شمخانی ویڈیو: لباس نہیں، اخلاقی حدود کی پامالی کا سوال
اشاعت کی تاریخ: 22nd, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: کسی بھی سماج میں اگر ہم کسی حکومت یا پالیسی پر تنقید کرتے ہیں، تو اس کے لیے اخلاقی حدود کا احترام لازمی ہے۔ جنگ ہو، سیاست ہو یا میڈیا کی کشمکش، کسی کی نجی زندگی کو ہتھیار بنانا ایک خطرناک رویہ ہے۔ جو لوگ آزادیِ اظہار یا خواتین کے حقوق کے نام پر کسی عورت کی نجی تقریب کی ویڈیو عام کرتے ہیں، وہ دراصل انہی اقدار کو مجروح کر رہے ہیں جن کا وہ دفاع کرتے ہیں۔ تحریر: ایس این سبزواری
ایران میں علی شمخانی کی بیٹی کی شادی کی ویڈیو کے منظر عام پر آنے کے بعد جس انداز سے عالمی اور علاقائی میڈیا نے شور برپا کیا، اس نے دو الگ نوعیت کے سوالات کو جنم دیا ہے: ایک وہ جو ایرانی حکومت کی دوغلی پالیسیوں سے متعلق ہے، اور دوسرا وہ جو اخلاقی اصولوں اور نجی زندگی کی حرمت سے تعلق رکھتا ہے۔
نجی زندگی اور اخلاقی اصول
عوام کو ایران میں ریاستی سطح پر بعض مواقع پر تضاد نظر آتا ہے۔ عوام کے لیے سخت قوانین اور اشرافیہ کے لیے نرمی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کسی کی نجی تقریب، خاص طور پر صرف خواتین کے لیے مخصوص اجتماع، کو سیاسی یا میڈیا ہتھیار بنانا کسی مہذب معاشرے میں قابلِ قبول نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ویڈیو ایک خواتین کی نجی تقریب جس میں صرف اور صرف خواتین تھیں کوئی نامحرم موجود نہیں تھا لیک ہوئی ہے، تو یہاں اصل جرم لباس نہیں بلکہ نجی محفل کی خلافِ اجازت فلم بندی اور لیک کرنا ہے۔ دنیا کے ہر مذہبی معاشرے میں، خواہ خواہ کسی مذہب یا فرقے یا کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، خواتین اپنے دائرے میں آزادانہ لباس پہنتی ہیں، کیونکہ وہاں غیر محرم مرد موجود نہیں ہوتے۔ لہٰذا کسی ایسی محفل کی ویڈیو کو عوامی بنا کر ’’دوغلی پالیسی‘‘ کا ثبوت کہنا انصاف نہیں بلکہ اخلاقی انحطاط ہے۔
ثقافتی حقیقت کو سمجھنا
ایرانی خواتین، حتیٰ کہ سخت مذہبی گھرانوں میں بھی، نجی شادیوں یا گھریلو تقریبات میں مغربی طرز کے لباس پہنتی ہیں۔ یہ کوئی نیا رجحان نہیں بلکہ ایرانی شہری ثقافت کا تسلسل ہے جو مذہبی حدود کے ساتھ ساتھ گھریلو نجی دائرے میں وجود رکھتا ہے۔ ایسے ماحول میں لباس کو تنقید کا ہدف بنانا، صرف اس لیے کہ ویڈیو لیک ہوئی ہے، دراصل ایرانی معاشرت کی اصل تقسیم ، یعنی عوامی اور نجی زندگی کے فرق کو نظر انداز کرنا ہے۔
سیاسی مفاد اور پروپیگنڈا
اس واقعے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یہ ویڈیو تقریباً ایک سال پرانی (اپریل 2024ء) ہے، مگر اب منظر عام پر آئی ہے۔ یہ وقت اور انتخاب بذاتِ خود اشارہ کرتا ہے کہ ویڈیو کے افشاء کے پیچھے سیاسی مقصد ہے، ممکنہ طور پر داخلی اختلافات یا بیرونی پروپیگنڈا۔ یہ وہی پرانی حکمتِ عملی ہے جس میں کسی ملک کے سماجی تضادات کو سیاسی ہتھیار بنا کر اس کے اندر خلفشار بڑھایا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ ایران میں تنقید کے کئی پہلو ہیں، مگر تنقید اگر کسی کی نجی محفل یا خاندان کی خواتین کی پرائیویسی کے استحصال سے ہو، تو وہ تنقید نہیں بلکہ انتقام بن جاتی ہے۔
