کیا ہم کشمیر کو بھولتے جارہے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
غزہ پر جو قیامت ٹوٹی اور اسرائیل نے جس ظلم، تشدد اور سفاکی کا مظاہرہ کیا اس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ اسرائیل کے خلاف پوری دنیا ایک طرف تھی اور وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ عالمی برادری کا مذاق اُڑا رہا تھا۔ جنگ بندی اس وقت ممکن ہوئی جب امریکا نے چاہا ورنہ وہ جنگ جاری رکھنے کے لیے اسرائیل کو ہلا شری دے رہا تھا۔ اسے اربوں ڈالر کا اسلحہ فراہم کررہا تھا اور بار بار جنگ بندی کی قرار دادوں کو ویٹو کررہا تھا۔ غزہ میں صورت حال بڑی حد تک معمول پر آرہی ہے فلسطینی اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں، ایک دوسرے کو تسلی دے رہے ہیں اور آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو تیار کررہے ہیں لیکن دنیا میں ایک خطہ ایسا بھی ہے جہاں بھارت اسرائیل کے تعاون سے نسبتاً چھوٹے پیمانے پر ظلم ناانصافی اور سفاکی کا یہی کھیل کھیل رہا ہے لیکن دنیا کی کوئی توجہ اس طرف نہیں ہے، یہ خطہ مقبوضہ کشمیر کا ہے جسے پاکستان اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔ جسے قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ بھارت نے اس شہ رگ کو دبوچ رکھا ہے لیکن ہمارے اندر کوئی بے چینی نہیں پائی جاتی۔ بھارت نے اگست 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرتے اور اسے بھارتی یونین کا حصہ بنانے کا حصہ بنانے کا اعلان کیا تو اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ اس پر جنگ چھڑ سکتی تھی اور پاکستان بھارت کو روکنے کے لیے ہر جارحانہ قدم اٹھانے کا مجاز تھا لیکن ہمارے اس وقت کے منافق اور بزدل فوجی سربراہ جنرل باجوہ صحافیوں کو بلا کر یہ رونا رونے لگا کہ ہمارے ٹینک ناکارہ اور ہمارے طیارے فرسودہ ہیں اور ہمارے پاس لڑائی کے لیے چند روز کا بھی فیول نہیں ہے اس طرح اس بزدل جرنیل نے بھارت سے لڑے بغیر اپنی شکست تسلیم کرلی اور مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ مان لیا حالانکہ یہی فوج تھی یہی اسلحہ تھا یہی طیارے تھے جس نے بھارت کے ساتھ حالیہ جھڑپ میں اس کے چھکے چھڑا دیے تھے اور اس کے جنگی طیاروں کو ملبے کا ڈھیر بنادیا تھا۔
بتایا جاتا ہے کہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرنے کا قدم امریکا کو اعتماد میں لے کر اٹھایا تھا کیونکہ اس وقت دونوں ملکوں کی گاڑھی چھن رہی تھی اور ٹرمپ اس وقت بھی امریکا کے صدر تھے جبکہ پاکستان میں عمران خان برسراقتدار تھے۔ انہیں صدر ٹرمپ نے یہ لولی پاپ دیا کہ تم خاموش رہو میں مسئلہ کشمیر حل کرائوں گا چنانچہ عمران خان نے سختی سے احتجاج کے سوا چپ سادھ لی جب کہ اس وقت کی فوجی قیادت پہلے ہی منافقت کا مظاہرہ کررہی تھی۔ بھارت نے پاکستان کی اس خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے، کشمیری کلچر بدلنے، انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کو سلب کرنے کے لیے جارحانہ اقدامات میں تیزی پیدا کردی۔ لاکھوں بھارت شہریوں کو مقبوضہ کشمیر کا ڈومیسائل جاری کردیا، یہ لوگ مقبوضہ ریاست میں آکر دھونس اور دھاندلی کے ذریعے کشمیریوں سے ان کی جائدادیں ہتھیانے لگے۔ ان لوگوں نے بھارتی انتظامیہ کی مدد سے سرکاری ملازمتوں پر قبضہ کرلیا جبکہ بھارتی فوج نے کشمیریوں پر بغاوت کا الزام لگا کر ان کے مکانات کو بلڈوز کرنے کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ مولانا مودودی کی کتابوں پر بہت عرصہ پہلے پابندی لگادی گئی تھی لیکن کتب خانوں اور گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ ابھی تک جاری ہے اور ممنوع کتابیں برآمد ہونے پر لوگوں کو سزائیں دی جارہی ہیں۔ اب مسئلہ کشمیر پر لکھی گئی تمام اردو اور انگریزی کتابوں کو بھی خلاف قانون قرار دے دیا گیا ہے۔ جبکہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے زیر اہتمام چلنے والے ڈیڑھ سو کے قریب تدریسی ادارے بھی پابندی کی زد میں آگئے ہیں جس سے ہزاروں طلبہ و طالبات متاثر ہوئے ہیں حالانکہ ان اداروں میں وہی نصاب پڑھایا جارہا تھا جو مقبوضہ ریاست میں رائج ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی حکومت کا ایجنڈا ہر سطح پر ’’ہندوتوا‘‘ کو نافذ کرنا یعنی مقبوضہ علاقے کے اسلامی چہرے پر ہندوازم کو پینٹ کرنا ہے اس مقصد کے لیے وہ جہاں کشمیری کلچر کو تبدیل کررہی ہے وہیں وہ مذہبی مقامات پر بھی حملہ آور ہورہی ہے درگاہ حضرت بل میں لوگوں کو موئے مبارک کی زیادت سے روک رہی ہے بعض مقامات پر اذان پر پابندی لگارہی ہے، نماز جمعہ اور عیدین کی نمازوں کی ادائیگی میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہے اور کشمیریوں کے لیے بطور مسلمان زندہ رہنا دشوار بنارہی ہے۔ گھروں پر چھاپے اور نوجوانوں کو گرفتار کرنا روز کا معمول ہے۔ خودساختہ پہل گام واقعے کی آڑ میں اب تک سترہ سو نوجوانوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔
پچھلے دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے بلاشبہ مسئلہ کشمیر بھی اٹھایا اور بھارت کو مذاکرات کی دعوت بھی دی لیکن وہ مقبوضہ علاقے میں بھارت کے ظالمانہ اقدامات کی تفصیل سے بیان کرنے سے قاصر رہے۔ اس طرح عالمی برادری کے سامنے بھارت کا بھیانک چہرہ سامنے نہ آسکا۔ البتہ کشمیریوں نے اقوام متحدہ کے سامنے بھارت کے خلاف مظاہرہ کرکے اور اس کے مظالم کے خلاف نعرے لگا کر یہ کسر کسی حد تک پوری کردی۔ پاک فوج کے ترجمان نے پچھلے دنوں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ سارے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل نہیں ہونے اگر ایسا ہوتا تو جنگیں نہ ہوتیں، یقینا اس کا اطلاق سو فی صد مسئلہ کشمیر پر ہوتا ہے۔ 1948ء سے اب تک مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کے تقریباً تین سو دور ہوچکے ہیں لیکن ان میں کشمیر کے کاف پر بھی بات نہ ہوسکی اور بھارت نے نہایت عیاری سے ان مذاکرات کا رُخ دوسری طرف پھیر دیا۔ اب وہ کشمیر کو اپنے اندر ضم کرکے مذاکرات کا روادار ہی نہیں ہے لیکن ہم مسلسل مذاکرات کی رٹ لگا رہے ہیں حالانکہ مسئلہ کشمیر پر تمام مذاکرات بالکل بے سود ثابت ہوئے ہیں اور اب تو مذاکرات کا سرے سے کوئی امکان ہی نہیں ہے۔ بھارت نے طاقت کے ذریعے کشمیر پر قبضہ کیا ہے اور طاقت کے بل پر ہی اقوام متحدہ کی مسترد کرتے ہوئے اسے اپنا حصہ بنایا ہے جبکہ پاکستان سمیت عالمی رائے عامہ اسے تسلیم نہیں کرتی۔ اب اس کا واحد علاج یہی ہے کہ بھارت کو طاقت کے ذریعے کشمیر سے بے دخل کیا جائے۔ پاکستان کی فوجی تیاری کا مقصد بھی یہی تھا۔ ماضی میں کئی مواقعے ایسے آئے جب پاکستان فوجی طاقت استعمال کرکے بھارت سے کشمیر کا قبضہ واپس لے سکتا تھا لیکن ہمارے جرنیلوں نے بزدلی دکھائی اور فیصلہ کن قدم نہ اُٹھا سکے۔ اب موجودہ فوجی قیادت نے بھارت کو حالیہ جھڑپ میں خاک چٹا کر یہ ثابت کردیا ہے کہ اگر پاکستان ہمت کرے تو وہ کشمیر کو بھارت کے قبضے سے چھڑا سکتا ہے خود کشمیری عوام اس کے لیے بے چین ہیں اور پاک فوج کی راہ تک رہے ہیں۔ پاکستان میں جب بھی نیا آرمی چیف آتا ہے کشمیری اس سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں اور اس کے خیر مقدمی بینرز سے دیواریں سج جاتی ہیں۔ آرمی چیف سید عاصم منیر کے خیر مقدمی بینرز بھی سرینگر میں لگ چکے ہیں۔ اب تو خیر سے وہ فیلڈ مارشل بھی ہوگئے ہیں انہیں اپنے منصب کی لاج رکھنی چاہیے ورنہ یہی کہا جائے گا کہ ہم کشمیر کو بھولتے جارہے ہیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مسئلہ کشمیر پر بھارت نے بھارت کو کشمیر کو بھارت کے نے بھارت کے ذریعے ہیں اور نہیں ہے رہے ہیں ہے اور اور اس کے لیے
پڑھیں:
انڈیگو بحران: بھارت کمرشل ایئرلائنز کے لیے قبرستان کیوں بن رہا ہے؟
بھارت کی ایوی ایشن انڈسٹری ایک بار پھر بحران کا شکار ہے، اور انڈیگو کے حالیہ مسائل نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ 1991 کی لبرلائزیشن کے بعد آخر کیوں بھارت دنیا کا سب سے بڑا ایئرلائنز قبرستان بن گیا۔ گزشتہ تین دہائیوں میں کم از کم دو درجن نجی ایئرلائنز دیوالیہ، مقروض یا بند ہو کر تاریخ کا حصہ بن گئیں۔
بھارتی میڈیا کے مطابق، بھارت کی ایوی ایشن انڈسٹری میں ایک پرانا مذاق مشہور ہے’ اگر آپ کو چھوٹی دولت کمانی ہے تو بڑی دولت سے ایئرلائن شروع کریں۔‘ یہ جملہ بھارتی فضاؤں کی حقیقت بیان کرتا ہے، جہاں 1991 میں نجی شعبے کو اجازت ملنے کے بعد سے اب تک درجنوں ایئرلائنز ختم ہو چکی ہیں۔
ایسٹ ویسٹ ایئرلائن لبرلائزیشن کے بعد سب سے پہلی نجی ایئرلائن تھی، لیکن کم کرایوں کی جنگ، بھاری قرض اور فنڈز کے بحران نے اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ 1995 میں کیرالا سے تعلق رکھنے والے کمپنی کے مالک تقی الدین واحد قتل ہوئے ، اور 1996 تک ایئرلائن مکمل طور پر بند ہو گئی۔ ڈمانیا ایئر ویز نے پریمیم مختصر رُوٹ متعارف کرائے لیکن کم کرایوں کی وجہ سے اخراجات پورے نہیں ہو سکے اور کمپنی 1997 میں بند ہو گئی۔
