بھارت میں بڑھتی ہوئی مزاحمتی تحریکیں، فوجی اہلکاروں کی ہلاکتوں میں اضافہ کیا ظاہر کر رہا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
مقبوضہ جموں و کشمیر اور ملک کی مختلف ریاستوں میں بھارتی حکومت کے خلاف مزاحمتی تحریکوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے، جس سے وزیرِ اعظم نریندر مودی کے اس دعوے پر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ بھارت میں شورش اور مزاحمت تقریباً ختم ہو چکی ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ بھارتی حکومت ملک میں عسکریت پسندی کے خاتمے کے دعوے کر رہی ہے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ جموں و کشمیر کے زیرِ قبضہ علاقوں میں مسلح مزاحمت میں دوبارہ شدت آئی ہے، جبکہ بھارت کی کئی دیگر ریاستوں میں بھی مرکز سے زیادہ خودمختاری اور آزادی کے مطالبات میں اضافہ ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیے مقبوضہ کشمیر: بھارتی فوج کا مزاحمت کاروں کے خلاف 12 روزہ طویل آپریشن ناکام، 9 فوجی ہلاک
ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی حکومت کی سخت گیر پالیسیوں اور ہندوتوا نظریے پر مبنی حکمتِ عملی نے کشیدگی کو مزید بڑھایا ہے، جس کے نتیجے میں نہ صرف کشمیر بلکہ بھارت کے کئی حصوں میں بھی عوامی ناراضی میں اضافہ ہوا ہے۔
جموں و کشمیر میں مسلسل مسلح جھڑپیں1990 کی دہائی سے جاری مسلح جھڑپوں میں اب تک متعدد بھارتی فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق، 1988 سے 2019 کے درمیان جموں و کشمیر میں 56 ہزار سے زائد واقعاتِ مزاحمت پیش آئے۔ ان جھڑپوں میں 6,400 سے زائد سیکیورٹی اہلکار اور 14,900 سے زیادہ شہری جان سے گئے، جبکہ بھارتی فورسز کے مطابق 23 ہزار سے زیادہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا کہنا ہے کہ فورسز اور شہریوں کے درمیان فرق واضح نہ ہونے کے باعث عام شہری بھی اکثر ان کارروائیوں کی زد میں آتے ہیں۔
شمال مشرقی ریاستوں میں بدامنیاروناچل پردیش، آسام، منی پور، میگھالیہ، میزورم، ناگالینڈ، پنجاب اور تریپورہ جیسی ریاستوں میں بھی مقامی سطح پر بڑھتی ہوئی مزاحمتی سرگرمیوں کی اطلاعات ہیں۔ ان علاقوں میں بھی سیکیورٹی اہلکاروں کو جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجی دستے پر حریت پسندوں کا اچانک حملہ، 5 اہلکار ہلاک
رپورٹس کے مطابق، مارچ 2000 سے اپریل 2025 کے دوران جموں و کشمیر میں 12 ہزار سے زیادہ مزاحمتی واقعات پیش آئے جن میں متعدد فوجی اور عام شہری ہلاک ہوئے۔ صرف 2024 میں 29 فوجی اہلکار مارے گئے جن میں 5 افسران بھی شامل تھے۔
سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ2025 میں بھی جموں و کشمیر، ناگالینڈ اور منی پور میں سیکیورٹی فورسز اور مسلح گروہوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔ بعض رپورٹس کے مطابق، صرف جموں و کشمیر میں رواں سال اب تک 19 فوجی اہلکار اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت میں بڑھتی ہوئی نکسل، ماؤ نواز اور علیحدگی پسند سرگرمیاں اس بات کی علامت ہیں کہ ملک میں داخلی سطح پر سیکیورٹی کے حوالے سے سنگین چیلنجز برقرار ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انڈین آرمی مقبوضہ کشمیر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انڈین ا رمی ریاستوں میں میں اضافہ کہ بھارت کے مطابق سے زیادہ میں بھی
