ہوا کہ پنجاب کا ووٹر آج بھی عمران خان کے ساتھ ہے اور ان کی ہر کال پر لبیک کہنے کو تیار ہے، سوائے لاہور کی دو اور خیبرپختونخوا کے ہری پور کی نشستوں کے۔ وہاں بھی پی ٹی آئی کیلئے اپنی موجودگی کا احساس دلانا ناممکن تھا، کیونکہ اسے سیاسی اور قانونی دونوں سطحوں پر امتیاز کا سامنا تھا۔ یوں یہ اصل مقابلہ مرکز کی دونوں بڑی اتحادی جماعتوں، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)، کے درمیان تھااور نتیجہ بہرحال حکومتی اتحاد کے حق میں ہی آنا تھا۔

یہ حقیقت کہ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں دباؤ میں محسوس کر رہی تھی، اور لاہور میں بھی مؤثر واپسی ظاہر نہ کرسکی، پورے انتخابی عمل کی شفافیت پر سوالات اٹھاتی ہے اور ووٹرز کے نظام پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتی ہے۔ تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ان انتخابات سے مسلم لیگ (ن) کی قومی اسمبلی میں اکثریت کو مزید تقویت ملی ہے، پیپلز پارٹی صرف ایک صوبائی اسمبلی کی نشست جیت کر تسلی کی حد تک کامیابی حاصل کر سکی۔ کئی حلقوں میں، خاص طور پر لاہور میں، فارم 45 کی عدم دستیابی کی رپورٹس، پولیس کی غیر معمولی تعیناتی جس کا مقصد واضح طور پر اپوزیشن کو نشانہ بنانا تھا، امیدواروں کو ریٹرننگ افسران تک رسائی سے روکنا، پی ٹی آئی کیمپوں کو ہٹانا اور کارکنوں کی گرفتاریاں یہ سب واقعات بڑے پیمانے پر رپورٹ ہوئے، جو قبل از انتخاب دھاندلی کے مترادف ہیں۔اس طرح یہ انتخابی عمل حکمران جماعتوں کیلئے مثبت تاثر قائم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ اس کے برعکس، اس نے بالغ رائے دہی اور عوام کے آزادانہ انتخاب کے جذبے کو مجروح کیا ہے۔ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کلین سویپ کامیابی، اور اس کے ساتھ ہزارہ کے اہم حلقے ہری پور میں بھی جیت، اس کے ترقیاتی بیانیے کی عوامی توثیق نہیں کہلا سکتی۔ چونکہ اس کی بڑی حریف جماعت، پی ٹی آئی، اس کمزور اور غیر دلچسپ انتخابی مقابلے سے بڑی حد تک باہر رہی، اس لیے پنجاب جہاں مسلم لیگ (ن) گزشتہ چار دہائیوں سے غالب رہی ہے میں اس کی جیت پہلے سے ہی یقینی تھی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ حکمراں عت کو اس کے باوجودریاستی مشینری استعمال کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تاکہ مبینہ طور پر کئی حلقوں میں نتائج کو اپنے حق میں بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا سکے۔ مسلم لیگ (ن) کی فتح حقیقت ضرور ہے، مگر اس مقبولیت کی کہانی کھڑی کرنے کے لیے جس طریقہکار کا سہارا لیا گیا، اس نے اس کامیابی کو مشکوک بنا دیا ہے، چاہے اسے مکمل طور پر ناقابلِ اعتبار نہ بھی بنائے۔ وہ جیت جس کے لیے نہ کوئی مضبوط حریف موجود ہو، اور نہ ہی شفاف انتخابی عمل، دراصل کھوکھلی ہوتی ہے۔دوسری جانب، پی ٹی آئی نے انتخابی عمل سے دور رہ کر جمہوریت کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایالیکن اس کے پاس بائیکاٹ کے سوا کوئی راستہ نہیں بچاتھا۔ یہ خیال کہ بہرحال جیتنے نہیں دیا جائے گاپارٹی کے اندر تیزی سے پھیل چکا تھا، اور ساتھ ہی پارٹی اور اس کی قیادت پر دباؤ، اور فروری 2024 کے انتخابات میں اس کے مینڈیٹ کو نظرانداز کیے جانے کے تجربے نے بائیکاٹ کے فیصلے کو تقویت دی۔ تاہم ضمنی انتخابات کا بائیکاٹ کرکیپی ٹی آئی نے اپنی عوامی حمایت کو متحرک کرنے کا ایک بڑا موقع کھو دیا، جو ایک بھرپور انتخابی مہم کے ذریعے ممکن تھا۔ اس کے کارکنوں پر کسی بھی کریک ڈاؤن سے اس کے مخالفین مزید بے نقاب ہوتے۔ بینظیر بھٹو نے بھی برسوں بعد 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کو بڑی غلطی قرار دیا تھا، جس سے ضیا حامی قوتوں کو کھلا میدان مل گیا تھا۔ پی ٹی آئی بھی اس فیصلے پر پچھتائے گی ۔

