مقبوضہ جموں و کشمیر اور ملک کی مختلف ریاستوں میں بھارتی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس دعوے پر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ بھارت میں شورش اور مزاحمت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔

کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ بھارتی حکومت ملک میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے دعوے کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جموں و کشمیر کے زیرِ قبضہ علاقوں میں مسلح مزاحمت میں دوبارہ شدت آئی ہے، جبکہ بھارت کی کئی دیگر ریاستوں میں بھی مرکز سے زیادہ خودمختاری اور آزادی کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیے مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا مزاحمت کاروں کے خلاف 12 روزہ طویل آپریشن ناکام، 9 فوجی ہلاک

ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں اور ہندوتوا نظریے پر مبنی حکمتِ عملی نے کشیدگی کو مزید بڑھایا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے کئی حصوں میں بھی عوامی ناراضی میں اضافہ ہوا ہے۔

جموں و کشمیر میں مسلسل مسلح جھڑپیں

1990 کی دہائی سے جاری مسلح جھڑپوں میں اب تک متعدد بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، 1988 سے 2019 کے درمیان جموں و کشمیر میں 56 ہزار سے زائد واقعاتِ مزاحمت پیش آئے۔ ان جھڑپوں میں 6,400 سے زائد سیکیورٹی اہلکار اور 14,900 سے زیادہ شہری جان سے گئے، جبکہ بھارتی فورسز کے مطابق 23 ہزار سے زیادہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔

انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ فورسز اور شہریوں کے درمیان فرق واضح نہ ہونے کے باعث عام شہری بھی اکثر ان کارروائیوں کی زد میں آتے ہیں۔

شمال مشرقی ریاستوں میں بدامنی

اروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، پنجاب اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں بھی مقامی سطح پر بڑھتی ہوئی مزاحمتی سرگرمیوں کی اطلاعات ہیں۔ ان علاقوں میں بھی سیکیورٹی اہلکاروں کو جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی دستے پر حریت پسندوں کا اچانک حملہ، 5 اہلکار ہلاک

رپورٹس کے مطابق، مارچ 2000 سے اپریل 2025 کے دوران جموں و کشمیر میں 12 ہزار سے زیادہ مزاحمتی واقعات پیش آئے جن میں متعدد فوجی اور عام شہری ہلاک ہوئے۔ صرف 2024 میں 29 فوجی اہلکار مارے گئے جن میں 5 افسران بھی شامل تھے۔

سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ

2025 میں بھی جموں و کشمیر، ناگالینڈ اور منی پور میں سیکیورٹی فورسز اور مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق، صرف جموں و کشمیر میں رواں سال اب تک 19 فوجی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی نکسل، ماؤ نواز اور علیحدگی پسند سرگرمیاں اس بات کی علامت ہیں کہ ملک میں داخلی سطح پر سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین چیلنجز برقرار ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انڈین آرمی مقبوضہ کشمیر.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: انڈین ا رمی ریاستوں میں میں اضافہ کہ بھارت کے مطابق سے زیادہ میں بھی

پڑھیں:

آزاد کشمیر: مسلم لیگ ن کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ

پاکستان مسلم لیگ ن آزاد کشمیر نے حکومتی اتحاد سے علیحدگی کا اعلان کردیا۔

صدر پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر شاہ غلام قادر نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر اپنے بنیادی نصب العین کے مطابق تحریکِ آزادیٔ جموں و کشمیر، آزاد خطے کے عوام، مہاجرینِ مقیم پاکستان اور بیرونِ ملک بسنے والے کشمیریوں کی فلاح و بہبود کے لیے عبوری آئین ایکٹ 1974 کے تحت اپنا جمہوری اور سیاسی کردار پوری ذمہ داری کے ساتھ ادا کر رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر کی سیاست میں ہلچل، آنے والے دنوں میں کیا ہونے جارہا ہے؟

انہوں نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) آزاد جموں و کشمیر اور مہاجرینِ مقیم پاکستان میں اپنے نظریات، سیاسی کردار اور عوامی خدمت کی بدولت ایک مقبول اور منظم جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