اخلاقی توازن کی ضرورت
اصولاً، کسی بھی سماج میں اگر ہم کسی حکومت یا پالیسی پر تنقید کرتے ہیں، تو اس کے لیے اخلاقی حدود کا احترام لازمی ہے۔ جنگ ہو، سیاست ہو یا میڈیا کی کشمکش، کسی کی نجی زندگی کو ہتھیار بنانا ایک خطرناک رویہ ہے۔ جو لوگ آزادیِ اظہار یا خواتین کے حقوق کے نام پر کسی عورت کی نجی تقریب کی ویڈیو عام کرتے ہیں، وہ دراصل انہی اقدار کو مجروح کر رہے ہیں جن کا وہ دفاع کرتے ہیں۔ ایران کی پالیسیوں پر تنقید کی جا سکتی ہے، لیکن کسی کی بیٹی کی نجی شادی، وہ بھی خواتین کی مخصوص تقریب، کو سیاسی طنز یا پروپیگنڈا بنانا غیر اخلاقی اور غیر پیشہ ورانہ عمل ہے۔ یہ معاملہ ’’دوغلی پالیسی‘‘ سے زیادہ ’’اخلاقی دوغلے پن‘‘ کی نشاندہی کرتا ہے اور یہی بات سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کی نجی تقریب کسی کی نجی نجی زندگی نہیں بلکہ کرتے ہیں کی ویڈیو کے لیے
پڑھیں:
کراچی میں سیلاب زدگان کی مدد کیلئے فنڈریزنگ پروگرام، سوشل میڈیاصارفین کی شدید تنقید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری) سیلاب زدگان کی مدد کے لیے کراچی میں فنڈریزنگ کےلئے مقامی این جی اودستک فاؤنڈیشن کی جانب سے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک آگاہیمیلے کا انعقاد کیا جارہا ہے، یہ آگاہی میلہ25اکتوبر2025بروز ہفتہ شام 4تا رات10بجے تک کتاب گھر بنگلہ نمبر236-Bشاہراہ قائدین پی ای سی ایچ ایس بلاک2کراچی میں منعقد ہوگا۔
دستک فاؤنڈیشن کے آگاہی میلے میں شرکت کے لیے داخلہ فیس 300سو روپے رکھی گئی ہے جبکہ میلے میں رجسٹریشن کے لیے ایک کیو آر کوڈ بھی ڈیا گیا ہے جیسے اسکین کرکے رجسٹریشن کی جاسکے گی،این جی او دستک فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ میلے کے انعقاد کا مقصد سیلاب سے متاثرہ افراد کے لیے امدادی فنڈ جمع کرنا ہے اور جمع ہونے والے تمام امداد سیلاب سے متاثرہ کمیونٹیز کی مدد میں استعما ل کی جائے گی۔سوشل میڈیا صارفین نے میلے کو ایک بیہودہ میلہ قرار دیتے ہوئے اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
ایک سوشل میڈیا صارف امجد داؤد نے اپنے فیس بک پیج پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جو حکومت فلسطین کے پرچم اتروا دیتی ہیں ان کو یہ کیوں نہیں نظر آرہا ہے ؟ اس طرح کے بیہودہ میلے تو مغرب میں بھی نہیں ہوتے ہیں اور ایک نام نہاد این جی او ،دستک فاؤنڈیشن یہ میلہ 25اکتوبرکو کراچی میں منعقد کررہی ہے، اتنی شرم و حیا پاکستانیوں میں ابھی پائی جاتی ہے ا س طرح کے موضوع پر صرف عورتیں آپس میں ڈسکس کرتی ہیں اور اگر کوئی مسئلہ ہو تو ڈاکٹر کے پاس جاتیں ہیں۔ یہ اپنی دکان چمکانے کے لیے اس طرح کی این جی اوز کا کام ہے کہ ہربات کو منظر عام پر لاو اور اس بیماری میں سب کو مبتلا کرو۔کیا اس طرح کے میلے کرواکر اور خواتین کے مسائل کو زیر ے بے حس لائیںگے تو کیا پاکستان کی تمام خواتین شفا یاب ہوجائینگی ؟ یا انکی بیماریاں ختم ہوجائیں گی؟۔