مسلم لیگ (ن) کی اس بھاری کامیابی سے اسے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت مل چکی ہے اور وہ اب قانون سازی کے لیے اپنے اتحادیوں کی محتاج نہیں رہی۔ دوسری طرف، ان ضمنی انتخابات نے پیپلز پارٹی کی وہ معمولی امید بھی ختم کر دی ہے کہ شاید وہ گزشتہ 15برس میں پنجاب میں کھوئی ہوئی سیاسی زمین کا کچھ حصہ واپس حاصل کر لے۔ واحد صوبائی نشست جو وہ جیت سکی ہے وہ مظفرگڑھ کی ہے جو خود مسلم لیگ (ن) نے اسے دے دی تھی۔ یہ بات کہ مسلم لیگ (ن) نے ڈی جی خان میں اپنی اتحادی جماعت کو جگہ دینے سے بھی انکار کر دیا، واضح کرتی ہے کہ وہ پنجاب میں نہ صرف پی ٹی آئی بلکہ پیپلز پارٹی کو بھی مکمل طور پر غیر مؤثر رکھنا چاہتی ہے، جو مستقبل قریب میں صوبے میں حاشیے پر ہی رہے گی۔مختصر یہ کہ اس پورے عمل میں صرف بڑی سیاسی جماعتیں ہی نہیں بلکہ جمہوریت کو بھی نقصان پہنچاہے۔
٭٭٭

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: ضمنی انتخابات انتخابات میں پیپلز پارٹی پی ٹی آئی ٹی آئی کی مسلم لیگ ہے اور

پڑھیں:

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے کلین سویپ نے قومی اسمبلی میں نمبر گیم بدل دی

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے کلین سویپ نے قومی اسمبلی میں نمبر گیم بدل دی WhatsAppFacebookTwitter 0 24 November, 2025 سب نیوز

اسلام آباد (سب نیوز)ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے کلین سویپ نے قومی اسمبلی میں نمبر گیم بدل دی اور حکمران جماعت کا سادہ اکثریت کے لیے سب سے بڑی اتحادی پاکستان پیپلز پارٹی پر انحصار بھی ختم ہوگیا ، یہ ضرورت کابینہ میں شامل چھوٹی اتحادی جماعتوں کی حمایت سے پوری ہوجائے گی۔
ضمنی انتخابات میں مزید 6نشستیں ملنے کے بعد قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی نشستوں کی تعداد بڑھ کر 132 ہوگئی جبکہ سادہ اکثریت کے لیے حکمران اتحاد کو 169 اراکین درکار تھے، پیپلز پارٹی کے بغیر کابینہ میں شامل دوسری اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 170 ہوگئی۔74 نشستوں کے باوجود ایوان میں پیپلز پارٹی کا اتحادی کردار کمزور ہوگیا اور اب حکومت کو اپنا وجود برقرار رکھنے اور قانون سازی کے لیے پیپلز پارٹی پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔
قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم کی 22، مسلم لیگ ق کی 5، استحکام پاکستان پارٹی کی 4، مسلم لیگ ضیا، بی اے پی اور نیشنل پارٹی کی ایک ایک نشست ہے جبکہ آزاد ارکان کی تعداد 4 ہے۔ن لیگ قومی اسمبلی میں دیگر اتحادیوں کو ساتھ مل کرآزادانہ طور پر قانون سازی کی پوزیشن میں آگئی۔دوسری جانب اپوزیشن کے ارکان کی تعداد 89 ہے، پی ٹی آئی حمایت یافتہ آزاد ارکان کی تعداد 75 جبکہ جے یو آئی کے 10 ارکان ہیں۔بی این پی، پی کے میپ، ایم ڈبلیو ایم اور سنی اتحاد کونسل کا ایک ایک رکن ہے، 336 کے ایوان میں 3 نشستیں تاحال خالی ہیں۔
مخصوص نشست پر منتخب خاتون رکن صدف احسان کو جے یو آئی نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا، معاملہ سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔ این اے 175 مظفرگڑھ سے منتخب جمشید دستی کو جعلی ڈگری پر نا اہل قرار دیا گیا۔معاملہ لاہور ہائیکورٹ میں زیر سماعت ہے۔این اے 1 چترال سے منتخب عبدالطیف کو نو مئی کیس میں نااہل کیا گیا، ان کا معاملہ بھی عدالت میں زیر التوا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرنیب نے عدم ثبوت کی بنیاد پر سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین کیخلاف انکوائری بند کردی نیب نے عدم ثبوت کی بنیاد پر سابق چیئرمین واپڈا لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ مزمل حسین کیخلاف انکوائری بند کردی وزیراعلی خیبرپختونخوا نے چشمہ رائٹ بینک کینال منصوبے میں تاخیر پر وزیراعظم کو خط لکھ دیا دھاندلی کا الزام ، الیکشن کمیشن نے اسد قیصر کے بیان کا نوٹس لے لیا، کارروائی کا عندیہ چوہدری شہزاد ہنجرا کی جانب سے معزز مہمانوں کے اعزاز میں پرتکلف عشائیہ ،کمیونٹی اتحاد و بھائی چارے کی شاندار مثال برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کا برطانوی ویزا کے خواہش مند پاکستانیوں کو مشورہ چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا کی زیر صدارت جاری ترقیاتی منصوبوں کے حوالے سے جائزہ اجلاس TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن نے ضمنی انتخابات میں کامیاب امیدواروں کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا
  • ضمنی انتخابات:ن لیگ قومی کی تمام 6 اور پنجاب اسمبلی کی 7 میں سے 6 سیٹوں پر کامیاب
  • ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن )کی جیت
  • ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے کلین سویپ نے قومی اسمبلی میں نمبر گیم بدل دی
  • ضمنی انتخابات؛ نواز شریف کی مسلم لیگ ن کے کامیاب امیدواروں کو مبارکباد
  • ضمنی انتخابات میں کامیابی پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں، نواز شریف
  • عوام نے انتشار نہیں ترقی کا راستہ چن لیا، نواز شریف کی ضمنی انتخابات میں کامیابی پر مبارکباد
  • ن لیگ کی ضمنی انتخابات میں کامیابی، مریم نواز کی کارکردگی وجہ بنی؟
  • کہاں گئی مقبولیت؟ مریم نواز کی ن لیگ کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی پر تنقید