ریلوے ہسپتال بہاولنگر کی لیز سے متعلق مبینہ آڈیو لیک کا معاملہ، انکوائری میں سابق ڈی ایس ملتان پر کرپشن کے الزامات بے بنیاد قرار
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
پاکستان ریلوے کی جانب سے سابق ڈویژنل سپرنٹنڈنٹ (ڈی ایس) ملتان محمود لاکھو کے مبینہ آڈیو لیک کے حوالے سے مکمل انکوائری رپورٹ قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کی ذیلی کمیٹی کو پیش کر دی گئی۔ رپورٹ میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ آڈیو لیک میں کرپشن یا کسی قسم کی غیر قانونی مالی فائدے کے الزامات کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی ریلوے کی زیلی کمیٹی کا اجلاس پیر کو کنوینر کمیٹی ملک ابرار احمد کی زیر صدارت پارلیمنٹ ہائوس میں منعقد ہوا۔ ڈاکٹر مہرین رزاق بھٹو، محمد الیاس چوہدری اور وسیم حسین(وڈیو لنک) کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے۔ سیکرٹری ریلوے بورڈراحت مرزا، اے جی ایم انفراسٹرکچر ، ڈی ایس سکھر محمود لاکھو، ڈی جی پراپرٹی اینڈ لینڈ شاہد عباس ملک اجلاس میں موجود تھے۔سیکرٹری ریلوے بورڈ راحت مرزا نے سب کمیٹی کو انکوائری رپورٹ سے متعلق بتایا کہ یہ انکوائری ڈائریکٹر جنرل پاکستان ریلوے اکیڈمی والٹن، سفیان سرفراز ڈوگر نے کی، جنہیں یہ ذمہ داری دی گئی تھی کہ وہ اس امر کا تعین کریں کہ آیا سابق ڈی ایس نے بہاولنگر ریلوے ہسپتال کی لیز کے معاملے میں کسی قسم کا غیر قانونی مالی مفاد حاصل کرنے کی کوشش کی یا نہیں۔ رپورٹ کے مطابق آڈیو لیک میں جس عمارت کا ذکر کیا گیا وہ گزشتہ 15 برس سے بہاولنگر میں ایک فلاحی ہسپتال کے طور پر کام کر رہی ہے جہاں عوام کو مفت یا کم نرخوں پر علاج فراہم کیا جاتا ہے۔ انکوائری کے دوران لیز کے درخواست گزار زاہد محمود خان نے تحریری و زبانی طور پر واضح کیا کہ نہ تو کسی ریلوے اہلکار نے ان سے کوئی رشوت یا غیر قانونی فائدہ طلب کیا اور نہ ہی انہوں نے کسی کو ادائیگی کی۔انہوں نے کہا کہ وہ اپنے بھائیوں ڈاکٹر طیّب محمود اور ڈاکٹر طاہر محمود کے ساتھ اس ہسپتال کو خالص فلاحی بنیادوں پر چلا رہے ہیں۔زاہد محمود خان نے یہ بھی بتایا کہ ان کی سابق ڈی ایس محمود لاکھو سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ ہی وہ انہیں ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ لیز کا پورا عمل ریلوے لینڈ ڈائریکٹوریٹ کے ذریعے باضابطہ طریقہ کار کے مطابق مکمل ہوا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ آڈیو کے حصے سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیے گئے تاکہ ایک مخصوص تاثر پیدا کیا جا سکے جس سے محمود لاکھو کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ انکوائری رپورٹ کے اختتام پر سفارش کی گئی ہے کہ آڈیو لیک کے ذریعے لگائے گئے الزامات بے بنیاد، من گھڑت اور بدنیتی پر مبنی ہیں، اس کیس کو بند کر کے فائل کیا جائے۔رپورٹ میں کہا گیا کہ اس واقعے کے پسِ پردہ عناصر نے جان بوجھ کر ریلوے کے افسر کی ساکھ کو مجروح کرنے کے لیے غلط معلومات پھیلائیں جنہیں حقائق اور شواہد نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔کنوینر کمیٹی ملک ابرار احمد نے کہا کہ زاہد محمود جنہوں نےلیز لینی تھی انہوں نے حلفا ًبتادیا ہے کہ ڈی ایس ریلوے پر الزامات بے بنیاد ہیں تاہم سی سی او ریلوے کی جانب سے کراچی میں معزز اراکین کی موجودگی میں انکوائری کے بارے میں غلط بیانی کی گئی ہے۔ کمیٹی نے دونوں اطراف کی وضاحت اور انکوائری کمیٹی کی فائنڈنگ رپورٹ پر معاملہ نمٹا دیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: محمود لاکھو ا ڈیو لیک ریلوے کی ڈی ایس
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر جان بولٹن نے سنگین الزامات پر خود کو حکام کے حوالے کردیا