’پارٹی قیادت آزاد جموں و کشمیر میں جاری آئینی و سیاسی بحران پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ اگرچہ اس بحران کی براہِ راست ذمہ دار مسلم لیگ (ن) نہیں، تاہم ہم نے ہمیشہ عوامی فلاح، جمہوریت کے استحکام اور قانون کی بالادستی کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اس کے حل کے لیے ہر سطح پر اپنا کردار ادا کیا ہے اور کرتے رہیں گے۔‘

شاہ غلام قادر نے کہاکہ پارٹی کے تمام فورمز پر متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) اب انوارالحق حکومت کا حصہ نہیں رہے گی اور آئندہ اپوزیشن کی حیثیت سے اپنا آئینی و جمہوری کردار ادا کرے گی۔

انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) کسی بھی غیر فطری حکومت سازی کی کوشش کا حصہ نہیں بنے گی، اور اگر کوئی شخص یا گروہ ایسی سوچ رکھتا ہے تو وہ جماعتی پالیسی سے انحراف کا مرتکب تصور ہوگا۔

صدر پاکستان مسلم لیگ ن نے کہاکہ اگر پاکستان پیپلز پارٹی کوئی تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو یہ اُن کا جمہوری و آئینی حق ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کسی نئی حکومت کے قیام میں شریک نہیں ہوگی۔ ہماری پارٹی اس امر پر یقین رکھتی ہے کہ آزاد جموں و کشمیر میں ایک مضبوط، مستحکم اور عوامی اعتماد پر مبنی حکومت صرف نئے عام انتخابات کے ذریعے ہی قائم ہو سکتی ہے۔

انہوں نے کہاکہ ایسی حکومت ہی عوام کے مسائل حل کر سکتی ہے، ترقی و تعمیر کے سفر کو ازسرِنو شروع کر سکتی ہے، گورننس کے نظام کو بہتر بنا سکتی ہے، پاکستان کے ساتھ نظریاتی و فکری رشتوں کو مزید مضبوط کر سکتی ہے، اور میرٹ پر مبنی فیصلوں کے ذریعے عوام کا اعتماد بحال کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: آزاد کشمیر کے سابق وزیراعظم عبدالقیوم نیازی کو گرفتار کرلیا گیا

شاہ غلام قادر نے کہاکہ پاکستان مسلم لیگ (ن) آئندہ عام انتخابات میں بھرپور سیاسی قوت کے ساتھ حصہ لے گی۔ میں آزاد جموں و کشمیر کے عوام، مہاجرینِ مقیم پاکستان اور پارٹی کے تمام کارکنان کو یقین دلاتا ہوں کہ قائد محترم میاں محمد نواز شریف کی قیادت اور میاں محمد شہباز شریف کی رہنمائی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) آئندہ انتخابات میں انشااللہ بھرپور کامیابی حاصل کر کے عوام کی امنگوں کے مطابق ایک مستحکم اور مضبوط حکومت تشکیل دے گی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اپوزیشن کرنے کا فیصلہ آزاد کشمیر حکومت سے علیحدگی شاہ غلام قادر مسلم لیگ ن وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • بھارتی حکومت کی بے حسی کے باعث مقبوضہ جموں و کشمیر کی اخروٹ انڈسٹری خطرات سے دوچار
  • 27 اکتوبر جموں و کشمیر کی تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، حریت کانفرنس
  • مسلم لیگ ن نے آزاد جموں کشمیر حکومت سے علیحدگی کا اعلان کر دیا
  • آزاد کشمیر: مسلم لیگ ن کا حکومت سے علیحدگی کا اعلان، اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کا فیصلہ
  • لداخ میں بھارتی جبر میں اضافہ، اپنے حق کے لیے احتجاج کو روکنے کے لیے اقدامات میں مزید سختی
  • مسلم کانفرنس ریاست جموں و کشمیر کی سب سے قدیم اور نظریاتی جماعت ہے، سردار عتیق
  • 27 اکتوبر، جموں و کشمیر پر بھارت کے جابرانہ قبضے کا تاریک دن
  • بھارتی حکومت جموں و کشمیر اور لداخ کے لوگوں کے ساتھ دھوکہ دہی کر رہی ہے، عمر عبداللہ
  • جموں و کشمیر کے حقوق چھیننے کی کوشش ہورہی ہے، عمر عبداللہ