صہیب مقصود کے ساتھ کروڑوں کا مبینہ فراڈ، حکومت پنجاب کی فوری کارروائی
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
پاکستان کرکٹ ٹیم کے مایہ ناز کھلاڑی صہیب مقصود کے ساتھ مبینہ فراڈ کے معاملے پر حکومتِ پنجاب اور پولیس حکام نے فوری ایکشن لیتے ہوئے ریجنل پولیس آفس (RPO) ملتان میں انہیں طلب کیا ہے۔ کرکٹر نے حکومتی اقدامات پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انصاف کی فراہمی کی اُمید ظاہر کی ہے۔
صہیب مقصود نے ایک پوسٹ میں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور حکومتِ پنجاب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ انہیں آر پی او آفس ملتان طلب کیا گیا ہے۔ کرکٹر کا کہنا ہے میں مکمل طور پر پُرامید ہوں کہ مجھے انصاف ملے گا۔ اور مجھے یقین دلایا گیا ہے کہ گاڑی اور پیسے واپس مل جائیں گے جو فراڈ کے ذریعے مجھ سے لیے گئے تھے۔
Thank you @MohsinnaqviC42 and @GovtofPunjabPK for Taking immidiate action and calling me to RPO office Multan and i m Fully assured to Get justice InshAAllah they assured me i will get justice inshAAllah and will get my car and money back which is taken by… https://t.
— Sohaib Maqsood (@sohaibcricketer) October 20, 2025
واضح رہے کہ صہیب مقصود نے گزشتہ روز سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ کے ذریعے الزام عائد کیا تھا کہ ملتان کے ایک کار شوروم کے مالک نے ان کے ساتھ تقریباً 1 کروڑ 40 لاکھ روپے مالیت کی گاڑی کا فراڈ کیا ہے۔ ان کے مطابق شوروم مالک نے گاڑی ان کی اجازت اور اصل دستاویزات کے بغیر فروخت کر دی، جب کہ اصل کاغذات اب بھی ان کے پاس موجود ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی کرکٹر کے ساتھ کروڑوں کا فراڈ، شوروم مالک پر سنگین الزامات
صہیب مقصود کا کہنا تھا کہ فراڈ میں نہ صرف ان کی گاڑی فروخت کی گئی بلکہ انہیں ایک جعلی دستاویزات والی گاڑی دی گئی، اور اس کے علاوہ 70 لاکھ روپے کی اضافی رقم بھی ہتھیالی گئی۔
انہوں نے اپنی پوسٹ میں حکومتِ پنجاب، نگراں وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی، پولیس حکام اور دیگر اعلیٰ شخصیات سے فوری کارروائی کی اپیل کی تھی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
پاکستانی کرکٹ ٹیم شو روم صہیب مقصود صہیب مقصود کے ساتھ فراڈ کار شو رومذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پاکستانی کرکٹ ٹیم صہیب مقصود صہیب مقصود کے ساتھ فراڈ کار شو روم صہیب مقصود کے ساتھ
پڑھیں:
مقصودِ حقیقی صرف فلاح اخروی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔۔۔ایک اور چیز جو انبیاء علیہم السلام کے طریق کار کو عام اہل دنیا کے طریقہ ہائے کار سے نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کی تمام جدوجہد میں مطلوب و مقصود کی حیثیت صرف خدا کی خوشنودی اور آخرت کی کامیابی کو حاصل ہوتی ہے۔ اس چیز کے سوا کوئی اور چیز ان کے پیش نظر نہیں ہوتی۔ اگرچہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی جدوجہد کی کامیابی سے اللہ کے دین کو اور دین کے لیے کام کرنے والوں کو دنیا میں بھی غلبہ اور تفوق حاصل ہوتا ہے۔ لیکن وہ اس بات کی دعوت کبھی نہیں دیتے کہ آؤ حکومت الٰہیہ قائم کرو یا اقتدار حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کرو۔ بلکہ دعوت صرف اللہ کے دین پر چلنے اور اس پر چلانے ہی کی دیتے ہیں۔ اس لیے کہ آخرت کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے خدا کے دین پر چلنا اور اسی پر دوسروں کو بھی چلنے کی دعوت دینا شرط ضروری ہے۔
