وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں پائیدار ترقی اور مؤثر حکمرانی کے لیے ضروری ہے کہ عوام کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کیا جائے اورادارہ جاتی احتساب کو ترقیاتی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے۔
اسلام آباد میںآواز II پروگرام کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شفافیت، شراکت داری اور سماجی انصاف پاکستان کی ترقی کے بنیادی ستون ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی قوم عوام کی آواز شامل کیے بغیر ترقی نہیں کر سکتی۔
احسن اقبال نےاُڑان پاکستان فریم ورک کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ یہ وژن تعلیم، برآمدات، ماحولیات، توانائی اور مساوات پر مبنی ہے، جس کا مقصدپاکستان کو جدید، پائیدار معیشت میں تبدیل کرنا ہے۔
انہوں نے نوجوانوں کو ترقی کے عمل میں شامل کرنے کی حکومتی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ: 60 ہزار سے زائدادائیگی شدہ انٹرن شپس دی جا رہی ہیں، جن میں 10 ہزار بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے ہیں۔ینگ ڈیولپمنٹ فیلو پروگرام کے ذریعے مستقبل کے پالیسی ماہرین تیار کیے جا رہے ہیں۔ 131 تعلیمی اداروں میں ینگ پیس اینڈ ڈویلپمنٹ کور قائم کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ “آواز II پروگرام” نے کمزور طبقات کو آواز دی اور پالیسی سازی کا حصہ بنایا، جوشراکتی حکمرانی کی بہترین مثال ہے۔ آخر میں انہوں نے زور دیا کہ اگرعوامی آواز کو پالیسیوں کا حصہ بنایا جائے تو پاکستان ایک شفاف، مضبوط اور منصفانہ معاشرہ بن سکتا ہے۔

 

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

جرمنی میں طلبہ کا نئے فوجی قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

برلن: جرمنی کے مختلف شہروں میں ہزاروں طلبہ نے کلاسز چھوڑ کر نئے فوجی خدمت کے قانون کے خلاف احتجاج کیا،  اس قانون کے تحت 18 سال کے مردوں کو لازمی میڈیکل چیک اپ اور سوالنامہ مکمل کرنا ہوگا۔

غیر ملکی میڈیا رپورٹس کےمطابق احتجاجی مہم School Strike Against Military Service  کے تحت ہیمبرگ، بوخم، بیلیفلڈ، مینسٹر، کولون، ڈسلسڈورف اور اسٹٹ گارٹ سمیت 90 سے زیادہ شہروں میں مظاہرے کیے گئے،  برلن میں 3,000 سے زائد طلبہ ہالیشیس ٹور میٹرو اسٹیشن کے قریب جمع ہوئے اور اورانیئن پلازہ تک مارچ کیا،  مظاہرین نے بینرز اٹھائے جن پر نعرے لکھے تھے، لازمی فوجی خدمت نہیں، طلبہ جنگ اور اسلحے کے خلاف، ہمارا مستقبل ہمارا حق اور ہم خود فیصلہ کرتے ہیں ۔

ایک چھوٹا گروپ پارلیمنٹ کے باہر بھی مظاہرہ کر رہا تھا، جبکہ اندر قانون ساز بل پر بحث کر رہے تھے۔

بلڈسٹاگ نے بل کو 323 کے مقابلے میں 272 ووٹ سے منظور کر لیا اور اب یہ بل بُنڈسراٹ (جرمنی کی اپر ہاؤس) کی منظوری کے لیے بھیجا جائے گا،  اگر منظور ہو گیا تو یہ یکم جنوری 2026 سے نافذ ہوگا۔

نئے قانون کا مقصد جرمن فوج بُنڈسویئر میں عملے کی کمی کو پورا کرنا ہے۔ موجودہ فوج میں تقریباً 1,84,000 فعال فوجی ہیں جبکہ وزارت دفاع چاہتی ہے کہ 2035 تک تعداد 2,70,000 تک بڑھائی جائے، جس کے لیے ہر سال تقریباً 20,000 نئے فوجی شامل کرنا ضروری ہیں۔

نظام کے تحت یکم جنوری 2008 یا اس کے بعد پیدا ہونے والے تمام مردوں کو سوالنامہ مکمل کرنا اور لازمی میڈیکل معائنہ کروانا ہوگا  جبکہ خواتین کے لیے حصہ لینا اختیاری ہے۔

فوج میں شامل ہونا ابھی بھی رضاکارانہ ہوگا، لیکن اگر مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوئی تو پارلیمنٹ مستقبل میں لازمی فوجی خدمت یا طلب پر مبنی خدمت نافذ کرنے کا فیصلہ کر سکتی ہے، جرمنی نے 2011 میں لازمی فوجی خدمت ختم کر کے مکمل رضاکارانہ فوجی نظام اپنا لیا تھا۔

ویب ڈیسک وہاج فاروقی

متعلقہ مضامین

  • گوجرانوالہ کی ترقی مسلم لیگ ن کی عوامی خدمت اور محنت کا نتیجہ ہے: خرم دستگیر
  • مریم نواز کا وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو انتباہ: جیل کے باہر بیٹھنے کے بجائے عوامی خدمت پر توجہ دیں
  • آئی پیکس کا انعقاد پاکستان کیلئے بہت اہم ہے،احسن اقبال
  • پاکستان معاشی بحران سے نکل رہا ہے: احسن اقبال
  • ڈی جی آئی ایس پی آر نے نرمی برتی ہے، میں ہوتا تو اس سے بھی سخت الفاظ استعمال کرتا: احسن اقبال
  • ڈی پی ورلڈ آئی ایل ٹی 20 سیزن 4 میں سات افریقی بولرز کی شمولیت
  • صوبائی حکومتیں وسائل پر قابض‘ ادارہ جاتی کھیل بحال کیے جائیں:حافظ نعیم 
  • جرمنی میں طلبہ کا نئے فوجی قانون کے خلاف ملک گیر احتجاج
  • سوئی: علیحدگی پسند رہنما نور علی چاکرانی ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل
  • بی پی ایل میں شامل قومی کرکٹرز لیگ مکمل نہیں کھیل سکیں گے