موڈی لفٹ لفتھانزا کے ساتھ جوائنٹ وینچر تھا، لیکن تنازعات کے باعث 1996 میں لفتھانزا نے طیارے واپس لے لیے، اور ایئرلائن فوراً بند ہو گئی۔ ایئر سہارا چند سال بڑے پیمانے پر چلی لیکن 1997–98 کے مالی بحران نے اسے ڈگمگا دیا، جس کے بعد وہ پہلے جزوی اور پھر مکمل طور پر جیٹ ایئرویز کو بیچ دی گئی۔
1953 کے ایئر کارپوریشن ایکٹ کے تحت دہائیوں تک صرف دو سرکاری کمپنیاں—ایئر انڈیا اور انڈین ایئرلائنز—کو اجارہ داری حاصل تھی۔ 1991 میں معاشی اصلاحات کے بعد پہلی بار نجی کمپنیوں کو پروازیں چلانے کی اجازت ملی۔
ایسٹ ویسٹ، جیٹ ایئر ویز، ڈمانیا، موڈی لفٹ اور این ای پی سی جیسے نام منظرِ عام پر آئے۔ یہ کمپنیاں جدید خدمات، کم کرایوں اور بہتر وقت کی پابندی کا دعویٰ کرتی تھیں، لیکن زیادہ تر چند ہی سالوں میں ختم ہو گئیں۔
2000 کی دہائی: کم لاگت ایئرلائنز کا زمانہ
ایئر ڈکن نے 2003 میں سستے سفر کا آغاز کیا اور فضائی سفر کو عام آدمی تک پہنچایا۔ لیکن کم منافع، بلند اخراجات اور تیز مقابلے نے اسے بھی جلد ختم کر دیا۔ کنگ فشر ایئرلائن عیاشی اور بھاری اخراجات کے بوجھ تلے دبی اور 2012 میں 8 ہزار کروڑ روپے کے قرض کے ساتھ بند ہوئی۔ علاقائی ایئرلائنز, ایئر کوسٹا، پیگاسس، اڑیسہ اور دیگر ایئر لائنز بھی چند سال سے زیادہ نہ چل سکیں۔
جیٹ ایر ویز جو کبھی بھارت کی سب سے مضبوط نجی ایئرلائن سمجھی جاتی تھی، 2019 میں دیوالیہ ہو گئی۔ گوفرسٹ نے 2023 میں بینک کرپسی کا اعلان کر دیا، انجن مسائل نے اس کی بیڑہ غرق کر دیا۔
ماہرین کے مطابق بھارتی ایوی ایشن میں بنیادی ڈھانچہ ہی عدم استحکام کا شکار ہے۔ایوی ایشن ٹربائن فیول آپریشنل اخراجات کا 40 سے 45 فیصد بنتا ہے، جو دنیا بھر سے زیادہ ہے۔
ڈالر مہنگا ہونے سے لیز، مرمت اور فیول کی لاگت بڑھ جاتی ہے، کمپنیاں زیادہ تر لیز پر چلتی ہیں، اور کیش فلو رکنے پر لیز دینے والے طیارے واپس لے لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ صنعت کا مالی ڈھانچہ کمزور ہو جاتا ہے اور ایئرلائنز ایک کے بعد ایک ختم ہوتی جاتی ہیں۔
انڈیگو اس دور میں اپنی سخت نظم و ضبط، واحد طیارہ بیڑے اور کم قرض کی پالیسی کے باعث کامیاب رہا، مگر اب ایف ڈی ٹی ایل قوانین اس کے آپریشن پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔ ایئر انڈیا ٹاٹا گروپ کے تحت نئے بیڑے اور سرمایہ کاری کے ساتھ ازسرنو ابھرنے کی کوشش کر رہی ہے، مگر ابھی مکمل طور پر مستحکم نہیں۔ اسپائس جیٹ شدید مالی مسائل کے باوجود کام جاری رکھے ہوئے ہے، جبکہ اکاسا ایئر نئی امید کے طور پر ابھر رہی ہے۔
لیکن تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بھارت کی فضائیں مسلسل نئی ایئرلائنز کو جنم بھی دیتی ہیں ، نگل بھی لیتی ہیں اور جو سبق نہ سیکھے، وہ اسی قبرستان کا حصہ بن جاتا ہے۔