اس کے برعکس اہل سیاست کی ساری تگ و دو کا مقصود اقتدار کا حصول ہوتا ہے۔ وہ اسی اقتدار کے حصول کے لیے اپنی تنظیم کرتے ہیں، اور اسی کے لیے لوگوں کو دعوت دیتے ہیں۔ یہ مقصود ایک خاص دنیوی مقصود ہے لیکن بعض لوگ اس پر دین کا ملمع کر کے اس چیز کو اس طرح پیش کرتے ہیں کہ وہ یہ اقتدار اپنے لیے نہیں چاہتے بلکہ خدا کے لیے یا اس کے دین کے لیے چاہتے ہیں، ضروری نہیں ہے کہ ان کی نیتوں پر شبہ کیا جائے، ہو سکتا ہے کہ وہ جس اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، وہ خدا ہی کے لیے استعمال کریں، لیکن اس سے جدوجہد کا نصب العین بالکل تبدیل ہو جاتا ہے اور اس نصب العین کی تبدیلی کا جدوجہد کی مزاجی خصوصیات پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ سچ پوچھیے تو یہ نصب العین کی تبدیلی سارے کام ہی کو بالکل درہم برہم کر کے رکھ دیتی ہے۔
ہم جس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں وہ اچھی طرح واضح اس طرح ہوتی ہے کہ اہل سیاست جس دنیوی اقتدار کے حصول کو تمام خیر وفلاح کا ضامن سمجھتے ہیں، یہاں تک کہ دین کی خدمت کا کوئی کام بھی ان کے نزدیک اس وقت تک انجام ہی نہیں دیا جا سکتا جب تک اقتدار حاصل نہ ہو جائے۔ اس اقتدار کو انبیاء علیہم السلام نے اس نصب العین کے لیے نہایت خطرناک سمجھا ہے جس کے داعی وہ خود رہے ہیں۔ چنانچہ متعدد احادیث سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپؐ نے صحابہؓ کو اس بات سے آگاہ فرمایا کہ میں تمہارے لیے فقر و غربت سے نہیں ڈرتا بلکہ اس بات سے ڈرتا ہوں کہ دنیا کی عزت و ثروت تمہیں حاصل ہوگی اور تم اس کے انہماک میں اصل نصب العین یعنی آخرت کو بھول جاؤ گے۔ آپ کا ارشاد ہے، خدا کی قسم میں تمہارے لیے فقر سے نہیں ڈرتا، بلکہ جس بات سے ڈرتا ہوں وہ یہ ہے کہ یہ دنیا جس طرح تم سے پہلے والوں کے لیے کھول دی گئی، اسی طرح تمہارے لیے بھی کھول دی جائے گی، پھر جس طرح وہ اس کی بھاگ دوڑ میں مصروف ہوگئے، اسی طرح تم بھی اس کے لیے بھاگ دوڑ میں مبتلا ہو جاؤ گے۔ پھر یہ تمہیں بھی اسی طرح ہلاک کر چھوڑے گی جس طرح اس نے تمہارے پہلوں کو ہلاک کر چھوڑا۔
مذکورہ حدیث سے یہ حقیقت اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کی جدوجہد میں اصل مطمح نظر کی حیثیت آخرت کو حاصل ہوتی ہے۔ دنیا کا اقتدار اس نصب العین کے لیے مفید بھی ہو سکتا ہے اور مضر بھی، بلکہ مضر ہونا زیادہ اقرب ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے طریقہ پر کام کرتے ہیں وہ اس اقتدار کو بھی خدا کی ایک بہت بڑی آزمائش سمجھتے ہیں، اور ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جس طرح غربت اور فقر کے دور میں انہیں آخرت کے لیے کام کرنے کی توفیق حاصل ہوئی ہے، اسی طرح امارت و سیادت کے دور میں بھی اس نصب العین پر قائم رہنے کی سعادت حاصل ہو۔ انبیاء علیہم السلام کی دعوت میں اس امر کا کوئی ادنیٰ نشان بھی نہیں ملتا کہ اقتدار کو انہوں نے اصل نصب العین سمجھا ہو یا اصل نصب العین کے لیے اس کو کوئی بڑی سازگار چیز سمجھا ہو۔
