بھارتی پیراملٹری بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے 22 اکتوبر 1993ء کو ضلع اسلام آباد کے علاقے بجبہاڑہ میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 50 سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو اس وقت شہید کر دیا تھا جب وہ سرینگر میں درگاہ حضرت بل کے بھارتی فوج کے محاصرے کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں کل جماعتی حریت کانفرنس نے بجبہاڑہ قتل عام کے شہداء کو ان کے یوم شہادت پر شاندار خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ناقابل تنسیخ حق خودارادیت کے حصول تک جدوجہد آزادی جاری رکھنے کے کشمیریوں کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی پیراملٹری بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں نے 22 اکتوبر 1993ء کو ضلع اسلام آباد کے علاقے بجبہاڑہ میں اندھا دھند فائرنگ کر کے 50 سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو اس وقت شہید کر دیا تھا جب وہ سرینگر میں درگاہ حضرت بل کے بھارتی فوج کے محاصرے کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈوکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر سے جاری ایک بیان میں سانحہ بجبہاڑہ اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کشمیریوں کے قتل عام کے دیگر واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ علاقے میں نہتے کشمیریوں پر ظلم و تشدد کا سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک مجرموں کا احتساب نہیں کیا جاتا اور مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق حل نہیں کیا جاتا۔ عبدالرشید منہاس نے کشمیریوں پر زور دیا کہ وہ متحد ہو کر اپنے پیدائشی حق خودارادیت کے حصول کیلئے جدوجہد جاری رکھیں۔ انہوں نے بھارتی فوجیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں اور بی جے پی کی زیر قیادت مودی حکومت کی جابرانہ پالیسیوں کی بھی شدید مذمت کی۔1947ء میں جموں و کشمیر پر بھارت حملے کو نوآبادیاتی تاریخ کا ایک سیاہ باب قرار دیتے ہوئے انہوں نے کشمیریوں سے 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کی اپیل کی۔

ایڈوکیٹ منہاس نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیوگوتریس پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا نوٹس لیں اور مسئلہ کشمیر کو کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کے لیے اقدامات کریں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کے مطابق

پڑھیں:

بھارت میں بڑھتی ہوئی مزاحمتی تحریکیں، فوجی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں اضافہ کیا ظاہر کر رہا ہے؟

مقبوضہ جموں و کشمیر اور ملک کی مختلف ریاستوں میں بھارتی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس دعوے پر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ بھارت میں شورش اور مزاحمت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ بھارتی حکومت ملک میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے دعوے کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جموں و کشمیر کے زیرِ قبضہ علاقوں میں مسلح مزاحمت میں دوبارہ شدت آئی ہے، جبکہ بھارت کی کئی دیگر ریاستوں میں بھی مرکز سے زیادہ خودمختاری اور آزادی کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا مزاحمت کاروں کے خلاف 12 روزہ طویل آپریشن ناکام، 9 فوجی ہلاک

ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں اور ہندوتوا نظریے پر مبنی حکمتِ عملی نے کشیدگی کو مزید بڑھایا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے کئی حصوں میں بھی عوامی ناراضی میں اضافہ ہوا ہے۔

جموں و کشمیر میں مسلسل مسلح جھڑپیں

1990 کی دہائی سے جاری مسلح جھڑپوں میں اب تک متعدد بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، 1988 سے 2019 کے درمیان جموں و کشمیر میں 56 ہزار سے زائد واقعاتِ مزاحمت پیش آئے۔ ان جھڑپوں میں 6,400 سے زائد سیکیورٹی اہلکار اور 14,900 سے زیادہ شہری جان سے گئے، جبکہ بھارتی فورسز کے مطابق 23 ہزار سے زیادہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ فورسز اور شہریوں کے درمیان فرق واضح نہ ہونے کے باعث عام شہری بھی اکثر ان کارروائیوں کی زد میں آتے ہیں۔

شمال مشرقی ریاستوں میں بدامنی

اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، پنجاب اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں بھی مقامی سطح پر بڑھتی ہوئی مزاحمتی سرگرمیوں کی اطلاعات ہیں۔ ان علاقوں میں بھی سیکیورٹی اہلکاروں کو جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی دستے پر حریت پسندوں کا اچانک حملہ، 5 اہلکار ہلاک

رپورٹس کے مطابق، مارچ 2000 سے اپریل 2025 کے دوران جموں و کشمیر میں 12 ہزار سے زیادہ مزاحمتی واقعات پیش آئے جن میں متعدد فوجی اور عام شہری ہلاک ہوئے۔ صرف 2024 میں 29 فوجی اہلکار مارے گئے جن میں 5 افسران بھی شامل تھے۔

سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ

2025 میں بھی جموں و کشمیر، ناگالینڈ اور منی پور میں سیکیورٹی فورسز اور مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق، صرف جموں و کشمیر میں رواں سال اب تک 19 فوجی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی نکسل، ماؤ نواز اور علیحدگی پسند سرگرمیاں اس بات کی علامت ہیں کہ ملک میں داخلی سطح پر سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین چیلنجز برقرار ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈین آرمی مقبوضہ کشمیر

متعلقہ مضامین

  • حریت کانفرنس کا بجبہاڑہ قتل عام کے شہداء کو شاندار خراج عقیدت
  • بھارتی حکومت کی بے حسی کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر کی اخروٹ انڈسٹری خطرات سے دوچار
  • بھارت میں بڑھتی ہوئی مزاحمتی تحریکیں، فوجی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں اضافہ کیا ظاہر کر رہا ہے؟
  • 27 اکتوبر جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، حریت کانفرنس
  • گلگت میں دو روزہ صوبائی ہیلتھ کانفرنس جاری
  • لداخ میں بھارتی جبر میں اضافہ، اپنے حق کے لیے احتجاج کو روکنے کے لیے اقدامات میں مزید سختی
  • مسلم کانفرنس ریاست جموں و کشمیر کی سب سے قدیم اور نظریاتی جماعت ہے، سردار عتیق
  • جدہ میں پاکستان پیپلز پارٹی سعودی عرب کے زیر اہتمام سانحۂ کارساز کے شہداء کے لیے دعائیہ تقریب
  • بھارتی حکومت جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کر رہی ہے، عمر عبداللہ