پڑھیں:
بھارتی بارڈر فورس کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکتیں، بنگلہ دیشی طلبا کا بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کرنے کا مطالبہ
بنگلہ دیش اسٹوڈنٹ رائٹس کونسل نے جمعے کے روز ڈھاکا یونیورسٹی میں احتجاجی ریلی اور اجتماع منعقد کیا، جس میں بنگلہ دیش بھارت سرحد پر بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) کے ہاتھوں بنگلہ دیشی شہریوں کی حالیہ ہلاکتوں کی شدید مذمت کی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش نے بھارت سے جبری بیدخل کی گئی حاملہ خاتون کو بی ایس ایف کے حوالے کر دیا
راجو مجسمہ کے قریب اجتماع کے بعد طلبہ رہنماؤں نے کیمپس کی مختلف شاہراہوں پر احتجاجی مارچ کیا جو شاہ باغ پر جاکر اختتام پذیر ہوا۔ شرکا نے نعرے لگائے،’ سرحد پر لوگ مر رہے ہیں، عبوری حکومت کیا کر رہی ہے؟، دہلی یا ڈھاکا؟ ڈھاکا، ڈھاکا، بھارتی جارحیت نامنظور۔‘
اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کونسل کے صدر ناظم الحق نے بی ایس ایف کی جانب سے بنگلہ دیشی شہریوں کی ہلاکتوں کے سلسلے کو بے رحمانہ اور مسلسل ظلم قرار دیا۔ انہوں نے چپائنوباب گنج کے حالیہ واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ دو شہریوں کو حراست میں لے کر رات بھر تشدد کیا گیا اور بعد میں قتل کر کے ان کی لاشیں دریائے پدما میں پھینک دی گئیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ 29 نومبر کو چواڈانگا میں شہیدُال نامی شخص جبکہ 4 دسمبر کو پٹگرام میں سبوج نامی نوجوان کو قتل کیا گیا، محض ایک ہفتے میں 4 ہلاکتیں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش میں عام انتخابات سے قبل سیاسی تشدد میں خطرناک اضافہ
طالب علم رہنما نے دعویٰ کیا کہ 2009 سے اب تک سرحد پر 600 سے زائد بنگلہ دیشی مارے جاچکے ہیں، جن میں کئی کو تشدد کے بعد سرحدی باڑ سے لٹکا دیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلسل ہلاکتوں کے باوجود کسی حکومت نے مؤثر سفارتی اقدامات نہیں کیے، جس کے باعث سرحدی علاقوں میں خوف اور عدم تحفظ بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ بھارتی ہائی کمشنر کو 48 گھنٹے کے اندر دفتر خارجہ طلب کر کے حالیہ واقعات کی وضاحت طلب کی جائے۔ ان کا کہنا تھا، ’اگر ایسا نہ ہوا تو طلبہ برادری بھارتی ہائی کمیشن کی طرف بڑے پیمانے پر احتجاجی مارچ کا اعلان کرے گی۔‘
یہ بھی پڑھیں: شیخ حسینہ، شیخ ریحانہ اور برطانوی رکنِ پارلیمنٹ ٹولپ صدیق کو بنگلہ دیش میں کرپشن کیس میں سزائیں
جنرل سیکریٹری ثناالحق نے بھی بی ایس ایف کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے الزام لگایا کہ برسوں سے بھارتی اثر و رسوخ سرحدی ہلاکتوں اور 2009 کی بی ڈی آر بغاوت جیسے واقعات میں نظر آتا ہے، مگر 15 برسوں میں سیکڑوں اموات کے باوجود مضبوط سفارتی حکمت عملی اختیار نہیں کی گئی۔
رہنماؤں نے خبردار کیا کہ اگر سرحد پر ہلاکتوں کا سلسلہ جاری رہا تو ملک گیر طلبہ مزاحمتی تحریک شروع کی جائے گی۔ اجتماع کی نظامت جوائنٹ سیکریٹری رکیبُ الاسلام نے کی، جبکہ ڈھاکا یونیورسٹی، ڈھاکا کالج اور میٹرو پولیٹن یونٹس کے رہنما بھی شریک تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news احتجاج بنگلہ دیش بھارتی بارڈر فورس شہری شہید طلبا