ہماری اس تقریر سے کسی صاحب کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ رہبانیت کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم رہبانیت کی دعوت نہیں دے رہے ہیں بلکہ اس حقیقت کو واضح کرنا چاہتے ہیں کہ انبیاء علیہم السلام کی تمام جدوجہد کا مقصود آخرت ہوتی ہے، وہ اسی کے لیے خلق خدا کو دعوت دیتے ہیں، اسی کے لیے لوگوں کو منظم کرتے ہیں، اسی کے لیے جیتے ہیں، اور اسی کے لیے مرتے ہیں، اسی چیز سے ان کی جدوجہد کا آغاز ہوتا ہے، اور اسی چیز پر اس کی انتہا ہوتی ہے، ان کی تمام سرگرمیوں میں محرک کی حیثیت بھی اسی چیز کو حاصل ہوتی ہے، اور غایت و مقصود کی حیثیت بھی اسی کو حاصل ہوتی ہے، وہ دنیا کو آخرت کے منافی نہیں قرار دیتے، بلکہ دنیا کو آخرت کی کھیتی قرار دیتے ہیں۔ ان کی دعوت یہ نہیں ہوتی کہ لوگ دنیا کو چھوڑ دیں، بلکہ اس بات کے لیے ہوتی ہے کہ وہ اس دنیا کو آخرت کے لیے استعمال کریں۔
ان کے ہر کام پر ان کے اس نصب العین کے حاوی ہونے کا خاص اثر یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی جدوجہد میں کسی ایسی چیز کو کبھی گوارا نہیں کرتے جو ان کے اس اعلیٰ نصب العین کی عزت و حرمت کو بٹہ لگانے والی ہو۔ ان کے مقصد کی طرح ان کے وسائل و ذرائع بھی نہایت پاکیزہ ہوتے ہیں۔ وہ کامیابی حاصل کرنے کی دھن میں کبھی ایسی چیزوں کا سہارا حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے، جن کی پاکیزگی مشتبہ اور مشکوک ہو۔ ان کی کامیابی اور ناکامی کا فیصلہ کرنے والی میزان بھی چونکہ اس دنیا میں نہیں بلکہ آخرت میں ہے، اسی وجہ سے ان کی کامیابی اور ناکامی کے معیارات بھی عام اہل سیاست کے معیارات سے بالکل مختلف ہیں۔ اہل سیاست کے ہاں تو کامیابی کا معیار ان کے نصب العین کے لحاظ سے یہ ہے کہ ان کو دنیا میں اقتدار حاصل ہو جائے۔ اگر یہ چیز ان کو حاصل نہ ہو سکے تو پھر وہ ناکام و نامراد ہیں، لیکن انبیاء کے طریقہ پر جو لوگ کام کرتے ہیں ان کی کامیابی کے لیے صرف یہ شرط ہے کہ وہ اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ پر صرف اللہ ہی کی رضا کے لیے کام کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ اسی حالت پر ان کا خاتمہ ہو جائے۔ اگر یہ چیز ان کو حاصل ہوگئی تو وہ کامیاب ہیں، اگرچہ ان کے سایہ کے سوا کوئی ایک متنفس بھی اس دنیا میں ان کا ساتھ دینے والا نہ بن سکا ہو، اور اگر یہ چیز ان کو حاصل نہ ہو سکی تو وہ ناکام ہیں، اگرچہ انہوں نے تمام عرب و عجم کو اپنے اردگرد اکٹھا کر لیا ہو۔
بہرحال ہمارے نزدیک اسلام اور اسلامی زندگی کے احیاء کے لیے کام کرنے والوں کو اہل سیاست کے طریقوں سے کلیۃً پرہیز کرنا چاہیے۔ انہیں حصول اقتدار کی خواہش، ووٹ حاصل کرنے کی غرض اور سیاسی جوڑ توڑ کے ہر شعبہ سے پاک اور بالاتر ہو کر عوام کے پاس صرف ان کی خدمت اور ان کی مذہبی و اخلاقی اصلاح کے لیے جانا چاہیے۔ جو برائیاں اس وقت معاشرے میں عام ہو رہی ہیں ان کے دنیوی اور اخروی نقصانات دلسوزی اور ہمدردی کے ساتھ انہیں بتانے چاہئیں۔ جن فضول قسم کے مذہبی مناقشات میں اس وقت ہمارا دینی طبقہ الجھا ہوا ہے، علماء اور عوام دونوں کو ان کے مضر نتائج سے آگاہ کرنا چاہیے، اور یہ کام ان لوگوں کو کرنا چاہیے جو خود دینی رنگ میں گہرے طور پر رنگے ہوئے ہوں، اسلام کا نام محض ان کی زبانوں ہی پر نہ ہو بلکہ ان کے دلوں میں بھی اترا ہوا ہو، اور جو صرف لٹریچر اور پروپیگنڈے ہی کو حصول مقصود کا ذریعہ نہ بنائیں بلکہ اپنے عمل اور اپنے کردار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کر لیں۔