استغاثہ کے مطابق بولٹن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کی تیاری کے دوران دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حساس معلومات شیئر کیں۔ ان معلومات میں انٹیلی جنس بریفنگ کے نوٹس اور اعلیٰ سرکاری و غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیلات شامل تھیں۔ اسلام ٹائمز۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اور بعد ازاں ان کے سخت ناقد بننے والے جان بولٹن نے خفیہ معلومات کے غلط استعمال کے الزامات میں خود کو حکام کے حوالے کر دیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جان بولٹن پر جمعرات کو فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ وہ حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ کے تیسرے نمایاں ناقد ہیں، جنہیں قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے یہ اقدامات وفاقی اداروں کی غیر جانبداری سے جڑی دہائیوں پرانی روایات سے انحراف تصور کیے جا رہے ہیں۔ جان بولٹن جب گرین بیلٹ، میری لینڈ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے پہنچے تو انہوں نے صحافیوں سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ عینی شاہدین کے مطابق انہیں امریکی مارشل سروس کے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا گیا، جہاں انہوں نے باضابطہ طور پر خود کو حکام کے حوالے کیا۔ استغاثہ کے مطابق بولٹن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کی تیاری کے دوران دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حساس معلومات شیئر کیں۔ ان معلومات میں انٹیلی جنس بریفنگ کے نوٹس اور اعلیٰ سرکاری و غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیلات شامل تھیں۔
بولٹن نے اپنے بیان میں کہا "میں اپنے قانونی طرزِ عمل کا دفاع کرنے اور ٹرمپ کے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔" بولٹن کے وکیل ایبی لوول نے مؤقف اختیار کیا کہ بولٹن نے کوئی بھی معلومات غیر قانونی طور پر شیئر یا محفوظ نہیں کیں۔ رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران بارہا کہا تھا کہ وہ اپنے پہلے دورِ حکومت کے دوران ہونے والی قانونی تحقیقات کا بدلہ لیں گے۔ انہوں نے اپنی اٹارنی جنرل پام بونڈی پر دباؤ ڈالا کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں کریں، جن میں سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی اور نیو یارک اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز شامل تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک پراسیکیوٹر کو بھی برطرف کر دیا، جس پر وہ "سست روی" کا الزام لگاتے تھے۔ جان بولٹن، جنہوں نے ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں، بعد میں ان کے سخت مخالف بن گئے۔ اپنی یادداشتوں میں بولٹن نے ٹرمپ کو "صدر بننے کے ناقابل شخص" قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ جان بولٹن کے خلاف 2022ء میں تحقیقات شروع ہوئیں، جو ٹرمپ انتظامیہ سے پہلے کی بات ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ انصاف کے اندر یہ کیس کافی مضبوط سمجھا جا رہا ہے۔ فردِ جرم میں بولٹن پر آٹھ الزامات قومی دفاعی معلومات کے غلط استعمال اور دس الزامات ان کے غیر قانونی تحفظ سے متعلق لگائے گئے ہیں، جو سب جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہر الزام پر زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔ عدالت یہ فیصلہ مختلف قانونی عوامل کی بنیاد پر کرے گی۔ استغاثہ کے مطابق بولٹن اور ان کے دو رشتہ داروں، جن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، کے درمیان چیٹس میں اس بات پر گفتگو ہوئی کہ کتاب میں کس معلومات کا استعمال کیا جائے۔ بولٹن نے انہیں اپنے ’’ایڈیٹرز‘‘ قرار دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رشتہ دار بولٹن کی بیوی اور بیٹی ہیں۔ جب وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے اس مقدمے پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے مختصر جواب دیا کہ "وہ ایک برا شخص ہے۔"