امجد صدیقی نامی صارف کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں کچھ اقدار ہے جس پر ہمارا معاشرہ کھڑا ہے۔ جن میں پرائیوسی سب سے اہم ہے ،ایک اور سوشل میڈیا صارف سید عامر سعید شاہ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے کہ پاکستان میں حقوق نسواں کی تنظیموں کے جو باقائدہ منظم انداز میں کام کررہی ہیں ان کے پاس تین چار عنوانات سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ہے جس میں شوہر کا پیسہ بھی ہمارا اور ہمارا پیسہ بھی ہمارا، اپنی مرضی کے کپڑے، ہر مردوں والا کام میں بھی کروں گی، میلے کا عنوان بخدا اس کے آگے ان دو ٹکے کی تنظیموں کے پاس مزید کچھ بھی نہیںہے۔ اسلامی ملک میں یہ خرافات اور فحاش میلوں کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔
سوشل میڈیا صارف سراج صدیقی اپنی پوسٹ میں درخواست کرتے ہوئے لکھا ہے کہ میری سندھ حکومت کے صوبائی وزیر داخلہ اور دیگر متعلقہ اداروں سے درخواست ہے اس میلے کے خلاف بھرپور ایکشن لیا جائے تاکہ یہ این جی اوز ہماری اگلی نسلوں کو برباد نہ کر پائیں، یہ خواتین میں آگاہی کے نام پر ملک کی ایسی کی تیسی کردیں گی یہ تنظیمیںکل کو کہیں گی کہ ہمبستری بھی ایک قدرتی عمل ہے تو چلو ایک ہمبستری میلہ منعقد کرتے ہیں۔ ہوش کے ناخن لو۔جب تک ہم ہیں پاکستان پر کوئی نظریاتی آنچ نہیں آنے دیں گے۔
اس حوالے سے ڈاکٹرز، سول سوسائٹی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے کہا گیا ہے کہ اس قسم کے میلہ” جیسے تصورات دراصل مغربی معاشرتی نظریات کی نقالی ہیں جنہیں اب ہمارے معاشرے پر تھوپنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے، جہاں معاشرتی اقدار، مذہبی روایات اور اخلاقی حدود ہماری قرآن و سنت کی تعلیمات سے جڑی ہوئی ہیں۔ہمارا آئین بھی واضح طور پر اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ کوئی ایسا عمل یا مہم نہیں چلائی جا سکتی جو اسلامی تعلیمات یا عوامی اخلاقیات کے منافی ہو۔ یہ ایک قدرتی حیاتیاتی عمل ہے، جس پر شرم یا نفرت نہیں، مگر اسے میلے، تقاریب یا عوامی نمائش کا حصہ بنانا معاشرتی شائستگی کے دائرے سے باہر ہے۔یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ آگاہی اور بے حیائی دو الگ چیزیں ہیں ،آگاہی تعلیمی اداروں، خواتین کے مراکز یا صحت کے فورمز پر دی جا سکتی ہے،مگر اسے “میلے” کی شکل دینا ہمارے خاندانی نظام اور ثقافتی اقدار کے خلاف جاتا ہے۔پاکستانی خواتین کو عزت، احترام اور سہولت دینے کے لیے مہمات ضرور چلنی چاہییں،مگر ان مہمات کا انداز اسلامی اقدار کے مطابق ہونا چاہیے،نہ کہ وہ مغربی ’’فریڈم” کے نام پر ہماری نسلوں کے اخلاقی توازن کو بگاڑیں۔