بھارتی حکومت کی بے حسی کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر کی اخروٹ انڈسٹری خطرات سے دوچار
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے رضوان احمد کا کہنا ہے کہ مناسب پیکیجنگ اور پروسیسنگ انفراسٹرکچر کے فقدان کے باعث ہم ملکی اور بین الاقوامی دونوں منڈیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں اخروٹ کی صنعت جو کبھی دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوا کرتی تھی، بھارتی حکومت کی بے حسی اور متعصبانہ رویے کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر ہے۔ ذرائع کے مطابق اگست 2019ء میں علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد بی جے پی کی زیرقیادت بھارتی حکومت کی طرف سے ترقی اور خوشحالی کے بلند و بانگ دعوئوں کے باوجود یہ صنعت ناقص انفراسٹرکچر، کمزور مارکیٹ روابط اور انتظامی حمایت کے فقدان کی وجہ سے دم توڑ رہی ہے۔ بھارت میں اخروٹ کی کل پیداوار کا 95فیصد سے زیادہ حصہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں پیدا ہوتا ہے جو سالانہ 320,000میٹرک ٹن سے زیادہ ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بھارت بھر میں اخروٹ کی کاشت کے تحت 109,000ہیکٹر میں سے تقریبا 89,000ہیکٹر مقبوضہ علاقے میں ہیں۔ اس کے باوجود علاقے میں جدید پروسیسنگ، پیکیجنگ کی سہولیات اور خشک میوہ جات کی منظم منڈیوں کے فقدان کی وجہ سے یہ صنعت زوال پذیر ہے۔
حالیہ برسوں میں اخروٹ پروسیسنگ کے کئی یونٹس کی بندش نے بحران کو مزید بڑھا دیا ہے۔ پلوامہ کے ایک کاشتکار نے بتایا کہ ہم کیلیفورنیا، چین اور چلی سے درآمد شدہ اخروٹ کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔کشمیر کے ڈرائی فروٹ ایسوسی ایشن کے صدر حاجی بہادر خان نے بتایا کہ اخروٹ پر عائد 5%جی ایس ٹی نے اضافی بوجھ بڑھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم طویل عرصے سے گری دار میوے پر جی ایس ٹی ہٹانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کوئی سپلائی چین یا باقاعدہ منڈی نہ ہونے کی وجہ سے کاشتکار اپنی پیداوار کم قیمتوں پر فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔ کپواڑہ سے بشیر احمد نے کہا کہ ہمارے پاس مناسب منڈیوں یا پروسیسنگ مراکز کی کمی ہے۔ ایک مقامی تاجر نے بتایا کہ اخروٹ کی صنعت مقبوضہ جموں و کشمیر میں بالواسطہ یا بلاواسطہ 7لاکھ سے زیادہ لوگوں کو روزگارفراہم کرتی ہے۔ تاہم کٹائی کے بعد ہینڈلنگ سپلائی چین میں ایک کمزور کڑی بنی ہوئی ہے، زیادہ تر کاشتکار اخروٹ کو غیر صحت بخش حالات میں روایتی طور پر خشک کرتے ہیں اور پرانا طریقہ کار استعمال کرتے ہیں جو برآمدی قدر کو کم کرتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گریڈنگ، برانڈنگ اور کوالٹی کنٹرول کی کمی مارکیٹ کی مسابقت کو مزید محدود کرتی ہے۔
جنوبی کشمیر کے ضلع اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے رضوان احمد کا کہنا ہے کہ مناسب پیکیجنگ اور پروسیسنگ انفراسٹرکچر کے فقدان کے باعث ہم ملکی اور بین الاقوامی دونوں منڈیوں سے محروم ہو جاتے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں اخروٹ کے شعبے کے حوالے سے مودی حکومت کی بے حسی واضح ہے۔ جدید پروسیسنگ یونٹس اور مارکیٹنگ پلیٹ فارمز میں سرمایہ کاری نہ ہونے سے کشمیریوں کی معاشی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ صنعت کو جان بوجھ کر نظرانداز کرنے سے نہ صرف مقامی کاشتکاروں کا معاشی نقصان ہو رہا ہے بلکہ دوسروں پر ان کا معاشی انحصار بھی بڑھ رہا ہے جس سے علاقے کی اخروٹ کی صنعت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: میں اخروٹ کی وجہ سے اخروٹ کی کے فقدان حکومت کی
پڑھیں:
27 اکتوبر، جموں و کشمیر پر بھارت کے جابرانہ قبضے کا تاریک دن
ذرائع کے مطابق 27 اکتوبر کو تاریخ کشمیر کے سیاہ ترین باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو کئی دہائیوں سے جاری فوجی قبضے، جبر اور بنیادی حقوق سے محرومی کے آغاز کی علامت ہے۔ اسلام ٹائمز۔ کنٹرول لائن کے دونوں جانب اور دنیا بھر میں مقیم کشمیری ہر سال 27 اکتوبر کو یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں کیونکہ بھارت نے 1947ء میں اسی دن جموں و کشمیر کے لوگوں کی مرضی کے خلاف سرینگر میں اپنی فوجیں اتاری تھیں اور خطے پر جابرانہ قبضہ کیا تھا۔ ذرائع کے مطابق 27 اکتوبر کو تاریخ کشمیر کے سیاہ ترین باب کے طور پر یاد کیا جاتا ہے جو کئی دہائیوں سے جاری فوجی قبضے، جبر اور بنیادی حقوق سے محرومی کے آغاز کی علامت ہے۔ بھارت نے 1947ء میں تقسیم برصغیر کے فارمولے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے علاقے پر حملہ کیا جو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی اقدام تھا۔ بھارتی افواج کے قبضے سے کشمیری عوام کی مشکلات، پریشانیوں اور بے دخلی میں اضافہ ہوا ہے۔کشمیری ہر سال دنیا بھر میں اس دن احتجاجی مظاہروں، سیمینارز اور دیگر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں تاکہ بھارت کے خلاف مزاحمت اور جموں و کشمیر پر اس کے غیر قانونی قبضے کو مسترد کرنے کے لئے اپنے غیر متزلزل عزم کا اعادہ کر سکیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں آزادانہ اور غیرجانبدارانہ استصواب رائے کے ذریعے اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کے کشمیریوں کے حق کو بہت پہلے تسلیم کیا گیا ہے، اس کے باوجود بھارت اپنے وعدوں کی خلاف ورزی جاری رکھے ہوئے ہے۔ بی جے پی کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت کے دور میں سیاسی اختلافات کو دبانے، آبادی کا تناسب تبدیل کرنے اور شہری آزادیوں کو سلب کرنے کا سلسلہ خطرناک حد تک پہنچ گیا ہے جس میں کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق چھین لئے گئے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی طرف سے کشمیری عوام کے حق خودارادیت سے مسلسل انکار عالمی ضمیر کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔بے پناہ مشکلات کے باوجود کشمیریوں کی غیر متزلزل جدوجہد خطے میں انصاف اور امن کو یقینی بنانے کے لیے فوری بین الاقوامی مداخلت اور حمایت کا تقاضیٰ کرتی ہے۔